دعوت حق کی پوری تاریخ ابتلا و آزمایش سے پُر ہے، جس نے بھی اس میدان میں قدم رکھاہے، اسے شدید کشمکش اور سخت ترین حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ ابتلا وآزمایش مومن کی زندگی کاایک ناگزیر مرحلہ ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کا جتنا محبوب ہوگا، وہ اتنے ہی سخت ترین حالات سے دوچار ہوگا۔استقامت کا یہی مفہوم قرآن وحدیث سے معلوم ہوتاہے۔ ایک حدیث ہے:
عن سفیان بن عبداللہ الثقفیؓ قال قلت یا رسول اللہ قل لی فی الاسلام قولا لا اسئل عنہ احداً بعدک قال قل اٰمنت باللہ ثم استقم۔ ﴿صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الایمان:۶۲۰﴾
“سفیان بن عبداللہ الثقفی سے روایت ہے، انھوں نے کہامیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتادیجیے کہ آپﷺ کے بعد مجھے کسی سے دریافت نہ کرناپڑے۔ فرمایا: ’’کہو! میںاللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم رہو۔”
یہ حدیث بہت ہی مختصر ہے لیکن معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے بہت بڑی ہے اور اس کے اندر بڑی جامعیت، وسعت اور گہرائی ہے۔ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا تعارف اور آخرت کی کامیابی و سرفرازی کو صرف دوالفاظ میں واضح فرمادیا۔ اس حدیث کے مطالعے سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ دور رسالت میں لوگ لمبی چوڑی گفتگو سے بچ کر صرف اہم باتوں پر توجہ دیتے تھے۔ مختصر معلومات حاصل کرکے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لیے کہ وہ آخرت کی کام یابی کے متمنی رہتے تھے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ سوال کرنے والے نے سوال کس انداز میں کیاہے کہ مجھے صرف مختصر طورپر اسلام کے بارے میں بتادیجیے تاکہ وہ مجھے یاد رہ سکے۔ مزید اتنا واضح بھی ہوکہ مجھے کسی اور سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ دوسری طرف اللہ کے رسول نے پوچھنے والے کی نفسیات کاخیال رکھتے ہوئے مختصر ترین الفاظ میں اسلام کا تعارف کرادیاکہ کہو اٰمنت باللہ ﴿اللہ پر ایمان لاؤ﴾ ثم استقم ﴿پھر اس پر جم جاؤ﴾۔
استقامت کے شرعی معنی یہ ہیں کہ انسان جس دین کو برحق سمجھ رہاہے، اس پرمرتے دم تک قائم ودائم رہے۔ اس کے قیام کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتارہے اور اس راہ میں آنے والی دشواریوں کو برداشت کرتارہے۔
عقائد میں استقامت
اسلام میں سب سے بنیادی چیز عقائد کی درستی اور اس پر استقامت ہے۔ ایمان کا شعور اور فہم حاصل کرنا لازم ہے۔ بغیر اس کے استقامت حاصل کرناناممکن ہے۔ ایمان زبان سے صرف چند کلمات کی ادائی کا نام نہیں ہے۔ بل کہ اس کے مطابق سیرت و کردار اور نظریات وافکار کو بھی ڈھالنا ضروری ہے۔ اللہ کو خالق، رازق، مالک اور حاکم مان لینا ہی کافی نہیں ہے، اللہ کی جو صفات ہیں ان کا صحیح علم اور ان پر پختہ ایمان و یقین بھی ایمان باللہ کا بنیادی جز ہے۔ اللہ کے حقوق میںسے ایک اہم حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایاجائے۔
ِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ ﴿نحل:۳۶﴾
“اللہ کی بندگی کرو اور جھوٹے خداؤں سے دور رہو۔”
رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہِ ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیّاً ﴿مریم:۶۵﴾
“وہ رب ہے آسمان وزمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں پس تم اس کی بندگی کرو اور اس کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ کیا ہے کوئی ہستی تمھارے علم میں اس کے ہم پایہ؟”
وَمَا أُمِرُوا ِٖلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ﴿البینہ:۵﴾
’’اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیاگیاتھاکہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ھل تدری ماحق اللہ عزو جل علی العباد؟ قال قلت اللہ و رسولہ اعلم قال فان حق ائلہ علی العباد ان یعبدوہ ولایشرکوا بہ شیئاً ﴿صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب من جاھدنفسہ فی طاعۃ اللہ ۶۵۰۰﴾
’’تم جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کاحق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘
کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی حلاوت و شیرینی کو محسوس نہیں کرسکتا جب تک کہ اس میں تین خوبیاں نہ پیداہوجائیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حتی ان یقذف فی النار احب الیہ ان یرجع الی الکفر بعد اذ انقذہ اللہ ﴿صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الحب فی اللہ۶۰۴۱﴾ یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیاجانا اس کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوتاہے بہ نسبت اس کے وہ کفر کی طرف پلٹے۔ انسان کو جو ضابطۂ حیات اللہ نے عطا کیاہے اور اس کے حلال وحرام اور جائز وناجائز کی جو حدیں مقرر کی ہیں، وہ ان کا اپنے آپ کو پابند بنالے۔ ایمان باللہ کے تسلیم کرنے کے بعد اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بدلے اللہ نے جو وعدے کئے ہیں ان پر کامل بھروسا رکھے۔ دراصل یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو اس کے مقصد حیات سے قریب کرتی ہیں۔ جیساکہ قرآن کریم میں موسیٰ کے دور کا واقعہ مذکورہ ہے۔ جب تک جادوگر ایمان کی دولت سے محروم تھے، دنیوی مال ومتاع اور منصب و عہدے کے طلب گار تھے، مگر جب ان کے سامنے حق عیاں ہوکر آگیا اور ان کے دلوں میں ایمان راسخ ہوگیا تو انھوںنے جرأت مندانہ انداز میں اس کا اظہار کیا۔ فرعون کی دھمکی بھی ان کو راہ حق سے نہیں ہٹاسکی۔ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اس ایمان کی عملی تفسیر ہیں۔ جب سرداران قریش نے نبی کریمﷺ کے چچا ابوطالب پر دباؤ ڈالااور چاہاکہ ابوطالب اپنے بھتیجے حضرت محمدﷺ کو دعوت دین سے روک دیں اور نہ ماننے کی صورت میں اپنی سر پرستی اٹھالیں اور خود چچا ابوطالب نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے حضرت محمدﷺ سے کہا: ’’اے بھتیجے مجھ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالو‘‘ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اعتماد و یقین کے ساتھ فرمایا: ’’چچا جان! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے نہیں رُک سکتا۔‘‘ اسی طرح ہجرت مدینہ کے سفر پر جب آپﷺ غارِ ثور میں قیام پزیر تھے اور کفار آپﷺ کی تلاش میںغارثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ آپﷺ کے ساتھی حضرت ابوبکرؓ نے کفار کو دیکھ کر گھبراہٹ کا اظہار کیاتو آپﷺ نے بہت اطمینان کے ساتھ فرمایا: ’’لاتحزن ان اللہ معنا‘‘ ﴿توبہ:۴۰﴾ ’’غم مت کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
حضرت علیؓ کے ایمان کی استقامت دیکھیے کہ جب حضورﷺ نے ہجرت مدینہ کا قصد فرمایا اور اسی رات کفار ومشرکین مکہ نے آپﷺ کے قتل کے ارادے سے آپ کو گھیر رکھاتھا۔ اس رات حضرت علیؓ آپﷺ کے بستر پر سوتے ہیں۔ ﴿تاکہ بعد میں لوگوں کی امانتیں واپس کرکے آپؓ بھی ہجرت فرمائیں﴾ تو وہ اتنی گہری نیند سوتے ہیں کہ کفار یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ غالباً محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ ڈر کے مارے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔ چناں چہ وہ گھر کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ چادر اٹھاکر دیکھتے ہیں تو حضورﷺ کے بستر پر حضرت علیؓ سوئے ہوئے ہیں۔ یہ ایمان باللہ کی مضبوطی اور پختہ یقین اور ایمان میں استقامت ہی تو تھی کہ دشمنوں کے نرغے میں پوری نیند سوئے۔ کمزور ایمان والا اوّلاً ایسے حالات میں اس بستر پر جانے کے لیے ہی تیار نہ ہوتا اور اگر تیار ہوجاتا تو اُسے رات بھر نیند نہ آتی۔
مصائب ومشکلات میں استقامت
مصائب و آلام کے وقت اسلام پر جمنا اور سنگین حالات میں جان کو خطرے میں ڈال کر زندگی گزارنا بھی استقامت ہے۔ وہ ایمان باللہ ہی کی طاقت ہے جو دنیوی مفادات اور نفسانی خواہشوں کے جال میں پھنسنے سے انسان کی حفاظت کرتی ہے۔ سیدنا بلالؓ کو ان کے آقا امیہ بن خلف نے مکہ کے اوباش نوجوانوں کے حوالے کردیا۔ وہ درندہ صفت جو سیدنا بلالؓ کو مکہ کی پتھریلی اور سخت گرم گھاٹیوں میں گھسیٹتے رہے، بدکلامی کرتے اور مارتے رہے اور اُنھیںمجبور کرتے رہے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں۔ مگر سیدنا بلالؓ احد، احد ﴿اللہ ایک ہے﴾ کا نعرہ بلند کرتے رہے۔
حضرت سیدنا خباب کو مشرکین مکہ نے آگ کے انگاروں پر لٹادیایہاں تک کہ آپؓ کی چربی سے آگ بجھ گئی۔ تو انھوں نے نبی آخرالزماں سے دعا کی درخواست کی تو نبی کریمﷺ نے انھیں سابقہ داعیان حق کی استقامت کا ذکر فرماکر اطمینان دلایااور استقامت کی تاکید فرمائی۔
عن خباب بن الارتؓ قال شکونا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو متوسد بردۃ فی فلل الکعبۃ فقلنا الا تستنصر لنا الا تدعوا لنا فقال قد کان من قبلکم یوخذ الرجل فیحضفر لہ فی الارض فیجعل فیہا فی جائ بالمنشائ فیوضع علی راسہ فیجعل نصفین و یمشط بامشاط الحدید مادون لحمہ وعظمہ فما یصدہ ذالک عن دینہ واللہ لیثمن ہذا الامر حتی یسیرالراکب من صعنائ الیٰ حضرموت لایخاف اللہ والذنب علی غنمہ ولکنکم تستعجلون۔
﴿صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۳۶۱۲﴾
’’حضرت خباب بن ارتؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں اپنی دھاری دار چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹے ہوئے تھے۔ ہم نے آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر مشرکین مکہ کی سختیوں کی شکایت کی اور عرض کیاکہ حضورﷺ ! کیا اب بھی آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے مدد نہیں مانگیںگے؟ آپﷺ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے؟ ﴿کہ وہ ہمیں غلبہ عطا فرمائے﴾ آپﷺ نے فرمایاکہ تم سے پہلے داعیان حق کا یہ تھاکہ ﴿دعوت الی اللہ کے جرم میں﴾ ایک آدمی کو پکڑلیاجاتا، زمین میں اس کے لیے گڑھا کھودکر اس کو اس گڑھے میں کھڑاکیاجاتا، پھر اس کے سر پر آرا رکھ کر چیرا جاتا اور وہ دو ٹکڑے ہوجاتا اور کسی کے جسم پر لوہے کی کنگھیاں چلاکر گوشت کو ہڈی سے الگ کرلیاجاتا۔ یہ سزا بھی انھیں ان کے دین سے نہ روک سکی۔‘‘
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیںکہ جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوذر یہ کام ﴿اسلام﴾ اخفا میں رکھو اور اپنے وطن لوٹ جاؤ اور اپنے قبیلے کو اسلام کی دعوت دو، جب تم ہمارے غلبے کی خبر سنو تو پھر آنا۔ میں نے عرض کیاخدا کی قسم جس نے آنجناب کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں ان کے سامنے نہایت بلند آواز سے اپنے اسلام کا اعلان کروںگا۔ یہ کہہ کر وہ مسجد حرام میں آئے اور کہا : ’’اے گروہ قریش! میں گواہی دیتاہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر اللہ اللہ اور گواہی دیتاہوں کہ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم ﴾ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ قریش نے ایک دوسرے سے کہاکہ اٹھو اس مرتد کو پکڑلو۔ وہ اٹھے اور مجھے اس قدر پیٹاکہ میں مرجاتا اگر عباسؓ آڑے نہ آتے۔ وہ آئے اور مجھ پر جھک پڑے اور ان سے کہا۔ افسوس ہے کہ تم قبیلہ غفار کے آدمی کو بہت بری طرح پیٹ رہے ہو حالاںکہ تم اپنے کاروباری مرکز ﴿شام﴾ کی طرف جاتے ہوئے قبیلہ غفار سے ہوکر گزرتے ہو۔ یہ سن کر انھوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر دوسرے دن صبح کو بیت اللہ کے صحن میں جاکر میں نے وہی بات دہرادی۔ کلمہ شہادت کااعلان کیا۔ قریش نے کہا اس مرتد کی خبر لو وہ اٹھے اور کل کی طرح انھوںنے مجھے اس قدر ماراکہ میں مرنے کے قریب تھا۔ حضرت عباسؓ نے بیچ بچاؤ کرکے مجھے ان سے چھڑالیا اور کل کی طرح انھیں ملامت کی۔ ﴿بخاری ومسلم﴾
اسلام اور کفر کے درمیان جنگ کے وقت استقامت
جب کفر اپنی پوری قوت سے اسلام کو مٹانے کے درپے ہو اور حق و باطل کامعرکہ گرم ہوجائے تو اس وقت بھی استقامت مطلوب ہے۔ ایسے وقت میں اسلام کی حمایت میںلڑنا لازمی ہے۔ اس موقع پر منہ پھیرلینا، جنگ سے پیٹھ پھیرلینا نہ صرف بزدلی ہے ، بل کہ ایمان باللہ کے بھی منافی ہے۔
فتنہ کے وقت استقامت
فتنہ کے وقت بھی استقامت مطلوب ہے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں فتنے برپا ہوتے رہے ہیں۔ ایسے موقع پر جب کہ فتنہ برپا ہو اسلام پر جمنا اور استقامت کامظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فتنہ افک سامنے آیا جس کا شکار بعض سادہ لوح مسلمان بھی ہوگئے، جنھیں اس کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن نے اس پر تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُم مَّا یَکُونُ لَنَا أَن نَّتَکَلَّمَ بِہَذَا سُبْحَانَکَ ہَذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ oیَعِظُکُمُ اللَّہُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِہِ أَبَداً اِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ ﴿النور:۱۶-۱۷﴾
’’کیوںنہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیاکہ ہمیںایسی بات زبان سے نہیں نکالنا چاہیے۔ سبحان اللہ یہ تو ایک بہتان عظیم ہے۔ اللہ تم کو نصیحت کرتاہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دور میں انکار زکوٰۃ اور ارتداد وغیرہ کافتنہ اٹھا۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ سے عثمانؓ کا قصاص لینے کا مطالبہ ہوا جو بعد میں فتنہ کی شکل اختیار کرگیا۔ خوارج کا فتنہ، خلق قرآن کا فتنہ اور اس افلاس کا فتنہ جو انسان کو کفر اور اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کردے۔ غرض، مختلف طرح کے فتنے انفرادی اور اجتماعی طور سے ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیںگے۔ ایسے مواقع پر راہ راست اختیار کرکے اس پر قائم رہنا اور استقامت دکھانا ایمان کے لوازم میں سے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں سے آگاہ فرماتے ہوئے ان سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
قال ان الدنیا حلوۃ خضرۃ وان اللہ میتخلفکم فناظر کیف تعملون فاتقوا الدنیا واتقوا النسائ فان اول فتنۃ بنی اسرائیل کانت النسائ
﴿مسلم کتاب الرقاق باب اکثر اہل الجنۃ الفقرائ اھل النسائ النار ﴿۶۹۴۱﴾
’’دنیا بڑی شیریں اور رنگین ہے اور اللہ تعالیٰ تمھیں دنیا میںحاکم بناناچاہتاہے اور یہ دیکھناچاہتا ہے کہ تم کیا عمل کرتے ہو۔ دنیا ﴿کی رنگینیوں﴾ سے پرہیزکرو اور عورتوں کے فتنے سے بچو۔ بنی اسرائیل سب سے پہلے عورتوں کے فتنے میں ہی مبتلا ہوئے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو ایسا آراستہ وپیراستہ کیا اور سنوارا اور سجایا ہے کہ انسان کا دل اس کی طرف کھنچتا چلاجاتاہے۔ اگر وہ دل کو لگام نہ دے تو وہ اپنے فریضۂ منصبی سے غافل ہوکر اس میں محو ہوجائے۔ انسان کی جسمانی اور جنسی راحت کے لیے عورتوں کو پیدا کیا ہے نیز مختلف انواع واقسام کی نعمتوں سے اس دنیا کو بھردیا ہے۔ انسانوں کا دل اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا لیکن مال وزر، خواہشات و جذبات کے فتنے سے بچنا ایمان کابنیادی تقاضا ہے۔ حکومت و اقتدار پانے کے بعد حق پر جمے رہنا بڑی پامردی کاکام ہے۔ عام طور سے اقتدار کے نشے میں مدہوش ہوکر لوگ راہ حق سے ہٹ جاتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کا فتنہ ہے۔ ہر دور اور ہرزمانے میں اس کے ذریعے ہزاروں لوگ گمراہ ہوئے اور بالآخر اپنے مقصد سے دورجاپڑے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں عریانیت واباحیت، بے پردگی، مرد وزن کا اختلاط، گانے بجانے اور ناچنے والوں کی کثرت بے حیائی، فحاشی، ہرچیز کااشتہار، عورتوں کا کم سے کم ملبوسات میں رہنا نہ صرف یہ کہ اپنے بام عروج کو پہنچ گیا ہے، بل کہ فن اور فیشن بن گیا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور مخلوط تعلیم نے رہی سہی کسربھی پوری کردی ہے۔
اسی طرح مال ودولت کی چاہت اور حرص انسان کو راہ راست سے بھٹکادیتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان لکل امۃ فتنۃ وفتنۃ امتی المال۔ ﴿ترمذی کتاب الزہد باب ماجائ ان فتنۃ ہذہ الامۃ فی المال۲۳۳۶﴾
’’ہرنبی کی امت کسی نہ کسی فتنے میں مبتلا رہی ہے۔میری امت مال ودولت کے فتنے میں مبتلا ہوگی۔‘‘
آدمی جب ضرورت سے آگے بڑھ کر عیش و عشرت کاخواہاں اور دنیا کے پیچھے سرگرداں ہوجائے کہ آخرت سے یکسر غافل ہوجائے اللہ اور اس کی تعلیمات کو یکسر نظرانداز کرے۔ بے کسوں، مجبوروں، یتیموں، ضرورت مندوں، قرابت داروں اور عزیزوں کے حقوق سے چشم پوشی کرنے لگے تو اس کا مال فتنہ بن جاتاہے۔ اس کے نتیجے میں رشتے تار تار ہوجاتے ہیں۔ نفرت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے فرد کو کبھی اپنی آخرت بنانے کا خیال بھی نہیں آتاہے اسے قرآن نے یوں کہاہے:
أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُoحَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿التکاثر:۱،۲﴾
’’تم کو کثرت مال و دولت کی چاہت نے غافل کردیا ہے یہاں تک کہ تمھاری موت کا وقت آپہنچا‘‘
جب کہ یہی مال اگر صحیح اور حلال طریقے سے کمایاجائے اور لوگوں کے حقوق ادا کیے جائیں تو یہ اس کے درجات کوبلند کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
موجودہ دور میں دہشت گردی بھی ایک فتنہ ہے جو دشمنان اسلام کی سازش کے نتیجے میں مسلم ملت کے پڑھے لکھے، شریف، بے قصور، معصوم نوجوانوں کے خلاف برپا کیاگیاہے۔ دہشت گردی کے نام پر ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملت کادینی شعور ختم ہوجائے۔ اس کے نوجوانوں میں دینی رجحان پروان نہ چڑھ سکے اور شعائر اسلام سے دوری اختیار کرلیں۔ ایسے حالات میں جو نوجوان دین کی طرف مائل ہوں گے، دین کو سمجھیں گے اور اس کو اختیار کرکے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے ان کے لیے آخرت میں کام یابی ہے۔ جو نوجوان حالات سے گھبراکر بے دینی اختیار کرلیں گے، ظاہر ہے کہ وہ اس فتنے کاشکار ہوجائیں گے۔جدید دور کاایک فتنہ جس کاشکار ایسے مسلم گھرانے ہیں جہاں جدید تعلیم کا عمومی رواج ہے۔ ایسے گھرانوں کی لڑکیاں جنھوںنے غیراسلامی ماحول میں جدید تعلیم حاصل کی ہے ہے وہ غیرمسلم نوجوانوں سے شادی کرلیتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن اخبارات میں آتے رہتے ہیں۔
جب فتنہ برپا ہوجاتاہے تو ظاہری طور سے معاملہ کچھ دکھائی دیتا ہے۔لیکن باطنی طور سے کچھ اور ہوتاہے۔ اگر آدمی گہرائی سے معاملے کاجائزہ نہ لے تو اس کا فتنے میں پڑنا یقینی ہے اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتنے سے پناہ مانگتے تھے:
اللہم اعوذبک من الجن واعوذبک من اردالی ارزل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا واعوذبک من عذاب القبر۔ ﴿بخاری کتاب الجہاد والسیر باب میعوذمن الجبن۔۲۸۲۲﴾
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتاہوں بزدلی سے اور پناہ مانگتاہوں انتہائی بڑھاپے تک لوٹائے جانے سے اور پناہ مانگتاہوں عذاب قبر سے۔‘‘
استقامت حاصل کرنے کے ذرائع
استقامت حاصل کرنے کے مندرجہ ذیل ذرائع ہیں:
۱- نصب العین اور مقصد حیات کا شعور ، ۲-اجر آخرت کا یقین، ۳-نماز ، ۴-قرآن کریم سے گہرا ربط و تعلق ، ۵-واقعات سلف، ۶-دعائ۔
۱-مقصد حیات کاشعور
حق پرڈٹنے اور استقلال پیداکرنے کے لیے سب سے بنیادی چیز مقصد حیات کا شعور ہے، اس کے بغیر استقامت پیدا نہیں ہوتی۔ ایمان لاکردراصل مومن اللہ سے ایک سودا کرتاہے اور وہ سودا ہے جان ومال کا، صلاحیتوں کا، ذرائع و وسائل کا، تمناؤں اور آرزووں کا، ایمان لاکر آدمی گویا اس بات کی تجدید کرتاہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اللہ کا ہے، جو صلاحیتیں، قوتیںاور نعمتیں اس کو حاصل ہیں ان سب کامالک حقیقی وہی ہے اور جب اس کے اندر یہ شعور پیدا ہوجاتاہے تو وہ اپنی مرضی سے نہیں کرسکتا، بلکہ امانت دار یا غلام کی طرح اپنی تمام صلاحیتوں، قوتوں، نعمتوں، آرائشوں، تمناؤں و آرزووں کا مالک اللہ کو سمجھتاہے اور اسی کی مرضی کے مطابق ان کااستعمال کرتاہے۔اس چیز کاجتنا زیادہ ادراک و شعور ہوگا مومن کے اندر اتنی ہی زیادہ استقامت پیدا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ ﴿التوبہ:۱۱۱﴾ ’’بے شک اللہ نے اہل ایمان سے ان کے جان ومال کے لیے جنت کے عوض خریدلیے ہیں۔‘‘
وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَائ مَرْضَاتِ اللّہِ ﴿البقرہ:۲۰۷﴾
’’اور لوگوںمیں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے کو بیچ ڈالتے ہیں۔‘‘
اجر آخرت کایقیں
دوسری چیز جو انسان کے اندر استقامت واستقلال پیدا کرتی ہے، وہ اجر آخرت کایقین ہے۔ آخرت پر ایمان لانا ایمان باللہ ہی کاجزو ہے اور ایمان باللہ آخرت کو تسلیم کیے بغیر بے معنی ہوجاتا ہے، آخرت کا یقین و استحضارہی انسان کو بُرے اعمال سے بچاتا اور نیک اعمال پر آمادہ کرتاہے، مشکلات ومصائب کی گھاٹیوں کو پارکرنے کاحوصلہ وہی رکھ سکتاہے جس کو یہ یقین ہو کہ اس کو اس کی ہر محنت کااجرمل کر رہے گا اور جس کاعقیدۂ آخرت پختہ اور مضبوط ہوتاہے، عیش وعشرت اور راحت وآرام کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا، اس کے نزدیک:
فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ اِلاَّ قَلِیْلٌ ﴿توبہ:۳۸﴾
’’آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کی پونجی بالکل حقیر ہے‘‘
ایسا آدمی آخرت پر اپنی نگاہ مرکوز رکھتاہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی oوَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی o بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا oوَالْآخِرَۃُ خَیْْرٌ وَأَبْقَی ﴿اعلیٰ:۱۴-۱۷﴾
’’جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی وہ فلاح پاگیا۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالاں کہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘
نماز
استقامت کاایک اہم سرچشمہ نماز ہے۔ نماز دین کا ستون ہے، نماز دین کا مغز اور ایمان کامظہر ہے، جو نماز کو قائم کرے گا وہ پورے دین کو قائم کرلے جائے گا، جو اس کو ترک کردے گا وہ دین کے دوسرے معاملات کو بدرجۂ اولیٰ ترک کرنے والا ہوگا، نماز کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتاچلاجاتاہے۔
وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ﴿اقراء:۱۹﴾ سجدہ کر اور اس سے قریب تر ہوجا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أقرب مایکون العبد من ربہ وہو ساجد ﴿مسلم شریف، کتاب الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود
’’بندہ جب سجدے میں ہوتاہے اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔‘‘
دین پر قائم رہنا، نفسانی خواہشوںسے بچنا، مشکلات ومصائب سے گزرنا، اللہ سے قربت کے نتیجے میںہی ممکن ہے اور اللہ کا قرب نماز سے حاصل ہوتاہے، نماز سے انسان کو سکون و راحت نصیب ہوتی ہے اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا:
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ اِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴿بقرہ:۱۵۳﴾
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مددلو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
قرآن کریم سے گہرا ربط وتعلق
استقامت کاایک اہم ذریعہ قرآن کریم سے گہرا اور مضبوط تعلق ہے۔ قرآن کریم اپنی تعلیمات کو بہترین پیرائے میں بیان کرتاہے۔ وہ صرف احکام ہی کی کتاب نہیں، بلکہ احساسات وجذبات کو جھنجھوڑنے والی اوردل پزیر نصیحتوں کے ذخائر رکھنے والی کتاب بھی ہے، جو اس کی آیات کو غور سے سنے اور پڑھے گا اس کے دل میں ایمان کا نور اترے گا، صاحب ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوگا، دل کے امراض دور ہوںگے، شرک، اتباع نفس، حرص وطمع، منصب کی چاہت اور دنیا کی رنگینیوںکی طرف میلان وغیرہ جیسی بیماریوں سے نجات ملے گی۔ قرآن سے تعلق پیدا کرنے سے انسان کے اندر استقامت پیدا ہوتی ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ کرامؒ بزرگان دین اور محدثین کی سیرتوں اور سوانح کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ مصائب وآلام ، مشکلات و شدائد اور فتنوں کے دور میں استقامت پیدا کرنے کا سب سے اہم ذریعہ اللہ کی یہی کتاب تھی۔ ان کاربط قرآن کریم سے بہت گہرا اور مضبوط تھا، اسی لیے ظاہری اسباب نہ ہونے کے باوجود وہ باطل سے نہیں دبتے تھے۔
واقعات سلف
اللہ کی راہ میں استقامت کے لیے ایک معاون چیز انبیاءعلیہ السلام، صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم اور صلحاے امت کی سیرتوں اور سوانح کا مطالعہ ہے۔ کیوںکہ سیرت میں ایسے واقعات زیر مطالعہ آئیںگے جن سے معلوم ہوگاکہ انھوں نے دین کو کیسے سیکھا اور اس پر کیسے عمل کیا، کیا مصائب آئے اور ان کاکس طرح مقابلہ کرکے انھوں نے عزیمت کی راہ اپنائی۔
ان کی سیرتوں میں ایک ولولہ، بہادری، شجاعت اور غلبۂ حق کے لیے جدوجہد کے نادر نمونے نظر آتے ہیں، جن سے رب کی رضا کی تڑپ اور رغبت، تعلق باللہ کی مضبوطی اور روح کی بالیدگی کاوافر سامان ملتاہے۔ ان کی عزیمت و استقامت کی داستانیں، عمل کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہیں، ان حضرات کی سیرتوںکامطالعہ جو بھی کرے گا ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ انبیائ اور صلحائ کی زندگیوں کامطالعہ حصول استقامت کاایک اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکُ لاًّ نَّقُصُّ عَلَیْْکَ مِنْ أَنبَائ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَکَ وَجَائ کَ فِیْ ہَ ذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ﴿ھود:۱۲۰﴾
’’اورہم نے رسولوں کی سرگزشتوں میں سے ہر ایک تمھیں سنارہے ہیں جن سے تمھارے دل کو تقویت دیں اور ان میں تمھارے پاس جو حق آیا ہے مومنوں کے لیے جو نصیحت اور یاد دہانی ہے۔
دعاء
استقامت حاصل کرنے کاایک ذریعہ دعا بھی ہے۔ دعا کا انسانی زندگی سے بہت گہرا ربط ہے۔ ایک مومن کا یہ عقیدہ ہوتاہے کہ اللہ کی توفیق و مدد کے بغیر وہ کوئی کام نہیں کرسکتا۔ اللہ ہی طاقت و قوت کاسرچشمہ ہے، اللہ ہی حاکم مطلق ہے، ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، نفع و ضرر کامالک وہی ہے اور وہی لوگوں کی تقدیر بنانے اور بگاڑنے کااختیار رکھتا ہے۔ یہ عقیدہ ایک مومن کے رشتے کو اللہ سے مضبوط تر بنائے رکھتاہے اور ہر طرح کے سرد وگرم حالات میں وہ اسی سے لو لگاتا ہے۔ اسی سے التجائیں اور دعائیں کرتاہے۔ دعائ مومن کاایک بہت بڑا سہارا اور ہتھیار ہے ۔کیوں کہ وہ جانتاہے کہ اس کی توفیق و مدد کے بغیر وہ راہ حق پر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی یہی پسند کرتاہے کہ بندے اس سے دعاء مانگیں۔‘‘
مشمولہ: شمارہ جون 2011