انگریزی کے لفظ کلچر کو سب سے پہلے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے ’’ثقافت‘‘ کا جامہ پہنایا۔ اور یہ لفظ دنیائے علم و ادب میں بہت جلد رواج پاگیا۔ ثقافت پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہ زندگی کی کلیت، تہذیب، تمدن، معاشرت، معاملات اور طرز زندگی کا نام ہے۔ اس میں رہن سہن سب شامل ہے۔ غیر مسلموں کے نزدیک بھی ثقافت راگ و رنگ کا نام نہیں ۔ ہندستان یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے غیر مسلم سکریٹری مسٹر سیموئل مٹھانی کے قول کے مطابق: ’’ثقافت محض گانے اور ناچنے ہی کو نہیں کہتے، ثقافت زندگی کے سارے کاروبار کا نام ہے۔ یہ محض فنونِ لطیفہ کی اشکال کا نام نہیں ، زندگی کے سارے کاروبار کا نام ہے‘‘۔ اسی طرح اسلامی تہذیب و تمدن کا سرچشمہ بھی لہو و لعب نہیں بلکہ قرآن و سنت ہے۔ قرآن و سنت کے احکامات کے خلاف جو بھی عمل ہوگا وہ اسلامی نہیں ہوگا بلکہ غیر اسلامی ہوگا۔ متحدہ ہندستان میں بھی لفظ ثقافت برسوں اسلامی تہذیب و تمدن کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا، لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا اور حالات زمانہ بدلتے گئے، ثقافت کی حدود متعین کرنے میں ارباب فکر و نظر مختلف الجھنوں میں پڑتے گئے۔ مثلاً ممتاز حسن ایسا مفکر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ : ’’ثقافت کا شمار انتہائی مبہم اصطلاحات میں ہوتا ہے اور اکثر اس کا مفہوم غلط سمجھا جاتا ہے۔ ہم اس وسیع و عریض دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں ، آخر بحیثیت مسلمان کے ثقافت سے ہمیں کیا مراد لینی چاہئے۔ اس خاص مسئلے کو آج تک ہماری موجودہ ملکی نسل کے سامنے حتمی طور پر پیش نہیں کیا گیا۔
کیا رقص و سرور ہماری ثقافت ہے؟ کیا تصویر کشی اور مجسمہ سازی ہماری ثقافت کا کوئی حصہ ہے؟ یا ہماری ثقافت کا مظہر ہیں ؟ ہمارا سادہ اور صحت مند طرز بود و باش۔ ہمارے ارفع و اعلیٰ خیالات جو ہماری نظم و نثر میں جھلکتے ہیں یا ہماری خطاطی کے نمونوں میں نظر آتے ہیں ؟ کیا گندھارا اور موہنجوڈارو و آرٹ کے بڑے خزانے ہماری ثقافت کا مظہر ہیں ‘‘۔ جسٹس ایس۔ اے۔ رحمن کے ارشاد کے مطابق: ’’ثقافت، ادب اور آرٹ سے تعلق رکھنے والی ان سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں جن سے ہمارے خوش حال طبقوں کے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ثقافت ان لوگوں کی پوری زندگی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے جو ایک قوم کی حیثیت سے مل جل کر رہتے ہیں اور جن کو معاشرہ میں سرایت کرجانے والا ایک ایسا ہمہ گیر نقطہ نظر باہم متحد کر دیتا ہے جسے لوگ شعوری طور پر اپناتے یا خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں ‘‘۔ (امروز: 3دسمبر، 1967ء) بقول ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ: ’’کسی قوم کی ثقافت بنیادی طور پر اس کے مذہب کی تجسم ہوتی ہے‘‘۔ اس لئے اسلامی ثقافت کے تمام سرچشمے قرآن و حدیث سے پھوٹتے ہیں ۔ کتاب و سنت کے مطابق صحیح اسلامی زندگی ہی اسلامی ثقافت کا امتیازی نشان ہے اور اسلامی ثقافت کی روح وہ قومی روایات ہیں جو عہد رسالتؐ، عہد خلفائے راشدین، عہد صحابہ کرامؓ، عہد تابعین و تبع و تابعین کی یادگار ہیں ۔ اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے اور پورا عالم اس کے وطن کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے دوسری قوموں کی ثقافت کی طرح اسلامی ثقافت نہ ملکی آب و ہوا سے متاثر ہوتی ہے نہ وہ جغرافیائی حدود کے اندر محدود ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت چودہ سو سال سے ایک نہج پر چلی آرہی ہے۔ ا س کی بنیاد ناقابل تغیر اسلامی قانون پر رکھی گئی ہے، جس کا ہر مسلمان پابند ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتا ہو، مسلمان سوائے خدائے وحدہٗ لاشریک کے نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کی عبادت یا پرستش کرتا ہے۔ شخصیت پرستی، بت پرستی، تصویر کشی، مجسمہ سازی کے قریب نہیں جاتا نہ ہی عریانی و بے حیائی کا راستہ اختیار کرتا ہے،نہ راگ و رنگ پسند کرتا ہے اورنہ غلط روی یا جنسی انگیخت برداشت کرتا ہے۔ نہ وہ لہو و لعب یا خرافات و مکروہات کے قریب جاتا ہے بلکہ اعمال صالحہ، عمدگی معاملت، دیانتداری و خوش خلقی۔ انسانی ہمدردی اور خدمت خلق جیسے اوصاف حمیدہ سے فوراً پہچانا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہے اور یہی اسلامی ثقافت کے بنیادی مظہر ہیں ۔ باقی رہے فنون و ہنر، تعمیرات و تخلیقات وغیرہ یہ سب ہماری ثقافت کے جزوی مظاہر ہیں ‘‘۔
تاریخ بتاتی ہے کہ رقص یا ناچ کی بنیاد سب سے پہلے یہودیوں نے ڈالی۔ ڈاکٹر مِرلین ایل لکھتا ہے: ’’تہوار کے دن تمام یہودی اپنے معبود سنہری بچھڑے کی قربانی دینے کیلئے جمع ہوگئے۔ پھر سب نے اس کے آگے سجدہ کیا۔ بعد ازاں سب نے مل کر اس بچھڑے کے ارد گرد ناچنا اور گانا شروع کر دیا‘‘ (بائبل :1-5)۔ امام ابن الحاج لکھتے ہیں : ’’سب سے پہلے جنھوں نے ناچنے اور جھومنے کو ایجاد کیا تھا وہ سامری اور اس کے ساتھی یہودی تھے۔ جب سامری نے ان کیلئے ایک بچھڑا تیار کیا جس سے ایک قسم کی آواز آتی تھی۔ وہ یہودی اس کے گرد ناچتے اور جھومتے تھے۔ بس یہ ناچنا اور جھومنا کفار اور ان یہودیوں کی رسم ہے جو بچھڑے کو پوجتے تھے‘‘۔ (مدخل الشرع: ص100، جلد 3)۔ محمد بن قاسم نے جب سر زمین ہند پر قدم رکھا تو یہاں کم و بیش ہر شہر میں ہندوؤں کے سنگیت ودیالے موجود تھے جن میں رقص و سرود کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بڑھتے بڑھتے یہ رسم اسلامی دنیا میں بھی پھیل گئی، جس کے باعث اکثر اسلامی سلطنتوں پر زوال آیا۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : ’’جتنی اسلامی سلطنتوں پر زوال آیا ہے ان میں اکثر کا باعث یہی تھا کہ وہ بادشاہ ناچ گانوں کی محفلوں میں شب و روز مصروف رہتے تھے‘‘۔ اسی لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے دو احمق اور بیہودہ آوازوں سے منع کر دیا گیا ہے، ایک وہ آواز وجو لہو و لعب اور مزامیر یعنی گانے بجانے سے پیدا ہو اور دوسری وہ آواز جو بین کرتے وقت اور سینہ اور منہ پر پیٹنے سے پیدا ہو‘‘ (ترمذی، اغاشتہ اللہفان،137 ( ایک اور حدیث میں ہے کہ’’جو آدمی گانے بجانے کا کام کرے اور دوسرا وہ جو اپنے گھر میں گانے بجانے کا اہتمام کرے۔ ان دونوں پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیں ، جس کا اثر سات پشتوں تک رہتا ہے‘‘۔ جب کوئی قوم کسی غیر ملک پر قابض ہوتی ہے تو وہاں اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے سب سے پہلے وہاں کے نصاب تعلیم کو بدل کر اس میں غلامانہ ذہنیت کا درس دینا شروع کرتی ہے تاکہ وہ پھر آزادی کے خواب دیکھنے کے قابل نہ رہے۔ یہی کچھ انگریز اپنے ڈیڑھ دو سو سالہ عہد میں کرتا رہا۔
اس استعماری ثقافت نے اسلامی ذہنیت کا جنازہ نکال دیا اور اس ہزار سالہ ہندستانی تہذیب کا حلیہ بگاڑ دیا۔ مغربی تہذیب و ثقافت سرطان کی طرح پھیلنے اور بڑھنے لگی۔ تقسیم کے بعد ا س کے اثرات اور بھی نمایاں ہوگئے۔ یہاں کے ارباب اقتدار اور اونچے طبقہ نے اسلام کو قریب نہ آنے دیا؛ بلکہ ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اگر ہندو ماتا اور انگریز داتا کی خواہش کے مطابق دنیا کے نقشہ سے مٹ نہیں سکتا تو کم از کم اس میں اسلام پنپ نہ سکے۔ ثقافت کی ترویج و ترقی کیلئے باقاعدہ ایک محکمہ تعمیر نو قائم کیا گیا۔ اس کے ماتحت ثقافتی ادارے اور آرٹ کونسلیں قائم کیں ۔ جن میں زن و مرد کو رقص و سرود کی تعلیم اور تیغ و سنان کی بجائے طاؤس و رباب کی تربیت دی جانے لگی۔ فن موسیقی کو نصاب میں شامل کردیا گیا۔ رقص و سرود کی سرکاری سطح پر سرپرستی کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ارباب غرض نے بھی آرٹ کونسلوں اور آرٹ سنٹرز کے نام پر رقص و سرود کی تربیت گاہیں کھول لیں ۔ سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے ورائٹی شو او رکلچر شو منعقد کئے جانے لگے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر طوائفوں کو زیادہ سے زیادہ پروگرام دیئے گئے۔ ان کی آواز ہر گھر میں پہنچائی جانے لگی۔ یہاں تک کہ ننھے منے بچوں کو ناچ گانے سکھانے کی تعلیم و تربیت کا فرض بھی ٹیلی ویژن کے ذریعہ ادا ہونے لگا۔ دوسری طرف اشتراکیت نے اپنا زور صرف کرنا شروع کیا۔ ثقافت کے روپ میں اشتراکی ثقافت کا بیج بویا گیا ہے۔ محکم عقائد پر ثقافت کی آڑ میں ضرب لگائی گئی اور گمراہی، بے اعتقادی، خدا فراموشی، اخلاقی بے راہ روی پھیلائی جانے لگی۔ کتابیں لکھ کر ملکی ثقافت کے رشتے موہنجوڈارو کے تمدن یا مقامی ثقافتوں سے ملائے گئے۔ کہیں ویدانت اور ہندوانہ تصوف کو علاقائی ادب کے روپ میں اجاگر کرکے اسلامی ثقافت کے تانے بانے بنے گئے۔ بہت سے لوگ اشتراکی ثقافت کے شکار، تبدیلی، عقائد و اعتقاد کے باوجود مسلمان کہلاتے ہیں ۔ اپنا نام بدلے بغیر اپنے مسلمان گھرانوں میں رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مراسم کی پابندی کرتے ہیں ۔ عام کفار اور ملحدین تو اپنے عقائد و عادات کے ذریعہ بآسانی پہچانے جاتے ہیں مگر ملحدانہ اور کافرانہ عقائد رکھنے والے نام کے مسلمانوں کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے جو زیادہ تر اپنے اسلامی ناموں سے مسلمان گھرانوں کے چشم و چراغ بنے ہوئے ہیں ۔
اسلامی ثقافت کو دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس کا آغاز محمد رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب و تمدن کی عمارت عقائد باطلہ پر نہیں بلکہ لا الٰہ الا اللہ پر استوار ہوئی۔ جس وقت اسلامی تہذیب و تمدن نے فروغ پایا اس وقت پورا یورپ وحشت و بربریت میں ڈوبا ہوا تھا۔ گرد و پیش کی دنیا میں عام پستی اور اخلاقی زوال کا دور دورہ تھا۔ رابرٹ بریفالٹ نے ’’تشکیل انسانیت‘‘ میں اسلامی ثقافت کے بارے میں لکھا ہے: ’’یہ صرف سائنس ہی نہیں جس سے یورپ کے اندر زندگی کی ایک لہر دوڑ گئی، بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے اور بھی متعدد گوناگوں اثرات ہیں۔ جن سے یورپ میں پہلے پہل زندگی نے آب و تاب حاصل کی۔ پھر اگر چہ مغربی تہذیب کا کوئی پہلو نہیں جس سے اسلامی تہذیب و ثقافت کے فیصلہ کن اثرات کا پتہ نہ چلے، لیکن اس کا سب سے بڑا روشن ثبوت اس طاقت کے ظہور سے ملتا ہے جو عصر حاضر کی مستقل اور نمایاں ترین قوت اور ا س کے غلبے اور کارفرمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے‘‘۔
اسلام ہی وہ پہلا دین ہے جس نے مذہب کی صحیح حدود کو متعین کیا۔ اسے ذاتی ذوق سے نکال کر اجتماعی مقام عنایت کیا۔ فلسفے کو ایک نئی زندگی بخشی۔ تمام علوم و فنون کو یکجا کیا۔ اسلامی تہذیب و معاشرت کو بالکل بدل دیا۔ اسلام نے جغرافیائی حدود کو توڑ کر ایک ملت میں گم ہوجانے کا درس دیا۔ مرلین لکھتا ہے: یہ اسلام کی عالمگیر انسان دوستی کا نتیجہ تھا کہ قدم قدم پر اسے کامیابی ہوتی گئی اور جس کسی نے اسے قبول کیا۔ اس کے دل پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا۔ اس نے غریبوں اور مظلوموں کو نجات دلائی۔ ان رکاوٹوں کو مسمار کیا جو انسانی ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔ حیات انسانی کو آشنائے مقصد بنایا اور دلوں میں وقار اور احترام پیدا کر دیا۔ جہاں جہاں سے اسلام پہنچا وہاں فرد کی قدر و منزلت پہنچائی گئی اور ایک لازوال خود داری کا جذبہ لے کر انسان سنبھل کر کھڑا ہوا‘‘۔
اسلام نے نظریۂ توحید، رسالت،فرشتوں اور یوم آخرت پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ تصورِ زندگی پر دیگر مذاہب کی نسبت انسان کو واقفیت دلائی ہے۔ ہر انسانی تہذیب و ثقافت کسی نہ کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے۔ رسولوں کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔ فرشتے اللہ کی مقرب مخلوق ہیں۔ وہ اللہ کی حمد و تسبیح کرتے ہیں۔ ان سے زیادہ اسلام ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ رسول تہذیب و تمدن کا منبع اور مصدر ہوتا ہے۔خدا کے رسول کے مقرر کردہ اصول آفاقی اور مبنی بر حقیقت ہوتے ہیں۔ محمد رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو کفر اور باطل قرار دیا ہے وہ ہمیشہ کیلئے کفر اور باطل ہے جسے اسلام اور حق کہا وہ ابد تک اسلام اور حق ہے۔ اسی ٹھوس بنیاد پر اسلامی تہذیب و تمدن کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔ احسن الحدیث کتاب اللہ، احسن الہدیٰ، ہدایۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے بارے میں بتایا کہ ہر کارخانۂ حیات نیست و نابود ہوجائے گا۔ عدالت پروردگار قائم ہوگی افعال کے حقیقی نتائج مرتب ہوں گے جو عدل و انصاف کے مطابق ہیں۔
اسلام کا تصور زندگی دیگر اقوام سے جدا ہے۔ افراط و تفریط میں میانہ رو ہے۔ اسلام انسان کو نہ تو کلی مختار قرار دے کر متکبر ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ کائنات کی ہر شے خدائے بزرگ و برتر کی ہے اور اس کے تصرف کے بارے میں انسان اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چند حدود و قیود کے دائرے میں رہ کر اشیاء کو تصرف میں لائے۔ اگر اس نے ذرہ بھر بھی فرمودات خداوندی سے سر مو انحراف کیا تو سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ انسان کے ہر ارادے اور فعل کا مقصد رضائے الٰہی ہے۔ اسلام کی رو سے ہر ثقافتی فعل، خیال، ارادہ، زندگی، موت، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، رہنا سہنا، معاملات و معاشرت، دوستی اور دشمنی صرف اللہ کیلئے ہوتی ہے۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی حیاتِ مبارکہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا وجود صرف خوشنودی اللہ کیلئے تھا۔ وہ اپنے جسم مبارک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اسلام نے انسان کو معاشرتی زندگی بہتر طور پر گزارنے کا درس دیا ہے۔ اسلامی اصولوںکی رو سے ایک مثالی معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے۔ اسلام نے صفائی ستھرائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ چوری، غیبت، ڈاکہ زنی۔ گلہ اور حرام خوری کی اسلام نے سخت مخالفت کی ہے۔ ان برائیوں کے خاتمے سے دنیا کی بہترین ثقافت بن جاتی ہے۔ اسلام نے صفائی ستھرائی کو نصف ایمان کی شرط قرار دے کر ایک صاف ستھری ثقافت کی بنیاد رکھی ہے۔
اسلام نے جہاں انفرادیت پر زور دیا ہے وہاں ملت یا معاشرہ کا پابند بھی ٹھہرایا ہے۔ اطاعت امیر اور پابندی شریعت سے مسلمان ملت سے وابستہ رہ کر اس کے استحکام اور قوت کا باعث بنتا ہے۔ فرمایا گیا: ’’اگر تم پر کوئی ایسا حبشی غلام بھی جس کا سر منقیّٰ کی طرح چھوٹا ہو امیر بنا دیا جائے تو جب تک وہ حکومت کتاب اللہ کے مطابق چلائے اس کو سمع و اطاعت کرتے رہو‘‘۔ اسی طرح اسلام نے ملت کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین کی۔ گویا اسلامی ثقافت کی ابتدا کلمہ طیبہ سے ہوئی۔ اس کا اقتدار اللہ اکبر کے سائے میں اور انجام اطاعت امیر پر ہوا۔ اس سے دنیا کو نئی تہذیب ملی۔ نیا تمدن ملا۔ نیا نظام حیات ملا۔ اور یوں عرب کے ریگ زاروں میں پرورش پانے والی یہ ثقافت صرف ایک صدی میں سماٹرا سے پیرس تک پہنچ گئی۔
اسلامی ثقافت اور تہذیب اتنی قدیم ہے جتنی کہ نسل انسانی۔ اس کا آغاز پہلے نبی حضرت آدمؑ سے ہوا۔ اور اس کی تکمیل خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ انھوں نے اسلامی طرز زندگی ہمارے سامنے رکھا اور اس کے بعد ہر نبی وہی پیغام لے کر آتا رہا، حتیٰ کہ قرآن حکیم ہماری رہنمائی کیلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے پہنچ گیا۔ اسلام انسانیت کا دین ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کیلئے ہدایات جاری کرتا ہے۔ اسلام نے عالمی بھائی چارے اور اخوت کی تعلیم دی ہے۔ حج اور ایسی دیگر رسوم سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ امن، محبت اور نیک خواہی کا دین ہے۔ اسلامی ثقافت ایک تخلیقی تہذیب کا نام ہے۔ یہ انقلابی ذہن کی حامل ہے، جو توحید، عظمت انسانی، مساوات اور اتحاد عالم پر مبنی ہے۔ سیاسی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ثقافت دین اور سیاست کے آمیزے کا نام ہے۔
اہم خصوصیات:
(1 توحید: یہ کہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی مددگار نہیں۔ انسانی عظمت، مساوات اور اتحاد اسی مقصد کیلئے ہے کہ انسان توحید کا عَلم بند کرے۔
(2 ٹھوس اور پائیدار امن: اسلام امن کیلئے سائنٹفک بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
(3 تخلیقی اور آزادانہ سوچ: میلانات اور رجحانات سے قطع نظر اسلام نے تخلیقی اور آزادانہ غور و فکر کرنے اور زندگی پر متوازن نظر ڈالنے کی دعوت دی ہے۔
(4 فطرت کا مشاہدہ: یہ دین انسان کو کائنات پر بھرپور غور وخوض کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ قوانین فطرت کا مطالعہ کیا جاسکے۔
(5 تمام عالم انسانی اور کائنات: اس کا دائرہ کار پوری کائنات اور تمام عالم انسانی کو محیط ہے۔
(6 آزاد اور متحرک: اسلامی ثقافت آزادانہ نشو و نما پاتی ہے اور یہ متحرک ثقافت ہے۔ اس میں مسلمانوں کے مجموعی کارنامے شامل ہوتے ہیں۔
مثالی تحریک:
اسلامی ثقافت مثالیت کو تحریک دیتی ہے۔ یہ اخلاقی، سماجی، ذہنی اور سیاسی مثالیت کو پروان چڑھاتی ہے، جو کچھ یوں ہے:
(1 اخلاقی مثالیت: اخلاقیات اسلامی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور انسان کامل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بہترین انسان اخلاق کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’تم میں اللہ کے نزدیک بہتر وہ ہے جس کا طرز سلوک اچھا ہے‘‘ (13:9)۔
(2 سماجی مثالیت: اسلام ایک مثالی معاشرہ کی تخلیق کیلئے کوشاں ہے۔ جس میں ذات، نسل، رنگ، علاقہ، زبان یا دولت کا کوئی مقام نہیں بلکہ اخلاق اور خیر کے کرداروں کو معاشرے میں عظمت عطا کرتا ہے۔
(3 تعلیمی مثالیت: اسلام نے تعلیمی تلاش کو انتہائی اہم مقام دیا ہے۔ طلب علم ہر مسلمان کا فریضہ قرار دیا ہے اور عالم کی روشنائی کو شہیدوں کے خون سے افضل سمجھا گیا ہے (احادیث نبویؐ)۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ ’’فلاح صرف وہی لوگ پائیں گے جو علم رکھتے ہیں‘‘۔
(4 سیاسی مثالیت: اسلام ایک فلاحی ریاست کی تشکیل چاہتا ہے، جس میں الٰہی قوانین کی حکمرانی ہو اور تخلیقی ادارے موجود ہوں۔
اس تمام مثالیت کو ہم نے تاریخ اسلام کی مختلف مثالوں میں دیکھا اور پرکھا ہے اور یہ قابل عمل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلامی ثقافت نے عالمی تہذیب کے ارتقاء میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
دین اوسط:
اسلام کو ’دین اوسط‘ کہا گیا ہے؛ یعنی یہ افراط اور تفریط کے مابین ایک راہ نکالتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے: ’’پس ہم نے تمہیں ایک امت متوسط (متوازن) بنایا ہے‘‘ (40-42)۔اسلام تعصبات اور میلانات کی مخالفت کرتا ہے۔ ارشاد ہوا ہے: ’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھ جاؤ، جس کی حدود مقرر کرد گئی ہیں‘‘(171:4) ۔ اسلام مثالیت اور حقیقت روح اور مادہ غرضیکہ زندگی کے ہر دو پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور کسی ایک کو حد سے زیادہ نہیں نکلنے دیتا۔ نہ تو یہ رہبانیت کو پسند کرتا ہے اورنہ مادہ پرستی کی اجازت دیتا ہے۔ نہ عسرت اور تنگدستی اور قسمت پرستی کی اجازت دیتا ہے اور نہ ارتقازِ زر ہونے دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی ثقافت تمام ثقافتوں کا سنگم اور توازن ہے اور انتہا پسندی کی مخالف ہے، حتیٰ کہ آرٹ اور ادب میں بھی توازن اور اعتدال کا حامی ہے۔ سائنس کو اس ثقافت نے پروان چڑھا دیا مگر حد اعتدال سے باہر نہیں نکلنے دیا۔
(1توحید: اسلامی ثقافت کے خدو خال میں سب سے زیادہ نمایاں چیز توحید اور شرک سے بیزاری ہے۔ اس کی فضا ایسی ہے جس میں اس تحریک کے جراثیم ختم ہوکر رہ جاتے ہیں اور ان کے پنپنے اور بڑھنے کے امکانات بالکل صفر ہیں۔ یہاں صرف مرکز توجہ توحید الٰہی اور معرفت ربانی ہے۔ اس مطمحِ نظر کے تابع تمام دیگر افعال اور سرگرمیاں ہیں، اس لئے کہ ؎
وہ عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو … عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
(2 احترام انسانیت: دوسرا امتیاز جو ہماری ثقافت کو حاصل ہے وہ احترام انسانیت ہے جس کی بدولت معاشرے کے تمام افرادکو مساویانہ سلوک کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ قانون کی نظروں میں ان کی حیثیت یکساں ہے۔ ادنیٰ و اعلیٰ، امیر و غریب، آقا و غلام کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ عدل و انصاف نافذ رہتا ہے۔ظالم کو ظلم کے ارتکاب میں حد درجہ مزاحمت پیش آتی ہے۔ ظلم کی روک تھام کی ہر کوشش فرض سمجھی جاتی ہے اورمظلوم کی داد رسی میں سربراہِ حکومت کو بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔ حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے۔ ہر شخص کو آزادی نقل و حرکت، آزادی تقریر و تحریر حاصل ہوجاتی ہے اور اس پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی جس کا جواز قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو۔
(3 آفاقیت: تیسری صفت جو اسے دیگر ثقافتوں سے متمیّز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کسی خاص قوم، ملک یا کسی ایک نسل کا ورثہ نہیں بلکہ اس کی حدیں تمام کائنات اور جملہ نسل آدم پر حاوی ہیں اور اس میں مخصوص قومیت کی تنگ نظری نام کو نہیں۔ ہر وہ شخص اس ملت کا فرد تصور کیا جاتا ہے جو وحدتِ خداوندی اور رسالت ِنبیؐ کریم کا اقرار کرتا ہے۔ خواہ وہ کوئی سی زبان بولتا ہو، کسی رنگت کا ہو، مشرقی ہو یا مغربی؛ اس کی بودو باش اور طرزِ زندگی اسلامی رنگ میں رنگی جائے گی۔ اس لحاظ سے یہ ثقافت جامع اور آفاقی نوعیت کی واقع ہوئی ہے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2017