مسلم عوام وخواص کے بڑے طبقے میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ مسلم معاشرہ اور مسلم ممالک اخلاقی سطح پر زوال پذیر ہیں۔ اس کی مثالیںعام ہیں۔ امانت و دیانت، وعدے کا پاس و لحاظ، معاملات کی صفائی، سچائی، حسنِ سلوک،صبر و تحمل ، خدمت اور ہمدردی کا عملی جذبہ جیسی اخلاقی صفات کی مسلمانوں میں شدید کمی ہے۔ ان سب کے علاوہ خاص طور پر اجتماعی اخلاق کے باب میں نمایاں گراوٹ آئی ہے۔یہ صورتِ حال جارج برنارڈ شا جیسے مغربی ادیب کے اس قول کی یاد دلاتی ہے کہ اسلام تو اچھا مذہب ہے لیکن مسلم معاشرے کی صورتِ حال ناقابلِ رشک ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فکر و عمل کے اس تضاد کی وجہ بنیادی طور پر کیا ہے؟ اس اخلاقی گراوٹ کے اسباب کیا ہیں؟ اور اس گراوٹ کو روکنے کی کوششوں کی عملی جہت کیا ہونی چاہیے؟
اسلام ایسے نظام تہذیب کا متمنی ہے جو انسان کی شخصیت کو نکھارنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مخصوص اصول و ضوابط وضع کرتا ہے تاکہ انسان تخّلقواباخلاق اللہ کا عملی نمونہ بن کر اللہ کی نیابت کا فریضہ انجام دے سکے۔ رسول اکرم ؐ کی بعثت بھی مکارم اخلاق کی حیثیت سے ہوئی، اسی لئے آپ ؐ نے فرمایا :’’بعثت لاتمم حسن مکارم الاخلاق‘‘ یعنی مجھے مکارم اخلاق بنا کر مبعوث کیا گیا۔
صحابہ کرام ؓ نے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے تو انہوں نے برجستہ فرمایا کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجسم ِقرآن ہیں یعنی قرآن مقدس کی اخلاقی تعلیمات کے حقیقی آئینہ دار حضور ؐ ہی کی ذات بابرکت ہے۔ اس لئے اسلام کے تمام علمی، ادبی اور فنی ذخیرے اعلیٰ اخلاقی قیود و ضوابط کے پابند دکھائی دیتے ہیں ۔ تاریخ کے ہر دور میں اسلام کے ان ذرائع سے ہر انسان نے بغیر کسی نسلی یا لسانی حد بندیوں کے فیوض و برکات حاصل کی ہیں ۔
اسلامی اخلاق کی بنیاد:
اسلام دنیا اور انسان کے بارے میں بہت ہی عمیق اور خردمندانہ نقطۂ نگاہ، خالص توحید، حکمت آمیز اخلاقی اور معنوی دستورالعمل، محکم اور ہمہ گیر سماجی و سیاسی نظام اور اصول و ضوابط انفرادی اور عبادی فرائض اور اعمال کی تعلیم دیکر، تمام افراد بشر کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے باطن کو بھی برائیوں، پستیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور باطن میں نور ایمان، خلوص، آزادی، اخلاص، محبت، امید اور نشاط و شادابی کو بڑھائیں اور اپنی دنیا کو غربت، جہالت، ظلم، امتیاز، پسماندگی، جمود، زور زبردستی، تسلط، تحقیر اور فریب سے نجات دلائیں۔
بہترین اخلاق نہ صرف زندگی کا آلۂ کار ہیں بلکہ جزولاینفک ہیں اور اسلام چونکہ دین فطرت ہے لہٰذا اخلاق اس کے بطن سے پھوٹا ہے اور غیر مسلم اقوام و ملل نے ماضی میں اس سلسلے میں اسلام ہی سے اخذ و استفادہ کر کے کامیابی حاصل کی ہے ۔ دراصل اپنے اعلیٰ اخلاقی اصول و ضوابط ہی کی وجہ سے اسلامی تہذیب و تمدن نصف سے زائد دنیا پر ایک محدود وقت ہی میں حاوی ہو گیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق:
پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلامی اخلاق اور اقدار کو معاشرے میں نافذ اور لوگوں کی روح، عقائد اور زندگی میں رائج کرنے کے لئے، زندگی کی فضا کو اسلامی اقدار سے مملو کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ قرآن کریم پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نرم خوئی کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ سخت نہیں ہیں: ’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک‘‘ یہی قرآن دوسری جگہ پر پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا ہے کہ’’ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم‘‘ کفار اور منافقین سے سختی سے پیش آئیںاور یہ ’’غلظ‘‘ (سختی) کا مادہ جو پہلے والی آیت میں تھا یہاں بھی ہے لیکن یہاں قانون کے نفاذ اور معاشرے کے امور چلانے اور نظم و ضبط قائم کرنے میں ہے۔ وہاں سختی سے کام لینا برا ہے اور یہاں سختی سے کام لینا اچھا ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ کی امانتداری:
آپ کا امین ہونا اور امانتداری ایسی تھی کہ دور جاہلیت میں آپ کا نام ہی امین پڑ گیا تھا اور لوگ جس امانت کو بہت قیمتی سمجھتے تھے، اسے آپ کے پاس رکھواتے تھے اور مطمئن ہوتے تھے کہ یہ امانت صحیح و سالم انہیں واپس مل جائے گی۔ حتی کہ دعوت اسلام شروع ہونے اور قریش کی دشمنی اور عداوت میں شدت آنے کے بعد بھی ، وہی دشمن اگر کوئی چیز کہیں امانت رکھوانا چاہتے تھے تو آکے رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کرتے تھے۔ لہذا جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مدینے ہجرت فرمائی تو حضرت علی ؓکو مکے میں چھوڑا تاکہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس لوٹا دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں۔ مسلمانوں کی امانتیں نہیں بلکہ کفار اور ان لوگوں کی امانتیں تھیں جو آپؐ سے دشمنی رکھتے تھے۔
پیغمبر اسلام ﷺکی بردباری :
آپ ؐکے اندر تحمل اور بردباری اتنی زیادہ تھی کہ جن باتوں کو سن کے دوسرے پریشان ہوجاتے تھے، ان باتوں سے آپ کے اندراضطراب نہیں پیدا ہوتا تھا۔ ایک بار ابوجہل سے آپ کی گفتگو ہوئی اور ابوجہل نے آپ کی بڑی توہین کی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بردباری سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ کسی نے جاکر جناب حمزہؓ کو اطلاع دے دی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ جناب حمزہؓ بیتاب ہو گئے۔ آپؓ گئے اور کمان سے ابوجہل کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ خون نکلنے لگا اور پھر اسی واقعے کے بعد آپؓ نے اسلام کا اعلان کیا۔ ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ لوگوں کواچھے اخلاق کی دعوت دیں یعنی عفو و درگذر، چشم پوشی، مہربانی، ایک دوسرے سے محبت، کاموں میں پائیداری، صبر، حلم، غصہ پر قابو پانے، خیانت نہ کرنے، چوری نہ کرنے، بد کلامی نہ کرنے، کسی کا برا نہ چاہنے، اور دل میں کینہ نہ رکھنے وغیرہ کی نصیحت و تلقین کریں۔ لوگوں کو ان باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کوئی ایسا زمانہ فرض نہیں کیا جا سکتا جب ان اچھی باتوں کی ضرورت نہ رہے۔ اگر معاشرے میں یہ اقدار نہ ہوں تو ترقی کی اوج پر ہونے کے باوجود معاشرہ برا اور ناقابل قبول ہوگا۔ زمانہ جاہلیت میں مکہ والوں کے درمیان بہت سے معاہدے تھے۔ انہیں میں ایک معاہدہ، ’’معاہدہ حلف الفضول‘‘ کے نام سے بھی تھا جس میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھے۔
اس معاہدے کا پس منظر ہے کہ کوئی اجنبی مکہ آیا اور اس نے اپنا سامان بیچا۔ جس نے اس کا سامان خریدا، اس کا نام عاص بن وائل تھا جو ایک بدمعاش تھا اور مکہ کے سرمایہ داروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے سامان کا پیسہ نہیں دیا۔ وہ اجنبی جس کے پاس بھی گیا، کوئی اس کی مدد نہ کر سکا۔ آخر کار وہ کوہ ابوقیس کے اوپر گیا اور وہاں سے فریاد کی: اے فہر کے بیٹو! میرے اوپر ظلم ہوا ہے۔’’ یہ فریاد رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے سنی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور اس شخص کے حق کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھے اورعاص بن وائل کے پاس گئے۔ اس سے کہا کہ اس کے پیسے دو؛ وہ ڈر گیا اور مجبور ہوکے اس کے پیسے دے دیئے۔
حلف الفضول کا معاہدہ ان کے درمیان باقی رہا اور اس میں طے پایا تھا کہ جو اجنبی بھی مکہ میں داخل ہو اگر اہل مکہ اس پر ظلم کریں( عام طور پر اجنبیوں اور مکہ سے باہر والوں پر ظلم کرتے تھے) تو یہ لوگ اس کا دفاع کریں گے۔ اسلام آنے کے برسوں بعد بھی رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ’’ میں اب بھی خود کو اس معاہدے کا پابند سمجھتا ہوں۔‘‘ بارہا آپ نے اپنے مغلوب دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا۔ آٹھویں ہجری میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنی عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو فرمایا’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ یعنی آج عفو و درگذر سے کام لینے کا دن ہے لہذا انتقام نہ لو۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراخدلی تھی۔
رسول اسلامﷺ کی راست بازی:
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی بھی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ’’ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔‘‘ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے حضرت خدیجہؓ کو آپ کا شیدائی بنایا۔ خود حضرت خدیجہؓ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں۔
پیغمبر اسلام ﷺکی عوام دوستی :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ لوگوں کے درمیان ہمیشہ بشاش رہتے تھے۔ جب تنہا ہوتے تھے تو آپ کا حزن و ملال ظاہر ہوتا تھا۔ آپ اپنے حزن و ملال کو لوگوں کے سامنے اپنے روئے انور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر شادابی رہتی تھی۔ سب کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا تو چہرے پر آزردہ خاطر ہونے کے آثار ظاہر ہوتے تھے لیکن زبان پر حرف شکوہ نہیں آتا تھا۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے سامنے کسی کو گالیاں دی جائیں اور برا بھلا کہا جائے۔ بچوں سے محبت کرتے تھے، کمزوروں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے، اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے تھے اور ان کے ساتھ گھوڑسواری کے مقابلے میں حصہ لیتے تھے۔
پیغمبر اسلامﷺ کا کھانا اور لباس:
آپ کا بستر چٹائی کا تھا، تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ آپ کا کھانا زیادہ تر جو کی روٹی اور کھجور ہوتی تھی۔ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی تین دن تک مسلسل گیہوں کی روٹی یا رنگا رنگ کھانے نوش نہیں فرمائے۔ ام المومنین حضر ت عائشہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ایک مہینے تک ہمارے باورچی خانے سے دھواں نہیں اٹھتا تھا۔ ( یعنی چولھا نہیں جلتا تھا) آپ کی سواری بغیر زین اور پالان کے ہوتی تھی۔ جس زمانے میں لوگ قیمتی گھوڑوں پر (بہترین) زین اور پالان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر جگہوں پر گدھے پر بیٹھ کے جاتے تھے۔ انکساری سے کام لیتے تھے۔ نعلین مبارک خود سیتے تھے۔
آپ کے دیگر عادات و اطوار میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ عہد کی پابندی کرتے تھے۔ کبھی عہد شکنی نہیں کی۔ قریش اور یہودیوں نے آپ کے ساتھ عہد شکنی کی مگر آپؐ نے کبھی نہیں کی۔
اخلاقی انحطاط:
امت مسلمہ کےاخلاقی انحطاط کی سب سے اہم وجہ اور بنیاد دین اور دین داری کا غلط تصور ہے جو عام لوگوں کے ذہنوں میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ اسلام چار اہم چیزوں عقائد، عبادات، اخلاق اور قانون کا مرکب ہے۔ اسلام کا پورا ڈھانچہ ان چاروں سے مل کر مکمل ہوتا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی ادبیات میں جس طرح عقیدے، عبادات اور فقہ و قانون کو مرکزِ توجہ بنایا گیا، اس طرح اخلاق پر توجہ نہیں دی گئی۔ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کو سراپا قرآن سے تعبیر کیا ہے (کان خلقہ القرآن‘‘ مسلم۔کتاب المسافرین) اس سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کا اخلاق کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت معلمِ اخلاق کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں اخلاق کی تکمیل کے لیے خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔ (موطا:باب ما جاء فی حسن الخلق) اس سے اسلامی فکر میں اخلاق کی جو اہمیت سمجھ میں آتی ہے اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کتاب الاخلاق پہلے اور کتاب القانون بعد میں ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ قانون خود قرآن کے مطابق (المائدہ:48) امتوں کے اختلاف سے مختلف اور متعدد ہوتا رہتاہے لیکن اخلاق میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کیوں کہ وہ دین کے بنیادی تصور اور اس کے فریم ورک میں شامل ہوتا ہے۔ بحث کا اصل پہلو یہ نہیں ہے کہ عبادت اور اخلاق میں کس کو کس پر فوقیت حاصل ہے، بلکہ بحث کا اصل پہلو یہ ہے کہ ہمارے علمی و سماجی حلقوں میں نظری و عملی سطح پر عبادت کو جو اہمیت حاصل ہوئی، کیا اس کے مقابلے میں اخلاق کو ضروری اہمیت دی جاسکی؟ اس کا جواب یقینانفی میں ہے۔ یہ رویہ قرآن کی اس آیت کے سراسر خلاف ہے کہ :’’ اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ‘‘ (البقرۃ:208)
اخلاقی انحطاط کا اندازہ اسلامی اداروں کی سرپرستی کرنے والی شخصیات کی نجی زندگی کے اسلوب و انداز اور ان کے ماتحتوں کی بے چارگی اور شکایات کو سن کر بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔مسلم ملکوں میں عوام کو اس بات پریقین نہیںہے کہ مذہبی طبقہ اقتدار میںآنے کے بعد زیادہ بہتر طو ر پران کے فلاح وبہبود کے لیے کام کرسکے گا۔ یہ بھی اخلاقی کمزوری کی بات ہے کہ مذہبی طبقہ کے افراد دوسروں پر تو دین و اخلاق کے حوالے سے تنقید و سرزنش بلکہ ملامت تک کو روا رکھتے ہیں لیکن جب خود ان پر تنقید کی جاتی ہے تو وہ اسے دین اور اہلِ دین کے خلاف سازش تصور کرنے لگتے ہیں۔ حالاںکہ یہ بات عین فطری ہے اور اس لیے قابلِ حیرت نہیں ہے کہ ہر طبقے میں ایک تعداد بہرحال ایسے لوگوں کی ہوتی ہے، جس کی اخلاقی حس مفاد پسندی کی وجہ سے کمزور ہوگئی ہو۔اہم بات یہ ہے کہ ہر طبقے کے اندر تنقید او ر محاسبہ کا مزاج اور ماحول باقی رہنا چاہیے تاکہ غلط اور منفی رجحانات کی اصلاح کا عمل جاری رہ سکے۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کی مثال قابلِ غور ہے کہ ان پر ایک معمولی بڑھیا تک تنقید کردیتی تھی۔ایک معمولی آدمی یہ کہنے کی جرأت کر سکتا تھا کہ اے عمر ہم تمہار ی کجی کو تلوا ر سے ٹھیک کر دیں گے۔بدقسمتی سے مسلم معاشرے میں اصلاح کا عمل مدتوں سے سست پڑا ہے۔ اس کی وجہ سادہ طور پراصلاح کا فریضہ انجام دینے والے افراد( ان میں صرف علما اور روایتی دین دار لوگ ہی شامل نہیں ہیں) کے اندر بڑے پیمانے پر پایا جانے والا یہ احساس ہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ خرابیاں اور اجتماعی بگاڑ اصلاً یاتو ’’غیروں‘‘ کے اندر پایا جاتا ہے یا انہی کی دین ہیں۔ محاسبے اور اصلاح کی کوششوں کے بجائے ہمارا اصل نشانہ ان الزامات کا دفاع ہوتا ہے جو ہمارے خیال میں دوسروں کی طرف سے ہم پر لگائے جاتے ہیں۔کسی قوم کی سب سے بڑی قوت اس کی اخلاقی قوت ہوتی ہے۔ اس کی عظمت کی تاریخ اسی اخلاقی قوت سے لکھی جاتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے واقعات میں لوگوں نے بدر و حنین کو زیادہ نمایاں کیا اور صلحِ حدیبیہ اور فتح مکہ کے حوالے سے عظیم اخلاقی قوت کے نشانات کو نسبتاً نظروں سے اوجھل کردیا۔ اسلام کی قدیم اور ابتدائی تاریخ میں اصحابِ رسول میں اور بعد کے ادوار میں صوفیہ کے اندر اخلاقی قوت و عظمت کے بے پناہ اور نمایاں نقوش نظر آتے ہیں۔
اسلام کا سر چشمہ قوت:
یہ اصول زندگی میں اپنا نے کی ضرورت ہےکہ اگر اخلاق نہیں تو اسلام نہیں،یہی وہ دولت ہے جس کے بل بوتے اسلام نے کم عرصے میں ہی دنیا میں فتح کا پرچم لہرایا اور جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہو تے گئےجس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔اخلاق ہی وہ چیز ہے جس سے بڑے سے بڑے ظالم اور دشمن کو شکست دیا جا سکتا ہے اخلاقی قوت کی بدولت ہی راجہ سے پرجاتک اسلام کو اپنانے پر مجبور ہو گئے اور اچانک ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہو گیا۔آج دنیا کو ایک بار پھر اخلاقی قوت کی ضرورت ہے جسےصرف اور صرف ہم مسلمان پورا کر سکتے ہیں۔ بہرحال اسلام کے انفرادی اور اجتماعی اخلاق کے حوالے سے ہمیں اپنی صورت حال کا جائز ہ لینے کی ضرورت ہے کہ کمی کہاں ہے اور اصلاح کی کہاں ضرورت ہے اس کے بغیر ہم مسلمانوںکے حق میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف موثر طور پر آوازبلند نہیں کر سکتے۔اخلاقی انحطاط سے ناصرف یہ کہ اللہ کی مخلوق ہم سے بدظن ہوگی بلکہ اسلام سے بھی وہ دور ہونے لگے گی جس کی پکڑ آخرت میں تو ہوگی ہی دنیا میں بھی ہماری شخصی زندگی بدنام اور رسوا ہوگی اور ہمارے مسلم اداروں کی ساکھ بھی مجروح ہوگی ۔ہماری شخصی زندگی کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے فلاحی اداروں پر سے بھی لوگوں کا اعتماد ختم ہوگا ۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2015