اسلام کا تصوّرِ حقوق

اسلام نے حقوق کا جو تصور اور نظریہ دیا ہے وہ مغرب کے نظریۂ حقوق سے یکسرمختلف ہے۔ مغرب کے نظریۂ حقوق میں فرد اور ریاست کے باہمی تعلقات زیر بحث آتے ہیں اور عطائے حقوق کا ماخذ ومنبع عوام ہوتے ہیں جو اقتدار کلی کے مالک ہوتے ہیں۔ اسلام میں نظریۂ حقوق کا تعلق انسان کی عبدیت سے ہے۔ ایک طرف خالق ومخلوق کے درمیا ن رشتہ کی استواری زیر بحث آتی ہے اور دوسری طرف مخلوقات کے مابین تعلقات کا انضباط نظریہ کاموضوع ہے۔ اِس نظریہ میں کلی اقتدار اور حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہوتی ہے اور عوام اللہ کے نائب اور خلیفہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ خدا کے عطا کردہ اختیارات کی حدود میں حکومت وریاست کاانتظام کرتے ہیں۔ اسلامی ریاست میں قرآن وسنت کو ناقابل ترمیم وتنسیخ قانونِ اعلیٰ کا درجہ حاصل ہے۔

وحی الٰہی کے منبع ہونے کی وجہ سے اسلام کے عطاکردہ حقوق ناقابل تبدیل اور مقدس ہیں جب کہ مغرب میں مقننہ کے ذریعہ ان حقوق کی تشکیل و تشریح ہوتی ہے اور بہ وجوہ ان میں ترمیم وتنسیخ ہوتی رہتی ہے۔ اسلام میں حقوق کی ایماندارانہ ادائیگی اس کے نظام فکر وعمل کا حصہ ہے اور عبادات و اخلاقیات سے مربوط ہے۔ اللہ کا خوف اور اس کی رضا کے حصول کا جذبہ احترام حقوق پر ایک مسلمان کو آمادہ کرتا ہے۔ جب کہ مغرب خدا بیزاری کا شکار ہونے کی وجہ سے اس اعلیٰ تر اندرونی قوت سے محروم ہے۔ اسلام میں حقوق کادائرۂ کار بڑا جامع اور وسیع ہے۔  اس دائرہ کار میں اللہ کا حق سب حقوق پر مقدم ہے۔

حقوق اللہ کی اوّلیت

خالق اور مخلوق یا آقا اور بندوں کے درمیان جو رشتہ ہے وہ سب سے اہم اور سب پر مقدم ہے اس لیے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے فوائد بہت وسیع اور اُن کی خلاف ورزی کے نقصانات کافی دُوررَس ہیں۔ انہیں حقوق اللہ قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ اِن حقوق کا خداحاجت مند ہے اور ان کی ادائیگی میں اس کا کوئی مفادکار فرما ہے۔ وہ پوری کائنات کا خالق ہے اور تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے ۔  واقعہ یہ ہے کہ اِن حقوق کی ادائیگی سے خود اِنسان کی فلاح وابستہ ہے۔

پہلا حق یہ ہے کہ عقیدہ توحید پر ایمان لایا جائے۔ بندے کو علم ہو کہ اللہ کے واجب حقوق کیاہیں اور اُن کی ضد کیا ہے جیسا کہ متکلمین اسلام نے صراحت کی ہے۔اسے علم یقینی اور راسخ عقیدہ ہو کہ اللہ کے لیے وہ تمام صفات کمال ضروری اور واجب ہیں جو اُس کے جلال وجمال کے شایاں ہوں اور جن سے اُس نے اپنے آپ کو قرآن پاک میں متصف کیا ہے۔

بغیر کسی شک اور تردد کے اسے یقین کامل ہو کہ نقص اور خرابی کی ہر قسمسے اللہ پاک ہے جو اس کے جلال کے منافی ہو۔ انسان اس بات پر قائم ہو کہ اللہ کے لیے ہر کام کرنا ممکن ہے اور ہر چیز کو نیست ونابود کردینا اُس کے دائرہ اختیار میں ہے۔

اللہ کے کمال اعلیٰ کی تیرہ صفات ہیں جن پر الوہیت اور ربوبیت کا مدار ہے اور ان کے برعکس تیرہ صفات وہ ہیں جو نقص اور کمی کی علامت ہیں اُن سے اللہ کو مبرّا اور منزہ قرار دیناتوحید میں شامل ہے۔ وہ تیرہ صفات اور اُن کی اضداد یہ ہیں۔

(۱)اللہ کا وجود اور اس کی ضد عدم ہے۔(۲)قدیم ہونا، اور اس کی ضد حادث ہونا ہے۔(۳)بقا، اور اس کی ضد فنا ہے۔(۴)بے نیازی اور اس کی ضد محتاجی ہے۔(۵)بے مثل ہونا، اور اس کی ضد مشابہ ہونا ہے۔(۶)وحدانیت، اور اس کی ضد تعدد ہے۔(۷)علم، اور اس کی ضد جہالت ہے۔(۸)ارادہ، اور اس کی ضد مجبور ہونا ہے۔(۹)قدرت، اور اس کی ضد درماندگی اور عاجزی ہے۔(۱۰)حیات اور اس کی ضد موت ہے۔(۱۱)سماعت، اور اس کی ضد بہرہ پن ہے۔(۱۲)بصارت، اور اس کی ضد اندھاپن ہے۔(۱۳)کلام، اور اس کی ضد گونگا پن ہے۔

اسمائے حسنیٰ کا اقرار

خدا کی اِن تیرہ صفات کا علم واثبات اور اُن کی منفی وضد صفات کی نفی وتردید عقیدہ توحید کالازمی تقاضا ہے یہاں مقصود ان صفات کا حصر واحاطہ نہیں ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جن پر علم کلام میں معرکے برپا ہوئے ہیں۔ اسمائے حسنیٰ جن کی تعداد عام طور پر ننانوے بتائی جاتی ہے اُن کا عقیدہ اِن تیرہ صفات کے اثبات کے ساتھ کمال خداوندی کا اقرار ہے اور اُن کی اضداد کی تردید خداوند قدوس وسبوح کی تنزیہ کے لیے ضروری ہے۔

اللہ کے اسماء صفات کواسمائے حسنی کہا جاتا ہے جمہور علماء کے مطابق یہ اسماء توفیقی ہیں یعنی کسی اسم یاصفت کو اللہ پر اُسی وقت منطبق کیا جاسکتاہے جب کہ کتاب وسنت میں کوئی نص موجود ہو۔ تیرہ صفات جن کا اوپر تذکرہ ہوا ہے، علمائے توحید نے انہیں اصل قرار دیاہے بقیہ صفات یاتو اُن میں داخل ہیں یا اُن کی فرع ہیں یا ان کی تابع ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:

وَلِلہِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْہُ بِہَا۝۰۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕہٖ۝۰ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۸۰ (الاعراف:۱۸۰)

(اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے ، اُس کو اچھے ہی ناموں سے پکارواور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے نام ننانوے (ایک کم سو) نام ہیں جس نے انہیں شمار کرلیاوہ جنت میں جائے گا۔‘‘

امام بخاری نے ایک باب کتاب التوحید میں قائم کیا ہے: باب قول اللہ، تبارک وتعالیٰ (قُلِ اُدْعُوْاللہُ أدْعُوْا الرَّحْمٰن أیَّامًا تَدْعُوْافَلہٗ الْأسماء الْحُسنٰی) اس باب میں اللہ کے اسماء حسنیٰ کا تفصیلی ذکر ہے اور اس سلسلے کی احادیث درج ہیں ۔

ذات ، صفات اور افعال میں توحید

توحید کاعقیدہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور افعال واختیارات میں یکتائی اور وحدانیت پر ایمان رکھنے کا عقیدہ ہے۔ اللہ کی ذات صفات اور افعال میں کوئی اس کے مشابہ اور ہم سرنہیں ہے۔ توحید فی الذات پر قرآن کریم کی یہ آیات دلالت کرتی ہیں:

لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۔(الانبیاء۲۲)

(اگر آسمان وزمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑجاتا)

مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ كُلُّ اِلٰہٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يَصِفُوْنَ۝۹۱ۙ

(المومنون:۹۱)

(اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسراخدا اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر ایساہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہوجاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں)

توحید فی الصفات کی دلیل درج ذیل آیات ہیں:

ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ۝۰ۚ ہُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝۲۲ ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۲۳ ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ يُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۲۴ۧ (الحشر۲۲-۲۴)

(وہ اللہ ہی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا۔ وہی رحمن اور رحیم ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب ، اپنا حکم، بزور نافذ کرنے والا۔ اور بڑا ہی ہوکر رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کررہے ہیں۔ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کامنصوبہ بنانے والا ، اور اُس کو نافذ کرنے والا اور اُس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اُس کے لیے بہترین نام ہیں۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کررہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے)

افعال واختیارات میں اللہ کی وحدانیت پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں:

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ۝۰ۭ مَا كَانَ لَہُمُ الْخِيَرَۃُ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۶۸ (القصص:۲۸)

(اور تیرا رب پیداکرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور منتخب کرلیتا ہے یہ انتخابات ان لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔)

فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ۝۱۶ۭ (البروج۱۶) (وہ جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے)

حدود اور کفاروں کا نفاذ

’’تمام عبادتیں اور خدا کے تئیں عقیدت ونیاز مندی کے اظہار کے سارے مراسم، حقوق اللہ میں شامل ہیں۔ حدود وتعزیرات کانفاذ، کفاروں کی ادائیگی سب کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ سورۃ النور میں زنا کی سزا کوڑے مارنا بتایا گیا اور اس حد کی اقامت کو ’دین اللہ‘ سے تعبیر کیاگیا اور حکم دیاگیا کہ اس حد کو نافذ کرتے وقت کوئی انسان رحم دلی رکاوٹ نہ بنے۔ پوری سختی سے معاشرہ کو عفت مآب بنانے کی خاطر یہ حد قائم کی جائے:

اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ وَلْيَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲ (النور۲)

(زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو، اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزآخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور اُن کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کاایک گروہ موجود ہے)

زنا کی یہ سزا اس صورت کے لیے بیان ہوئی ہے جب کہ زانی مرد غیر شادی شدہ یا زانیہ عورت غیر شادی شدہ ہو۔ بکثرت احادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی عملی سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں زنا کی سزا رجم ہے یعنی مجرم کو سنگ سار کرنا تا آنکہ اسے موت آجائے۔ کوڑوں کی یہ سزا اور یہ عمل سنگساری اللہ کا حق ہے اسے ہر حال میں مسلم معاشرہ میں نافذ ہونا ہے۔ یہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ معاشرہ میں عصمت کے محفوظ رہنے کا نظم قائم کرے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دے۔ قرآن پاک میں قسموں کو توڑنے کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیاگیا اور اسے اللہ کے تئیں شکر گزاری کے جذبہ کا اظہار بتایاگیا:

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۝۰ۚ فَكَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ۝۰ۭ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰــثَۃِ اَيَّامٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ كَفَّارَۃُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ۝۰ۭ وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۸۹ (المائدہ:۸۹)

(تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا۔ مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو اُن پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کاکھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو۔ اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا کر توڑ دو۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیاکرو۔ اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر اداکرو۔)

حقوق العباد

اللہ کے حقوق کے بعد اس کے بندوں کے آپس میں حقوق ہیں جو واجب الادا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات شہادت دیتے ہیں کہ حقوق العباد کی خلاف ورزی سنگین جرم ہےاور ندامت اور توبہ واستغفار سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی جب تک مظلوم شخص معاف نہ کرے۔ انسانوں میں سب سے زیادہ حق والدین کا ہے۔ توحید کے معاً بعد قرآن کریم میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کاحکم ہے:

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۝۲۳ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ (بنی اسرائیل۲۳-۲۴)

(تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو۔ مگر صرف اُس کی ۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یادونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُ ف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ اُن سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی اور رحم کے ساتھ اُن کے سامنے جھک کر رہو۔ اور دُعا کیاکرو کہ ’’پروردگار، اُن پر رحم فرما جس طرح اُنہوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔)

ماں کا خصوصی حق

والدین میں ماں کو خصوصی درجہ حاصل ہے۔ اسی لیے ماں کا بطور خاص تذکرہ کیاہے:

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسٰـنًا۝۰ۭ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۝۰ۭ وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَۃً۝۰ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ وَاَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ۝۰ۭۚ اِنِّىْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۱۵ (الاحقاف۱۵)

(ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے۔ اُس کی ماں نے مشقت اٹھاکر اسے پیٹ میں رکھااورمشقت اٹھا کر ہی اُس کو جنا، اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو اُس نے کہا ’’اے میرے رب مجھے توفیق دے کر میں تیری اُن نعمتوں کا شکر اداکروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ دے۔ میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘

یہاں قرآن نے ماں اور باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد جن تین قربانیوں کا ذکر ہے وہ صرف ماں کی ہیں، باپ کی کسی قربانی کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ مفسرین کرام نے صراحت کی ہے:(۱) اولاد کی ابتدائی پرورش وپرداخت میں جو حصہ ماں کاہوتا ہے۔ باپ کا نہیں ہوتا۔ (۲) ماں کا تعلق کمزور جنس سے ہے اس لیے اس کی خدمت واطاعت کے پہلو کو زیادہ نمایاں کیاگیا۔(۳) باپ سے عام طور پر اولاد کامادی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اس سے ان کو جائداد واملاک وراثت میں ملنے کی اُمید ہوتی ہے مگر ماں سے عام حالات میں اس کی توقع کم ہوتی ہے اس لیے اس کی حقیقت قدر اولاد نہیں کرتی۔              (جاری)

 

مشمولہ: شمارہ جون 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223