تحریکِ اسلامی ، شناخت اور دائرہ کار

ہر تحریک اپنی فکر، پالیسی، مقاصد اور طریقۂ کار کی بنیاد پر منفرد ہوتی ہے، اس کی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ مختلف شعبہ جات ہو تے ہیں۔ مختلف تہذیب و سلوک  ہوتا ہے۔ مخصوص شعائر ہوتے ہیں، طرزواطوار اور رہن سہن بھی اسکی وجہ شناخت ہوتی ہے۔ جو بات ہر تحریک میں یکساں ہوتی ہے، جس کے بغیر کوئی گروہ تحریک نہیں کہلا سکتا وہ اس کی تحریکیت، اس کی تنظیم، اس کی چلت پھرت ہے۔ یہ خصوصیت دینی و غیر دینی تمام تحریکوں میں یکساں ہے لیکن تحریکِ اسلامی کا مزاج، اس کی تحریکیت اورتنظیم قرآن و رسول کا پر تو اور عکس ہو تا ہے۔جو گروہ دنیوی مقاصد کے لئے تشکیل پاتا ہے ان کے دلوں میں تنگی، اذہان مفاد سے پر اور خیالات مادّہ پرستانہ ہو تے ہیں اور جس  وقت یہ چیزیں گروہ  کے مقاصد پر حاوی ہو جاتی ہیں انسان ذات، مفاد، منصب اور عزّت جیسے مختلف مجسّموں کی پرستش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر ا سکی تحریکیت و تنظیمیت فنا ہو جاتی ہے اور انا کی تسکین کی خاطر کسی اور مشغلےکی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔

مقصد و نصب العین، ارکان، اور لگن و تڑپ سے تحریک  وجود میں آتی ہے۔ مقاصد و نصب العین کے تئیں دل میں تڑپ اور عمل میں دھن و اضطراب کی کیفیت جب تک ارکان میں مو جود ہے تحریک میں جمود نہیں آ سکتا۔یہ لگن و تڑپ ارکان میں باقی رہے اس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ تحریکی قائد ہمیشہ اپنے طر یقۂ کار اور پالیسی پر تدبّر و تفکّر کی نگاہ رکھے رہیں۔ تحریک جب حرکت میں آتی ہے اور اپنے نصب العین کی طرف گامزن ہوتی ہے تو پھر مختلف مراحل و منازل کا سامنا ہو تا ہے۔ دنیوی تحریکات اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے افراد کی رضامندی کا خیال کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے طے کر تی ہیں(افراد انکے یہاں اصل سر مایا ہوتے ہیں)؛ تحریکِ اسلامی جس کے مقاصد ذاتی، گروہی اور دنیوی نہیں ہوتے بلکہ قرآنی و انبیائی ہوتے ہیں، اس کے یہاں فیصلے افراد کی رضامندی و ناراضگی کا لحاظ نہیں کرتے بلکہ قرآنی دلائل اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں حالات و کوائف کو سامنے رکھتے ہوئے طے پاتے ہیں قطع نظر اس کہ جمہورِ تحریک رضامند ہیں یا نہیں۔ ریفرنڈم کے ذریعہ بھی اسلامی تحریک کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے ۔ یقیناََ تحریکی افراد کی رائے قابلِ قبول اور غوروفکر کی متقاضی ہو گی۔

تحریکِ اسلامی اپنی تحریکیت اور اپنا جاہ و جلال کھو بیٹھتی ہے جب فیصلے دینی استدلال کے بجائے محضـ منطق کی بنیاد پر ہونے لگتے ہیں۔ انا و ذات کی تسکین کی خاطر قرآنی دلائل کے واضح و بیّن احکام کو مہمل و مبہم بنا کر پیش کیے جانے لگے ۔ تحریکِ اسلامی اپنی تحریکیت اس وقت بھی کھو بیٹھتی ہے جب کسی غیر ضروری عمل و ذریعہ کو سودمند سمجھا جانے لگتا ہے۔ حالات، زمانہ، بیروزگاری، صحت وغیرہ جیسی حقیقت سے جذباتی و وقتی لگاؤ کی بنیاد پر نصب العین کے بر عکس اہداف متعیّن کئے جانے لگتے ہیں۔ ایسے میں تحریک ’’یک رخی‘‘ نہیں بلکہ ’’ کثیر رخی‘‘  ہوجاتی ہے۔ متعصّبانہ اختلافات کے دروازے وا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔  تحریکی مقاصد نظر سے اوجھل ہونے لگتے ہیں، ذوق و شوق میں تبدیلیاں واقع ہونے لگتی ہیں۔ شعبہءجات میں دن بدن اضافہ ہونے لگتا ہے، ہر سمت میں اپنی رفتارِکار بڑھانے کی فکر ستانے لگتی ہے۔ پھر وسائل کی تنگی کا احساس اور افراد کی کمی بھی کھلنے لگتی ہے۔ صلاحیتوں کا فقدان بھی دکھنے لگتا ہے۔ ارکان پر ہر شعبہ کے تئیں جوابدہی اور مزید کام کا اضافہ دھیرے دھیرے بوجھ سا لگنے لگتا ہے۔ نتیجتاََ لگن و تڑپ میں کمی آجاتی ہے اور ’’دینی کام‘‘  محض ’’ دفتری کام‘‘  ہو کر رہ جاتا ہے۔ نئے افراد کی شمولیت نصب العین سے اتّفاق و محبّت کی جگہ مختلف شعبہءجات کی ضرورتوں کی روشنی میں کیا جانے لگتا ہے جس کی وجہ سے پیشہ ورانہ ذہنیت والے افراد کے داخلے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اعدادوشمار کے ذریعہ اہداف طئے کیے جانے لگتے ہیں اور اسے ہی کامیابی اور ناکامی کا معیار سمجھا جانے لگتا ہے۔اخروی کامیابی،  آخرت میں جوابدہی کا احساس، دین میں سبقت لے جانے کے لئے مجاہدہ، محض رضائےالٰہی کا جذبہ۔۔۔۔جیسی بنیادی خصوصیات کی جگہ محض مغربی اصول پسندی کا نظام لے لیتا ہے جہاں انسان محض ڈیوٹی کرتا ہے، جہاں عمل کا تعلّق قلب کے بجائے  پروموشن اور تنخواہ سے ہو تا ہے۔

ایسے حالات میں تحریکی افراد دوسری دنیوی تنظیموں سے متا ثّر و  مرعوب ہونے لگتے ہیں۔مختلف اقسام کی تبدیلی اپنی تحریک میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جگہ جگہ دینِ سلام اور اس کے نظامِ رحمت کی بیشمار موجود مثالوں میں سے حوالے پیش کرنے کے بجائے دنیوی تنظیموں اور کاروباری کمپنیوں اور اسکے مالکان کو بطورِ مثال پیش کرنے لگتے ہیں۔ تحریک کے طریقئہ کار کی ہی  جدید کاری کی بات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ تحریک جس بنیاد پر تشکیل پاتی ہے ان بنیادوں پر سوالات کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ رفتارِزمانہ اور رفتارِتحریک میں ایک عجیب و غریب توازن کے خواہشمند ہو جاتے ہیں۔

کبھی کبھی تحریک  طریقہ کار اور حکمتِ عملی کے نام پر سہل پسندی کی طرف راغب ہو جاتی ہے تا کہ تحریک کو مشکل مراحل سے پوری تنظیمی ہیئت کے ساتھ نکالا جا سکے، ایسے میں تحریک بصورت تنظیم تو بچ نکلے گی لیکن اس حکمتِ عملی سے اس کی سمت، اس کے کاز و مقاصد زبردست پیمانے پر متاثّر ہوں گے۔ تحریک کی تنظیمیت بچانے کی ایسی کو شش اسلامی تاریخ میں کبھی کامیاب کوشش نہیں کہی گئ۔  تحریک بنتی ہے مقاصد کی طرف پیش رفت کے لئے ۔ تحریکِ اسلامی محض تنظیمی خاکے کی حفاظت کی خاطر وجود میں نہیں آتی بلکہ موقف پر صبر کے ساتھ ڈٹے رہنا مقصود ہوتا ہے، بلا خوف و تردّد کہ تعداد کتنی ہے اور انجام کیا ہوگا۔تعداد زیادہ ہو بے اثر ہو( اکثر ایسا ہی ہوتا ہے)تعدادکم ہو مؤثّر ہو زیادہ سودمند ہے۔

تحریک دیوانوں و سرپھروں سے بھری ہونی چاہیئے، ایجنڈے  ہمیشہ اہلِ دماغ طئے کرتے ہیں لیکن دیوانے  ہی تاریخ کے بہاؤ کو اور زمانے کے رخ کو تبدیل کرتے ہیں۔ دیوانے محض مقاصد کی خاطر جان و مال سب کچھ نچھا ور کر دینے کیلئے تیّار رہتے ہیں لیکن شرط ہے کہ قیادت صالح و مخلص ہونی چاہئے۔ تحریک کو بہت ساری تنظیمی اصولیت پسندی سے بھی گریز کرنا چاہیے جس کی وجہ سے دن بدن تحریک کا بیشتر  قیمتی سرمایہ فائلوں اور رپورٹوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔تحریک بھاری بھرکم ہو جاتی ہے اور یہ جمود کی علامت ہے۔

تحریک وجود میں آتی ہے  فرد  کی کامیابی کے لئے، فرد کی “اخروی فلاح ” کی خاطر مجموعی طورپرکوشش کا نام ہی تحریکِ اسلامی ہے اور یہی تحریک کا اصل مقصد  و نصب العین ہے۔  واضح رہے تحریکِ اسلامی فرد کی اخروی فلاح کی خاطر وجود میں آتی ہے لیکن خود فرد(شخص) کی تحریکی مقاصد سے   الگ   اپنی جدا کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ تحریک اپنی تمام شان و شوکت کے ساتھ باقی رہ جائے لیکن افراد اخروی فلاح سے ہمکنار نہ ہو پائیں تو تحریک کسی کام کی نہیں۔اس لئے کوشش ہمیشہ یہ ہونی چاہئے کہ تحریک باقی رہے یا نہ رہے تحریکی مقاصد ضرور باقی رہیں۔ تحریکی مقاصد اگر زندہ ہیں تو  دوسری، تیسری کئ تحریکات وجود میں آسکتی ہیں یا تحریکی کوشش کی کوئی دوسری صورت وجود میں آسکتی ہے لیکن مقاصد و نصب العین ہی نظر سے اوجھل ہو جائیں تو کوئی دوسرا مقصد و نصب العین ہمیں اخروی فلاح سے ہمکنار نہیں کر سکتا۔ پریشانی تحریکات کی تبھی بڑھتی ہیں جب مطمحِ نظر اخروی فلاح نہیں رہتا۔تحریکِ اسلامی اپنےمقاصدو نصب العین کی حفاظت کی خاطر اپنے افراد اور تنظیمی خاکہ تک کو قربان کر دیتی ہے۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنان کا کردار ظاہر ہے معاشرے و سماج کے دوسرے لوگوں سے اعلیٰ و ارفع ہونا چاہیے۔اخلاص و للّٰہیت سےان کا قلب پر اور اعمالِ صالحہ سے انکا میدانِ کار مزیّن ہونا چاہیئے۔ تحریک اسلامی اپنے افرادکو ایک جداگانہ ماحول تربیت کے لئے فراہم کرتی ہے، جو کلّی قرآنی اصولیات پر مبنی ہوتا ہے۔طاغوتی نظام کے اثرات سے پاک و صاف ماحول فراہم کرنے کی حتی الا مکان کوشش کی جاتی ہے۔تحریکِ اسلامی کا پورا پروگرام و پالیسی اسکے نصب العین کا عکس ہوتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کی شناخت اس کے افراد سے نہیں بلکہ اس کے اصول و دائرہ کار سے کی جاتی ہے۔ اس کے اصول و مقاصد کا پابند اور اس کے دائرے کار کا ہر فرد خود بخود تحریک کی شناخت بن جاتا ہے اور تحریک شخصیت پرستی کے مرض سے محفوظ رہتی ہے۔مادی ونفسانی غلبہ کے اس دور میں تحریکی افراد پر بھی طاغوتی اور مشرکانہ ماحول کا اثر ایک لازمی شئے ہے۔ لیکن تحریکِ اسلامی کی تر بیتی کو شش خالص خوفِ الٰہی اور حبِ الٰہی کے گرد گھومتی ہے، تحریک خود کو خدا بیزار پروگرامس سے دور رکھنے کی کو شش کرتی ہے خواہ  پروگرام کتنا ہی جاذب اور متحیّر کرنے والا کیوں نہ ہو۔

تحریکی سفر کے دوران بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں جب تحریک خود کو کسی چوراہے پرمحسوس کرتی ہے، مسائل الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اجتہاد، اتحاد، پیش رفت، اجتماعیت،  قوم و ملت،  اصلاح معاشرہ ۔۔۔جیسی مختلف آوازیں چہار سمتوں سے سنائی دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں مسائل کی پیچیدگی کی وجہ سے فلاحِ آخرت، احتسابِ نفس، خوفِ الٰہی، رجوع الی اللّہ، توبہ و استغفار جیسی آوازیں غیر مانوس اور غیر متعلّق لگتی ہیں۔ ماحول اس قسم کا پیدا کر دیا جاتا ہے کہ تحریکی قائدین عجیب و غریب کشمکش اور تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عموماَََ  یہ مسائل حساس کن ہوتے ہیں، جن کے فیصلے پر تحریک اپنے مستقبل کا رخ متعیّن کرتی ہے۔ایسے نازک وقت میں کسی نعرے اور کسی آواز سے متائثر ہوئے بغیر محض اللّہ کی رضا کی خاطر طریقہ رسولﷺ پر فیصلہ کرنا چاہیئے۔ مسائل پوری تحریک کے لئے ایک بھی ہو سکتے ہیں اور مختلف علاقوں میں مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ حل کی کوشش قرآن و احادیث کی روشنی میں موقع و محل اور علاقہ و خطّہ کے مطابق  ہونی چا ہئے۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223