انسانی تاریخ کی ابتدا سے آج تک ہر زمانے میں قائد اور قیادت کا تصور موجود رہا ہے۔ تمدنی ارتقاء کے ساتھ یہ تصور رفتہ رفتہ واضح شکل اختیار کرتا گیا، چنانچہ اجتماعی زندگی میں سربراہی یا قیادت کو اساسی جزو کی حیثیت حاصل رہی ۔ قیادت سیاسی اقتدار کی شکل میں ہوتو حکمرانی کہلاتی ہے۔ سیاسی اقتدار کے علاوہ بھی اس کا تعلق کاروبار حیات کے ہرگوشے سے ہوتا ہے۔ قیادت کے مضمرات کو مختصراً بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ وہ وصف ہے جس میں ایک دنیاسموئی ہے۔ یہ بامقصد اجتماعی عمل کی بنیادی شرط ہے۔
سائنسی مینجمنٹ کے پیش رو فریڈرک ڈبلیوٹیلر نے قیادت کو ’’ہنر‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ قائد جماعت کا جز ہوتا ہے البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ واضح طور پر جانتا ہے کہ اس کی منزل کہاں ہے، وہاں تک پہنچنے کے لئے اسے کیا سعی کرنی ہے۔ کس طرح کے شرکاءسفر کو ساتھ رکھنا ہے اور کس طرح راہ کی دشواریوں پر قابو پانا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیادت کے عام تصور اوراس کے اسلامی تصور میں کیا مماثلت ہے اور کیا بنیادی اور اساسی فرق ہے؟ قیادت کے عام تصور کا سرسری جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قیادت خصوصی اختیارات کی حامل اور منصب پر فائز ہوتی ہے۔ لوگوں کی رہبری کے ساتھ ان کی کارکردگی پر گرفت اور ان کے اعمال کو اپنے منصوبے کے تابع کرنے کا نام قیادت ہے۔ مؤثر قیادت کے لئے ایمانداری ، وسیع تجربہ، جوش وولولہ، قوت فیصلہ، حلم وبردباری، حکمت ومصلحت کا شعور اور مقصد سے وفاداری ضروری شرائط ہیں۔ بظاہر یہ ساری خصوصیات ایسی ہیں جن سے اسلامی تصورات کا کوئی اختلاف نظر نہیں آتا اور یہ سب مثبت خصوصیات ہیں۔ اس تناظر میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قیادت کا اسلامی تصور عام تصور قیادت سے کس طرح ممتاز اور مختلف ہے۔ اس سلسلے میں انسان کی تخلیق پر غور کرنا ہوگا۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’اور وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جب پروردگار نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میںاپنا نائب (خلیفۃ الارض) بنانے والا ہوں‘‘۔
چنانچہ خلافت بنیاد ہے قیادت کے اسلامی فلسفے کی۔ گویا اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک مطلق خودمختار ہستی کا نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ کا ہے اور اسے ایک خاص دائرے میں تصرف کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیار اس کا ذاتی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ اس لئے انسان کا وہی عمل جائز ہے جو مقررہ حدود کے اندر ہو ۔ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ دنیا میں انسان کی قیادت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی محدود ذمےد اری کی ادائیگی کے لئے ہے، اس ذمے داری کی حدود اللہ کی متعین کردہ ہیں۔ اس لئے یہ ایک کٹھن اور نازک ذمے داری ہے۔ اس طرح اسلامی نظریۂ قیادت کی رو سے قیادت کی روح حکمرانی نہیں، خدمت ہے۔ شان وشکوہ نہیں، ایثار و احساسِ ذمے داری ہے، یعنی قائد اگر مسلمان اور مومن ہے تو وہ ایک کٹھن امتحان میں مبتلا ہے چونکہ وہ عام انسانوں کی بہ نسبت زیادہ جواب دہ ہے۔ سورہ احزاب کی آیتیں اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں: ’’جس دن ان کے منھ آگ سے الٹائے جائیں گے، کہیں گے کہ اے کاش! ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم مانتے اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہنا مانا تو انھوں نے ہمیں راستے سے گمراہ کردیا، اے پروردگار! انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت بھیج‘‘۔
سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
’’اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے۔ خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا‘‘۔ پھر سورۃ النور کی ۵۵ ویں آ یت میں ہے: ’’جو لوگ تم میں ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے، ان سے خدا تعالیٰ کاو عدہ ہے کہ انھیں ملک کا حاکم بنائے گا‘‘۔
مذکورہ آیات کریمہ سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ قیادت ایک جاں سوز اور کٹھن ذمے داری ہے جس کی ادائیگی کے لئے ایمان اور عمل صالح شرط ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو بھی آزمائش کے بغیر عطا نہیں ہوئی۔ محض اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ جوابدہی آخرت میں بھی کرنی ہے۔
تاریخ اسلامی کے حوالے سے ہمیں قیادت کی انتہائی روشن اور تابناک مثالیں نظر آتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے قیادت کی وہ عملی نظیر پیش کی، جس سے رہتی دنیا تک روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ خلفائے راشدین کے بعد بھی مسلم حکمرانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے قیادت کی ذمے داریاں انجام دینے کی پوری کوشش کی۔ جب قیادت اپنی منزل کمال کو پہنچتی ہے تو اجتماعیت کو وحدتِ فکر عطا کرتی ہے۔ مربوط اور کامیاب جدوجہد کی بنیاد بن جاتی ہے۔عظمت محمدیؐ “The Greatness of Muhammad” کتاب کا مصنف ’’سرفلپ گیز‘ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’انسانی تہذیب اور اخلاق کے فروغ کے لئے آج تک اتنا کام کسی نے نہیں کیا، جتنا محمد (ﷺ) نے کیا‘‘۔
قیادت کے اسلامی تصور کا اساسی اصول یہ ہے کہ مسلم قائد کا دائرۂ کار احکام خداوندی کے اندر ہے۔ اسلام حکمرانی کو امانت کا مقام دیتا ہے۔ صحیح اسلامی ماحول کے اندر منصب چاہنے اور طلب کرنے کی چیز نہیں، بلکہ مخلص افراد اس سے بچنے اور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سنن ابوداؤد کی ایک حدیث ہے: ’’حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے ساتھ دو آدمی حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حکومت کے منصب کی خواہش کی تو حضور پاک ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا:
’’ہمارے نزدیک تم میں سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ ہے جو کوئی عہدہ طلب کرے‘‘۔ پھر ان میں سے کسی کو کوئی کام نہیں سپرد کیاگیا، یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا‘‘۔
اسی طرح حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اے عبدالرحمٰن امارت کے طالب نہ بنو، اگر بن مانگے ملے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے گی اور اگر مانگ کر لوگے تو تم اس کے حوالے کردیے جاؤگے‘‘۔
اسلام اجتماعی زندگی کو لازم جانتا ہے ۔ چنانچہ حکم ہے کہ اگر دو آدمی نماز پڑھ رہے ہوں تو ایک کو امام بنالیں۔ سفر میں ہوں تو ایک کو قائد بنالیں۔ گویا اجتماعیت عین فطری ہے، نظم وضبط کے لئے قائداور قیادت یقینی امر ہیں۔ البتہ قیادت ذمے داری ہے، پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر ہے۔
اسلام کو کچھ خصوصیات مطلوب ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ اپنے قائد میں تلاش کرتا ہے، اِن خصوصیات کے بغیر وہ قائد بارِ قیادت اٹھانے کا اہل نہیں سمجھا جاسکتا۔ وہ خصوصیات یہ ہیں: ایمانداری، عدل،مساوات، احسا س ذمے داری، خود احتسابی، قناعت، حلم وبردباری، تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت، علم، قوت فیصلہ، ارادے کی مضبوطی، بلند نگاہی، قوتِ عمل، عفو و درگزر۔ اِن صفات کے نمونے اسلامی تاریخ کے صفحات میں جیتی جاگتی شکل میںموجود ہیں۔ علامہ اقبال مرحوم نے ایک آئیڈیل مسلم قائد کانقشہ یوں کھینچا ہے:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر، میرِ کارواں کے لیے
قیادت کے اسلامی تصور کی مثالیں موجود ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں سعید بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص کے گورنر تھے،بندگانِ خدا کی خدمت اور احساس ذمے داری کی وجہ سے اپنے وظیفے میں سے چند درہم رکھ کر باقی سب راہِ خدا میں بانٹ دیتے تھے۔ وہ اعلیٰ منتظم ، منصف اور مجاہد تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُن کے حالات کی اطلاع ملی تو انھوںنے بیت المال سے ایک ہزار درہم ان کے پاس بھیجے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاصد پہنچے تو دیکھا کہ حضرت سعید بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے سوکھی روٹی اور زیتون کا تیل کھانے کے لئے رکھا ہے۔ انھوں نے ایک ہزار درہم کی تھیلی پیش کردی، تھیلی ہاتھ میں لے کر سعید بن عامرؓ نے زور سے کہا: ’’انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘۔اُن کی بیوی نے سنا تو گھبراکر کہا کہ ’’کیا حادثہ ہوگیا‘‘؟ سعید بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ’’قیامت ٹوٹ پڑی ہے، دولت گھر آئی ہے امیر المؤمنین نے ہزار درہم کی تھیلی بھجوائی ہے‘‘۔ بیوی بولیں ’’نازک مرحلہ ہے، لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، کونے میں ڈال دیجیے، صبح مجاہدوں کا جو دستہ گزرے اس کے حوالے کردیجیے گا‘‘۔ یہ اس عظیم قائد اور اس کی شریک حیات کا اندازِ فکر تھا۔
دورِ حاضر میں شہرت اور جاہ کی طلب ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ جب منصب کے طالبین کی بہتات ہوجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ صحیح قیادت کا فقدان پیداہوگیا۔ قیادت کے دعویداروں کی کثرت ملت کو تقسیم کرکے راستے کے تعین کو دشوار بنا دیتی ہے، وحدت مقصد ختم ہوجائے تو انتشار پیداہوتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منزل کا مفہوم ہی مشتبہ ہوجاتا ہے۔ ہر قائد الگ الگ سمت کی جانب بلاتا ہے اور امراضِ ملی کے علاج کے الگ الگ طریقے ایجاد کرکے ذہنوں کو الجھادیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کشتی منجدھار میں پھنس جاتی ہے۔ بہرحال اسلامی قیادت کا تصور یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ ، اللہ کے رسول اور اہل علم و تقویٰ اولی الامر کی اطاعت ہی کو لازم سمجھنا چاہئے۔
ایسا نہیں ہے کہ آج کے قائد بلند وبالا باتیں نہیں کرتے، اچھی باتیں تو آج بھی کی جاتی ہیں۔ دراصل آج کے قائد اور ایک آئیڈیل اسلامی قائد میں جو فرق ہے وہ عمل کا ہے۔ آج اکثر کو یہ احساس نہیں کہ اگر یہاں نہیں تو عالم لافانی میں اُن کے کاموں کااحتساب ہوگا۔ حدیث نبوی ﷺ ہے:
’’تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں محاسبہ ہوگا‘‘۔ یہ ایک ایسی ذمے داری ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر قیادت کو اس کا احساس ہوجائے تو غفلت بچی رہتی ہے۔ اسلامی تصور کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ عمل کا مدار نیت پر ہے۔ اگر نیت صالح ہے تو عمل بھی صالح ہوگا۔ عمل صالح کی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بھی کیاجائے اللہ تعالیٰ کی خاطر کیاجائے۔ خود غرضی یاذاتی منفعت اس کا محرک نہ ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نیت کی پاکی چاہتا ہے، اس کا دین ہماری افتادِ فکر کو صاف ستھرا کرکے ہمارے کردار کو جلا بخشتا ہے، پھر لوگ نیت کے کھوٹ سے خود بخود بچتے ہیں ،ان کا ضمیر بذات خود نگہبان بن جاتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2014