اخوت اسلامی اور اس کے تقاضے

دنیا کے سارے انسان ایک آدم اور حوا کی اولاد ہونے کے سبب بھائی بھائی ہیں مگر جو لوگ اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کو قبول کرلیتے ہیں اور کلمہ لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہوجاتے ہیں وہ سب اسلامی اور دینی بھائی ہوتے ہیں اوران کے درمیان اخوت اسلامی کا رشتہ استوار ہوجاتا ہے۔ یہ رشتہ تمام رشتوں سے مقدس ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے نعمت قرار دیا ہے:

وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ اِذْ کُنتُمْ أَعْدَائ فَأَٓلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ اِخْوَاناً  ﴿آل عمران :۱۰۳﴾

’’اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم ﴿اہل ایمان ﴾پرکیا ۔تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمھارے دل جوڑ دئے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔‘‘

رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا:

مثل المومنین فی تواد ہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد والواحد اذا اشتکی منہ عضوتداعی لہ سائرالجسد بالسہر والحمی ﴿متفق علیہ﴾

’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب اس کا ایک عضو بیمار ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس کے لیے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘

اخوت اسلامی کاایک تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان مل جل کر زندگی گزاریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور لڑائی جھگڑے کی صورت میں اصلاح کی کوشش کرنا اور لڑائی جھگڑے کا تصفیہ کرنا ہر مومن اور صاحب ایمان کی بنیادی ذمے داری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاِن طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْْنَہُمَا فَاِن بَغَتْ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْئ َ اِلَی أَمْرِ اللَّہِ فَاِن فَائ تْ فَأَصْلِحُوا بَیْْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا اِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ  ﴿الحجرات:۹﴾

’’اگر اہل ایمان میں سے دوگروہ لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والوں سے لڑویہاں تک کہ وہ گروہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ آئے توا ن کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف کروکہ اللہ انصاف کرنے والوںکو پسند کرتا ہے ۔‘‘

اصلاحی تدابیر سے پہلوتہی وہی شخص کرسکتا ہے جو اخوت اسلامی کے حقیقی مفہوم سے واقف نہ ہو۔ ایک حدیث ہے:

’’عن ابی دردائ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ  الااخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصدقۃ والصلوۃ قال قلنا بلی ،قال اصلاح ذات البین وفساد ذات البین و ھی الحالقۃ‘‘  ﴿ترمذی ابواب صفۃ الصلوٰۃ، حدیث : ۲۵۰۹﴾

’’حضرت ابودردائ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ کیا ایک ایسی چیز نہ بتلادوں جس کا مقام روزہ ،صدقہ اور نماز سے بڑھاہوا ہے حضرت ابودردائ کہتے ہیں کہ ہم لوگوںنے عرض کیا ضرور بتائیے ۔آپ نے فرمایا کہ وہ چیز آپس میں لڑائی میں صلح کرانا ہے اور باہمی تعلقات کی خرابی نیکیوںکو مٹانے والی ہے۔‘‘

تعظیم نہ کہ تضحیک

اخوت اسلامی کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے کی تعظیم کریں، ایک دوسرے کا لحاظ کریں اور ایک دوسرے کو محترم ومکرم تصورکریں اور ہر اس کام اور عمل سے اپنے آپ کو باز رکھیں جس سے صاحب ایمان کی عظمت میں کمی آتی ہو۔اسی لیے قرآن ان تمام اعمال سے روکتا ہے جو اخوت اسلامی کو مجروح اور اس معزز رشتے کو پامال کرتے ہیں:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائ مِّن نِّسَائ عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَن لَّمْ یَتُبْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ  ﴿الحجرات:۱۰﴾

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پرطعن نہ کرواور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یادکرو۔ ایمان کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔‘‘

اسلامی رشتہ قابل اعتماد رشتہ ہے۔ اس رشتے سے منسلک تمام افراد ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسا کرتے ہیں اور کوئی ایسا عمل نہیں کرتے جس سے اس رشتے کو ٹھیس پہنچے۔

باہمی تعاون

انسان کی فطرت میں احتیاج ہے۔ وہ اپنی تمام ضروریات کی تکمیل بذات خود نہیں کرسکتا۔ اسے قدم قدم پر اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے وہ تعلیم کے لیے اہل علم سے ،خوراک کے لیے کسان سے ،گھربنانے کے لیے معمار سے،لباس کے لیے ٹیلر سے ،جوتے سلوانے کے لیے موچی سے اورسفر کے لیے گاڑی والے سے تعاون لینے پرمجبور ہے۔ اس معاملے میں امیر، غریب چھوٹا بڑا ،عورت ،مرد ،بوڑھا جوان ہر کوئی برابرہے۔ ایک غریب کو رقم کی خاطر جہاں مالدار کے تعاون کی ضرورت ہے وہیں پر امیر کو اپنا کام کروانے کے لیے غریب اور مزدور کے تعاون کی ضرورت ہے۔اس فطری احتیاج کے پیش نظر اسلام نے اہل ایمان کو باہمی تعاون وتناصر پر ابھارا ہے اوراس بات کی تاکید کی ہے کہ نیکی اور تقویٰ کی راہ میں ایک دوسرے کا تعاون ہونا چاہیے اور گناہ وظلم وزیادتی کے راستے میں تعاون سے پرہیز کرنا چاہیے۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴿المائدہ:۲﴾

’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان سب میں تعاون کرو اور جوگناہ اور زیادتی کے کام ہیں میں تعاون نہ کرو۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر تمام مومنین کو آپس میں معاون ومددگار کہا گیاہے :

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَ ئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ اِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴿التوبہ:۷۱﴾

مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی یقینا اللہ سب پر غالب ہے اور حکیم وداتا ہے۔‘‘

ایک حدیث میں مومن کو اپنے دوسرے مومن بھائی کے لیے دیوار سے تشبیہ دی گئی ہے:

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ﴿بخاری ۴۸۱ مسلم ۲۵۸۵﴾

’’مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔‘‘

دیوار سے تشبیہ دینے کی حکمت یہ ہے کہ جس طرح دیوار کی ہر اینٹ دوسری اینٹ کوسپورٹ کرتی ہے اور اس کی مضبوطی کا ذریعہ بنتی ہے، اسی طرح ہر مومن کو دوسرے مومن کا سپورٹ کرنا چاہیے اور اپنے عمل سے دوسرے مومن کو مضبوط بنانا چاہیے۔ مومن کی مادی ومعنوی ترقی کے لیے ہرممکن تعاون کرنا چاہیے۔اسی بات کو نبی ﷺ کی حدیث میں اس طرح کہا گیا ہے :

من نفس من مومن کربۃ من کرب الدنیا نفس اللہ عنہ کربۃ من یوم القیامیۃ ومن یسّر علی معسریسّراللہ علیہ فی الدنیا والاخرۃ ومن سترمسلماً سترہ اللہ فی الدنیا والاخرۃ واللہ فی عون العبد ماکان العبدفی عون اخیہ  ﴿مسلم۲۶۹۹ کتاب الدعوات﴾

’’ جو شخص کسی مسلمان کی کسی دنیوی پریشانی کو دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی اخروی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی کو دور فرمائے گا اور جو کسی محتاج کے لیے آسانی فراہم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا وآخرات میں آسانی فراہم کرے گا اور جو کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ اس وقت بندے کی مددمیں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ ”

 ہمدردی وخیر خواہی

ہمدردی اور خیر خواہی پسندیدہ عمل ہے۔اس پر اہل ایمان کو ابھارا گیا ہے۔خیر خواہی ہرایک کے ساتھ ہونی چاہیے البتہ اہل ایمان اسلامی اخوت کی وجہ سے خیر خواہی اور ہمدردی کے زیادہ مستحق ہیں۔اہل ایمان باہم ہمدرد وخیر خواہ ہوتے ہیں۔ایک حدیث میں حضرت جریرؓ بن عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے بیعت کی اس بات پر کہ نماز پڑھوں گا ،زکوۃ دوںگا اور ہرمسلمان کیلیے خیر خواہی کروںگا۔﴿بخاری:۱۴۰۱، مسلم: ۵۶﴾ایک حدیث میں ’’خیر خواہی‘‘کو دین کہا گیا ہے۔اس سے خیر خواہی کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے۔

عن تمیم الدارمی ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ  الدین النصیحہ ثلاثا قلنا لمن یا رسول اللہ قال للہ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتھم ﴿رواہ مسلم،کتاب الایمان حدیث ۱۹۶﴾

’’حضرت تمیم الدارمی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا دین خیر خواہی کا نام ہے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ خیر خواہی کس کے لیے ؟فرمایا اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول کے لیے مسلمانوں کے ذمہ داروں کے لیے اور عام لوگوں کے لیے۔‘‘

ہمدردی اور خیر خواہی کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ جہنم کی آگ سے لوگوںکو بچانا، سیدھے راستے پر لوگوںکو لگانا۔ دینی علوم کی جانب لوگوںکو متوجہ کرنا غریبوں اور مسکینوں وبیواؤں کی مدد کرنا،بھوکوںکو کھانا کھلانا ،پیاسوںکو پانی پلانا، ننگوںکو کپڑے پہنانا ،کمزوروں کو سہارا دینا ،گرتوںکو سنبھالنا ،اور پڑوسیوں کا ہر ممکن خیال کرنا خیر خواہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ حدیث قدسی میں لوگوں کی ضرورت کو اللہ تعالیٰ اپنی ضرورت قرار دیتا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ انسانی ضروریات کا خیال کرنا اورا س کی تکمیل کی فکر کرنا ہمدردی وخیر خواہی کی ایک اعلیٰ شکل ہے۔

عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال:رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم ان اﷲ عز و جل یقول یوم القیامۃ یا ابن آدم مرضت فلم تعدنی قال: یا رب اعودک وانت رب العالمین ! قال أما علمت أن عبدی فلاھم مرض فلم تعدہ أما علمت انک لو عدتّہ لو جدتنی عندہ یا ابن آدم استطعمتک فلم تطعمنی قال یا ربی کیف اطعمک و انت رب العالمین قال اما علمت انہ استطعمک عبدی فلان فلم تطعمہ أما علمت انک لواطعمتہ لو جدت ذالک عندی یا ابن آدم استسقیتک فلم تسقنی قال یا رب کیف اسقیک وانت رب العالمین قال استسقاک عبدی فلان فلم تسقہ أما علمت انک لو اسقیتہ و جدت ذالک عندی  ﴿مسلم:حدیث :۵۲-۶۵﴾

’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کہے گا اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تونے میری عیادت نہیں کہ وہ کہے گا اے اللہ میں آپ کی عیادت کیسے کرتا۔ آپ رب العالمین ہیں ،وہ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے کھانامانگا تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا۔ اے میرے رب میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا آپ تو رب العالمین ہیں۔ وہ کہے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تونے اسے کھانا نہیں کھلایا ۔کیاتجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کوکھانا کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی طلب کیا تونے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا آپ کو پانی کیسے پلاتا آپ تورب العالمین ہیں وہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تونے اسے پانی نہیں پلایا اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘

 دعا واستغفار

اخوت اسلامی کاایک تقاضا اہل ایمان کے لیے دعاواستغفار بھی ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا اِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ   ﴿حشر:۱۰﴾

’’اور جولوگ ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوںمیں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ ہو۔‘‘

اسلام نے مومنین کو اپنے دینی بھائیوں کیلیے دعا پر ابھارا ہے۔ چنانچہ ملاقات کے وقت سلامتی کی دعا﴿السلام علیکم ورحمۃ اللہ ﴾سکھائی گئی ہے اور ہر چھوٹے بڑے، مسافر ،مقیم مرد،عورت سب کواس دعا کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں یہاں تک ہدایت دی گئی ہے کہ متعارف اور غیرمتعارف ہر شخص کو سلام کرنا چاہیے۔ اسی طرح امام اور ذمے دار افراد کو اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ اپنی دعا میں مقتدی اور رعایا کو بھی شامل کریں۔اور نماز جنازہ کے موقع پر زندہ ،مردہ ،حاضر غائب ،مرد ،عورت ،چھوٹا بڑا سب اہل ایمان کے لیے دعا سکھائی گئی ہے۔

حقوق کا خیال

اسلامی اخوت کاایک تقاضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے ایک حدیث میں چھے حقوق کا تذکرہ ہے:

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم حق المسلم علی المسلم ست اذالقیتہ فسلم علیہ و اذا دعاک فاجبہ واذا ستنصحک فانصحہ و اذا عطس فحمد اﷲ فشتمہ واذا مرض فعدہ واذا مات فاتبعہ  ﴿رواہ مسلم، کتاب السلام حدیث:۱۵-۵۶﴾

“حضرت ابوہریرہ ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلم کے دوسرے مسلم پر چھے حقوق ہیں۔ جب ملاقات ہو تو اسے سلام کرو،جب دعوت دے تو قبول کرو، جب نصیحت کرے تو نصیحت کرو ،جب چھینک پر الحمد للہ کہے تو یرحمک اللہ کہو جب بیمار ہوجائے تو عیادت کرو اور جب وفات پاجائے توجنازہ میں شرکت کرو۔‘‘

خریدوفروخت اور شادی بیاہ کے ضمن اہل ایمان کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کریں اورنہ پیغام نکاح پر نکاح کا پیغام دے:

عن ابی ھریرۃ قال نھی رسول اﷲ صلی اﷲ ان یبیع الرجل علی بیع الرجل ولا یخطب علی خطبۃ اخیہ ﴿بخاری کتاب البیوع حدیث: ۲۱۴۰﴾

“حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ  نے منع فرمایا کہ آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے اور نکاح کے پیغام پر دوسرا بھائی پیغام نکاح بھیجے”

اس ہدایت کا مقصد اسلامی اخوت اوربھائی چارہ میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ تاکہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے کسی عمل سے تکلیف نہ پہنچے۔ اور اسلامی رشتہ کمزور نہ ہونے پائے۔اس رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے رسول اکرم ﷺ  کے درج ذیل ارشاد کا خاص خیال کرنا ضروری ہے:

لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ   ﴿بخاری کتاب الایمان ،حدیث: ۳۱﴾

’’تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جواپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘

رحمدلی ونرم خوئی

اسلامی اخوت کا تقاضا رحمدلی اورنرم خوئی ہے۔ مومنین آپس میں ایک دوسرے کے لیے شفیق رحم دل اورنرم خو ہوتے ہیں جبکہ کفار اورباطل کے علمبردار کے لیے اہل ایمان چٹان کے مثل سخت اور مضبوط ہوتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّآئ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائ بَیْْنَہُمْ ﴿سورہ الفتح :۲۹﴾

’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔‘‘

اس آیت میں مومن کے اوصاف میں ایک وصف ’’اہل ایمان کے لیے نرم اور کفار کے لیے سخت ہونا بھی ہے۔

ایثار وقربانی

اخوت اسلامی کا ایک تقاضا ایثار وقربانی بھی ہے۔ اس عمل کے ذریعے ایک مسلمان اپنے اوپر دوسرے مسلمان کو ترجیح دیتا ہے اور دوسروں کیلیے قربانی پیش کرتا ہے۔ اپنے بھائی کی بھلائی کے سلسلے میں فکر مند رہتا ہے۔ اپنی ضروریات پر دوسروںکی ضروریات کو اولیت دیتا ہے، دوسروں کو آرام پہنچانے کی خاطر خود تکلیفیں جھیلتا ہے، خود بھوکا رہتا ہے مگر دوسروںکو کھلاتا ہے۔

ایثار وقربانی کی اہمیت وفضیلت تو ہر حالت میںہے مگر جب ایثار کا مظاہرہ کسی پریشان حال ،تنگ دست اور معاشی لحاظ سے کمزور فرد کی جانب سے ہو تواس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم صحابہ کے ایثار کو اس طرح بیان کرتا ہے:

وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ   ﴿الحشر:۹﴾

’’وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔‘‘

حضرت ابوطلحہ ؓ  انصاری نے ایثار کا اعلیٰ نمونہ پیش فرمایا تھا، اس واقعے کا تذکرہ صحیحین میں اس طرح ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ  کے پاس آیا اور کہا کہ میں بھوک سے نڈھال ہوں۔ پس آپ نے اپنی بعض ازواج مطہرات ؓ کی طرف پیغام بھیجا انہوں نے جواب دیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ نے دوسری بیوی کی طرف پیغام بھیجا،اس نے بھی اس کے مثل جواب دیا حتی کہ تمام ازواج نے یہی کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میرے پاس سوائے پانی کے کچھ نہیں ۔پس نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا آج کی رات کون ان کو مہمان بنائے گا؟توایک انصاری صحابی نے کہا: یا رسول اللہ میں پس وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا رسول اکرمﷺ  کے مہمان کی عزت کرنا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے اپنی بیوی سے کہا: کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے ؟اس نے کہا نہیں صرف بچوں کے لیے کھانا ہے، اس نے کہا ان بچوںکو کسی چیز سے بہلادو اور جب وہ رات کا کھانا مانگیں تو انہیں کسی طریقے سے سلادینا اور جب ہمارا مہمان گھر میں داخل ہو تو چراغ بھجادینا۔ اورا س پر ظاہر کرنا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھارہے ہیں۔ چنانچہ وہ سب کھانا کھانے کے لیے بیٹھ گئے اور مہمان نے کھاناکھایا اور دونوں نے رات بھوکے رہ کرگزاری جب صبح ہوئی اور وہ نبی ﷺ  کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تم دونوں نے آج کی رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا اللہ تعالیٰ اس پر بڑا خوش ہوا ہے۔‘‘

صحابہ کرام ؓ  کی تربیت اس انداز سے ہوئی تھی کہ وہ مرتے دم تک ایثار کو ملحوظ رکھتے تھے۔ چنانچہ جنگ یرموک کے موقع پر چند زخمی صحابہ ؓ نے ایثار کا انتہائی اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ زخمی صحابہ ؓ ’’العطش العطش‘‘ کہہ کر پانی طلب کررہے تھے۔ مگرجب پانی پلانے والے ان تک پہنچتے ہیں تو ہرکوئی اپنے اوپر دوسرے کو ترجیح دیتا ہے۔ اورپھر بغیر پانی حلق کے نیچے اتارے سب جام شہادت نوش فرماتے ہیں۔ آج ایثار کی شدید ضرورت ہے ملت اسلامیہ کمزور اور غیر مستحکم ہے نیز ملت کے افراد خود غرضی ومفاد پرستی کے شکار ہیں۔امت کے افراد کو اپنے اندر ایثار جیسی اعلیٰ صفت پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

مشمولہ: شمارہ جون 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223