اسلام نے شروع سے ہی علم کے حصول پر خصوصی زور دیا ہے۔قرآن کریم کی مختلف آیات نیز ارشاداتِ نبوی اس کی واضح دلیل ہیں ، مسلمانوں نے آغاز میں دینی و شرعی علوم پر زیاده توجہ دی، لیکن جب اسلامی حکومت وسیع ہوئی اور اموی دور(750-661)شروع ہوا تو علوم عقلیہ و نقلیہ دونوں پر بھرپور توجہ دی گئی۔اس کے بعد عباسی حکومت (1258-750)ابوالعباس السفاح کے ذریعہ قائم ہوئی، جس میں کل اکیس(21) خلیفہ ہوئے۔ اس کا خاتمہ 1258میں تاتاریوں کے ہاتھوں ہوا۔اس سے قبل علمی و تعلیمی تحریک اس دورِ حکومت میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ مشہور مؤرخ جرجی زیدان نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
’’عہدِ عباسی اسلام کا وہ عہدِ زریں ہے جس میں مسلمانوں کی سلطنت، دولت و ثروت،تہذیب وتمدن اور سیاست و حکمرانی کے اعتبار سے عروج پر پہنچ گئی تھی۔اس میں بیشتر اسلامی علوم نشو نما پائے اور اہم داخلی علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا۔‘‘1؎
عہدِ عباسی میں مسلمانوں نے اپنے علم و فن کو توسیکھا ہی، دنیا کے دوسرے اہم علوم وفنون میں بھی مہارت حاصل کی۔مختلف موضوعات پر موجود یونانی، سریانی،سنسکرت اور فارسی کتابوں کے عربی میں بہ کثرت ترجمے کیے گئے۔اس دور میں تصنیف وتالیف کی دو اہم وجہیں تھیں:
اول یہ کہ علمائے کرام اور مصنفین و محققین کو عباسی حکم رانوں کی سرپرستی حاصل تھی اوران کو مال و دولت سے نوازاجاتا تھا کہ انہیں ذریعۂ معاش کی طرف سے بے فکری رہتی تھی۔ترجمہ کرنے والوں کو ترجمہ کی ہوئی کتاب کے وزن کے برابر سونا یا چاندی دے کر حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔دوم یہ کہ مسلمان اس وقت کاغذ بنانے کے فن سے واقف ہو گئے تھے۔یہ فن انہوں نے ان چینی قیدیوں سے سیکھاتھاجوبنی امیہ کے دور میں سمرقند کی فتح کے دوران 704H میں گرفتار ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کتابیں جھلیوں، کھالوںاور پتیوں وغیرہ پر لکھی جاتی تھیں،جس میں خرچ زیادہ آتا تھا اور وہ محفوظ بھی نہیں رہتی تھیں۔عباسی دور میں یوں تو تقریباً تمام ہی خلفاء نے علوم و فنون کی سرپرستی کی،لیکن ابوجعفر منصور، ہارون رشید اور مامون رشید نے اس پر خصوصی توجہ دی۔اول الذکر نے بغداد شہر بسایا جو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا تھا۔یہاں دور دراز سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے بڑے علوم و فنون کے مراکز بصرہ، کوفہ ، فسطاط، قیروان، رے، نیشاپور، مرو اور بخارا تھے۔
عہدِ عباسی میں جن علوم و فنون پر خصوصی توجہ دی گئی ان میں علمِ فلسفہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔اس کے آغاز و ارتقاء پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مختصر تعریف بیان کردی جائے:
تعریف
لفظ’’فلسفہ‘‘ یونانی زبان کے دو الفاظ سے ماخوذ ہے۔جن میں سے ایک لفظ “Phillia”ہے یعنی ’’محبت‘‘اوردوسرا لفظ “Sophia”ہے یعنی ’’حکمت اور دانائی‘‘۔دونوں کے مجموعہ کو ’’محبت حکمت ‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:
“Philosophy is study of the fundamental nature of knowledge, reality, and existence, especially when considered as an academic discipline.”2
فلسفہ کی کوئی جامع اور مکمل تعریف نہیں کی جاسکی ہے کیوں کہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے نیز وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں،البتہ افلاطون نے اس کی تعریف میں لکھا :
’’فلسفی وہ ہوتا ہے جو اس آدمی کے برعکس جو ظواہر اور حسی معلومات پر انحصار کرتا ہے،اشیاء کی حقیقت کو سمجھتا ہے،نیز یہ وہ لوگ ہیں جو ازلی و ابدی اور عدم التغیر کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘3؎
اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے فیثا غورث(Pythagoras, c.570 – c.495 BC) نے اپنے لیے کیا تھا۔اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ عام ہوتا چلا گیا۔4؎
مجرد فلسفہ اور اسلامی فلسفہ میں فرق
اسلامی فلسفہ یونانی فلسفہ سے مختلف ہے ۔ اسلامی فلسفے نے ایک ایسے زمانے میں جنم لیاجب قدیم و جدید کے درمیان کش مکش جاری تھی۔یونانیوں اور عربوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ اہل یونان نے اپنی بت پرستی کے زمانے میں فلسفے کی ابتدا کی،لیکن مسیحیت کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کے فلسفے کا زوال شروع ہوا اور حکماء مفقود ہونے لگے۔اس کا سبب وہ اختلاف تھا جو اس جدید مذہب اور ان کے فلسفے میں پایا جاتا تھا۔بہ خلاف اس کے اہل عرب اپنی جاہلیت اور بت پرستی کے دور میں فلسفے سے کوسوں دور تھے۔قرآن پاک نے انہیں بت پرستی،جہالت اور جمود فکری کی تاریکیوں سے نکالا اور مطالعہ علوم اور بحث و نظر کا شوق دلاتے ہوئے ان کے سامنے فلسفے کا راستہ کھول دیا۔5؎
آغاز و ارتقاء
عہد عباسی کے ابتدائی دور میں فلسفہ اوركتابوں کے ترجمہ کے میدان میں جن لوگوں نے نمایاں خدمات انجام دیں ان میں کی اکثریت غیر مسلم اہل کتاب کی تھی۔ان میں نصرانی خاندان (آل یختشوع )سے جورجیس،مارستان اور جبرئیل کے علاوہ حنین بن اسحق،داؤد،اسحق،جیشی الاعصم،قسطا بن لوقا،ثابت بن قرۃ وغیرہ مشہو رہوئے ہیں،البتہ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غیر مسلموں کی طرف سے کیے گئے تراجم میں تحریفات بھی موجود تھیں کیوں کہ ان مترجموں کا ایک مقصد خلفاء سے درہم بٹورنا بھی تھا۔6؎ جب ترجمے کا کام پورا ہو گیا تومسلمانوں نے اس حوالے سے حقیقی کام کی طرف توجہ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کا وجود نہ ہوتا تو یونان،مصر،ہنداورایران کے فلسفیانہ علوم معدوم ہو گئے ہوتے۔عہدعباسی میںیونانی فلسفیانہ اور حکیمانہ کتابیںکثرت سے عربی زبان میں منتقل كی گئیں۔فلسفہ کے میدان میں تصنیف و تالیف اور تراجم کے عمل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
٭دورِ اول خلیفۂ منصور سے ہارون رشید تک ۔
٭دورِ دوم عہدِ مامونی سے شروع ہوتا ہے جس میں یونانی علوم و فنون کے تراجم پر خصوصی توجہ دی گئی۔
٭دورِ سوم چوتھی صدی ہجری تک ہے اور اس میں ارسطو کی منطق طبیعات کی کتابوں کے ترجمے کیے گئے ،نیز ان کی شرحیں بھی لکھی گئیں۔7؎
عباسی خلفاء کی علمی سرپرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیثا غورث،سقراط، افلاطون، ارسطو، جالینوس اور دیگر یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی کتابوں اور مضامین کا ایک بڑا حصہ عربی زبان میں دنیا کے سامنے آچکا تھا۔شروع میں (بالخصوص عہد مامونی سے پہلے تک )مختلف مترجمین عیسائیوں،یہودیوں اور دیگر نومسلموں نے ذاتی طور پر اس حوالے سے خدمات انجام دیں،لیکن مامون اور بعد کےخلفاء نے باقاعدہ سرکاری طور پر دارالترجمہ کا قیام اور فلسفیانہ و حکیمانہ کتابوں کو عربی میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔اس حوالے سے ٹ۔ج۔دوبوئز لکھتا ہے:
’’عام طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یونانیوں نے فلسفے کو جس نقطے پرچھوڑا تھا شامی عربوں نے اسے وہیں سے اٹھایا یعنی ارسطو کی نوفلاطونی تفسیر سے۔اس کے پہلو بہ پہلو افلاطون کی تصانیف بھی پڑھی جاتی تھیں اور ان کی تشریح ہوتی تھی۔اہل حران اور ایک عرصے تک بعض مسلم فرقے افلاطونی فیثا غورثی فلسفے کی تحصیل کرتے رہے جس کے ساتھ بہت کچھ حصہ نوفلاطونی اور زینونی خیالات کا بھی شامل تھا۔افلاطون کے نظریہ روح اور فلسفہ فطرت کا بہت زبردست اثر پڑا۔‘‘8؎
فلسفہ کا آغاز عہدِ عباسی میں مامون رشید کے دور سےهوا۔ قیصرِ روم کے ذریعہ بھیجی گئی یونانی کتابوں کا عربی ترجمہ كیا گیا۔اس میںیوحنا بن ماسویہ ابن الطریق،یحییٰ بن عمدی،ابوحسان سلما،محمد بن موسیٰ منجم،محمد بن موسیٰ خوارزمی،حجاج بن مطر،جہیش وغیرھم جیسے بڑے مترجم اور فلسفی قابل ذکر ہیں۔البتہ اس دور میں زیادہ تر ارسطو کی کتابوں کے ترجمے کیے گئے تھے۔ملک کریم بخش اس کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مسلمان فلسفی یونان کےافلاطون اور ارسطو سے بہت متاثر ہوئے ۔یونانی فلاسفہ کے دوگروہ تھے جن میں سے ایک تو طبعی فلاسفہ تھے جب کہ دوسرے یا تو دھریئے تھے یا ملحد۔اسی وجہ سے مسلمانوں کی زیادہ تر توجہ ارسطو اور افلاطون پر ہی مرکوز رہی۔‘‘9؎
ترجمہ کے علاوہ اس دور میں فلسفیانہ علوم کی نشر واشاعت اور تعلیم و تعلم پر خصوصی توجہ دی گئی ۔یوحنا بن ماسویہ اور یحییٰ بن خالد برمکی کی نگرانی میں دقیق فلسفیانہ مسائل جیسے قدم و حدوث ،و جود و عدم،اجسام و اعراض وغیرھم پر خوب بحث و مباحثہ کیا جاتا تھا اور اس میں متکلمین اسلام بھی حصہ لیتے رہے ۔اس حوالے سے ابن صاعد اندلسی طبقات الامم میں لکھتے ہیں:
’’افلاطون،ارسطو،سقراط اور جالینوس وغیرہ کی کتابوں کے ترجمے کے بعد مامون نے لوگوں کو ان کی تعلیم و تعلم کی ترغیب دلائی۔اس لیے اس زمانے میں علم کی گرم بازاری ہوئی اور فلسفہ کی سلطنت قائم ہو گئی،یہاں تک کہ حکومت عباسیہ رومی سلطنت کے زمانۂ شباب کا مقابلہ کرنے لگی۔‘‘10؎
عباسی دور میں ترجمہ کی ہوئی کتابیں
اس دور میں مختلف یونانی فلسفیوں اور ان کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا ۔ان میں سے چنداہم مصنفین اور ان کی کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
افلاطون (کتاب السیاسیات،مناسبات،نوامیس،التوحید،الحسن واللذۃ)،ارسطو (الحس و المحسوس،الالٰہیات،کتاب العبادۃ،النفس،الکون و الفساد،الاخلاق)،بقراط(الماءوالہواء،الاخلاط،طبیعۃ الانسان)،جالینوس(المقالاتالخمس،الاسطقصات،کتاب الحمایات،الحیران،حیلۃ البر)۔
فلسفہ میں یعقوب کندی،م 873 (کتاب الفلسفۃ الاولیٰ فی مادون الطبیعیات و التوحید،جواہرِ خمسہ اور سلسلہ علل)اور ابو نصر الفارابی ، م 950(سیاسۃ المدنیۃ)نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ کندی کو’’پہلاعرب فلسفی ‘‘ اورفارابی کو’’معلم ثانی‘ ‘کا خطاب دیا گیا۔ان کے علاوہ دوسرے اہم فلسفیوں میںابن سینا(کتاب الشفا،کتاب الاشارات و التنبیھات ) ،امام غزالی(مقاصد الفلاسفہ،تہافۃ الفلاسفہ،احیاء علوم الدین)وغیرہ کا نام آتا ہے،جنھوں نے اسلامی فلسفہ کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عباسی دو ر حکومت میں فلسفہ کی ترقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسکندریہ كےمدرسہ فلسفہ كی سرپرستی كی گئی۔ یه مدرسه بطالمہ مصر کے عہد میں ارسطو کے شاگردوں کی ایک جماعت نے جاری کیا تھامگر عیسائی علماء کی تنگ نظری اور تعصب کی وجہ سےیه کسم پرسی کی حالت میں چل رہا تھا ،اسے عباسی خلفاء كے آخری دور میں جِلا ملی اور اس نے متوکل،معتضد،مقتدر اور جعفر بن المکتفی کی سرپرستی میں نمایاں ترقی کی۔11؎
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے فلسفہ کی ابتدا یونانی فلسفہ سے واقفیت سے هوئی ۔ مسلمان قدیم و جدید فلسفہ کے درمیان ایک چین یا کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔مسلم مفکرین اور فلسفیوں نے سریانی ،فارسی اوریونانی فلسفہ پر غور و فکر کرتے ہوئے اس میںگراں قدر اضافے کیے۔ اسے عربی زبان میں منتقل کركےاس کی حفاظت بھی کی ۔
مشمولہ: شمارہ جون 2019