محترم سعادت اللہ حسینی نائب امیر جماعت اسلامی ہند کا ایک مضمون پاکستان کے باوقار رسالہ ’عالمی ترجمان القرآن‘ کے دسمبر 2015ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مضمون نہایت معرکۃ آرا ہے، لیکن تحریک اسلامی کی ناکامی یا سست رفتاری میں صرف علمی اور فکری سطح کی بنیادوں میں کم زوری کا واقع ہونا نہیں ہے بلکہ بلند کردار کا فقدان بھی اس کی وجہ ہے۔ فاضل مضمون نگار نے جگہ جگہ فکری اور علمی کم زوری ہی کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔
کسی بھی تحریک کی کام یابی کے لئے ضروری شرط اہل تحریک کا اونچے کردار کا حامل ہونا ہے۔ چنانچہ کمیونسٹ تحریک کے پیچھے ان کے اعلیٰ قائدین کی بے شمار قربانیاں ہیں۔ اسی طرح نکسلائٹس کی قربانی کا مقابلہ کوئی تحریک نہیں کرسکتی۔ جنگلوں میں رہنے والے جیالے ایسے ہیں کہ ملک میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے ان کی فکر و فلسفے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امیروں اور غریبوں میں معاشی طور پر نابرابری نہ رہے بس وہاں نہ فکر و نظر ہے نہ تحقیق و اکتشاف ہے۔ صرف دو جمع دو چار کی طرح کی فکری بنیاد ہے مگر ان کی قربانیاں بے شمار ہیں ۔ علامہ اقبالؔ نے کہا ہے
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
حسینی صاحب کی اس بات سے کامل اتفاق ممکن نہیں ہے کہ فکر و نظر کا محاذ اہم ترین محاذ ہے، بلکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارا اصل محاذ کردار کی بلندی ہے اس نمونے کے مطابق جو ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا تھا۔ حسینی صاحب نے فکری و نظریاتی سرمایہ کو لائف یا سرمایہ زندگی قرار دیا ہے ۔ وہ لائف اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ اعلیٰ کردار کے حامل ستونوں پر کھڑا ہوا ہو۔ موصوف فرماتے ہیں کہ فکری تحریکیں انتشار سے مرتی ہیں ‘ یہ خیال خام ہے، بلکہ میرے خیال میں تحریک کے کارکنوں کی مفاد پرستی اور خود غرضی کی وجہ سے مرتی ہیں۔ ان کی فکر ابتداء سے انتہاء تک برقرار رہتی ہے، مگر قائدین کے مادہ پرستانہ رجحانات تحریک کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور تحریک ناکام ہوجاتی ہے۔
ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کو زوال کیوں آیا؟ جیوتی باسو، جو بنگال کے چیف منسٹر تھے ‘ اپنے بیٹے کے نام سے ایک بسکٹ فیکٹری لگاکردی، اس کے بعد دیگر قائدین نے بھی دولت جمع کرنا شروع کردی، چنانچہ 30 سال تک حکمران رہنے والی پارٹی کو ایک عورت نے شکست دے کر مضمحل کردیا۔ اب بھی توقع نہیں ہے کہ وہ بنگال کے تختِ اقتدار کو دوبارہ حاصل کرسکیں گے ۔ انا ہزارے کی شخصیت کیوں اس قدر مقبول ہوئی؟ اپنا وظیفہ غریبوں کے حوالہ کرکے وہ ایک مندر کے کمرہ میں زندگی کے دن کاٹ رہے تھے ۔ مدر ٹریسا کو جو مقام ملا وہ یوں ہی نہیں ملا۔ کچرے کے ڈھیر میں پڑے ہوئے نیم مردہ مریضوں کو لاکر وہ ان کی تیمار داری کرتیں اور صحت یاب ہونے پر ان کو کاموں سے لگادیا کرتیں۔ ایسے کردار نہ آج مسلمانوں میں ہیں اور نہ ان کی تحریکات میں ہر شخص معاوضہ لے کر کام کرتا ہے ۔ آج تبلیغی جماعت کو جو مقبولیت حاصل ہے وہ ان کی فکری و نظریاتی قوت نہیں ہے، بلکہ ان کے اخلاص اور قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔ بغیر کسی پوسٹر ‘ اشتہار یا پریس کی مدد کے لاکھوں لوگوں کو جمع کرلیتے ہیں۔ وہ ان کی قربانی اور اپنے جیب سے خرچ کرتے ہوئے گھر بار چھوڑ کر قریہ قریہ گھومتے پھرنے کا نتیجہ ہے۔ یہاں حال یہ ہے کہ قائدین موٹروں اور ہوائی جہازوں میں دورے کرتے ہیں ۔ ایسی تحریک میں جمود و انحطاط نہیں آئے گا تو اور کیا ہوگا؟
سن تو سہی جہاں میں تیرا فسانہ ہے کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
ہمارے ارکان اور متفقین بھی قریہ قریہ دورے کریں ‘ مسجدوں میں قیام کریں ‘ اپنے ذاتی پیسوں سے سفر کریں ‘ گھر گھر جاکر مسلمانوں سے ربط پیدا کریں۔ تحریک اسلامی کے پاس اخبارات و رسائل ہیں‘ ٹیلی فون اور دفاتر ہیں ‘ کاریں ہیں ‘مگر عوام میں ان کی ویسی مقبولیت نہیں ہے جیسی کہ تبلیغی جماعت کی ہے ۔
فاضل مضمون نگار کے اس خیال سے ہم اتفاق کرسکتے ہیں کہ تحریکی فکر ٹہر گئی ہے، لیکن ٹھیراؤکی بڑی وجہ بعض قائدین ہیں، جو برسہا برس سے منصبوں پر فائز ہیں اور متحرک افراد کے لیے جگہ خالی نہیں کرتے ۔ قائد عافیت پسند ہوں تو تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی۔ حق گوئی و بے باکی تحریکوں کا وصف ہوتا ہے ۔ ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا ہمارا فرض منصبی ہے علماء یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے اپنی کتاب پاک میں ’’انما یخشیٰ اللہ من عباد ہ العلماء ‘‘ فرما کر ان کا اعزاز بڑھایا ہے ۔ لوگ کم زوروں بزدلوں کے پیچھے کبھی نہیں آتے ۔ ایک ہوتی ہے تنظیم ،دوسرے ہوتے ہیں افراد تنظیم تحریک کے مفاد کو پس پشت ڈال کر اہل تحریک کے مفاد کو تقویت دینے سے تحریک آگے کیسے بڑھ سکتی ہے ۔ موٹر کار اسی وقت دوڑ سکتی ہے جب انجن کے تمام پرزے اچھی طرح کام کررہے ہوں اور گاڑی پٹرول موجود ہو، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ڈرائیور کا عزم و حوصلہ قریب الختم ہے۔ اس صورت میں کار وہ رفتار پکڑ نہیں سکتی جو کہ مطلوب ہے ۔ وہ اپنی جگہ کھڑی ہوئی ہے‘ مگر ڈرائیور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ گاڑی تیز رفتاری سے آگے دوڑ رہی ہے۔ اخباروں میں صرف خبریں شائع ہونے سے ہم خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ فاضل مضمون نگار کا یہ تاثر تحریک جامد ہوچکی ہندوستانی تحریک کے بارے میں صحیح ہوسکتا ہے ،مگر عالم اسلام میں کئی تحریکات اسلام کو نافذ کرنے کے سلسلہ میں آگے بڑھ رہی ہیں اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کررہی ہیں۔ بقول علامہ اقبال ؎
موت ہے وہ زندگی جس میں نہ ہو انقلاب
فاضل مضمون نگار نے اپنی تحریر میں کسی قدر ابہام سے کام لیا ہے۔ تحریک اسلامی کے بارے میں تحریر نہایت واضح دوٹوک اور بنا کسی ابہام کے ہو نی چاہیے ۔ مولانا مودودی کے علمی کاموں کا مختصر جائزہ ہے، مگر ان کے عظیم علمی کام کی موجودگی میں تحریکی افراد کو بے مائیگی کا احساس دلارہے ہیں۔ آخر مولانا کے علمی کارناموں سے کیوں ہم بیگانہ بنے رہیں؟ مولانا کے کاموں کی افادیت( validity (ان کے انتقال کے بعد پچاس سال تک بھی ہمارے لیے عصری ہتھیار کا کام دے سکتی ہے۔ سرمایہ داری اور کمیونزم کے تعلق سے مولانا کی پیش قیاسی بالکل صحیح ثابت ہوئی ہے ۔ یہ شکایت کہ ہمارے پاس فکری سرمایہ کی قلت ہے، ایک موہوم تاثر ہے۔ اس فکری سرمایہ کو لے کر ہم کو میدانِ عمل میں اترنا ہے
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
مضمون کا غیر شعوری تاثر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحریک کے میدانِ عمل میں نہ آنے کا ایک عذر ہے اور اضمحلال کے لیے گویا جواز فراہم کیا جارہا ہے ۔ تحریک کے دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ اس مضمون کا گہرائی سے جائزہ لیں ۔
ہم خدا خواہی ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016