قرآن حکیم کا تصور توحید ،خالصتہً ایک سائنسی انداز فکر ہے ۔ اسلام نے توحید، رسالت اور آخرت کی بنیاد پر انسان کے لیے تقویٰ کو لازم قرار دیا ہے ، شروع ہی میں تاکید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نازل کردہ کتاب سے صرف متقی لوگ ہی ہدایت پاتے ہیں ۔
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ ،ھُدَی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ﴿البقرہ:۲﴾
’’یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے متقی لوگوں کے لیے ‘‘
ہدایت ایک ترقی پذیر عمل ہے لیکن ہدایت کا آخری ثمرہ بھی تقویٰ ہی ہے ۔محمد اسد نے اپنی تفسیر The Meaning of Quran میں تقویٰ کا ترجمہ ’’خدا شعوری‘‘ (God conciousness) سے کیا ہے ، ظاہر ہے کہ خدا شعوری کے بے شمار مدارج ہو سکتے ہیں۔ان میں سے ایک درجہ یہ بھی ہے جو اس کائنات کا مشاہدہ اور اس کے نظام تخلیق میں غور و خوض کرکے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت کی نشانیاں دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے :
اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَاخَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتِ لِّقَوْمِِ یَّتَّقُوْن۔ ﴿یونس ۔۶﴾
’’یقینا رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اس چیز میں جو اللہ نے آسمان اور زمین میں پیدا کی ہے نشانیاں ہیںان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں‘‘۔
سائنس کی ساری تگ و دو کی غرض و غایت یہ ہے کہ مظاہر فطرت کا گہر امطالعہ کر کے قوانین فطرت میں بصیرت پیدا کی جائے ۔ یہ بصیرت ایسے تمام لوگوں میں خدا شعور ی کے داعیات پیدا کرتی ہے، جو اس کائنات کو ایک تخلیق شدہ کائنات مانتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ الحاد اور لادینیت کے غلبے کے اس دور میں سائنس اپنی اس حقیقی منزل سے غافل بل کہ منحرف ہوگئی ہے، جو قرآن حکیم کے نزدیک اس کی اصل منزل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ملحدانہ سائنس نے خدا ، کا ئنات اور انسان کے درمیان کے متوازن ربط کی کلید کھودی ہے اس لیے حقیقی یہ خدا شناسی اور خود شناسی سے بے بہرہ ہے ۔ اتنا ہی نہیں روحِ تقویٰ سے محرومی نے خود انسانی رشتوں کے سہ پہل حقائق کو بھی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ مرد کا رشتہ مرد سے ، مرد کا رشتہ عورت سے اور فرد کا رشتہ اپنے نفس سے کا نظریہ اسی غفلت کا مظہر ہے ۔ چنانچہ قرآن و سنت نے ان تمام حقائق کی تفصیل کو حقوق اللہ اور حقوق العباد میں سمیٹ کے فرد کی اصلاح و تربیت کا ایک جامع نظام پیش کر دیا ہے، تاکہ اہل تقویٰ معرفت نفس ، تربیت نفس ، احتساب نفس اور عزت نفس کی منزلوں سے گزرتے ہوئے فرد کے ارتقاء ، سماج کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل تک کامیابی سے ہمکنارہوں۔اسی لیے قرآن وسنت کے تحت اسلامی علوم کی بنیاد پر جو متوازن معاشرہ ارتقاپذیر ہوا اس میں ہرنفع و نقصان کو خدا یا شیطان سمجھ کے نہ کبھی پرستش کا مقام دیاگیا نہ مادہ اور روح کی حقیقی صورت حال کو نظر انداز کیا گیا۔ چنانچہ مسلم مفکرین انتہا پسند انہ نقطئہ نظر کا شکار ہو کر مادہ پرستی کی طرح رہبانیت پسندی کوبھی ہمیشہ انسانیت کی توہین و تذلیل کا ذریعہ سمجھتے رہے۔ حیات انسانی کے ارتقا کو امیباکیڑے کے بجائے مشیت الہی کا کرشمہ اور احسن تقویم کے خمیر کے سبب تسخیر کائنات کا حامل قرار دیا ۔
قرآن پاک نے سائنسی تحقیق کے لیے جس ذہنی رویے ’’ اور سائنٹفک اسپرٹ‘‘کی ضرورت تھی اس کو فروغ دینے کے لیے حیات و کائنات کی ہر ہر چیز پر غور وفکر اور تدبر و تفکر کی تلقین کی ۔ محمد احمد العمری کے مطابق قرآن حکیم کی کل چھے ہزار چھے سو چھیا سٹھ ﴿ ۶۶۶۶﴾ آیات میں سے سات سو چھپن ﴿۷۵۶﴾ آیات ایسی ہیں، جو براہ راست مظاہر فطرت اور پر غورفکر کی دعوت دیتی ہیں ۔جب کہ دیگر مسائل اور عبادات و معاملات و غیرہ پر مبنی آیات کی کل تعداد صرف ڈیڑھ سو ہے ۔ جن پر فکر و تدبر کے نتیجے میں مسلم مفکرین کے اندر ذوق و شوق اور مضبوط جذبے کے ساتھ عجز و انکسار کا سائنسی رویہ پیدا ہوا۔ مسلم سائنسدانوں نے ماضی کے جملہ یونانی و ہندی و فلسفہ و سائنسی علوم کوازسرنوکھنگا لا۔ قبل اسلام تک جو سائنس، منطق کی صرف ایک ٹانگ استقرائی (Iductive Logic) مفروضے پر بمشکل اُچک کے اُچک چل رہی تھی ،مسلم سائنسدانوں نے استخراجی منطق (Deductive Logic)کی دوسری ٹانگ فراہم کرکے اسے سرپٹ دوڑنا سکھا دیا ۔ اتنا ہی نہیں سائنسی فکر کی بے لگامی، بے سمتی اور مادہ پرستی کے زیر اثر محض علت (Cause)اور معلول (Effect)کی حد سے آگے ’’غایت ‘‘ (Purpose)کا خدا پرستانہ قطب نما بھی فراہم کردیا ۔
معروف مغربی مفکر رابرٹ بریفالٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’تشکیل انسانیت ‘‘ (Making of Humanity)میں تفصیلی تحقیق و تجزیہ کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے :
’’ہماری موجودہ سائنس کی پیدائش اور ارتقا کا گہوارہ یونان نہیں ، یورپ ہے ۔سائنس کو یہ عروج ، تحقیق و تفتیش کے نئے جذبات ، سعی و تجسس کے نئے نئے طریقے ،تجربے کے نوع بنوع انداز مشاہدات کی وسعت اور حیرت انگیز انداز میں ریاضی کے ارتقا کی بدولت نصیب ہوا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ ان چیزوں سے یورپی دنیا کو روشناس کر انے والے عرب تھے نہ کہ یونانی ‘‘﴿صفحہ۱۹۰﴾
کیوں کہ قرآن حکیم فطرت کے آثار و شواہد کے مطالعہ کو خدا یابی کا ذریعہ قرار دیتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے بارے میں انسان کو جو تصور دیا گیا ہے، وہ کسی صوفیانہ مراقبے یا کسی شاعرانہ تخیل پر مبنی ہونے کے بجائے ٹھوس مادی حقائق کے سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے ہر بالا و پست میں اس کے قوانین کی کارفرمائی کی سیر کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے سے قائم ہوتا ہے۔ جوش ملیح آبادی جیسا آزاد خیال شاعر بھی لاشعوری طور پر شاعرانہ ترنگ میں کیسی خدا لگتی بات کہہ گیا :
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کا فی تھی
ثبوت حق کا قرآنی طرز استدلال ٹھوس مادی حقائق کے عمیق مشاہدے کے بعد گہرے تعقل ، تفکر اور تدبر کے ذریعے و جود باری تعالیٰ کا شعور حاصل کرنے کی رہنمائی دیتا ہے ۔ قرآن ان مشاہدات کی جزئیات و تفصیلات کو کچھ اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ انسان میں سائنسی انداز فکر اپنا نے کی آپ ہی آپ ذہنی تربیت ہو جاتی ہے۔ ’’تشکیل انسانیت ‘‘ ( Making of Humanity)کا مصنف رابرٹ بریفا لٹ (Rabert Briffault)بالکل سچ کہتا ہے :
’’ اگر چہ یورپ کی ترقی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس پر اسلامی تہذیب کے فیصلہ کن اثرات نہ موجود ہوں لیکن یہ اثر کہیں بھی اتنا واضح اور اہم نہیں جتنا کہ اس طاقت کے ظہور میں جو دنیا ئے جدید کی مخصوص اور مستقل قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے ، یعنی سائنس اور سائنسی طرز فکر ‘‘
یہ سائنسی طرز فکر فطرت کے حسیاتی مشاہدے اور مطالعے سے آگے بڑھ کر انسان کو خشیت الٰہی کی صفت سے بھی متصف کردیتا ہے جو اسلام کی ایک بنیادی اور خالص روحانی و اخلاقی قدر ہے :
’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا ، پھر ہم نے اس کے ذریعے رنگ رنگ کے پھل نکالے ۔ اسی طرح پہاڑوں میں سرخ و سفید رنگ کے طبقات ہیں جن کے رنگ اور قسمیں مختلف ہیں ۔ ان میں سے بعض کالے بھجنگ ہیں۔ اسی طرح انسانوں، جانداروں اور مویشیوں کی بھی رنگتیں اور قسمیں جدا جدا ہیں اور بے شک جو لوگ ﴿ان کے عالم ہیں ﴾ ان کے دل خشیت الٰہی سے لرز جاتے ہیں ۔ یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے ‘‘ ۔﴿الفاطر:۲۷،۲۸﴾
ان کے علاوہ اسلامی اسپرٹ اور سائنسی اسپرٹ کی یکجا ہوتی آیات قرآنی میں سے چند بطور خاص قابل غور و فکر ہیں۔ مثلاً:الاَعراف : ۱۸۵؛رحمٰن : ۱۰؛الجاثیہ : ۱۲ ۔ ۱۳ ؛ آل عمران : ۱۹۰ ۔۱۹۱۔؛ الرعد : ۳۔۴؛الحجر :۱۹ ۔۲۰؛النحل : ۶۶؛ الذاریات : ۲۰۔۲۱؛یونس : ۶؛ وغیرہ وغیرہ ۔
قرآن پاک اس کائنات کو چونکہ خدا کی صفات تخلیق وربوبیت کی ایک محسوس و مرئی شکل قرار دیتا ہے اس لیے اس کا مطالعہ ایمان و ایقان کی غذا ہے ۔اسی لیے اسلامی نقطئہ نظر سے خدا کا عقیدہ سائنسی علوم کا ایک قدرتی جزو لا ینفک بن جاتا ہے ۔ مظاہر قدرت کا ذکر کرنے کے بعد قرآن حکیم کا ارشاد ہے :
ذَالِکُمُ اللّٰہُ رَبَّکُمْ فَاِنِّیْ تُوْفَکُوْن ۔
’’ یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار !تم کہاں بھٹکتے پھر تے ہو ‘‘
یہ ارشاد صرف ایک ایسی ہستی کی طرف ہی کیا جاسکتا ہے جو صاف طور پر سامنے نظر آرہی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف مشاہدہ و مطالعہ فطرت پر بہت زور دیتے تھے ۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کی صوفیانہ اور فقہی تصانیف کا تو بکثرت ذکر کیا گیا ہے مگر ان کی ایک کتاب ’’الحکمتہ فی مخلوقات اللّٰہ ‘‘ کا خال خال ہی ذکر کیا گیا ہے جس میں مختلف مظاہر کے بارے میں اس وقت سائنس کی جو معلومات تھیں ان کی روشنی میں قرآن حکیم کی آیات کی تشریح و تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے ۔
قرآنی غور و فکر کا یہ سلسلے آگے بڑھا تو بڑے بڑے مسلم سائنسداں اور فلاسفر کی تحقیقات و ایجادات نے سائنسی دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا ۔ مثلاً محمد بن موسیٰ خوارزمی ﴿م ۸۵۰ء﴾نے کتاب الجبر والمقابلہ لکھ کر الجبراکی بنیاد ڈالی جو اور آگے چل کر کمپیوٹر اور انفارمیش ٹکنالوجی کی بنیادبنی۔البیرونی ﴿۹۲۸ء﴾نے Solar year کے بارے میں بتایا کہ وہ اس وقت کے کلینڈر سے کس طرح ۲۴ سکنڈبڑاہے۔ الخوارزمی ﴿م۹۷۱﴾کی کتاب The Book of the Balance of wisdom نے سب سے پہلے مرکز قوت کشش کا تصور دیا ۔ ابن سینا ﴿م۱۰۳۷ء﴾کی کتا ب The cannon of Medicineآج سے آٹھ سو سال پہلے یورپ میں میڈیکل سائنس پر سب سے اہم کتاب سمجھی جاتی تھی ۔ قرآن ہی کی تحریک پر دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی الازہر کی بنا پڑی اور ابن الہیثم نے اس کو مر کز بنا کر Opticsمیں جو بنیادی کام کیے اس نے نیوٹن کو Opticsمیں تحقیقات کی بنیادیں فراہم کیں۔ اسی لیے علامہ اقبال کے نزدیک وحی کے بعد ہماری قومیت کی اساس ہی سائنسی اندازِفکر پر استوار ہوتی ہے۔ مگر اسمیں کمزوری اس وقت پیدا ہوئی جب خلافت کے بجائے ظالمانہ ملوکیت اور تاتاری شکست و ریخت نے مریضانہ عجمی تصوف یااقبال کے لفظوں میں’’مغانہ وراثت ‘‘ (Magian heritage) کے ذریعہ اسلام کی زندگی کو کچل ڈالا اور اس کی اصل روح اور مقاصد کو ابھر نے نہیں دیا۔
قرون وسطیٰ کے تصوف کی تکنیک بیکار ہو کر رہ گئی ہے کیو نکہ اس کے مبہم تفکر نے ٹھوس حقائق کی دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنی نگاہوں کو ان سرخ ،نیلے ،پیلے لطائف و تجلیات پر مرکوز کردیا تھا جو دماغ کے خلیوں کے اندرونی ہیجان سے پیدا ہوتے ہیں اور جن کی خارج کی دنیا میں قطعاً کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی ایسے تصوف کو وہ مسلمانوں کے دور انحطاط کی علامت سمجھتے ہیں جس نے مسلمانوں کے بہترین دماغوں کو اپنے اندر جذب کرکے امور سلطنت کو معمولی ذہنی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کے حوالے کر دیا جس کے نتیجے میں ان سے دنیا کی امامت چھن گئی ۔ چنانچہ علامہ اقبال پوری تحدی سے فرماتے ہیں کہ جدید اسلام اس تجربہ کو نہیں دہراسکتا کیوں کہ وہ جدید تفکر اور تجربہ کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور اب کوئی ولی اور پیغمبر بھی اس کو قرون وسطیٰ کے تاریکیوں کی طرف نہیں لے جاسکتا ۔جدید تفکر اور تجربہ سے علامہ اقبال کی مراد سائنس کا حسی اور تجرباتی طریق تحقیق ہے ، جس نے دور حاضر کے انسان کو فکر محسوس کا عادی بنا دیا ہے ۔ ان کے خیال میں یہ وہی طرز فکر ہے جس کی اسلام نے اپنے تہذیبی نشوونما کے ابتداءی دور میں حمایت کی تھی ۔ قرآن کی رو سے فطرت کے تمام مظاہر جو انسان کے حواس کے سامنے جلوہ گرہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات ہیں جن کا مطالعہ و مشاہدہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے ناگریز ہے۔اقبال کے خیال میں قدرت کا علم در حقیقت خدا کے کردارکا علم ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس خدا کو جاننے کا اولین ذریعہ حواس ہی ہیں ، لٰہذا محسوس کائنات کا علم ہی خدا کا علم ہے ۔
علم حق اول حواس آخر حضور
آخر اومی نہ گنجد در شعور
جب ہم قدرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بقول اقبال خدا سے ہی ایک طرح کی واقفیت پیدا کررہے ہوتے ہیں ،جو کہ عبادت ہی کی ایک شکل ہے :
یہ سب ہیں ایک ہی سالک کی جستجو کے
وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسمائ
مقام ذکر کمالات رومی و عطار
مقام فکر مقالات بو علی سینا
مقام فکر ہے پیمایش زمان و مکاں
مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلٰی
علامہ اقبال کا یہ خیال ہے کہ عبادت اور دعا درحقیقت مطالعہ فطرت کی سائنسی سرگرمیوں کا لازمی تکملہ ہیں، جوحقیقت مطلقہ کے بارے میں مزید گہری بصیرت کے لیے ہمارے اندرونی ادراک کو تیز تر کردیتا ہے ۔ قرآن پاک کی رو سے انسان کے سارے اعمال و افعال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے، جو کائنات کا خالق اور رب ہے ۔ خدا کی محبت ،خدا کی ستایش اور عبادت واطاعت کا تقاضا کرتی ہے ۔ کیوں کہ خدا نے انسانوں کو سواے عبادت کے کسی اور کام کے لیے پیدا ہی نہیں کیا ہے ۔ عبادت کا جذبہ اس کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے ۔ گویا اگر انسان اپنی فطرت کا پابند رہے تو خدا کی محبت کے سوا اس کے اعمال کا کوئی اور محرک نہیں ہو سکتا ۔
’’ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلّا لِیَعْبُدُوْن ۔
میں نے جنوں اور نسانوں کو سوائے عبادت کے اور کسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا ‘‘
حضو رﷺکو یہ حکم ہوا کہ :
’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ َمحْیَایَ وَ مَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن ۔ لَاشَرِیْکَ لَہ‘ وَبِذٰلِکَ اَمِرْتُ وََاَناَ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن ۔
اے پیغمبر کہہ دیجیے میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور موت سب اللہ کے لیے ہیں جو اہل جہاں کا پروردگار ہے— اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ‘‘
فطرت کا مطالعہ ﴿سائنسی علوم ﴾ اس پر گرفت اور دسترس خدا کی محبت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ یہی محبت حقیقت مطلقہ کے مشاہدے پر ابھارتی ہے کہ مشاہدے کی یہ خواہش ہر انسان کے دل میں رکھ دی گئی ہے ۔ تصوف اور سلوک و طریقت کی طرف انسان کا میلان اور جھکائو اسی خواہش کا نتیجہ ہے ۔یوںوہ نظام عالم کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ یہود کا سوال کہ ہم خدا پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک عیاناً اسے دیکھ نہ لیںاور، خود حضرت موسٰی کلیم اللہ نے ’’ رب ارنی ‘‘ کی درخواست کی تھی ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں بیان فرمایا ہے :
’’ اور اس طرح ہم ابراہیم ؑ کو زمین و آسمان کا نظام سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھا تے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے ‘‘
پھر یہ حضرت ابرہیم ؑ ہی تھے جنھوں نے ایمان کے بعد اطمینان قلب کے حصول کے لیے تجرباتی توثیق (Experimental Verification)پر اصرار کیا ۔ قرآن حکیم اس واقعے کو یوں بیان کرتاہے:
’’اور جب ابراہیم ﷺ نے کہا تھا ‘‘میرے مالک مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ؟
فرمایا: ’’کیا تو ایمان نہیںرکھتا؟ ‘‘اس نے عرض کیا: ’’ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے ‘‘۔فرمایا ’’اچھا تو چار پر ندے لے ، ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھدے ، پھر ان کو پکار ۔وہ تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے ، خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے ‘‘
غرض مشاہدہ کی ہوس عالم گیر ہے ۔ اقبال کے خیال میں موسٰی ؑ کی کہانی پرانی نہیں ۔ آج بھی ہرشخص رب ارنی کہہ رہاہے ۔ حقیقت کا مشاہدہ دو طرح سے ہوتا ہے ۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔
وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ الْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن ﴿۱۶۔۳۰﴾
اس آیت میں حصول علم کے دو ذریعوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک ذریعہ سمع و بصر اور دوسرا انسان کا قلب۔ یعنی یہ نہ ہو کہ سمع و بصر کو چھوڑ کر کلی طور پر قلب کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور ایسابھی نہ ہو کہ قلب سے غافل ہو کر بالکل سمع و بصر کے ہورہو ۔ مسلمانوں نے اپنی توجہات قلب پر مرتکز کر دیں اور سمع و بصر سے پورا کام نہ لیا سچ پوچھے تو ساری ایشیائی تہذیب کایہی خاصہ ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک رویہ اس سلسلے میں یہ رہا کہ علم کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہونے کے باوجود یہی دعا فرماتے رہے کہ ’’ اے میرے رب !میرے علم ، ﴿علم نافع ﴾ میں اضافہ کر اور اے میرے رب !مجھے اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ کر جیسی کہ فی الواقع وہ ہیں ‘‘۔
علامہ اقبال نے سائنسی علوم کو معرفت الٰہی کا وسیلہ قرار دینے میں بہت زور کلام صرف کیا ہے ۔ کہیں علم و عرفان اور عقل ووجدان کو اصلاً ایک ہی قرار دیاہے اور کہیں علم کو عرفان پر فوقیت دی ہے۔ اپنے مضمون ’’ علم ظاہر اور علم باطن ‘‘ میں انھوں نے ’’المیثاق‘‘ سے حضرت جنید بغدایؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :
’’علم معرفت سے بلند تر ، کامل اور جامع تر ہے اور اللہ کے نام کے ساتھ علم منسوب کیا جاتا ہے نہ کہ معرفت ‘‘۔
غرض علم کی جستجوجس رنگ میں بھی کی جائے عبادت ہی کی ایک شکل ہے ۔ اس لیے فطرت کا علمی یاسائنسی مشاہدہ بھی کچھ ویسا ہی عمل ہے، جسے حقیقت کی تلاش میں صوفی کا سلوک و عرفان کی منزلوں کوطے کرنا کہا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال کے یہ خیالات نئے نہیں ہیں ، امام غزالی اپنی کتاب ’’ الحکمت فی مخلوقات اللہ ‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
’’برادر !خداتجھے حقیقت شناسی کی توفیق عطا کرے اور دین و دنیا کی فلاحی و کامرانی نصیب فرمائے ۔ خدا کی معرفت ، اس کے عجائبات و مصنوعات میں تدبر و تفکر کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اور درحقیقت یہی معرفت ایمان و یقین کے ثبات و استحکام کا موجب ہے اور اسی سے ابرارو اتقیاکے منازل و مدارج میں تفاوت ہوتا ہے ‘‘
علامہ اقبال کے بعد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا شہاب ندوی اور متعدد دانشوروں نے سائنسی علوم کے عقیدہ توحید سے مربوط ہونے پر اس کی معنویت وافادیت میں بیش بہا اضافے پر گرانقدر تصانیف پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’ حکمت اقبال ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :
’’مظاہر فطرت میں خدا کی صفات کی بھر پور آشکآراء ی کے باوجود اس کی ذات ہماری نظروں سے مخفی رہتی ہے ، یہی سبب ہے کہ چند مظاہر فطرت کے بیان کے متصلاً بعد قرآن کا ارشاد ہوتا ہے : ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبّکُمْ فَاَ نّیٰ تُوْفَکُوْن ﴿یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار ، پھر تم کدھر بھٹکتے پھر رہے ہو ﴾ ذٰلکم کا اشارہ صرف ایسی ہستی کی طرف کیا جاسکتا ہے جو صاف سامنے نظر آرہی ہو ‘‘
بہ الفاظ علامہ اقبال :
جہاں میں دانش و بنیش کی ہے کس درجہ اززانی
کوئی شئے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی
علامہ اقبال کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ سائنس کا رشتہ اگر مذہب کے ساتھ جو ڑ دیا جا ئے تو اس سے ایک ایسی نئی تہذیب جنم لے گی، جس کی آج کی دکھی انسانیت کو تلاش ہے ۔ ان کے خیا ل میں کلمئہ طیبہ کاپہلا جزمظاہر فطرت سے الوہیت کا جامہ اتار پھینکتا ہے جب کہ دوسرا جزوختمیت رسالت کے مفہوم کی رو سے رسول اللہ ؑ کے علاوہ کسی بھی انسان کو منزہ عن الخطا ماننے سے منع کرتا ہے ۔ آج بھی مظاہر پرستی اور شخصیت پرستی کے علاوہ مختلف قسم کی نظریہ پرستیوں نے سارے عالم میں ایک نئی مشرکا نہ خانہ جنگی برپا کر رکھی ہے ، انسانی اخلاق و کردارہی نہیں کائناتی ماحول بھی خطرے کی زد میں آچکے ہیں اور صورت حال قرآن حکیم کے الفاظ میں:’’ ظَہَرَالْفَسَادَفِی الْبَرِّ وَالْبَحْر ‘‘کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ کیوں کہ دور حاضر کے نو بنو سائنسی انکشافات سے اگر چہ ماحول اچھی طرح روشن ہے ، لیکن یہ روشنی ساینس دانوں کے اندر وہ بصیرت پیدا نہیں کر سکی کہ انھیں خدا کا عرفان حاصل ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب میں بھی بعض چوٹی کے سائنسداں خدا پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور مذہبی رجحانات رکھتے ہیں ، لیکن ان کے لیے سائنس کا علمی تجربہ پاپائیت و رہبانیت زدہ مذہب کے باطنی تجربے سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سائنس، اخلاقی حدود و قیود سے آزاد ہوگئی ہے، جس سے انسان کی فکری اور عملی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے ۔ در حقیقت دور حاضر کی تہذیب کا یہی وہ بنیاد ی عقیدہ ہے جس کی گرہ کشائی صرف اور صرف اسلام کے بے مثل عقیدہ توحید کی بدولت ممکن ہے ۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ سائنس نفس انسانی کے تزکیہ کا بہت بڑا ذریعہ ہے جو دنیا کے اعلیٰ ترین مذہب کے سوا دوسرے تمام مذاہب کو ناممکن بنا دیتی ہے اور اسلام اپنے آپ کواس کسوٹی پر پرکھنے کے لیے پیش کرتا ہے کیوں کہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ سائنسی انکشافات ہمیشہ قرآنی حقائق کی صداقت کا ثبوت فراہم کرتے رہیں گے:
سنرِیْھُمْ اٰیٰتَنَا فِی الْاٰفَاقَ وَفِیْ أَنْفُسِھِمْ حَتّیٰ یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اِنَّہ‘ الْحَق ﴿حم السجدہ : ۵۳﴾
’’عن قریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے انفس میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے ۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیر ا رب ہر چیز کا شاہد ہے ‘‘۔
آئے دن مختلف النوع سائنسی تحقیقات و ایجادات کے ذریعے یہ اور اس طرح کی قرآنی آیات کی توثیق و توضیح ہوتی جارہی ہے ۔ اسلام نے ہر ہر قدم پر تسخیر کا ئنات کے انسانی جوہر کی جو نشاندہی کی ہے اس کے مظاہر ہم آفاق میں جوہری اور خلائی ٹکنا لوجی (Nuclear and space Technology) کے ذریعہ چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کے ساتھ علم نفسیات اور علم الاعصاب کے ذریعے انفس میں بھی جھانکنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اب ہیومن جینوم ،ڈی ، اِن ، اِے اور نینوٹکنالوجی کے ذریعہ انفس و آفاق کے خُردبیں مطالعہ و تحقیق سے ہر روز نئے حقائق بھی منظر عام پر آتے جارہے ہیں ۔ اس مقام پر قرآن پاک کی سورہ فاطر آیت: ۱۱، اور حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری تاریخی خطبہ کے بعض الفاظ و نکات کو یاد کیجیے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یاد دلایا کہ:
’’سارے انسانوں کو اللہ نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ، بہت سے فرقے اور قبیلے محض پہچان کے لیے ہیں ۔ کسی عربی کو عجمی پر یا کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ۔ بڑائی کا پیمانہ صرف تقویٰ ہے ‘‘اور سورہ فاطر کی مذکورہ آیت میں خدا وند قدوس کا فرمان ہے کہ :’’ اللہ تعالیٰ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھرنطفے سے ، پھر تمہارے جوڑے بنادیے کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب اللہ کے علم میں ہوتا ہے ۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میںلکھا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ سب بہت آسان کام ہے ۔
موجودہ دور میں انفارمیشن کو ذخیرہ کرنے کی جدید ترین ٹیکنولوجی کمپیوٹر ہے ۔ تیز رفتار ترقی کے نتیجے میں اب سے تیس سال پہلے اگر کسی انفارمیشن کو محفوظ کرنے کے لیے ایک کمرے کے برابر کمپیوٹر درکار تھا تو آج اسے محض ایک چھوٹی سی میز میں محفوظ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر اس کا مقابلہ آنکھوں کو نظر نہ آنے والے اس مالیکیول سے کیا جائے ، جس کی لمبائی ایک میٹر لیکن چوڑائی ایک سینٹی میٹر کے دس کروڑ ویں حصے کے برابر ہے اور اسے سیل کے نیوکلیئس میں سمویا گیا ہے تو بلا شبہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس میں تین ارب انفارمیشنزموجود ہیں جو ضرورت کے وقت بے عیب طور پر ہمارے کام آتی ہیں اور اس سے زیادہ حیران کن امریہ ہے کہ ہمارے جسم کے ایک سوکھرب سیلس کے تمام مالیکیولس کو یہ انفارمیشن زبانی یاد ہے کیوں کہ ضرورت پڑنے پر کسی فعل کو انجام دینے کے لیے ان میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے حالاں کہ بہ ظاہر ان کے درمیان کوئی مواصلاتی نظام نظر نہیں آتا ۔ ان مالیکیولس کی بے عیب کارکردگی تو ہماری پیدائش سے بھی بہت پہلے شروع ہوچکی تھی ، جس میں مکمل نظم اور ضبط موجود تھا ۔
اللہ کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کی مدد سے انسان نے نہ صرف ڈی ، این اِے کی کھوج کی بل کہ آج وہ دوبارہ تشکیل کردہ ڈی، این، اِے (Recombinant DNA) اور جینی انجینرنگ وغیرہ کے ذریعہ طب، زراعت ، فارماسوٹیکلس ﴿دواسازی ﴾ اور کیمیائی صنعتوں میںنت نئی ایجادات و اختراعات کررہاہے ۔اسی لیے قرآن کریم نے اپنے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ:
ھَذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَھُدَی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمِِ یُّوْقِنُوْن ﴿ الجاثیہ ۔۲۰﴾
’’یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں ‘‘۔
چنانچہ قرآن حکیم نے مظاہر فطرت کو خداکی نشانیوں کے طور پر پیش کر تے وقت ان صفات کے حامل لوگوں کو دو طرح کے الفاظ و القاب سے نوازا ہے ۔ عام انسانی فضائل کے حامل اصحاب بصیرت کو: لقوم یعقلون ، لقوم یتفکرون ،لقوم یفقہون ، لقوم یعلمون کے الفاظ سے اور دوسری طرف خالص دینی یا اسلامی نقطئہ نظر سے روحانی فضائل کے حاملین کو : لقوم یتقون ، لقوم یومنون ، لقوم موقنون ، لقو م یسلمون ، لِقوم یشکرون ، لقوم یذکرون ، کے خطابات سے نوازا ہے ۔ منشا یہ کہ مظاہر کا ئنات کا مشاہدہ اور اس میںتعقل تفکر اور تفقہ بلاشبہ بصیرت افروز ہیں مگر اس طرح سے ہمیں جو بصیرت حاصل ہوتی ہے وہ ہدایت اور رحمت صرف اور صرف اس صورت میں بن پائے گی جب اس بصیرت سے ہمارے اندر تقویٰ ، ایمان ، تسلیم ، تشکر ، اور تذکر کے روحانی داعیات بیدار ہوں ۔ دوسری طرف اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اسلام جس قسم کی روحانی صفات کا حامل انسان پیدا کر نا چاہتا ہے ، اس میں تقویٰ ، ایمان ، تسلیم ﴿اسلام ﴾ تشکر اور تذکر جیسے فضائل کے ساتھ تفکر ، تفقہ اور تعقل جیسے فضائل کا پایا جا نا بھی بے حد ضروری ہے ۔ کیوں کہ فضائل کی یہ دو اصناف ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اس طریقے سے مربوط اور پیوستہ ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اسلامی نقطئہ نظر سے انسان کی روحانی ترقی و تکمیل کے لیے یہ دونوں قسم کے فضائل یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور کسی ایک قسم کو نظر انداز کر دینے سے انسان روحانی اعتبار سے نامکمل رہ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم فضائل کی ایک صنف کو ’’ ذکر ‘‘ اور دوسری کو ’’ فکر ‘‘ کا نام دے کر ان دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2012