یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگ دراصل بھیانک خونریزی اور ہمہ گیر تباہی کا نام ہے،جنگ سے ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع لازمی ہے،اموال و املاک کی بے حساب بربادی سے کسی کو انکار کی گنجائش نہیںہے ۔
قران وحدیث کی واضح تعلیمات کے مطابق اسلامی نظام کی تشکیل اصلاً جان ومال کی حفاظت اور امن وامان کے قیام کے لئے عمل میں آتی ہے،اسی لئے قران کریم میں انسانی جانوں کی حفاظت اور ان کے احترام کو خاص اہمیت دی گئی ،قران کریم میں انسانی عظمت وتقدس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا۔ (اسرائیل:70)
’’ اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ، ان کوخشکی وسمندر میں سواری دی ،پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔‘‘
قران کریم کسی ایک انسان کے بھی ناحق قتل کو خواہ وہ مومن ہو یا کافر عالمی فساد اور تباہی کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسََ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً وَلَقَدْ جَاء تْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُم بَعْدَ ذَلِکَ فِیْ الأَرْضِ لَمُسْرِفُون۔(مائدہ:32 )
’’ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اُس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان میں بہت سے لوگ ملک میں حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں ۔‘‘
قرآن میں لوگوں کے اموال واملاک کی بربادی پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا،ایک جگہ تخریب پسند حکمرانوں کی ان الفاظ میں تصویر کشی کی گئی ہے:۔
وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ ۔(بقرۃ:205)
’’اور جب ذمہ داری ملتی ہے تواسکی ساری تگ و دو اس لئے ہوتی ہے کہ وہ زمین میں فساد مچائے،فصلوں اورنسلوں کو برباد کرے،مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جنگ اسلام کوپسند نہیں،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کسی بھی شکل میں جنگ کی اجازت نہیں دیتا،بلکہ شروط و قیود کے ساتھ ایسی صورتوں میں جنگ کی ترغیب دیتا ہے جہاں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا،ساتھ ہی یہ احساس دلاتا ہے کہ جنگ کی تباہ کاریوں اور ان کے بالکل برعکس اسلام کی تعلیمات امن کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت دینا ایک انتہائی حساس معاملہ ہے،اسی حساسیت کے پیش نظر اسلام نے جنگ کے اخلاقی اور قانونی ضابطے مقرر کئے تاکہ یہ دنیا میں فساد کا پیش خیمہ نہ بن سکے،کیوںکہ اگر ان اصول وضوابط کے کسی باریک ترین پہلو کو بھی نظر انداز کردیاجائے تو اسلامی جنگ جس کو پاکیزہ جہادکہا جاتاہے فساد فی الارض میں بدل جائے گی۔ اسلامی جنگ کی بعض اصولی ہدایات:
جنگ کی مشروعیت :
جب کسی قوم پر ظلم کیا جارہا ہو،ہر طرف بربریت کا پہاڑ توڑا جارہا ہوتو ایسی صورت میں اسلام مظلوموں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگ کرے،اور ظالموں کو ظلم سے روکے،اپنے اوپر ہو رہے مظالم کو سہتے رہنا،حتی کہ اپنے افکارونظریات تک سے مصالحت کر لینا صریح بزدلی ہے جسے اسلام بالکل بھی پسندنہیں کرتا،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن۔(اٰل عمران:139)
’’اور (دیکھو) بز دِل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے ۔‘‘
کیونکہ ایسی صورت میں مظلوموں کو ہمیشہ ظلم برداشت کرنا پڑیگا انہیں موت کا خوف اور دنیاکی محبت اس قدر غالب آجائیگی کہ انہیں اس کا خیال بھی نہیں رہے گا کہ وہ مظلوم ہیں ،بلکہ ظلم کی چکیوں میں پستا رہ جانا ان کا شیوہ بن جائے گااور ظالم انہیں تختہ مشق بناتے رہیں گے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیش گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یوشک الامم ان تداعیٰ علیکم کما تداعی الاکلۃ الیٰ قصعتھا،فقال قائل :ومن قلۃ نحن یومئذ؟ قال :بل انتم یومئذ کثیر ولکنکم غثاء کغثاء السیل،ولینزعن اللہ من صدور عدوکم المھابۃ منکم،والیقذفن اللہ فی قلوبکم الوھن ،فقال قائل:یا رسول اللہ ماالوھن؟قال حب الدنیا و کراہیۃ الموت۔(ابو دائود،کتاب الملاحی،باب فی تداعی الامم علی الاسلام)
’’قریب ہے کہ قومیں تم پر باہم ملکر ہلا بول دیں،جیسے کھانے والے ملکر بڑے پیالے کی طرف ٹوٹ پڑتے ہیں،ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول کیا ہماری تعداد کی کمی کی وجہ سے ایساہوگا؟آپ نے فرمایا نہیں تم اسوقت تعداد میں زیادہ ہوگے،لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح بے حیثیت ہوگے،اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب ختم کر دے گااور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دی جائیگی،کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول وھن(بزدلی ) کیا ہے؟آپ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کو نا پسند سمجھنا۔‘‘
ان کے علاوہ دیگر آیات و احادیث میں بھی اس کی صراحت موجود ہے کہ جب دنیا ظلم سے بھر جائے ،فتنہ وفساد عام ہو جائے ،کمزوروں کے حقوق سلب کر لئے جائیں تو لوگوں کو چاہئے کہ وہ حقوق کو حاصل کرنے اور دنیا کو ظلم سے آزاد کرانے کے لئے جنگ کریں ،ایسے لوگوں کے لئے مدد کا وعدہ کیا گیا،قران پاک میں ایک جگہ ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ آمَنُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ،الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہ۔(حج:39تا40)
’’ جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے اُن کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ اُن پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ (اُن کی مدد کرے گا وہ) یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے ۔۳۹۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دئیے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب، اللہ ہے ۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ اس جنگ کوپاگیزگی کے تمام اخلاقی اصول وضوابط سے جوڑنے کا حکم دیا گیا اوراس کی خاص تنبیہ کی گئی کہ مظلوم بھی رد عمل میں حد سے تجاوز کر کے خود ظالم نہ بن جائیں۔
ظالم و جابر اور جرائم پیشہ قومیں جب کسی پر حملہ آور ہوتی ہیںتو تمام ضابطہ انسانیت اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر وحشیانہ برتائو کرنے لگتی ہیں،لیکن اسلامی جنگ میں سخت تاکید کی جاتی ہے کہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم وزیادتی نہ ہونے پائے،قرآن میں ہے:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔( بقرۃ:190)
’’ اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں اُن سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔‘‘
جنگ کیوں لڑی جائے؟
ظالموں کے خلاف جنگ کی اجازت کے ساتھ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ جو در اصل کشت و خون کی دعوت دیتی ہے،تباہی وبربادی اس کا لازمی نتیجہ ہے،کیوں لڑی جائے؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلامی جنگ(جہاد) صرف اسے ہی کہا جاسکتاہے جس میں کہیں بھی مادی مقاصدکا دور تک شائبہ بھی نہ پایا جاتا ہو،اپنے گروہ کے لیے حکومت و اقتدار کا حصول ،بلندی وبرتری کا جذبہ،معاشی وسائل و ذرائع پر کنٹرول کی خواہش وغیرہ یہ وہ مقاصد ہیں جنکے حصول کے لئے ہی مفاد پرست اور استعماری دنیا جنگیں لڑ رہی ہے،اسلام ان تمام مادی اغراض ومقاصدکے لئے لڑی جانے والی جنگ کو فساد فی الارض قرار دیتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوّاً فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْن۔(قصس:83)
’’وہ (جو) آخرت کا گھر (ہے) ہم نے اُسے اُن لوگوں کیلئے (تیار) کر رکھا ہے جو ملک میں برتری اور فساد کا ارادہ نہیں کرتے اور (نیک) انجام تو پرہیزگاروں ہی کا ہے۔‘‘
متعدد احادیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی:ایک جگہ ہے:
جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال:الرجل یقاتل للمغنم،والرجل یقاتل للذکر،والرجل یقتل لیریٰ مکانہ،فمن فی سبیل اللہ؟قال من قاتل لتکون کلمۃاللہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللہ۔(بخاری،کتاب الجہاد،باب من قا تل لتکون کلمۃاللہ ھی العلیا )
’’ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ کوئی شخص مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جنگ کرتا ہے،کوئی شہرت و ناموری کے لئے،اور کوئی اپنی برتری دکھانے کے لئے،فرمایئے کہ کس کی جنگ راہ خدا میں ہے؟آپﷺنے فرمایا:صرف اسی کی جنگ راہ خدا میں کہلائے گی جو محض اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے لڑے۔‘‘
اسلامی جنگ کے مقاصد،مظلوموں کو ظلم سے بچانا:
ایسی قوم جس پر بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہوں،انہیں تڑپنے اور بلبلانے کے لئے مجبورکیا جا رہا ہو،اور وہ ان مظالم کی تاب نہ لاکر آہ وفغاںکر رہی ہو تو کیا ایک شریف وسنجیدہ اور انسانی حمیت وغیرت رکھنے والا صاحب عقل و سلیم کی غیرت اس کے لئے بیدار نہیں ہوگی کہ وہ ظالموںکے خلاف آوازیںبلند کرے اور انہیں پوری قوت کے ساتھ روکنے کی کوشش کرے؟قرآن کریم میں ایسے مظلوموں کے تعلق سے انسانی ضمیر کو جھنجھور کر کہا گیا:
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْرا۔(نساء:75)
’’ اور تم کو کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اس شہر سے، جس کے رہنے والے ظالم ہیں، نکال کر کہیں اور لے جا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما ۔‘‘
مذہبی جبر واکراہ کا خاتمہ
کسی انسان کو اس کے اختیار کردہ افکارو نظریات سے بالجبر دستبردار کرنے کی کوشش کرنافساد کا باعث ہے،اسلئے اسلام ہر شخص کواختیار مذہب کی پوری آزادی دیتا ہے،نہ تو کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی غیر مسلم کی طرف سے مسلمانوں پر کئے گئے جبر وتشدد کو برداشت کرتا ہے،بلکہ جبر واکراہ کے خاتمہ کو جنگ کا اہم ترین مقصد قرار دیتا ہے،قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْز۔(حج:40)
’’اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) خلوت خانے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں اللہ کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہو چکی ہوتیں اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اُس کی ضرور مددکرتا ہے بیشک اللہ توانا اور غالب ہے ۔‘‘
عدل وقسط کا قیام
جنگوں میں فتح پانے کے بعدحکومت و اقتدار حاصل ہوتی ہے،ادلام کی نْطر میں حکومت وسلطنت ایک عظیم الشان امانت ہے،جس میں معمولی خیانت بھی آخرت میں ذلت ورسوائی کا باعث بن جاتی ہے،اللہ کے رسول ﷺنے حضرت ابو ذر غفاری ؓسے یہی بات فرمائی تھی:
’’یا ابا ذر انھا امانۃ وانھا یوم القیامۃ خزی و ندامۃالا من من اخذھا بحقھا وادی الذی علیہ فیھا۔‘‘(مسلم ،کتاب الامارۃ، باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃنمبر۱۸۲۵)
’’اے ابو ذر یہ امانت ہے اور قیامت کے دن یہ باعث رسوائی اور باعث ندامت بن سکتی ہے،سوائے اس شخص کے لئے جو اس کو حق کے ساتھ لے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔‘‘
اسلام حکومت و اقتدار کو عدل وقسط کا قیام ،ظلم و جبر کے خاتمہ اور تمام انسانوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کا ذریعہ قرار دیتا ہے،اور ارباب اقتدار کو ان امور کا پابند بناتا ہے،قران کریم میں ارشاد ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا۔ (نساء:۵۸)
’’ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں اُن کے حوالے کر دیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو اللہ تعالیٰ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بیشک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے ۔‘‘
ایک دوسری آیت میں عصبیت سے دور رہ کر عدل و انصاف کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ، ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُہَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔ (مائدہ:۸)
’’اے ایمان والو! اللہ کیلئے انصاف کی گواہی دینے کیلئے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیںاس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو (بلکہ) انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے ۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام کو جب عظیم الشان سلطنت دی گئی تو انہیں تاکید کی گئی کہ انصاف سے فیصلہ کریں ناور خواہش نفس کی پیروی نہ کریں،قرآن میں ہے:
یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّونَ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَاب۔(ص:۲۶)
’’ اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف کے فیصلے کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کے رستے سے بھٹکا دے گی جو لوگ اللہ کے رستے سے بھٹکتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب (تیار) ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا۔ ‘‘
اسلام ارباب اقتدار سے اس کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہر اچھی بات کو لوگوں میں عام کریں اور انہیں اس کا عادی بنائیں،قرآن کریم میـں ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ۔ (حج:۴۱)
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔‘‘
اسلامی جنگ کی بنیادی شرطیں
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ جنگ دنیا میں خوفناک صورت حال پیدا کر سینکڑوں بحرانوں کو جنم دیتی ہے،اس لئے اسلام کامزاج جنگ کو پسند نہیں کرتا،چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں کی تمنا کرنے سے منع فرمایا،اور ہر حال میں امن وعافیت کو طلب کرنے کا حکم فرمایا،ایک جگہ آپﷺکاارشاد ہے:
لاتمنوا لقاء العدوواسئلوااللہ العافیۃ،فاذٓلقیتموھم فاصبروا،واعلموا ان الجنۃ تحت ظلال السیوف۔ (بخاری، کتاب الجہاد،باب لا تمنوا لقاء العدو)
’’دشمنوں سے مڈبھیڑ ہونے کی تمنا مت کرو،بلکہ اللہ سے امن وعافیت کی دعاء کرو،مگر جب دشمن سے مقابلہ ہو ہی جائے تو پھر ثابت قدم رہو،جان لو کہ ایسی صورت میں جنت تلوار کے سایہ تلے ہے۔‘
یہ حدیث صاف بتا رہی ہے کہ جنگ پسندیدہ عمل نہیں ،لیکن جب حالات مجبور کر دیں،دشمن ظلم و بربریت کی آخری حد کو پہنچ جائے،مسلمانوں پر مذہبی مشکلات اور دیگر صعوبتوں کو روا رکھا جائے،ان کے مذہبی شعائر کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے،تو اب اسلام چند شرائط کے ساتھ انہیں جواب دینے کا حکم دیتا ہے۔
امام کی اطاعت
جنگ چونکہ ایک حساس ترین عمل ہے اس لئے اس کو عام انسانوں کی مرضی اور خواہش پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر جو چاہے جنگ کرے،کیونکہ عام لوگوں کے صواب دید پر معاملہ جنگ کو چھوڑ دینے سے دنیا کو تباہی وبربادی کے علاوہ کچھ میسر نہیں ہو سکتی،اس لئے اسلام کسی فرد یا جماعت کو اس وقت تک جنگ کی اجازت نہیں دیتا جب تک وہ ایک منظم جماعت کے تحت آکر ایک امیر کی اطاعت نہ کرلے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا:
من اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن عصانی فقد عصی اللہ،و من یطع الامیر فقد اطاعنی ومن یعص الامیر فقد عصانی،وانما الامام جنۃیقاتل من وراء ہو یتقیٰ بہ۔(بخاری،کتاب الجہاد،باب یقاتل من وراء ہ ویتقیٰ بہ)
’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی،اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی،جو امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے،اور جو امیر کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری نافرمانی کرتاہے،مسلمانوں کا حکمراں(امام)ڈھال کی مانند ہے،اس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جائے،اور اس کے ذریعہ حفاظت حاصل کی جائے۔‘‘
ایک مرتبہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر سے پہلے اللہ کے رسول کی اجازت کے بغیرقریش سے جنگ کی اور مال غنیمت لیکر آئے،تو اس پر آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایااور اس کو ناجائز وحرام قرار دیا۔
ایک دوسری حدیث میں جہاد کی اہم شرطوں اور اس کی صحیح غرض و غایت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے:
الغزو غزوان،فام من ابتغیٰ وجہ اللہ واطاع الاماموانفق الکریمۃواجتنب الفساد فان نومہ و نبھتہ اجر کلہ،وواما من غزا ریاء و سمعۃوعصی الامام وافسد فی الارض فانہ لا یرجع بالکفاف۔(ابوداود،کتاب الجہاد،باب فی من یغزوویلتمس الدنیا،حدیث نمبر۲۵۱۵)
’’جنگیں دو قسم کی ہوتی ہیں،جس شخص نے محض اللہ کی رضامندی کے لئے جنگ کی،امام کی اطاعت کی،اپنا بہترین مال خرچ کیا،اور فساد سے پرہیز کیا،اس کا سونا اور جاگنا سب اجر کا مستحق ہے،اور جس نے دکھاوے اور نام و نمود کے لئے جنگ کی،امام کی نافرمانی کی،اور زمین میں فساد مچایاتو اسے کچھ بھی نہیں ملنے والا ہے۔‘‘
قرآن میں ایک جگہ موجود ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ساتھ ظلم کیا گیا ،ان کی سخت تباہی مچائی گئی،سرداران بنی اسرائیل کاارادہ ہوا کہ جنگ لڑ کر اس ظلم کا بدلہ لیا جائے،اس وقت سب اپنے نبی کے پاس پہنچے اور ایک ایسے امام کو متعین کرنے کی درخواست کی جسکی سرپرستی میں جنگ کی جائے،چنانچہ نبی نے خلیفہ کا انتخاب کیا اور ان کی ماتحتی میں کامیاب جنگ لڑی گئی،پورا واقعہ سور ہ بقرہ،آیت نمبر ۲۴۶تا۲۵۲ میں مذکور ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَی الْمَلإِ مِن بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ مِن بَعْدِ مُوسَی إِذْ قَالُواْ لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ إِن کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِیَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ وَاللّہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمِیْنَ ،وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ إِنَّ اللّہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً۔ (246۔247)
’’ بھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا جس نے موسیٰ کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ اگر تمہیں جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلوتہی کرو،وہ کہنے لگے کہ ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا کر دئیے گئے۔ لیکن جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو چند لوگوں کے سوا سب پھر گئے اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے خوب واقف ہے ۔ اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ اللہ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔‘‘
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی شریعت میں بھی خلیفہ یا امیر کے بغیر جنگ کا تصور نہیں تھا۔
عہد ومیثاق کی پوری پابندی
قرآن واحادیث میں ایفاء عہد کی بڑی تاکید آئی ہے،خواہ انفرادی یا اجتماعی معاہدہ ہویاملکی و بین الاقوامی ہر حال میں اس کی پابندی پر زور دیا گیاہے،بد عہدی اور نقض میثاق میں کتنا ہی فائدہ نظر آرہا ہو،وفائے عہد سے کتنا بڑا نقصان ہونے کاامکان ہو اسلام معاہدہ کی خلاف ورزی سے سختی سے روکتا ہے،قرآن کریم میں متعدد مقامات پر وفائے عہد کا حکم دیا گیا،ایک جگہ ارشاد ہے:
وَأَوْفُواْ بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُولا۔(بنی اسرائیل:34)
’’ اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میںضرور پرسش ہو گی ۔‘‘
دوسری آیت میں کہا گیا کہ جب تک فریق اول معاہدہ پر قائم ہے اس وقت تک اس کو باقی رکھنا ضروری ہے،ارشاد ہے:
فَمَا اسْتَقَامُواْ لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُواْ لَہُمْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْن۔ (توبۃ:7)
’’ اگر وہ(اپنے عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی اپنے قول و قرار (پر) قائم رہو بیشک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔‘‘
اسلام معاہدہ کی پابندی کی اس قدر اہمیت دیتا ہے کہ اگر کسی ایسی غیر مسلم ریاست میں جس سے کسی مسلم اسٹیٹ کا معاہدہ ہے مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہوتب بھی مسلم اسٹیٹ کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس غیر مسلم ریاست سے جنگ کرے،جب کہ ظلم کے خلاف جنگ کے لئے اسلام ترغیب بھی دیتا ہے،قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْء ٍ حَتَّی یُہَاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُم مِّیْثَاقٌ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْر۔ (انفال:72)
’’اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو اُن کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہے مگر اُن لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور اُن میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہئیے) اور اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے ‘‘۔
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے رومیوں پر حملہ کا ارادہ کیا،جبکہ ان سے معاہدہ کیا جا چکا تھا،جس دن معاہدہ کی مدت پوری ہو رہی تھی آپ ؓ نے اسی دن حملہ کی غرض سے فوج کو روانہ کردیا،حضرت عمر بن عنبسہ نے اس کو بد عہدی قرار دیکر یہ پکارتے ہوئے امیر معاویہؓ کے پاس پہنچے ،اللہ اکبر وفاء لاغدر،(اللہ اکبر ایفاء عہد کرو نقض عہد نہیں)حضرت معاویہؓ نے وجہ دریافت کی تو حضرت عنبسہ نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے:
من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عھدا ولا یشدنہ حتی یمضی امدہ او ینبذ الیھم علیٰ سواء،فرجع معاویۃ۔(ابو داود،کتراب الجہاد،باب فی الامام یکون بینہ وبین العدو عھد،نمبر2759)
’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو وہ ہر گز بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرے حتی کہ اس کی مدت گذر جائے،یا پھر برابری کے ساتھ پیشگی معاہدہ کے ختم کی اطلاع دے ،پھر حضرت معاویہ ؓ واپس لوٹ گئے۔‘‘
ان کے علاوہ بہت سی آیات واحادیث ہیں جن میں معاہدہ کی پوری پاسداری کی تاکید کی گئی اور اس کی خلاف ورزی سے سختی سے منع کیا گیا۔
صلح ومصالحت
صلح و مصالحت کے لئے ہر وقت تیار رہنا اسلامی جنگ کا خصوصی امتیاز ہے،امن و امان پر جنگ کے برے اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے اسلام اس کا پابند بناتا ہے کہ ہر حال میں جنگ سے گریز کرنے کی کوشش کی جائے،اور جنگی صورتحال کو ختم کرنے کے لئے جتنی راہیں ہو سکتی ہیں انہیں اختیار کیا جائے،جنگ کو روکنے کا ایک اہم ترین راستہ صلح و مصالحت ہے،قرآن کریم میں اس کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر دشمنوں کے ساتھ صلح و مصالحت کی کو ئی بھی گنجائش نکل رہی ہو تو اسے بڑھ کر قبول کرنا چاہیے،دشمن کی طرف سے امکان فریب کے باوجود بھی تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیے،بلکہ ایسی صورت میں بھی اللہ پر بھروسہ کر کے مصالحت کی راہ اپنانی ضروری ہے،قرآن کریم کے الفاظ اس طرح ہیں:
وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَإِن یُرِیْدُواْ أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّہُ ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ۔ (انفال:61تا62)
’’اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اُس کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے ۔ اور اگر یہ چاہیں کہ تمہیں فریب دیں تو اللہ تمہیں کفایت کرے گا وہی تو ہے جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی ۔‘‘
کامیابی کا امکان
اسلامی جنگ مرنے اور مارنے،کٹنے کاٹنے تباہ وبرباد کرنے اور تباہی کاشکار ہو جانے کا نام نہیں ہے،بلکہ یہ ایک عقلی،فکری،منطقی اور نتیجہ خیز اقدام کا نام ہے جسکو عقل و فکر اور سوجھ بوجھ کے دائرہ میں لا کر اختیار کرنا ضروری ہے،لہٰذافوجی اور دفاعی صلاحیت کا اس قدر ہونا ضروری ہے جس سے دشمنوں کی موجودہ صلاحیت کا کامیابی کے امکان کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہو،مادی لحاظ سے بھی عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہو کہ اتنی قوت دفاع سے دشمن کوشکست دی جا سکتی ہے،اگر دونوں کے درمیان تفاوت اس قدر ہو کہ عقل انسانی اس قدر تفاوت فاحش کے ساتھ دشمن کی شکست کو تسلیم نہیں کرتی تومحض جذبات میں آکر جنگ کے اندرچھلانگ لگا دیناغیر معقول ہی نہیں اپنی رہی سہی صلاحیتوں کو خود اپنے ہاتھوں تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
قرآن میں ایک اہم واقعہ موجود ہے کہ سرداران بنی اسرئیل نے اپنے نبی سے ایک خلیفہ مقرر کرنے کی درخواست کی تا کہ ان کی امارت میں دشمن سے جنگ کریں،اس نبی مصدوق کو بنی اسرائیل کی سابقہ حرکتوں اور اعمال سے تذبذب ہی نہیں یقین ہو گیا کہ یہ لوگ محض جذبات میں آکر جنگ کی خواہش کررہے ہیں،جب وہ دشمنوں کی طاقت کو دیکھیں گے تو میدان کارزار سے راہ فرار اختیار کرلیں گے،قران کریم میں نبی کے تذبذب کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَی الْمَلإِ مِن بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ مِن بَعْدِ مُوسَی إِذْ قَالُواْ لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ إِن کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُوا۔ (بقرۃ:246)
’’ بھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا جس نے موسیٰ کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ اگر تمہیں جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلوتہی کرو۔ وہ کہنے لگے کہ ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا کر دئیے گئے۔ ‘‘
بنی اسرائیل کے سرداروں نے نبی کے تذبذب کو دور کرنے کی کوشش کی اور کہا:
قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِیَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا۔ (بقرۃ:246)
’’وہ کہنے لگے کہ ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا کر دئیے گئے۔‘‘
لیکن نبی کا تذبذب درست تھا اور ایسا ہی ہوا جیسا انہوں نے سوچا تھا،چنانچہ جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو چند لوگوں کے علاوہ سب میدان چھوڑکر بھاگ نکلے۔قرآن میں ہے:
فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ وَاللّہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمِیْنَ۔ (بقرۃ:246)
’’لیکن جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو چند لوگوں کے سوا سب پھر گئے اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے خوب واقف ہے ۔‘‘
اس واقہ میں غور کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ نبی نے بنی اسرائیل کی سابقہ روش کو دیکھ کر اندازہ کر لیا کہ یہ دشمنوں کی طاقت کے سامنے ہمت ہار جائیں گے ،اس وجہ سے اس جنگ میں کامیابی کا امکان بالکل نظر نہیں آتا، نبی بھی شروع میں جنگ کے لئے پوری طرح سے آمادہ نہیں ہوئے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین روئے زمین کے وہ پاکیزہ گروہ تھے جن کے اعمال و کردار اور غیر معمولی قوت ایمانی کی مثال انبیاء کے علاوہ کسی اور طبقہ انسانی میں پیش نہیں کی جاسکتی،ان کے غیر متزلزل ایمان و استحکام کی وجہ سے 20افراد کو دشمن کے 200پر اور 100کو1000پربھاری قرار دیا گیا،قرآن کریم میں ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُون۔ (انفال:65)
’’اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دوسو کافروں پر غالب رہیں گے اور اگر سو (ایسے) ہوں گے تو ہزار پر غالب رہیں گے اس لئے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے ۔‘‘
لیکن بعد میں معیار استحکام میں ضعف آتا گیااسی وجہ سے افراد کے تناسب کو بھی بدل دیا گیا،اور بالآخر یہ طے پایا کہ ۱۰۰(ایک سو)ثابت قدم مومنین دو سو(۲۰۰)کفارپر اور ایک ہزار مومنین دو ہزار کفار پر غالب آجائیں گے۔قرآن میں ہے:
الآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْن۔ (انفال:66)
’’اب اللہ نے تم پر سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ (ابھی) تم میں کسی قدر کمزوری ہے پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دوسو پر غالب رہیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دوہزار پر غالب رہیں گے اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کامددگار ہے ۔‘‘
آیات میں مذکور تناسب کا تغیر و تبدل خود بتا رہا ہے کہ جنگ کے لئے کامیابی کا امکان ضروری ہے،اس کے ساتھ ساتھ آج ہماری ایمانی قوت کا جوحال ہے وہ خود ہم سے مخفی نہیں،اور ہمارے اعمال و کردار کا جو حال ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے،لہٰذا آج کی صورتحال میں جنگ کے لئے اتنی فوجی اور دفاعی طاقت و قوت کاہونا ضروری ہے جس کے ذریعہ دشمن کوشکست دینے کو عقل عام تسلیم کرتی ہو۔
اسلامی جنگ کے چند اخلاقی پہلو،عمومی ہلاکت سے اجتناب:
اسلام صرف ان لوگوں سے ہی قتل وقتال کی اجازت دیتا ہے جو جنگ میں براہ راست شریک ہیں،اور جنکا جنگ سے کوئی تعلق نہیں ان سے قتل وقتال جائز نہیں،قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔(بقرۃ:190)
’’ اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں اُن سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔‘‘
وحشی قوموں کی طرح نہیں جو حقوق انسانی کی حفاظت کا ڈھول پیٹنے کے باوجود اپنے مخالفین کے بوڑھوں،ضعیف و کمزور،مردو عورت سب کے ساتھ یکساں ظلم وبربریت کا معاملہ کرتی ہیں،شدید تباہی مچانے اور قتل عام کو اپنی تہذیبی برتری کی دلیل تصور کرتی ہیں،چنانچہ 29اکتوبر2004ء کو،،جان ہوپکنس یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ اسکول میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ نے 2003ء میں عراق پہ حملہ کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ عام شہریوں کو قتل کیا تھا۔(بحوالہ ترجمان القرآن،دسمبر2004)
اسلام کسی ایسے فرد کو قتل کرنے سے سختی سے منع کرتا ہے جو اس جنگ میں براہ راست شریک نہیں ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لاتقتلوا شیخا فانیاولا طفلا صغیراولا امراٗۃولا تغلوا وضموا غنائمکم واصلحوا ان اللہ یحب المحسنین۔(ابو داود ،کتاب الجہاد،باب فی دعاء المشرکین۲۶۱۴)
’’نہ کسی بوڑھے ضعیف کو قتل کرو،نہ بچوں اور عورتوں کو،اورمال غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اصلاح کرتے رہواللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
وسائل وذرائع کوتباہ کرنے کی ممانعت:
جنگوں میںقومی وملکی وسائل وذرائع کو تباہ وبرباد کرناجاہلی اور وحشی قوموں کا خاص طریقہ رہا ہے،اورآج مغربی وحشی اقوام اپنے اوپرمصلحین انسانیت کا پر فریب لبادہ ڈال کرسابقہ درندوں سے بہت آگے بڑھ چکی ہیں،ہوائی اڈوں،ذرائع مواصلات، ذرائع حمل ونقل اور زراعت و تجارت کے مراکز کو تباہ کرنا بلکہ عمومی تباہی مچانے والے زہریلے ہتھیاروں کا استعمال کرکے معصوم بچوں،عورتوں اور نہتے انسانوں کو جلاکر راکھ کر دیناان کا طرہ امتیاز ہے،چنانچہ امریکہ نے2003ء میں عراق کے اندر عمومی تباہی مچانے والے ز ہریلے کیمیائی بموں کی بارش کرنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں کو سیراب کرنے کے ذرائع اور پانی کے راستوں میں کثیر تعداد میں زہریلے مواد ڈال دیئے جن سے فصلوں کی تباہی اور عوام کی صحت کی بربادی خوب زوروں پر ہوئی۔(عالمی سہارا،15جنوری 2005ء ،ص:2)اس کے علاوہ ان خونخوار اقوام کی سینکڑوں مثالیں اخبار کی زینت بنی ہوئی ہیں۔
اسلام ایسی عمومی بربادی کو سخت ناپسند کرتا ہے ،قرآن کریم میں فساد و بربادی کی ناپسندیدگی کااظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے:۔
وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ ۔ (بقرہ:205)
’’ اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے او رکھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کر دے اور اللہ تعالیٰ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
حدیث میں ہے :
نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن النھبیٰ والمثلیٰ۔(بخاری ،کتاب المظالم،باب النھی عن النھبیٰ)
’’اللہ کے رسول ﷺنے لوٹ مار اور لاشوں کو ٹکڑے کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
لوٹ مارکی ممانعت:
یہودیوں کے سردار نے اللہ کے رسول ﷺ سے شکایت کی کہ کیا تمہارے لئے مناسب ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جائواور ہماری عورتوں پر دست درازی کرو،یہ سن کر اللہ کے رسول صلی ا للہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا:۔
ان اللہ تعالیٰ لم یحل لکم ان تدخلوا بیوت اھل الکتاب الا باذن ولاضرب نسائھم ولا اکل ثمارھم۔(ابودائود،کتاب الخراج والفئی والامارۃ،باب تعشیر اھل الذمۃ اذاختلفوا، نمبر ۳۰۵۰)
’’اوراللہ نے تمہارے لئے یہ جائزنہیں کیاکہ اھل کتاب(غیرمسلموں )کے گھروں میںبلا اجازت گھس جائوان کی عورتوں کو مارو اور ان کے پھل کھا جاؤ۔‘‘
ایک مرتبہ کسی جنگ میں اہل لشکر نے کچھ بکریاں لو ٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کرکھانا چاہا،اللہ کے رسول ﷺکو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے آکر دیگچیاں پلٹ دیں اور ارشاد فرمایا:۔
ان النھبۃ لیست باحل من المیتۃ۔(ابودائود کتاب الجہاد ، باب فی النھی عن النھبیٰ اذاکان فی الطعام قلۃ فی ارض العدو۔نمبر۲۷۵۰)
’’یعنی لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ہے۔‘‘
محاربین کے ساتھ سلوک
جو لوگ جنگ میں براہ راست شریک نہیںہیں ان سے کسی طرح کے تعرض کی اجازت نہیں،رہے وہ لوگ جو میدان جنگ میں مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ان کے ساتھ بھی اسلام اعلی اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتا ہے،جیسے:
آج حقوق انسانی کی علمبردار اقوام دھوکہ میں ہی حملہ کو ضروری سمجھتی ہے ،چنانچہ کاموں میں مشغول ،تمام حوادث وواقعات سے بے خطر نہتے لوگوں پر ڈرون حملے کرنا،طیاروںسے خون ریز بمباری کرنا ہی انسانیت کا محافظ مگر درندگی کی پیکر قوم کا امتیازی طریقہ ہے۔
اسلام غفلت میں حملہ کرنے سے سختی سے منع کرتا ہے،اللہ کے رسول ﷺ کبھی دشمنوں پر رات میں حملہ نہیں کرتے ،حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ:
کان اذا جاء قوما بلیل لم یغر علیھم حتی یصبح۔ (بخاری،کتاب الجھاد،باب دعاء النبی الی الاسلام والنبوۃ،نمبر۲۹۴۵)
’’اللہ کے رسول ﷺ جب دشمن کے یہاںرات میں پہنچ جاتے تو ان پر حملہ نہ کرتے یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔‘‘
آگ میں جلانے کی ممانعت
اپنے مخالفین کو آگ میں جلانا یا ان پر آگ برسانا غیر انسانی عمل ہے،دور حاضر میں یہ وحشیانہ طریقہ بھی مغربی درندگی کا خاصہ ہے،چنانچہ امریکہ نے 8نومبر 2004ء کو عراق کے ایک شہر فلوجہ پر حملے کے دوران دوسرے عمومی تباہی مچانے والے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ’’ فاسفورس‘‘کا استعمال کیا جو ایک خطرناک کیمیکل ہے،یہ آکسیجن پاتے ہی بری طرح جلتا ہے،بادل کے مانند ہوتا ہے جو اپنے پاس موجود تمام انسانوں اور جانوروں کو بالکل جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔
8نومبر2005ء کو اٹالوی ٹیلی ویزن نے مختلف دلائل کی روشنی میں پورے وثوق کے ساتھ دعویٰ کیا کہ امریکہ نے 2004ء میں فلوجہ کی لڑائی کے دوران w p کے گولے کثیر تعداد میں عام شہریوں پہ داغے تھے،امریکی فوجی،،جیف اینگل ہارٹ،،کے حوالے سے اسی ٹیلی ویزن نے یہ خبربھی نشر کی کہ اس نے بمباری کے بعد عورتوں اور بچوں کے جلے ہوئے جسم بھاری تعداد میں دیکھے تھے،فلوجہ کے اس حملہ میں6000عام شہری مارے گئے تھے،50ہزار گھروں میں سے36ہزار گھر بالکل تباہ ہو گئے ،60اسکولس اور65مسجدیں اور دیگر مقدس مقامات زمیںبوس ہوگئے ۔(ماخوذ از عالمی سہارا:3دسمبر2005ء،ص:3)
ان کے علاوہ ایسے سنگین واقعات تاریخ کے صفحات پر درج ہیں ،ایٹمی بموں سے اچانک لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانوں کو تباہ کرنا بھی انہیں اقوام کا متعدد مرتبہ آزمایا ہوا وصف ہے،اسلام کسی انسان کو خواہ وہ سنگین دشمن ہی کیوں نہ ہو آگ میں جلانے سے سختی سے روکتا ہے،متعدد روایات میں اس کی حرمت بیان کی گئی ہے،ایک موقع سے اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:
لا ینبغی ان یعذب بالنار الا برب النار۔(ابو دائود،کتاب الجہاد،باب فی کراھیۃ حرق العدوبالنار ،نمبر۲۶۷۵)
’’آگ کا عذاب دینا آگ کے پیدا کرنے والے (اللہ) کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔‘‘
جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک
جنگ میںگرفتار قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی جو تعلیمات اسلام پیش کرتا ہے ان کی عظمت وبلندی کا ہر صاحب چشم کھلا مشاہدہ کر سکتا ہے،خاص کر دور جدید کی درندگی کے سامنے ان تعلیمات کی اہمیت اور ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے،ابو غریب،گوانتانوے اور دیگر خفیہ مقامات پر قیدیوں کے ساتھ اچانک منظرعام پہ آجانے والے دلسوز واقعات سے پوری دنیا تلملا اٹھی تھی، لیکن جو واقعات منظر عام پہ نہیں آسکے وہ اور بھی زیاد سنگین ہیں۔
امریکی افواج کے ذریعہ قیدیوں کے ساتھ کئے گئے غیر انسان رویوں میں سے بعض جو انتہائی احتیاطی تدابیر کے باوجود خود امریکی ایجنسیوں کے ذریعہ ہی دنیا کے سامنے آگئے ہیں،وہ اس طرح ہیں،، جیسے: قیدیوںکو کانٹے دار تاروں پر ننگے چلانا،آنکھوں پر پٹی باندھنا، منہ اورناک پر ہاتھ رکھکر انہیں بند کردینا تا کہ سانس نہ لے سکیں،کیمیائی مادہ یا مرچیں چھڑکنا، سگریٹ سے جلانا،منہ باندھ کر ڈھانک دینا اور لاکر میں بند کردینا،کتوں کو دوڑانا،سرد پانی بدن پر ـڈال دینا،الیکـٹرک شاک لگانا،غذا اور پانی سے محروم رکھنا،زبردستی سر اور دوسرے حصے کا شیو کرنا،بلا وجہ انجیکشن لگانا،گھٹنوں کے بل چلانا،جانوروں کی طرحـ چلنے کیلئے مجبور کرنا،اپنے اوپر پیشاب کروانا،بلند آواز میں موسیق سنانا،جسمانی حملے جیسے مکے مارنا ،لات مارنا،ڈنڈے اور بندوق سے مارنا،جنسی اہانت کرنا ،سونے سے محروم رکھنا وغیرہ۔(ماخوذ عالمی سہارا، 18فروری2006ء ،ص:3)
یہ ہے ان درندوں کے کرتوت کی معمولی سی جھلک جنکو یقین ہے کہ وہ حقوق انسانی کے محافظ ہیں ،اور اسلام کو خونخوار اور انسانیت کا سخت دشمن قرار دیتے ہیں۔اسلام جنگی قیدیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کی تلقین کرتا ہے ،قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کہا گیا کہ ان کے ساتھ انتہائی نرمی و محبت کا برتائو کیا جائے،اور ان لوگوں کی تعریف وتحسین کی گئی جو قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں،قرآن پاک میں ہے:
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً ۔(دہر:۸)
’’اور باوجودیکہ ان کو خود کھانے کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروںاور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ ‘‘
جنگی قیدیوں کے بارے میں اسلامی قانون یہ ہے کہ ان پر احسان کیاجائے، بلا کسی عوض کے چھوڑ دیا جائے یا کچھ فدیہ لیکر آزاد کر دیا جائے، قرآن میں ارشاد ہے:
فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُو ہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء۔ (محمد:۴)
’’جب کافروْن (دشمنوں) سے تمہاری مڈبھیڑ ہو جائے تو خوب جنگ کرو جب ان پر فتح پالو اور قیدیوں کو گرفتار کرلو،اس کے بعد ان پر احسان کر و، بلامعاوضہ چھوڑ دو یا فدیہ لیکر آزاد کردو۔‘‘
مشمولہ: شمارہ فروری 2015