اسلامی معیشت

ہندستانی تناظر میں

Recessionکے بعد اسلامی معیشت پر مباحث کا سلسلہ کافی زور پکڑچکاہے۔ پچھلی ایک دہائی سے قبل اسلامی معیشت، اس کے اصول و ضوابط، اس کی قابلیت اور اس کے نفاذ کی شکلیں، جیسے مباحث ایک خاص حلقے تک محدود تھے۔ Recessionکے بعد فضا نہ صرف ہموار ہوئی بل کہ بحث ایک خاص حلقے سے نکل کر عام ہوچکی ہے۔ اب اسلامی بینکنگ، اسلامی مالیاتی ادارے، اسلامی انویسٹمنٹ اور ان میں استعمال ہونے والی اصطلاحیں جیسے مرابحہ، مشارکہ وغیرہ بھی ایک عام پڑھے لکھے شخص کے لیے کوئی چونکانے والی یا حیرت انگیز بات نہیں رہی۔

اس سنہرے موقعے کو ہمارے ملک میں معاشیات سے جڑے دانش وروں نے بخوبی استعمال کیا اور اپنی حد تک اسے پورے زورو شور سے فروغ دینے میں لگے ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں بہت سی ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے اس طرف توجہ دی اور اپنی دوسری مصنوعات میںاسلامی اصولوں کی بنیادپر تیار کردہ مصنوعات (Products)کوبھی شامل کیا اور مزید کوششیں جاری ہیں۔ حکومت ہند کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہوئی، کئی کمیٹیاں بنائی گئیں اور تقریباً ہر ایک کمیٹی نے امیدافزا رپورٹ پیش کی، جس سے اس جانب کوشش کرنے والوں کو مزید تقویت ملی۔ کئی مسلم انسٹی ٹیوشنس نے اس سے متعلق ماہر معاشیات کی مدد سے باضابطہ نصاب تیار کروایا اور مسلم طالب علموں کو اس جانب متوجہ کیا۔ روشن و تابناک مستقبل کی امیدیں دلائیں۔ مثلاً :علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ شانتاپورم وغیرہ﴾ مجموعی طورپر یہ بات نکھر کر سامنے آئی کہ اب اسلامی فائنانس ایک دقیانوس کہانی یا غیرماورائی حقیقت نہیں، بل کہ وجودمیںآنے والی ایک سچائی ہے جسے ہرعالم وعامی، ہر کامل و ناقص، ہر عاقل و غافل اور ہرمرد و عورت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ خواہ اس کا تعلق کسی مذہب وملت یاکسی بھی خطۂ ارض سے ہو۔

اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور اسلامی معیشت بھی اسی مکمل نظامِ حیات کا حصہ ہے۔ جہاں پہلے صرف دین و سیاست کی بات اسلامی روشنی میں کی جاتی تھی، اب دین و سیاست کے ساتھ معیشت کی بحث بھی اسی اسلامی روشنی میں اسی جذبے اور اخلاص کے ساتھ اور اسی احساسِ ثواب کے ساتھ کیاجائے گا۔ اِن شائ اللہ اب کوئی عالم یا جاہل ’’مالیات‘‘ کی بحث کو دنیا داری یا ’’مال و دولت‘‘ کی بحث نہیںسمجھے گا۔ ایک عرصہ لگا دین کی بحث میں سیاست کو شامل کرنے میں، ورنہ غیروں سے پہلے ہم نے سیاست کو دین سے جُدا کردیاتھا۔ الحمدللہ! اب صاحب علم کی اکثریت اسے بھی دین کاحصہ تصور کرتی ہے اور بلاجھجک اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ اسلامی معیشت کے تعلق سے موجودہ تبدیلی اور موجودہ کوشش اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اسلامی معیشت بھی ہر حلقے میںاسی شعوری نظر سے دیکھی اور سمجھی جائے گی۔

معاشیات کو محض ’’مال و دولت جمع کرنا‘‘ سے جوڑ کر دیکھنے کانظریہ ہی ملت کو ہمیشہ اس سے دور کرتا رہاہے۔ اگر اسلامی معاشیات کو مندرجہ ذیل باتوں سے جوڑکر دیکھاجائے تو مسئلہ آسان سے آسان تر ہوجاتاہے۔

۱- حلال رزق اور حلال روزگار کے مواقع ۲- عبادات

اسلام کی بنیاد موٹے موٹے طورپر دو چیزوں پر ہے:

۱-ایمان، ۲-اعمالِ صالحہ ﴿عبادات﴾

عمل کے صالح ہونے کی بنیاد ایمان کے بعد رزق حلال ہی ہے۔ اس کے بغیر عالم بے عمل ہوجاتاہے اور عمل بے اثر ہوجاتاہے اور جب کوئی عمل اپنا اثر کھودیتا ہے تو پھر مطلوب نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ پھر پوری عمارت بے مکین ہوجاتی ہے۔ عبادات بے روح ہوجاتی ہیں، دولت بے برکت ہوجاتی ہے، خوشنما الفاظ اپنے اثر کھودیتے ہیں، بظاہر باصلاحیت ملت کند اور بے وزن ہوکر رہ جاتی ہے، تحریکات منجمد ہوجاتی ہیں، کمیٹیاں اور ان کی قراردادیں محض اوراق کی زینت بن جاتی ہیں۔ قرآن و حدیث کاتذکرہ بھی نعوذباللہ محض پروگرام کو مزّین کرنے والے زرق و برق بن کررہ جاتے ہیں۔

معاش کے حلال ہونے کا مسئلہ بہت ہی اہم اور نازک ہے۔ آج اللہ کی نصرت کا شامل حال نہ ہونے کا بہت بڑا سبب حلال معاش اور حلال رزق کا نہ ہونا ہے۔ دوسری طرف بے روزگاری، بھوک اور افلاس کی مار اصل دین سے بڑھتی عملی و حقیقی دوری و بیزاری کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ حلال رزق اور حلال معاش کے مواقع پیدا کرنے کی طرف ہماری توجہ ہمہ جہتی ہونی چاہیے۔

اسلامی معیشت کے تعلق سے جو کوششیں ہورہی ہیں، سمینار اورسمپوزیم کی شکل میں، شریعہ بورڈ کی شکل میں، مختلف تحریکات کی جانب سے باضابطہ تشکیل شدہ شعبہ جات کی شکل میں وہ حوصلہ افزا بھی ہیں اور امید افزا بھی۔ موقع کا بروقت استعمال بھی۔ لیکن میں ان تمام لوگوں کی توجہ اس جانب بھی مبذول کراناچاہتاہوں جو مخفی ہیں اور شاید جس جانب اتنی جلد بہت زیادہ توجہ دینا ممکن نہیں تھا۔ کیوں کہ یہ خالص Implementationکی چیزیں ہیں جن کا انطباق عملی میدان میں ناگزیر ہے۔

ملت اسلامیہ ہند کا ایک خاص مزاج ہے اور یہ مزاج بڑا ہی خا ص ہوجاتاہے جب بحث دینی زمرے میں شامل ہوجائے۔ ملت بحیثیت کلمہ تو ایک ہے مگر بحیثیت مسلک و قیادت مختلف ہے۔ الحمدللہ! پرسنل لائ کے معاملے میں ملت متحد بھی ہے اور چوکنّی بھی۔ دوسری طرف وحدانیت و یکسانیت کے تصور کے باوجود جغرافیائی اعتبار سے، مزاج، پسند وناپسند اور ترجیحات میں بھی مختلف ہے۔ معاشی صورتِ حال، دینی شعور و بیداری اور دنیا کو برتنے اور پرکھنے کا شعور و انداز بھی مختلف علاقے کا مختلف ہے۔

یہ حقیقی صورت حال ہے اور کسی بھی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل زمینی حقیقت سے آگاہ ہوکر صحیح تجزیے کے ذریعے اقدام کرنا چاہیے۔ جہاں اخلاص کے ساتھ ساتھ طریقۂ کار کا درست ہونا بھی شرط ہے۔ کیوں کہ یہ محض ایک فرد کا ذاتی معاملہ نہیں ہے، بل کہ ایک نظام کے نفوذ کامعاملہ ہے۔ ملت جب اِسے دین و شریعت کی چیزیں سمجھے گی تو اس کا ردعمل بھی اسی اعتبار سے ہوگا اور اس کا حل بھی ان ہی کے ذریعے تسلیم شدہ ہوگا جو ان کے درمیان تسلیم شدہ عالمِ یا قائد ہیں۔ اس راہ میں مندرجہ ذیل کوششیں کارآمد ہوسکتی ہیں۔

الحمدللہ! ملت اسلامیہ ہند اس پرُفتن دور میں بھی متحد ہے اور ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ اس کازندہ ثبوت ہے۔ اس تعلق سے ایک مضبوط کوشش ملت میں بیداری کی مسلم پرسنل لابورڈ کے پلیٹ فارم سے شروع کی جانی چاہیے۔ گرچہ یہ اتنا سہل کام نہیں ہے، لیکن ضروری بہ ہر حال ہے۔ جو عمل جتنا بڑا ہوتاہے، جدوجہد بھی اتنی ہی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور اس سے بھی زیادہ اخلاص کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نتائج خوش آئند و پائیدار ہوتے ہیں۔ الحمدللہ اس جانب کوشش ہورہی ہے لیکن مزیدتوجہ کی ضرورت ہے۔ بل کہ ’’مرکزی توجہ‘‘ کی ضرورت ہے۔ بے شمار مشکلات جو اس راہ میں تجرباتی طورپر آرہی ہیں، وہ اِن شاء اللہ حل ہوجائیں گی۔

بہ حیثیت مجموعی ملت فائنانس Financeکی دنیا سے بے خبر ہے۔ معلوماتی اعتبار سے بھی اور تجرباتی اعتبار سے بھی۔ وجوہ کئی ہیں، مثلاً: سودی نظام، مالی تنگی، محدود نظریۂ معیشت اور سب سے بڑی وجہ بے وجہ کی آرام طلبی۔

پہلے اس ملت کو خواب غفلت سے جگاناہوگا، آرام طلبی کی جگہ جفاکشی اور متحرک ہونے پرآمادہ کرنا ہوگا اور رزق حلال اور حلال معاش کے مواقع پیدا کرنے کی اہمیت و ضرورت سمجھانی ہوگی،پھر اس کے بعد معاشی نظام اور اس کی مصنوعات کی تکنیکی باریکیاں بتانی ہوںگی۔ اس کام میں اگر تمام مکتب فکر کے علما اور دانش وروں کا گروہ شامل نہیں رہا تو یہ کام مزید مشکل اور حوصلہ شکن ہوجائے گا۔ یہ تجرباتی حقیقت ہے جس کا اندازہ صرف ان لوگوں کو ہے جو باضابطہ میدانِ عمل اور میدانِ نفاذ میں مصنوعات کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیوں کہ میدانِ عمل اور میدانِ مطالعہ و بحث دو مختلف چیزیں ہیں۔ مردم شناس ہونے کے لئے افراد کو عملی طورپر پرکھنا ہوتاہے۔ محض تحریر وتقریر اور کانفرنسوں یا Public Meetings سے اصلیت واضح نہیں ہوتی ہے۔ اس کی مثالیں موجود ہیں اور اس کا خمیازہ بھی لوگوں نے اور کمپنیوں نے بھگتا ہے اور جب حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں، امیدیں ختم ہوجاتی ہیں تو لوگ بدظنی و مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر نہ سمینارس کام آتے ہیں، نہ سمپوزیم اثرانداز ہوتا ہے اور نہ مقالات حوصلے کو جِلا دیتے ہیں۔

دوسری طرف ’’بہتی گنگا میں ہر شخص ہاتھ دھونا چاہتاہے‘‘ کے مصداق مختلف کمپنیاں بھی ان مواقع کو استعمال کرنے کی کوشش کریںگی، بل کہ کر بھی رہی ہیں۔ ایسے وقت میںایک بہت ہی شفاف اور مرکزی نگراں کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے لئے واپس اسی بورڈ کی طرف رجوع کرناہوگا جو پوری ملت کی نظر میں واحد اور معتبر تسلیم کیا گیاہے۔ ایک شریعہ بورڈ ہو اور وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا منظور شدہ یا تسلیم شدہ ہو۔ نہیں تو فرد یا کمپنیاں خود اپنی شریعہ بورڈ تشکیل دیںگی اور اپنے من پسند مصنوعات کو شریعت پسند (Sharia Complaint)بتاکر ملت میں فروخت کرنے کی کوشش کریںگی۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس سے ’’اصل‘‘ کی حقیقت میں کمی واقع نہیں ہوگی اور ’’نقل‘‘ جلد ہی منظرعام پر آجائے گا اور جتنا زیادہ ’’نقل‘‘ منظرعام پر آئے گا اتنا ہی زیادہ ’’اصل‘‘ نِکھرتا بھی جائے گا لیکن مقصد فوت ہوجائے گا۔ مقصد معاشی مسئلے کا حل ہے نہ کہ محض مسئلے کو واضح کرنے کا۔

ملت اسلامیہ ہند بہت حساس واقع ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ’’شریعہ‘‘ لفظ بدنام ہوگیا تو دوبارہ اعتماد بحال کرنا اور اس تعلق سے بیداری کی باتیں کرنا بہت ہی مشکل اور صبرآزما ہوگا۔ اس بات کابھی اندازہ ان لوگوں کو زیادہ ہوگا جو عملی طورپر ان مشکلات سے گزررہے ہیں اور نِت نئے تجربات سے واسطہ پڑرہاہے۔ ان کالی بھڑوں کو روکنے کے لیے بھی ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی پڑے گی۔ یہ باتیں میں اس لیے نہیں کہہ رہاکہ لوگ ہمت ہاردیں بل کہ اس لیے کہہ رہاہوں کہ خود کو مزید آلات سے لیس کرناہوگا تاکہ جدوجہد کسی اعتبار سے ناقص نہ رہنے پائے اور ہمیں یہ افسوس نہ ہو کہ ہم نے اس پہلو سے تدبیریں کیوں نہ کیں۔ جدوجہد کی راہ میں اور مقصد کی طلب میں مزاحم، حوصلے پست نہیں کرتے بل کہ مزید بلند اورمضبوط کرتے ہیں۔

یہ دور فتنوں سے بھرادور ہے۔ اللہ کے رسولﷺ  نے اس دور کے دو فتنوں کاتذکرہ کیا ہے۔ پہلا ’’عورت‘‘ دوسرا ’’مال‘‘۔ یہ فتنہ تب ہے جب انسان ان چیزوں کو مقصدِ حیات بنابیٹھتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا ان دو نقطوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ کہیں مال فتنے کی وجہ ہے کہیں عورت کی وجہ سے فتنہ ہے۔ کہیں انسان مال کا طواف کررہاہے تو کہیں عورت کی گردش کررہاہے۔ مقصد بتانا یہ ہے کہ پورا Corporate Worldجو اس وقت حاوی ہے، وہ ان دونوں فتنوں میں پوری طرح مبتلا ہے۔ خال خال لوگ ہی محفوظ ہیں۔ یہاں اخلاقی اقدار کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہاں قول وعمل کاتضاد روز کا معمول ہے۔ یہاں تصورحیات صرف اور صرف اپنی ترقی ہے اور ’’ھل من یزید‘‘ کی رٹ ہے۔ ایسے وقت میں ہماری ذمے داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور راہیں مزید صبر آزما ہوجاتی ہیں۔ دو صورتیں ہیں۔

پہلی صورت یہ ہے کہ یا تو قطع تعلق کرلیاجائے۔ اس سمت آگے ہی نہ بڑھا جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ داعی کا کردار ادا کیاجائے۔

پہلی صورت ایک عام، کم زور و مفلوج شخص کی ہے جس نے ہمت ہار دی ہے اور خود کو حالات کے حوالے کردیا ہے۔ وقت کے فتنے اسے جس طرف لے جائیں اس رُخ پر بغیرحرکت کیے ساکت پڑا رہے۔ دوسری صورت پُرعزم، باحوصلہ اور ایک ایسے مجاہدکی ہے جو اللہ کی اس زمین پر اللہ کے بندوں کو شیطانی قوتوں کے نرغوں سے آزادکرانے کی جدوجہد کررہاہے۔

ایک وہ شخص جو پوری ملّت کے لیے فکر مند ہوکبھی خاموش نہیں بیٹھ سکتاہے۔ اس کا ایمان اسے تماشائی کاکردار ادا کرنے نہیں دے گا، جس شخص کو حلال معیشت کی اہمیت کا اندازہ ہے، اس تعلق سے قرآن واحادیث میں موجود ہدایات واحکام، بشارتیں اوروعیدیںاس کی نظر سے گزری ہیں تو وہ خاموش تماشائی نہیں بن سکتا ہے۔

حرام کمائی کے ایک لقمے کے تعلق سے آتاہے کہ اس کی وجہ سے چالیس دن تک کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ، اس تعلق سے اللہ سوال کرے گا، انسان کا مقصد و جودعبادت ہے اور رزق کے حرام ہونے کی وجہ سے عبادات قبول نہیں ہوپاتیں۔ حلال معیشت کی ترغیب دینا تو عبادت کی روح ہے جس طرح نماز بغیر وضو کے نہیں، اسی طرح عبادت بغیر رزقِ حلال کے نہیں۔ یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہم فریضہ ہے۔

آج ملّت اسلامیہ جس صورتِ حال سے دوچار ہے وہ ناگفتہ بہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حلال وحرام کی تمیز کا فقدان ہے۔ آج وقت کے سب سے اچھے مقرر، محرر، خطیب، مدرس، معلم، حکیم موجود ہونے کے باوجود ملّت مسائل سے گھری ہے۔ انداز خوبصورت ہے مگر بے اثر ہے۔ مقاصد نظر سے اوجھل ہوچکے ہیں اور ذرائع مقاصد بن گئے ہیں، خوبصورت جسم باقی ہے، روح مومن فنا ہوچکی، وجوہ بھی ہوں لیکن معاف کریںگے۔ کیا عام کیا خواص۔ یہاں تو داعیانہ کردار ادا کرنے والوں نے بھی اس فکر کو بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے۔ دوڑتی بھاگتی دنیا اور اس کی چکاچوند نے ان سے بھی صبر اور عزیمت کا دامن چھین لیا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ اعتراض رہتاہے کہ یہ کام بغیر پورے Systemاور نظام کے ممکن نہیں ہے۔ جب تک پورا نظام اسلامی نہیں ہوجاتا تب تک یہ کام انجام نہیں پاسکتا ہے۔ معاف کریںگے چھوٹی منھ بڑی بات ہوگی، مگر کہنا تو پڑے گا ہی کہ پھر تو ایک صورت یہ بنتی ہے کہ اس نظام کا انتظار کیاجائے ۔ ’’خلافت علی منہاج النبوت‘‘قائم ہوگی پھر بقیہ کام کیاجائے گا۔ سوال یہ ہے پھر محض معیشت ہی کیوں؟ بقیہ عبادات کے تعلق سے بھی یہی سوال پیداہوگاکہ تعمیر خلافت اور بغیر خلیفہ کے یہ عبادات قبول ہوںگی یا نہیں؟ امامت و خلافت بھی تو شرط ہے۔ ایسی صورت میں کیا کریں؟ دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے کام کو اپنے سپرد نہ لیاجائے۔ ہم سے بازپُرس اس کی ہوگی جس کے ہم مکلف ہیں، جس کی ہم کوشش کرسکتے ہیں اور تبدیلی یکبارگی رونما نہیں ہوتی ہے، اس کے لیے مستقل جدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے اور موجودہ نظام میں رچنے بسنے کے بجائے اپنی حد تک دینی شعور کے مطابق راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی ایک داعی کا کام ہے۔ پوری ملّت کو مفلوک الحال اور سودی نظام کی غلاظت میں چھوڑکر بے دینی کی طرف رغبت دینا تقویٰ کی علامت نہیں ہے اور نہ یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ داعی کو اپنی سکت بھر ان کو آگاہ کرنا ہوگا اور متبادل پیش کرنا ہوگا۔

ملّت اسلامیہ ہند کی اِس وقت کیا صورت حال ہے ا س سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ معاشی تنگی بہت بڑی وجہ ہے بے دینی اور جاہلیت کی۔ جب تک اس مسئلے کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی جائے گی آپ لاکھ کوشش کرلیں مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتا جائے گا۔ انسان کو اچھی باتیں بھی تبھی بھلی لگتی ہیں جب اس کا شکم بھرا ہوتاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ یہودیوں نے اپنے پروٹوکول میں یہ بات روزِاوّل سے تول کر رکھی ہے کہ مسلمانوں کو کم زور کرنے کے لیے دو کام کرنے ہیں۔ پہلا قرآن سے دوری اور دوسرا شکم میں لات ﴿افلاس کا شکار﴾ ابھی بھی ہندستان کے تناظر میں بھی جو دقتیں تجرباتی طورپر اور بڑے Levelپر پیش آرہی ہیں، وہ انھی ذہنوں اور ان جیسے لوگوں ﴿مثلاً :گجراتی، سندھی، ماڑواڑی﴾ کی طرف سے پیدا کی جارہی ہیں۔ ان کی دلی خواہش ہے اور عملی کوشش بھی کہ مسلمانوں کو عملی طورپر اس Financeکی دنیا سے دور رکھاجائے۔

یہ کام بہت بڑا ہے اور صبرآزما بھی۔ اس کام سے اِن شائ اللہ بہت سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوںگے اور اللہ نئی راہیں بھی دکھائے گا۔ ضرورت اخلاص کے ساتھ عبادت سمجھ کر داعیانہ کردار ادا کرنے کی ہے۔ ہمارا کام ہے پوری تیاری کے ساتھ مستقل جدوجہد کرنا۔ ہم اسی کے مکلف ہیں۔ اللہ ہمیںاخلاص اور للہیت کے ساتھ صحیح سمت میں کوشش کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!‘‘

مشمولہ: شمارہ جون 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223