معاشرت کا مفہوم
معاشرت کے معنیٰ ہیں رہن سہن ، طرز معاشرت کا مطلب ہے معاشرے میں رہنے سہنےکے ڈھنگ، سماج کے دوسرے افراد کے ساتھ ربط وارتباط کے طریقے اور شب و روز کے مسائل حل کر نے کے اصول و ضوابط ۔ معاشرہ کی تعریف درج ذیل الفا ظ میں کی گئی ہے:
’’ یہ انسانی روابط کا ایک کلّی مرکب ہے ، اس بِنا پر کہ یہ روابط انسانی عمل سے پیدا ہوتے ہیں ، اور ذرائع و مقاصد کے ما بین رشتوں کے توسط قائم رہے ہیں‘‘۔۱؎
معاشرتی نظام اصولا دو حصوں میں منقسم ہے، ایک اہل و عیال سے متعلق جسے ’’عائلی نظام ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور دوسرا ان تمام افراد سے متعلق جن سے معاشرتی رہن سہن میںکسی نوعیت کا سابقہ پیش آتا ہو خواہ یہ سابقہ وقتی و عارضی ہو یا دائمی و مستقل۔ انسان ایک معاشرتی وجود ہے ،وہ پیدائش سے لے کر موت تک اپنے معاشرے سے متعلق ہوتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھ کھولتا ہے۔ اپنی پرورش و پرداخت کے لئے وہ دوسرے لوگوں پر منحصر ہوتا ہے۔پھر ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی ، ایک برادری، ایک نظام تمدن اور نظام معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ اپنی تمام تر ضروریات زندگی کے لئے (جن میں خوراک، لباس، مکان، پڑھائی، نوکری، کاروبار اور زندگی کی دیگر ضروریا ت شامل ہیں) وہ سماج کا سہارا لیتا ہے۔اگر اس سے وہ تمام علائق حذف کر دئے جائیں جو معاشرے کی بدولت اس کو حاصل ہوتے ہیں تو اس کے پاس کچھ باقی نہیں رہتا اور اس کی انسانی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ انسان کے اعمال، افکار، اور عادات کو معاشرتی زندگی کے سیاق بغیر سمجھا نہیں جاسکتاہے۔ ابن خلدون اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ٖٓ’’افراد انسانی کا اکٹھے مل جل کر رہناایک نا گزیر امر ہے۔ یہ ایک اہم حقیقت ہے جسے اہل علم اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر مدنیت پسند واقع ہوا ہے‘‘۔۲؎
معاشرہ کی ضرورت و افادیت
اصول عمرانیات کی رو سے ہر زمانے میں اور ہر مقام پرآباد بنی نوع انسانی کی احتیاجات کی چند ممکن صورتیںرہی ہیں ۔ ایک قسم میں وہ ضرورتیں ہیں جنھیں انسان خود پورا کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں دوسرے افراد کا محتاج نہیں ہوتا مثلا اُس کاسونا ، جاگنا۔دوسری قسم ان احتیاجات کی ہے جن کی تکمیل کے لئے وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے گرچہ وہ احتیاجات اصلاً اُس کی اپنی زندگی سے متعلق ہوتی ہیںمثلا غذا حاصل کرنا ، میلان جنسی کی تکمیل وغیرہ۔ یہ دونوں قسمیں حیاتیاتی احتیاجات کہلاتی ہیں ۔ احتیاجات کی بناء پر انسان معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ہر معاشرے کی معاشرتی تعمیر میں دو قسم کی جما عتوں کا ظہور ہوتا ہے:
۱۔ بنیادی معاشرتی جماعت
۲۔ ثانوی معاشرتی جماعت
بنیادی اور ابتدائی تنظیم میں سب سے پہلے افراد کے رجحانات، عادات و اخلاق تشکیل پاتے ہیں۔ اس میں اشتراک عمل کی روح موجود ہوتی ہے جو خلوص پر مبنی ہوتی ہے اور دائمی قربت کی بناء پر پائیدار بھی ہوتی ہے۔ اِس نوع کی اہم ترین بنیادی جماعت گھر یا خاندان ہے۔ثانوی جماعت معاشرے کے ربط و تعلقات کو قائم کر نے ا ورمعاشرتی ضروریات و مقتضیات کو پورا کرنے کے لئے وجود میں آتی ہے۔یہ وہ ادارے ہوتے ہیں جن کی بنیاد کسی متعین تخیل پر ہوتی ہے ۔ اُس کا طریق کار ایک خاص ضابطہ پر مبنی ہوتا ہے ۔بنیادی تخیل کے احترام کی بنا پر معاشرہ میں وہ ادارہ موجود رہتا ہے اور اپنا رول انجام دیتا ہے۔
اِنسانی فرد کو معاشرے کی ضرورت چند وجوہات کی بنا پر پیش آتی ہے :۔
۱۔ انسان کا سماجی مزاج: نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ساتھ رہنے اور باہمی امداد کا رجحان دوسرے جانداروں کے بہ نسبت انسان میں زیادہ ہوتا ہے۔انسان اکیلے رہنا پسند نہیں کرتا اور نہ اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ معاشرے میں اکیلا رہے۔شخصیت کی نشوونما، ذہنی شعور، اوراخلاقی ترقی کے امکانات سماج کے ہی ذریعے بروئے کار آتے ہیں۔سماجی عمل اور ردّ عمل سے انسان کے فطری رجحانات کا ارتقاء ہوتا ہے ۔ سماج کے باہر انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی لئے انسان کو سماجی جاندار Social Bing کہا گیا ہے۔
۲۔ ضروریات کی تکمیل: انسان اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے معاشرے پر منحصر ہوتا ہے۔اس کی پیدائش ایک خاندان میں ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت، معاشی ضروریات کی تکمیل اور شادی بیاہ کے مراحل سماج کے مختلف افراد کے تعاون سے طے ہوتے ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی مادّی اور غیر مادّی ضروریات اسے سماج میں رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔
۳۔ انسان کی حفاظت: معاشرہ اپنے افراد کی حفاظت کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ اس میں سب سے پہلے خاندان ہے جو اپنے افراد کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ قانون و نظام عدالت بھی انسانوں کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
۴۔ تہذیب و ثقافت کی ترقی: انسانی تہذیب کی ترقی کے لئے بھی معاشرہ ضروری ہے۔ باہمی تعاون سے ہی علم کا حصول ممکن ہے اور علم کا تحفظ بھی سماج کی بدولت ہی ممکن ہے معاشرہ ہی مسلم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔
۵۔ معاشی ترقی: انسان کی معاشیاتی ترقی میں معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ایک انسان اپنی ضروریات کی تمام چیزیں بنانے کی کوشش کرے تو وہ ناکام رہے گا۔ باہمی عمل، تعاون، باہمی سعی کے ذریعے ہی بڑے پیمانے پر پیداوار ممکن ہے۔ اور اشتراکِ عمل تب ہی ممکن ہے جب سماج موجود ہو۔
۶۔ نسل انسانی کا تسلسل: نسل انسانی کی بقا کے لئے بھی سماج ضروری ہے۔ شادی کے طریقے اور خاندان کی تنظیم کے ذریعے انسان اپنی نسل کو آگے بڑھانے کا کام انجام دیتا ہے۔
۷۔ شخصیت کی نشوونما: انسان کی شخصیت کی نشوونما کے لئے بھی سماج ضروری ہے۔ ہر انسان کے اندر کچھ صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کی توسیع اور ترقی کے لئے مناسب ماحول معاشرہ ہی فراہم کرتا ہے۔ ہماری ذہنی ، اور جسمانی صلاحیتوں میں ترقی معاشرے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرے میں رہنا انسان کے لئے ضروری اور فطری ہے۔ معاشرہ اور انسان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
غیر اسلامی طرز معاشرت
کسی بھی معاشرے کے لئے قانون ضروری ہے ۔کوئی بھی معاشرہ قانون اور ضابطوں سے خالی نہیں ہو سکتا جہاں تک ایک غیر اسلامی معاشرہ کا تعلق ہے اُس کی کوئی مستقل اور پائیدار بنیاد نہیں ہوتی ۔ اس کے اصول و ضوابط وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کیو نکہ اس معاشرت کے قوانین خود انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جو بہت سی کوتاہیوں اور کمیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ عموماً ایسے معاشرے کی سرگرمیوں کا مرکز محض دنیاوی مفاد ہوتا ہے۔ فرد کے قلب و ضمیر کی اصلاح و تربیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے عموماً کوئی کوشش نہیں ہوتی ۔ غیر اسلامی معاشرت میں مادیت اور نفس پرستی کاغلبہ ہوتا ہے زندگی کی فوری ضروریات کی تکمیل کے علاوہ اعلیٰ مقاصد کی جانب سوچ نہیں جاتی۔ عدل و انصاف ، آزادی اورمساوات جیسے معیارات تو ہوتے ہیں لیکن عملاً ان کا حصول شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ عموماً انصاف اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ آج کے دور میںاقلیتوں کے حقوق پردست درازی ہوتی ہے۔ رنگ، نسل اور قومیت کی بناء پر ناروا امتیاز اور نا انصافی اس معاشرت کا خاصہ ہے۔
غیر اسلامی معاشرت کی ایک نمایاں خامی یہ ہے کہ جرم و سزا کے قوانین زیادتی پر مبنی ہوتے ہیں۔ عدل و انصاف میں اپنے اور پرائے کے درمیان تفریق برتی جاتی ہے۔ عدالتوں میں سالہا سال تک مقدمے چلتے رہتے ہیں اور بسا اوقات مجرموں کو کچھ معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ با رسوخ لوگو ں کے ساتھ رعایت برتی جاتی ہے۔ کمزور طبقے کے افراد پر زیادتیاں ہوتی ہیں ، بے گناہوں کو تعذیب کا شکار بنایا جاتا ہے عدالتی کاروائی میں تاخیر کی وجہ سے اکثر وہ اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال جیل کی تاریکیوں میں گزار دیتے ہیں۔
غیر اسلامی معاشرت کا اہم مظہر بے حیائی و بے پردگی ہے، یہ خرابی تیزی سے آج سماج کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔مذہب سے دوری کی بِنا پر اور خوف خدا نہ ہونے کی وجہ سے مردوں عورتوں کے بیجا اور غیر مناسب اختلاط کو مساوات کا نام دے دیا گیا ہے۔ نکاح کی اہمیت کم ہوگئی ہے اور زنا کو فروغ ملا ہے۔ اس سے خاندانی نظام کی بنیاد ہل گئی ہے اوراس کی افادیت مجروح ہو گئی ہے ۔
غیر اسلامی معاشرت میں عورت کے کردار اور حقوق کے سلسلے میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے ۔ یا تو قید و بند میں رکھا گیایا مساوات کے نام پر عورت کو بازاروں اور عریاں محفلوں کا حصہ بنا دیا ۔اس کی صلاحیتوں،خوبیوںاور گھریلو ذمہ داریوں کو کمتر سمجھا گیا۔مال و زر کی ہوس غیر اسلامی معاشرت کا خاصّہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے حلال و حرام کی تمیز کم ہو جاتی ہے۔
جماعت کا وجود بالآخر افراد جماعت پر موقوف ہے۔ افراد میں ہر فرد کا نفع و نقصان جماعت کے مستقبل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن بے خدا معاشرت میں خود غرض فرد صرف اپنے نفع و نقصان کو مد نظر رکھتا ہے۔ جماعت کی فلا ح کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اس رویے کے محرک افراط و تفریط پر مبنی نظریات ہوتے ہیں ۔خدا کی وحدانیت، آخرت اور جزاء سزاء کے تصورات سے بے گانگی کی وجہ سے خلوص، عفو و درگزر، انسانیت، سچائی،ایمانداری اورعدل جیسے اوصاف خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
اسلام کا نظام معاشرت
اسلام ایک پائیدار اور مستحکم طرز معاشرت رکھتا ہے جس کے اصول و ضوابط مستقل اورواضح ہیں، اسلام کا پورا نظام عدل و انصاف پر قائم ہے، اس کے اجزاء باہم مربوط و ہم آہنگ ہیں۔یہ جامع اور ہمہ گیر نظام ہے کہ زندگی کی تمام سر گرمیاں اس کے دائرے میں آجاتی ہیں۔ یہ انسان کے قلب و ضمیرکی تربیت کرتا اور اس کے معاملات زندگی میںرہنمائی کرتا ہے اس کی ہدایات و قانون سازی دین و دنیا پر حاوی ہے۔اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہوتا ہے جو توحید، اسلامی عقائد اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کا پورا نظام زندگی اسلامی عقائد و نظریات کے تابع ہوتا ہے۔ معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ اس لئے اسلام جہاں جماعتی اور معاشرتی اصلاح کرتا ہے وہیں فرد کی اصلاح کو نقطۂ آغاز قرار دیتا ہے ۔فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور اس کی اصلاح پر معاشرے کا سدھارمبنی ہے۔ اسلام کی نظر میں فرد اور معاشرہ دونوں کی تر بیت اہمیت رکھتی ہے۔
انفرادی تربیت
معاشرہ ایک انسانی ’’عمارت ‘‘ہے جس کی اینٹیں افراد ہیں ۔اِن کے معاشرتی تعلقات سے سماج کے زندہ عناصر تشکیل پاتے ہیں۔اسی لئے اسلام ہر فرد کی جداگانہ شخصیت کا قائل ہے۔ وہ انسان کو محض نظام اجتماعی کا ایک بے جان اور معطّل پرزہ نہیں سمجھتا ۔ فرد کے اندر اسلام یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ خدا کے سامنے وہ خود اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’جس کسی نے نیک کام کیا تو اپنے لئے کیا اور جس کسی نے برائی کی تو خود اس کے آگے آئے گی‘‘ (حم سجدہ:۲۶)
اسلام ہر فرد میں جذبہ سعی و جدوجہد بیدار کرتا ہے تاکہ ہر فرد خود کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانے کی کوشش کرے۔قرآن کہتا ہے:
’’انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرے‘‘۔(النجم۳۹)
اخلاقی تربیت :
جذبہ عمل کو بیدار کرکے اسلام فردکی اخلاقی تربیت پر توجہ دیتا ہےفرد میں یہ احساس بھی پیدا کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھے اور زندگی کے تمام معاملات میں خدائی احکامات پر عمل کرے۔وہ اچھے اعمال کرے کیونکہ اعمال صالحہ کے بغیر ایمان اس بیج کی طرح ہے جو بارآور نہ ہو سکا ہو۔
قرآن فرد کی تربیت اس طرح کرتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی اور شہوانی خواہشات پر لگام رکھے ، اس کے سامنے مقصد زندگی خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ـ’’اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔یہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لئے دی ہے اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ ترہے‘‘۔( طٰہ:۱۳۱)
اسلام کی نظر میں فرد اپنی ذاتی زندگی کی اصلاح کا ذمہ دار ہے۔ وہ اس بات کا مکلف ہے کہ اپنے نفس کو شہوات سے روکے ، اس کا تزکیہ کرے، اسے خیر و صلاح اور نجات کے راستے پر چلائے اور اسے ہلاکت میں نہ ڈالے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی ۔اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیاتھا اور اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا جنت اس کا ٹھکانہ ہوگی‘‘۔ (الشمس: ۷۔۱۰)
ساتھ ہی حدود کا پابند رہتے ہوئے دنیاوی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے بنی آدم ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ ( الاعراف: ۳۱)
اجتماعی تربیت:
تعمیر معاشرے کی پہلی بنیاد فرد کی تربیت ہے اس کی حیثیت معاشرے میں ایک اچھی اینٹ کی ہے۔ دوسری بنیاد فرد اور جماعت کے مابین باہم الفت و محبت ، تعلق ہےتاکہ دونوں پر کچھ ذمہ داریاں عائدہوں اور کچھ اس نسبت سے حقوق ملیں۔ہر فرد اس بات کا مکلف ہے کہ اپنا مخصوص عمل اچھی طرح انجام دے۔ وہ جماعت کے مفادات کا اس طرح خیال رکھے گویا وہ اس کا نگراں ہے۔کوئی بھی شخص مفادات عامّہ کی رعایت سے آزاد نہیں ہے۔
نیکی اور معروف کے دائرے میں تمام افراد کے درمیان تعاون جماعت کے مفاد میں واجب ہے:
’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘۔ (المائدہ:۲۱)
ہر فرد امر بالمعروف کا بذات خود ذمہ دار ہے ۔ اگر وہ اسے انجام نہ دے گا تو گنہ گار ہوگا:
’’(حکم ہوگا )پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔ پھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا‘‘۔ (الحاقۃ:۳۰۔۳۶)
اس طرح ہر فرد ماحول و معاشرے میں ہونے والے ہر منکر کے سلسلے میں ذمہ دار قرار پاتاہے خواہ وہ ذاتی طور پر اس میں شریک نہ ہو۔ اخلاقیات اور کردار کا اجتماعی ضابطہ پوری جماعت کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ علیٰ الاعلان گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ان کو عبرتناک سزا ملنی چاہئے ۔ جس کے لئے اسلام میں سزا دینے کا قانون موجود ہے۔لیکن سزا سے پہلے اسلام اخلاقی تربیت کرتا ہے اور صالح معاشرت کو پروان چڑھاتا ہے جہاں ایسے گناہوں کے پنپنے کے لئے ماحول ہی نہ مل سکے۔
اسلامی نظام معاشرت کی بنیادیں
۱۔ مساوات و اخوت: اسلامی معاشرے کی بنیاد یہ ہے کہ سب انسان ایک نسل سے ہیں ۔ پوری انسانیت آدم کی اولاد ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اورعورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔ ( سورہ النساء :۱)
۲۔ مرد و عورت کے حقوق و ذمہ داریاں: عورت و مرد معاشرت کے دو ستون ہیں ۔ دونوں کی اپنی اپنی شخصیت ہے اور دونوں سماج کے معمار ہیں ۔خالق نے مردو عورت دونوں کو الگ الگ ذہنی اور جسمانی صلاحتیں عطا کی ہیں۔ مرد کو مضبوط ارادے والا اور قومی الجسم بنایا تاکہ وہ بیرونی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکے اور اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کر سکے۔ عورت کو محبت وشفقت والا، نرم دل اور نرم مزاج بنایا تاکہ وہ ننھی سی جان کو نو مہینہ اپنی کوکھ میں رکھ سکے اور اولاد کی پرورش کے مشکل مرحلے سے گزر سکے۔ اس نظام کے پیچھے اللہ کی عظیم الشان حکمت مضمر ہے کہ عورت اندورونی ذمہ داریوں کو سنبھالے اور مرد بیرونی ذمہ داریوں کو، اور دونوں مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھیں۔ان خاص صلاحیتوں اور خوبیوں کی وجہ سے نہ کوئی کمتر ہے نہ بر تر۔عورت انسان ہونے کے ناطے تمام عزت اور حقوق کی حق دار ہے جو کہ مردوں کو حاصل ہیں ۔اسلام عورت کو وہ تمام حقوق عطا کرتا ہے جو انسان کو عزت و تکریم سے جینے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔
اسلام نے عورت کواِنسانی اختیارات عطا کیے ہیں ان کی روشنی میں وہ اپنی انفرادی شخصیت کو نکھار سکتی ہے۔ سماجی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کو سمجھ سکتی ہےغلطیوں کے سدھار کے لئے ذمہ دارانہ کوشش کرسکتی ہے۔ خلیفہ وقت سے سوال و جواب بھی کر سکتی ہے۔ عورتوں کو مکمل حق ہے کہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ اور دفاع کریں اور جائز حقوق کی تکمیل نہ ہونے پر خلیفہ وقت یا اسلامی عدالت سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے رجوع کریں۔ ان کی رضامندی کے بغیر ان کا ولی بھی اُن کی شادی کے معاملے میں کوئی قدم نہیں اُٹھاسکتا۔ شوہر کے نا پسندیدہ ہونے کی صورت میں انھیں خلع کا حق حاصل ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہ معاشی جدوجہدمیں حصہ لے سکتی ہیں۔ دین کی دفاع کے لئے جنگ میں شرکت اور مردوں کی مدد بھی کر سکتی ہیں۔
۳۔خیر خواہانہ فضا: اسلام ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانا چاہتا ہے جس کی عام فضا شفقت و محبت، عدل و انصاف، درگزر، تعاون، خیر خواہی، اشتراک عمل، ایثار ، مواساۃ اورانسان کی عزت و تکریم کی ہو ۔ ظلم، غیبت ، چغل خوری، دھوکہ دہی، تجسّس، حسد، الزام تراشی، اور بے شرمی سے پر ہیز ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے اور زمین میں طالب فساد نہ ہو‘‘۔(القصص:۷۷)
’’مومنو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوںاور عیب نہ لگائو اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو‘‘۔(الحجرات:۱۱)
’’اور ایک دوسرے کے عیب نہ ٹٹولو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے‘‘۔( الحجرات:۱۲)
۴۔ مذہبی رواداری :اسلام عقیدے اور نظریات کی تفریق کے باوجود انسانی برادری کے تعلق کو اہمیت دیتا ہے۔ مشترک انسانیت کے حقوق جو اسلامی معاشرے نے انسانوں کے لئے تسلیم کئے ہیں ،دنیا کا کوئی اورمعاشرہ انہیں دینے سے قاصر ہے۔ قرآن انسانیت کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اس میں بلا امتیاز وتفریق سب شامل ہیں:
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراوٗ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور قریبوں کے ساتھ بھی، یتیموں اور مسکینوں اور قریبی پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس والے ساتھی اور مسافر اور ان کے ساتھ بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے‘‘۔ ( سورہ النساء:۳۶)
۵۔ ذمہ داری کا تصور: اسلام تمام افراد کے ذہن میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ہر فرد اپنے متعلقین کی فلاح اوراپنے فرضِ منصبی کی انجام دہی کے لئے ذمہ دار ہے۔ اسلام جماعتی فوائد کے حصوں کی ذمہ داری اس جماعت سے متعلق تمام افراد پر عائد کرتا ہے۔
اِس مرحلے میں ہمارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ وہ کیا اصول و طریقے ہیں جو اسلام نے معاشرے میں یگانگت اور ہم رنگی پیدا کرنے اورانسانی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لئے مقرّر کئے ہیں۔ اس سلسلے میں اسلام نے کچھ مستقل ادارے قائم کئے ہیں جو ان مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔
معاشرتی مقاصد کی تکمیل کے لئے ادارے
۱۔ عبادات کا نظام
۲۔ خاندان
۳۔ صلہ رحمی کا وسیع دائرہ
۴۔ ہمسائیگی کے روابط
۵۔ حدودو تعزیرات کا نظام
۱۔ عبادات: امت اسلامیہ کے ڈھانچے میں عبادات کی حیثیت ایک بنیادی پتھر کی سی ہے۔ تزکیہ نفس اور روحانی فوائد کے علاوہ عبادات سے معاشرے میں وحدت، استحکام اور قوت پیدا ہوتی ہے۔
۲۔ خاندان:اسلامی نظام معاشرت کا بنیادی ادارہ خاندان ہے ۔ خاندان کی بنیاد ایک مردو عورت کا ملاپ ہے۔ اس ملاپ سے ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے ۔ پھر اس سے کنبے اوربرادری کے دوسرے تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر یہی چیز پھیلتے پھیلتے ایک وسیع معاشرے تک جا پہنچتی ہے ۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس میں ایک نسل اپنی آنے والی نسل کو انسانی تمدّن کی وسیع خدمات سنبھالنے کے لئے نہایت محبت، ایثار اور خیر خواہی کے ساتھ تیار کرتی ہے ۔ خاندان اسلامی تمدن کی جڑ ہے اور اس جڑکی صحت و طاقت پر خود تمدن کی صحت و طاقت کا مدار ہے ۔اس لئے اسلام معاشرتی مسائل میں سب سے پہلے اس امر کی طرف توجہ کرتا ہے کہ خاندان کے ادارے کو صحیح ترین بنیادوں پر قایم کیا جائے۔ اسلام نے خاندان کو ایک طرف تو مضبوط ، مستحکم کرنے اور تحفظ دینے کا اہتمام کیا اور دوسری طرف اسے صحیح اور اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا۔اس اہتمام کی پہلی شکل یہ ہے کہ نکاح کو اہمیت دی گئی ، اس میں آسانی پیدا کی گئی اور زنا کو مشکل بنایا گیا۔زوجین کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لئے بہت سے اقدامات کو اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔اسلام نکاح کولازمی قرار دیتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد مجرّد رہنے کو نا پسند کرتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اپنے اندر کے ان افراد کا، جو اپنا شریک زندگی نہ رکھتے ہوں، نیز اپنے ان غلاموں اور لونڈیوں کا، جو (نکاح) کے لائق ہوں، نکاح کردو۔‘‘
ازدواجی زندگی کو مستحکم، پائیدار اور خوبصورت بنانے کے لیے شریعت لڑکی سے اجازت لینے کا حکم دیتی ہے اور زور زبردستی کرنے سے منع کرتی ہے ، ساتھ ہی اس بات کی پوری اجازت دیتی ہے کہ ہونے والے دولہا، دولہن، ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک عورت سے نسبت طے کی آں حضرتؐ نے فرمایا:
’’اسے دیکھ لو کیونکہ یہ تم دونوں کے درمیان موافقت پیدا کرنے کی بہتر صورت ہے۔‘‘۳؎
’’بیوہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لے لی جائے اس طرح کنواری کا بھی نکاح نہ کیا جائے جب تک وہ اذن نہ دے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ وہ اذن کیونکر دے آپؐ نے فرمایا اس کا اذن یہی ہے کہ وہ سن کر چپ ہوجائے۔‘‘۴؎
ازدواجی رشتہ زندگی بھر کے لیے ہوتا ہے اس لئے مزاجی ہم آہنگی اور سماجی موافقت پیدا ہونے میں آسانی کے لئے کفاء ت کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ بسا اوقات طرز معاشرت کا بہت زیادہ فرق، رہن سہن کا علیحدہ انداز، تعلیمی و مالی حیثیت میں قابل لحاظ تفاوت وغیرہ جیسی چیزیں رشتۂ نکاح میں اختلاف کا باعث بن جاتی ہیں۔نکاح میں کفاء ت کا لحاظ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ زوجین کچھ معاملات میں فی الجملہ ایک دوسرے کے برابر ہوں تاکہ ان کے درمیان موافقت اور ہم آہنگی پیدا ہونے میں آسانی رہے اور رشتۂ نکاح میں استحکام پیدا ہو۔ کفا ء ت کی بنیاد تمام تر عملی مصلحتوں پر ہے تاکہ ازدواجی رشتے کے مقاصد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ رہے اور غیر مساوات زوجین کے گہرے ربط و اتصال کے بیچ رکاوٹ نہ بن جائے۔ وہ خاص امور جن میں کفا ت کا لحاظ رکھنا قرآن کریم اور ارشادات رسولؐ سے ثابت ہے وہ ہیں تقویٰ اور پرہیزگاری۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ (سورہ الحجرات ۱۳)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ تقویٰ رکھنے والا ہو۔‘‘
چنانچہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ دین و تقویٰ کے معاملے میں مرد کو عورت کے ہم پلہ ہونا چاہئے۔۵؎
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ ‘‘(سورۃ النور ۲۶)
شادی کی اہمیت کے پیش نظر سنت رسولؐ میں نکاح کو سادہ اور آسان بنانے کی تلقین ملتی ہے۔ اس کا عملی نمو نہ آپؐ کی زندگی اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے نظر آتا ہے۔حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کی شادی کے بارے میں سن کر آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی ہو۔‘‘۶؎
اسلام ان تمام رسوم و رواج کو ناپسند کرتا ہے جو شادی میں مشکل کا باعث بنیں ، چاہے وہ عام رسم و رواج ہوں یا جہیز اور مہر کی زیادتی ہو۔ نکاح کا مشکل اور زنا کا آسان ہونا غیر اسلامی معاشرے کی علامت ہے۔
اسلامی معاشرت کاایک اہم جز میراث کی تقسیم ہے اور خاص طور پر عورت کو میراث میں حصہ دینا ہے۔ اسلام جس طرح مرد کے حق وراثت کو مقرر کرتا ہے بالکل اسی طرح اس نے عورت کے لئے حق وراثت مقرر کیا ہے۔ عورت کو اپنے باپ، شوہر، اولاد اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے وراثت ملے گی۔ قران کا صاف صاف ارشاد ہے۔
’’مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔‘‘ (سورہ النساء: ۷)
اس آیت سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ میراث صرف مردوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ عورت بھی میراث میں حصہ دار ہے اور یہ حصہ خود خدائے بالاو برتر نے مقرر کر رکھا ہے۔ اسلامی معاشرت کا ایک بہت ہی اہم پہلو عفت و عصمت کی حفاظت اور صرف جائز ذرائع سے جنسی خواہشات کی تکمیل ہے۔اسلام پوری طرح بے حیائی اور بے شرمی کا قلع قمع کرتا ہے وہ ان تمام راستوں کا سد باب کرتا ہے جو انسان کو حیوان کے درجے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’وہ اہل ایمان فلاح یاب ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے کنارہ کش رہتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کر تے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور مملوکہ باندیوں کے کہ ان کے بارے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں؛البتہ جو اس کے علاوہ کے طلب گار ہوں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘۔ ( ۷۔۱)
عفت و عصمت کی حفاظت کی تلقین کے ساتھ اللہ تعالی زنا پر قدغن لگا تا ہے:
’’ زنا کے قریب نہ جاؤ ، بلاشبہ وہ بے حیائی کا کام ہے، اور بڑا ہی برا راستہ ہے‘‘۔ (اسراء:۳۲ )
ساتھ ہی ان تمام اسباب و دواعی، وسائل و ذرائع کا سدباب کرتاہے جس سے بے حیائی و فحاشی کے دروازے کھلتے ہوں اور انھیں تحریک ملتی ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے شریعت مندرجہ ذیل باتوں کا حکم دیتی ہے۔
۱ ۔ بد نگاہی پر پابندی:اسلام نگاہوں کو پست رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ کیونکہ بد نگاہی بہت سے گناہوں کو جنم دیتی ہے۔
۲ ۔ غیر محرموں کے سامنے زینت کے اظھار پر پابندی
۳ ۔ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی ممانعت: مردوں اور عورتوں کا اختلاط بہت سی برائیوں اور خرابیوں کو جنم دیتا ہے اس لیے اسلام اس اختلاط پر پابندی عائد کرتا ہے۔
۴۔ عورتوں کا بنا محرم کے سفر کرنے پر ممانعت:’’عورت بغیر محرم کے ہرگز سفر نہ کرئے‘‘۔۷؎
۵۔ غیر محرم مرد و عورت کے ساتھ خلوت میں رہنے کی ممانعت: ’’جو شخص اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہو، وہ ہرگز کسی ایسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ جائے جس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو، اجنبی مرد و عورت جب خلوت میں ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔۸؎
۶۔ مصافحہ کرنے کی ممانعت: آج کے دور میں مردو عورت کا مصافحہ کرنا معمولی بات سمجھی جاتی ہے جس کو کم لوگ معیوب سمجھتے ہونگے۔ اسلام میں اجنبی مرد و عورت کے لیے ایک دوسرے کے جسم کو مس کرنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو ۔
ان سارے اقدامات کے ذریعےاسلام معاشرے کو بے راہ روی سے روکتا ہے اور معاشرے کے بنیادی ادارے خاندان کو استحکام فراہم کرتا ہے۔
۲ ۔ قرابت: قرآن میں جگہ جگہ، والدین ، بھائی بہن اور رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن میں خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت کا حکم ہے اور خاص طور پر ماں کا تذکرہ ہے جو اولاد کیلئے تکلیف برداشت کرتی ہے۔
’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (البقرہ:۸۳، النساء:۳۶، انعام:۱۵۱)
اسلام والدین کو اس بات کا مکلّف بناتا ہے کہ وہ اولاد کی تعلیم و تربیت کریں اور دوسری ضروریات برضا و رغبت پوری کریں۔ انہیں بوجھ تصوّر نہ کریں۔ قرابت میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو ماں باپ، بھائی بہن، یا سسرالی تعلق کی وجہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔اسلام ان سب کو ایک دوسرے کا ہمدرد، غمگسار اور مدد گار دیکھنا چاہتا ہے۔جب کہ غیر اسلامی معاشرت میں قرابت داروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، ان کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا۔
۳۔ ہمسائیگی : اسلام پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر زور دیتا ہے۔ہمسائے کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہو سکتے ہیں اسلام ان کے ساتھ ، ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں شریک ہوں ۔ جہاں ہر پڑوسی اپنے پڑوسی کے جان ومال، عزت و آبروکی حفاظت کرے۔اسلام ایسی معاشرت کو ناپسند کرتا ہے جس میں ایک محلے اور پڑوس میں رہنے والے ایک دوسرے سے بے خبر رہتے ہوں ، جن میں آپسی تعاون اور ہمدردی نہ ہو۔
۴۔حدود و تعزیرات: معاشرے کی اصلاح کے تمام ذرائع اختیار کرنے کے بعد اسلام میں حدود و تعزیرات کا بھی ایک مکمل نظام رکھا گیا ہے تاکہ معاشرے کو ان افراد کی شرارتوں سے محفوظ رکھا جا سکے جو معاشرے کے قوانین کی خلاف ورزی کریں۔اسلام ان تمام لوگوں پر قانونی گرفت کرتا ہے جوسماج میں فتنہ انگیزی اور فساد برپا کریں۔ اسلام کی نظر میں قانون سے با لا تر کوئی نہیں ہوتا۔ امیر و غریب، خواص و عام کے درمیان نفاذِ قانون میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ حاکم وقت بھی قانون کا اسی طرح محکوم ہے جیسے ایک محتاج فقیر جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتیں تو خدا کی قسم اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے‘‘۔۹؎
یہ اسلامی معاشرے کی ایک مختصر سی جھلک ہے جو کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور جس کی بنیاد پر نبی کریم ﷺ نے ایک معاشرے کی تشکیل کی تھی جو ایک بہترین معاشرہ تھا۔
غیر اسلامی طرز معاشرت کے نقصانات
غیر اسلامی طرز معاشرت کے نقصانات نے انسانیت کو لا متناہی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔ کوشش کے با وجود ان مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خالق کائنات کا بنایا ہوا قانون کو نظر انداز کیاجا رہاہے۔قابل توجہ پہلو درجِ ذیل ہیں:
۱۔ اخلاقی بے راہ روی اور جنسی آوارگی سے اباحیت کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔ جنسی آوارگی کو آزادی کا نام دے دیا گیا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کا سبق پڑھایا جانے لگا ہے ۔ ہوٹلوں، کلبوں اور جنس فروشی کے اڈوں کی حوصلہ افزائی اونچے پیمانہ پر کی جا رہی ہے۔ عورت کو سربازار عریاں کردیا گیا ہے اوراسے دل بہلانے کا سامان سمجھ لیا گیا ہے۔ جدید تہذیب کے نام پر اس کی تذلیل کی گئی ہے۔ ان ساری چیزوں کے لیے حق مساوات کا خوبصورت لفظ استعمال کیا گیا۔ جنسی جذبات کی تکمیل صرف ایک ضرورت سمجھی گئی جس کے لیے شادی کا بندھن ہونا ضروری نہیں بلکہ فریقین کی رضامندی کو کافی سمجھا گیا ۔ اسے فرد کی آزادی کا نام ملا۔ اب تو حکومت بھی ایسے جوڑوں کی پشت پناہی کرنے لگی ہے جو بنا شادی کے ایک چھت کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔زنا اب معیوب نہیں رہا جس سے اخلاقی برایئوں کے ساتھ ساتھ بہت سی بیماریاں بھی عام ہو ئیں۔ معاشرہ ایک ایسی وبا کے لپیٹ میں آ گیا جس سے نجات پانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔
۲۔ اسکول اور کالجوں میں مخلوط تعلیم کا چلن عام ہو ا، نوجوان لڑکے لڑکیوں کو آزادانہ ملنے کے مواقعے مہیا ہونے لگے،۔موبائل، انٹرنیٹ کی ایجاد اور اس کی غیر ضروری تشہیرنے مزید جلنی پر تیل کاکام کیا۔اس بے حیائی و بے شرمی نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔
۳۔ اس کیفیت کی بنا پر خاندانی نظام کی بنیاد ہل گئی۔اس کی افادیت مجروح ہو گئی ۔خاندان جو سکون و راحت کا مرکز ہوا کرتا تھا، وہ خود غرضی اور مفاد پرستی کی زد میں آ گیا۔ خاندان کی قید و بند سے آزاد زندگی کا رجحان پرورش پانے لگا ۔
۴۔ اس انتشار کی بنا پربچے والدین کی شفقت اور پیار بھری تربیت سے محروم ہو گئے ۔ وہ والدین کی اہمیت اور ان کے حقوق کو نہیں سمجھ پائے ،والدین کی نافرمانی عام ہو گئی اوربڑھاپے میں انہیں اولڈ ایج ہوم کا سہاراتلاش کرنا پڑا۔
۵۔شادی کی عمر بڑھا دی گئی جس کے نتیجے میں نو جوان لڑکے لڑکیاں اپنی جنسی ضروریات کی تکمیل کے لئے غلط ذرائع کا استعمال کرنے لگے۔ٹی وی انٹرنیٹ وغیرہ نے مزید اس خرابی کوبڑھایا۔
۶۔ عورتیں کم سے کم اور چست و بھڑکیلے لباس میں نظر آنے لگیں اور اسے ماڈرنزم کا نام دیا گیا۔
۷۔ غیر اسلامی معاشرت کی وجہ سے انسانیت نسل، رنگ، زبان،وطن اور قومیت کی بنیاد پر بٹ گئی ۔
۸۔ مادّیت پرستی اور زر زمین کی لالچ نے دوسروں کے حقوق سے بیگانہ کر دیا۔ نفسا نفسی کا دور دورہ ہوا ۔انسان اپنے مفاد کے حصول کے لئے جائز نا جائزاور صحیح و غلط کی تفریق کو بھلابیٹھا ۔
۹۔ مذہب اور اخلاقی اقدار و روایات سے دوری پیدا ہوئی۔
مختصرا یہ وہ نقصانات ہیں جو غیر اسلامی معاشرت کے نتیجے میں پیداہوئے اور تیزی سے بڑھے۔ اگر بر وقت اس رجحان کے روک و تھام کی کوشش نہ کی گئی تو انسانیت کوتباہی سے دو چار ہونا پڑے گا جس کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔
حواشی
۱۔ اسلامی معاشرہ کی تاسیس و تشکیل، ساجد الرحمان ، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۹۷، ص ۱۴۹
۲ ۔ ایضا
۳۔ ترمذی،ترجمہ وحیدالزماں، ابواب النکاح، باب ماجاء فی النظر إلی المخطوبۃ، جلد اول، ص۳۹۹
۴۔ صحیح مسلم، ترجمہ علامہ وحیدالزماں، جلد ۴، ص۲۹
۵۔ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ، تالیف: عبدالرحمن الجزیری، ترجمہ: منظور احسن عباس، شعبۂ مطبوعات، محکمۂ اوقاف، پنجاب، لاہور ۱۹۷۷، جلد چہارم، ص۵۴-۶۱
۶۔ بخاری، کتاب النکاح، باب الولیمۃ ولو بشاۃ، ص۷۸۷
۷۔ بخاری
۸۔ مسند احمد
۹۔ بخاری
کتابیات
۱۔ اسلامی نظریہ حیات، خورشید احمد، شعبہء تصنیف و تالیف و تر جمہ، کراچی یونیورسٹی، کراچی ۱۹۹۵
۲۔ اسلامی معاشرہ کی تاسیس و تشکیل، ساجد الرحمان ، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۹۷
۳۔ سماج اور سماجیات، ڈاکٹر عذرا عابدی، حرا پبلیکیشنز ، نئی دہلی، ۲۰۰۲
۴۔ اسلامی معاشرہ اور اس کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، مولانا محمد یو سف اصلاحی، ذکریٰ انٹر نیشنل پبلیشرز دہلی، ۲۰۱۳
۵۔ اسلام مکمّل دین، تالیف محمد عبیداللہ الاسعدی، مکتبہ رحمانیہ ، یوپی
۶۔ عورت اسلامی معاشرے میں، مولانا سید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز، نئی دہلی، ۲۰۱۱
۷۔ اسلام کا عائلی نظام، مولانا سید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز، نئی دہلی، ۲۰۱۳
۸۔ عہد نبوی کا مدنی معاشرہ، ڈاکٹر سید محمد لقمان ندوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز، نئی دہلی، ۱۹۹۸
۹۔ اسلامی طرز حیات، اسعد گیلانی، اسلامک بک فاونڈیشن، دہلی، ۱۹۹۰
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016