دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے پر دنیا کا سیاسی منظرنامہ دو ایسے ملکوں میں منقسم ہوکر ابھرا جو ایک دوسرے کے حریف تھے اور اس طرح دنیا اب ایک سرد جنگ کے دور سے گزر رہی تھی۔ اس ماحول میں جن چند ممالک نے خود کو اِن دونوں بلاکوں سے الگ ہوکراپنی خارجہ پالیسی کو ناوابستگی کے اصول کے مطابق بنانے کی کوشش کی اُن میں یوگوسلاویہ فیڈرل ریپبلک کا مقام بہت اہم تھااُسے دونوں بلاک اپنا ہم نوا بنانے میں کوشاں تھے جس کے نتیجے میں ملک معاشی خوشحالی کے دور سے گزررہاتھا۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں سوویت بلاک کی یکایک شکست و ریخت کے بعد سرد جنگ کاماحول ایک جھٹکے میں ختم ہوگیا۔ اب مغربی ممالک کے سامنے دو نئے چیلنج تھے: ایک تو سوویت یونین کو ٹوٹنے سے بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل، دوسرے یورپ میں ایک مشترکہ یوروپی سکہ نظام کے قیام کے مسائل۔ ایسے وقت میں جب دنیا کی بڑی طاقتیں ان مسائل میں الجھی ہوئی تھیں یوگوسلاویہ فیڈرل ریپبلک میں شریک ممالک میں باہم خونریزٹکرائو شروع ہوگیا۔ اس معاندانہ ہتھیار بند خونریزی نے جو ایک دہے تک جاری رہی یورپ کے اس مشرقی خطے میں جسے ہم بلقان کے علاقے کانام دیتے ہیں ایسی تباہی مچائی جو اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھی گئی تھی۔ خونریزی کے اس دردناک ماحول کے ختم ہونے تک تقریباً ڈھائی لاکھ انسان مرچکے تھے یا لاپتہ ہوگئے تھے اور ۵۲ لاکھ پناہ گزین بن گئے تھے، سینکڑوں گائوں اور پورے شہر کھنڈر میں تبدیل ہوگئے تھے۔
پورے علاقے میں آباد ایک نسلی اورمذہبی اکائی کی دوسری اکائیوں کے خلاف پیدا غصے کے جذبات کی جن کا نتیجہ یہ خونریزی تھی کے روزاول ہی سے دوخصوصیات تھیں:
۱- نسلی تطہیری- ایک خاص نسل اور مذہب کے لوگوں کو اجتماعی طورپر ان کے اپنے گھروں سے باہر نکال کر ان کے مکانوں کو آگ لگادینا، انھیں لوٹنا،قتل کرنا اور ان کی خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کرنا اور یہ سب محض اس وجہ سے کہ وہ ایک ’’غلط‘‘ نسل اور مذہب کے فرد تھے۔
۲- منصوبہ بند ڈھنگ سے اور دانستہ طورپر ان کی ثقافتی، مذہبی اور تاریخی شناختوں کو جن میں کتب خانے، مخطوطات کے ذخائر، دستاویز خانے ﴿آرکائیوز﴾ اور عبادت گاہیں شامل تھیں، نشانہ بناکر انھیں تہس نہس اور تخت وتاراج کرنا۔
ڈبرونک (Dubrovnik)۔ بلقان جنگ کے ثقافتی بربادی کے بہت سے واقعات میں پہل عہدوسطیٰ کے دور کی بنی ہوئی دیواروں سے گھرے کروشیا کے شہر ڈبرونک سے شروع ہوئی۔ یہ شہر ۹۷۹۱ئ سے یونیسکو کے ’’ورلڈ ہیریٹیج مقام‘‘ کی حیثیت سے خصوصی تحفظ کا مستحق قرار دیا جاچکاتھا۔ اکتوبر ۱۹۹۱ئ میں سربیائی نسل کے لوگوں کی سربراہی میں یوگوسلائو ملیشیا (JNA) نے شہر کامحاصرہ کرلیا اور اس وقت سے ۲۹۹۱ئ کے شروع کے مہینوں تک وہاں گھرے ہوئے تقریباً آٹھ ہزار باشندوں اور شہر کے مرکزی علاقے کو زبردست بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس محاصرے کا سب سے بُرا دن ۶/دسمبر ۱۹۹۱ئ کاتھا جب کہ بیرونی اخبار نویسوں کے مطابق بمباری کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ’’ہر پندرہ منٹ کے وقفے سے بڑی توپوں کے ذریعے علاقے پر بم برسائے جارہے تھے۔‘‘ اس بمباری کے نتیجے میں شہر کی ۴۸۲ عمارتوں میں سے دو تہائی عمارتیں یا تو مکمل طورپر تباہ ہوگئیں یا اُن کے کچھ حصوں کو شدید نقصان پہنچا اور ۸۰/افراد بمباری میں ہلاک ہوگئے۔ محاصرے کے دوران نشانہ لگاکر توڑی جانے والی عمارتوں میں ڈبرونک کے کتب خانے بھی شامل تھے۔ انٹریونیورسٹی سنٹر جو ۱۷۹۱ئ میں قائم کیاگیاتھا اور جو ایک آزاد تحقیقی نوعیت کا ادارہ تھا اس کے کتب خانے پر ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء کو آگ لگانے والے بم پھینکے گئے، نتیجے میں کتب خانے کا تیس ہزار ﴿۳۰،۰۰۰﴾ جلدوں کا ذخیرہ جل کر راکھ ہوگیا۔ اسی دن شام کے وقت یوگوسلاؤپیوپلس آرمی نے شہر کے عقب میں بلندی کے مقام سے سولہویں صدی میں تعمیر اسکوچی بوہا (Skocibuha) محل پر راکٹ پھینکے۔ یہ محل دراصل ڈبرونک سائنٹفک کتب خانہ تھا جہاں عہدوسطیٰ کے مخطوطات، عہد نشاط الثانیہ کے سائنس دانوں کے مراسلات اور تقریباً ڈھائی لاکھ مطبوعات تھیں جن میں تقریباً ۱۳۵۰۰ کتابیں، ۱۸۰۸ء سے پہلے کی چھپی ہوئی تھیں۔ کتب خانے کے عملے اور دوسرے معاونین نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ذخیرہ تو بچالیا لیکن عمارت بری طرح جل گئی۔
سراجیو (Sarajevo) اپریل ۱۹۹۲ء میں پیوپلس افواج نے بوسنیا کے دارالحکومت کا محاصرہ کیا جو ساڑھے تین سال تک جاری رہا۔ محاصرین نے شہر کو گھیرے میں لئے ہوئے پہاڑیوں پر سے شہر پر گولیاں برسائیں۔ ایک اندازے کے مطابق شہر کے ۱۲۰۰۰/افراد ہلاک ہوگئے اور ۵۰،۰۰۰ بُری طرح زخمی ہوگئے۔ اس محاصرے کاایک نشانہ بوسنیا یونیورسٹی ، کتب خانہ اور قومی کتب خانہ تھے۔ دونوں کتب خانے شہر کے مرکزی مقام سراجیو سٹی میں قائم تھے۔ ایک اندازے کے مطابق کتب خانے میں خصوصیت نوعیت کے ذخائر، مخطوطات اور نادر کتابوں پر مشتمل دو ملین علمی مواد تھا۔ اس کے علاوہ ملک کی مطبوعات ، اخبارات اور رسائل کا قومی ذخیرہ بھی یہاں تھا۔ یونیورسٹی کے تحقیقاتی کاموں میں درکار مواد کا بنیادی ذخیرہ بھی اسی کتب خانہ میں موجود تھا۔ اس کتب خانے پر ۲۵ تا ۲۷/اگست ۱۹۹۲ء مسلسل آگ برسائی جاتی رہی جس کی وجہ سے عمارت جل گئی اور کتب خانوں کے ذخائر کا ۹۰فیصد حصہ راکھ میں تبدیل ہوگیا۔ اخبارنویسوں کی رپورٹ کے مطابق ’’بوسنیائی دارالحکومت زبردست بمباری کی زد میں تھا اور آگ بجھانے والے عملے کئی بار آگ بجھانے میں کامیابی حاصل کرلی لیکن لائبریری کی عمارت بار بار نئے حملے کی زد میں آتی رہی اور آخرکار عمارت شعلوں میں گھرگئی۔ سربیائی جنگجوئوں نے جو سراجیو کو گھیرے میں لئے پہاڑیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، کتب خانے کے اطراف کو مشین گنوں کی گولیوں سے ڈھانک دیا تاکہ آگ بجھانے والے کامیاب نہ ہوسکیں۔ جب ہم نے فائربریگیڈکے افسر اعلیٰ سے پوچھاکہ وہ اپنی جان خطرے میں کیوں ڈال رہا ہے تو وہ بولا ’’کیونکہ میں یہاں پیدا ہواتھا اور یہ لوگ ﴿سربیائی فوج﴾ میرے جسم کے ایک حصے کو جلارہے ہیں۔‘‘ ایک بیرونی اخبار نویس سے بچانے والوں میں سے ایک شخص نے کہا ’’ہم بمشکل چند بے حد قیمتی مخطوطات بچاپائے، سب کچھ جل گیا، ہمارا ورثہ ، ہماری قومی تاریخ یہاں راکھ میں پڑی ہے۔‘‘ ﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ مئی 2013