پروفیسر احتشام احمد ندوی، ممتاز عالم دین ،اردو اور عربی کے مایہ ناز ادیب ،محقق اور انشاپرداز ہیں۔ ان کی پیدائش ۱۹۳۸ء میں ضلع سلطان پور ،یوپی میں ہوئی۔ دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عالمیت اور فضیلت کی سند حاصل کرنے کے علاوہ ،جامعہ ملیہ اسلامیہ سے انٹر میڈیٹ اور بی اے نیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ا یم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔اس کے بعد جنوبی ہند کی یونیورسیٹیوں میں ۳۶ برسوں تک ملازمت کی ۔تروپتی یونیورسٹی میں لکچرر اور ریڈر کی حیثیت سے د س سال اور کالی کٹ یونیورسٹی میں پروفیسر وصدر شعبۂ عربی کی حیثیت سے ۲۶ سال تک خدمات انجام دیں۔ ۲۰۰۰ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ایجوکیشن آفیسر کی حیثیت سے دوسال نائیجیریا میں بھی خدمت انجام دے چکے ہیں۔۱۹۹۶ء میں پریسیڈنٹ ایوارڈ سے نوازے گئے۔ وہ اس وقت علی گڑھ میں قیام پذیر ہیں۔ایک درجن سے زائد تصانیف اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔ان کے تین سو سے زائد علمی مقالات ملک وبیرون ملک کے مؤقر رسائل ومجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔ان کی ایک وقیع تصنیف ’’ عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں‘‘ ہے۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۹۸۸ ء میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں عصر حاضر کی چودہ(۱۴) اسلامی تحریکات کا تنقیدی جائزہ لیا گیاہے۔ان تحریکات میں ’’ جماعت اسلامی‘‘ بھی شامل ہے ۔جماعت اسلامی سے متعلق ندوی صاحب کے خیالات ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے۔
اسلامی تحریکیں:
ندوی صاحب نے اسلامی تحریکات کے پس منظر پر عمدہ گفتگو کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوئی طوفان اٹھا ہے اور باطل نے سر کشی کی ہے،اللہ تعالیٰ نے غیب سے ایسے برگزیدہ بندوں کو اسلام کے دفاع کے لیے پیدا فرما دیا ہے ،جنھوں نے امت کی کشتی کو بھنور سے نکالا ہے اور اپنے روشن کارناموں سے اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ ادا کیا ہے۔جب انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں تقریبا سارے عالم اسلام کو یورپی اقوام نے غلام بنالیا تھا، کچھ ایسے مردان خدا اٹھے جنھوں نے حالات کا مطالعہ کر کے محسوس کیا کہ اللہ کی مدد اسی وقت آئے گی جب ہم خود بھی عزم وہمت سے کام لیں گے۔چنانچہ انھوں نے ایک طرف اہل فرنگ سے نبرد آزمائی کی ۔د وسری طرف ان کو مسلم عوام کی جہالت ،رسوم پرستی اور شرک وبدعت سے بھی لڑنا پڑا۔تیسری طرف وہ خود غرض اور مفاد پرست سیاست داں اور اور نیم حکمراں تھے،جو اصلاح وتجدید کے مخالف اور استعماری طاقتوں کے دست راست بنے ہوئے تھے۔اس طرح ان کے معرکے خود مسلمانوں سے بھی ہوئے ۔ پیشہ ور تحفظ پسند علماء نے کفر کے فتوے لگائے مگر اللہ کے یہ بندے راہ حق پر ثابت قدم رہے۔
ندوی صاحب نے اسلامی تحریکات کو درپیش چیلنجوںمیںخارجی چیلنجوں سے زیادہ داخلی چیلنجوںکو پر خطر بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کو میر جعفر اور میر صادق نے ہر زمانے میں نقصان پہنچایا ہے۔ اس گھر کو جب بھی آگ لگی ہے گھر کے چراغ ہی سے لگی ہے۔انھوں نے اس ضمن میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے باہمی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے درد کے ساتھ کہا ہے کہ ہرگروہ کوپوری ملت اسلامیہ کی ہلاکت بھی گوارہ ہے بشرطیکہ ان کے مخالف گروہ کو شکست ہوسکے۔ان کا ماننا ہے کہ ان اختلافات کا بنیادی سبب اخلاص کی کمی ہے۔ہر شخص کا اپنا کاروبار ہے اور اور سب اپنی دکان کی طرف بلاتے ہیں اور اسی کو ’’حق‘‘ تصور کرتے ہیں۔ امت کی اس زبوں حالی میں ندوی صاحب کی توقعات اسلامی تحریکات ہی سے وابستہ ہیں۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اگر کوئی امید کی کرن ہے تو یہی اسلامی تحریکیں ہیں،جن سے توقع ہے کہ آئندہ یہ اسلام کی خدمت زیادہ وسیع پیمانے پر کر سکیں گی۔پروفیسر احتشام احمد ندوی ، مولانا مودودیؒ اور ان کی برپا کردہ تحریک کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ تحریک ندوۃ العلماء کی روح ِاصلاح،اقبال کا نغمۂ تجدید دین ،ابوالکلام آزاد کی دعوت حق اور محمد علی جوہر کی تحریک نصب خلافت ،ان سب کا اجتماع ،ان کی شخصیت میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔مولانا مودودیؒ نے ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی اور عملی دونوں میدانوں میں غیر معمولی طورپر متاثر کیا ہے۔ ان کی تحریک جماعت اسلامی، عصر جدید میں سب سے منظم اور مؤثر تحریک ہے۔‘‘ ۱؎
پس منظر:
ندوی صاحب نے اس پس منظرپر بھی روشنی ڈالی ہے جس نے مولانا مودودی کو جماعت اسلامی کی تاسیس پر آمادہ کیا۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ نے جس دور میں ہوش سنبھالا وہ ہندوستان کی سیاسی زندگی میں ایک عجیب اضطراب اور کشمکش کا دور تھا۔نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام عالم اسلام پر مغربی سامراج کا اقتدار تھا اور مراقش سے لے کر انڈونیشیا تک سارے مما لک یا تو براہ راست محکوم تھے یا بالواسطہ مغرب کے زیر اثر تھے۔دوسرے مصلحین امت کی طرح مسلمانوں کے زوال پذیر حالات سے مولانامودودیؒ غیر معمولی طورپر متاثر ہوئے۔
ان کی راتیں اضطراب میں گزرتی تھیں اور دن مسلمانوں کے اصلاح حال کی کوششوں میں۔مولانا مودودیؒ کے افکار ونظریات کے تعلق سے ندوی صاحب کہتے ہیں کہ مولانا نے قرآن و حدیث کو براہ راست پڑھ کر ان سے تاثر قبول کیا ہے اور اپنے ذہن کو اس روایتی طرز فکر سے محفوظ رکھا ہے جو گزشتہ اسلامی علوم میں رچ بس گیا تھا۔انھوں نے ایک انقلابی مقصد زندگی اختیار کیا۔ مولانا مودودی نے نہ روایتی انداز سے قرآن پڑھا اور نہ روایتی طور پر اس کی تشریح کی۔انھوں نے واقعی اس سے وہ مفہوم اخذ کیا جو ایک شخص بالکل غیر جانب دار رہ کر اور پہلے سے کسی ذہنی پس منظرکے بغیر اخذ کر سکتا ہے۔ وہ مولانا کی دانش مندی کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک طرف اپنی تحریک کوخاکساروں جیسی نیم فوجی جماعت بننے سے بچایا۔دوسری طرف ذہنی تطہیر کا پورا اہتمام کرکے ایک اسلامی فضا تیار کردی۔ ندوی صاحب نے مولانا مودودی ؒ کو علامہ اقبال کی دکن سے پنجاب منتقل ہونے کی دعوت کے تناظر میں اقبال کی طرف منسوب مولانا مودودیؒ کے بارے میں یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ
’’یہ مولوی رسول اللہ ﷺ کے قلم سے ان کے دین کو پیش کررہا ہے۔‘‘ ۲؎
نصب العین:
ندوی صاحب مولانا آزاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھوں نے ابتدائی زندگی میں مولانا مودودیؒ کے نہج پر سوچنا شروع کیا لیکن وہ پھر دوسری راہ پر چل پڑے۔ ندوی صاحب ؒمولانا مودودی کے نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ نے جدید دور میں اسلامی زندگی کے لیے اسلامی غلبہ واقتدار کوایک بنیادی اور ضروری عنصر قرار دیا اور اس موضوع پر بہت سا لٹریچر فراہم کیا۔مولانا، اسلام کے لیے سیاسی غلبہ واقتدار کی ضرورت کو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
’’ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیر وصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں،اجتماعی قوت پیدا کریں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظام حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میںامامت ورہنمائی اور قیادت وفرماں روائی کا منصب مومنین صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔اس چیز کے بغیروہ مدعا حاصل نہیں ہو سکتا جو دین کا اصل مدعا ہے۔‘‘ ۳؎
پروفیسر احتشام احمد ندوی صاحب نے جماعت اسلامی کا اہم اصلاحی کام یہ بتایا ہے کہ اس نے نوجوان طبقہ کو نئی تہذیب کے مضر اثرات سے خبردار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جماعت نے اسلام کی مدافعت کی عظیم خدمت انجام دی ہے وہ سنہری حرفوں میں لکھنے کے قابل ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ اگر مولانا مودودی کی تحریروں نے جدید نوجوان طبقہ کو اسلامی فلسفۂ زندگی سے آگاہ نہ کیا ہوتا تو ہزاروں جدید تعلیم یافتہ نوجوان اشتراکیت اور دوسرے ملحدانہ نظریات کے شکار ہوجاتے۔ مولانا مودودی کی تحریروں نے ہزاروں کی زندگیاں بدل دیں اور بے شمار لوگوں کو دین کی تڑپ عطا کی۔مولانا مودودی ؒ کا طرز نگارش منطقی ہے اور ان کی قوت استدلال جدید ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ان کی تحریروں سے علوم اسلامی میں ان کی گہری بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ندوی صاحب نے مولانا مودودی کو دور جدید کا متکلم بتایا ہے،جن کو قدرت نے اسلام کی طرف سے دفاع کی صلاحیت عطا کی تھی اور جس سے انھوں نے پورا کام لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’مولانا مودودی دور جدید کے سب سے بڑے متکلم ہیں ،جن کو قدرت نے اسلام کی طرف سے دفاع کی صلاحیت عطاکی تھی اور جس سے انھوں نے پورا کام لیا۔ان کے رسالہ ترجمان القرآن نے نصف صدی سے زیادہ امت اسلامیہ کی خدمت کی ۔ان کا مقام علامہ ابن تیمیہ ،ابن قیم ،امام غزالی، اور امام رازی جیسے بالغ نظر علماء اسلام کی صف میں متعین کیا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔‘‘۴؎
اختلافی مسائل:
ندوی صاحب نے جماعت اسلامی میں شامل ہونے اور پھر اس سے باہر ہونے والے علماء کا بھی ذکر کیاہے۔ان کے مطابق ان علماء میں سے بعض مولانا مودودی ؒسے شخصی اختلاف کی بناپر اور بعض نظریاتی اختلاف کی بنا پر جماعت سے الگ ہوئے۔ جماعت اسلامی کے خلاف اردو میں خاصا لٹریچر ہے۔ ندوی صاحب نے ان اختلافات کا جائزہ لے کر ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن میںبعضـ علمائے ندوہ اور دیوبند کو جماعت سے اختلافات ہیں۔ چنداہم قابل ذکر مسائل اور ندوی صاحب کی رائے کا ذکراختصار کے ساتھ ذیل میں کیا جاتا ہے: ۵؎
۱) تصوف:’’حضرات علمائے کرام تصوف کے دلدادہ ہیں اور اس کو تقویٰ کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں مگر مولانا مودودیؒ مروجہ تصوف کو موجودہ حالات میں مضر سمجھتے ہیں۔‘‘ تصوف چونکہ ایک ذریعہ ہے مقصد نہیں،اس لیے منکر تصوف کا اسلام معرض خطر میں قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۲) دوسرا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ’’ جماعت اسلامی حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتی ہے۔ اسلامی خلافت کا قیام واجب قرار دے کر سارے دین کی توضیح وتفہیم یہ لوگ سیاسی انداز سے کرتے ہیں۔‘‘حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ نصب خلافت کی ضرورت کسی نہ کسی مرحلے میں تمام علماء تسلیم کرتے ہیں۔
۳)’’قرآن کی چار بنیادی اصطلا حیں جن پر مولانا مودودی نے زور دیا ہے،وہ تمام علمائے امت کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘ اس اعتراض کا مدلّل جواب دیا جاچکا ہے۔
۴) ایک اعتراض یہ ہے کہ’’ یہ حضرات صحابۂ کرام اور اولیاء اللہ پر تنقید کرتے ہیں۔‘‘ صحابۂ کرام اور اولیائے عظام کا احترام لازم ہے مگر یہ بھی ملحوظ رہے کہ وہ انبیائے کرام کی طرح معصوم تصور نہیں کیے جاتے۔بہت سے علمائے سلف نے بھی (ضرورتاً) صحابہ کی لغزشیں بیان کی ہیں۔
۵)یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’جماعت میں تقویٰ کی کمی ہے۔‘‘چونکہ ذکر،وظائف اور تصوف نہ ہونے کے باعث ان کے یہاں وہ فضا نہیں ہے جو صوفیائے کرام کے یہاں پائی جاتی ہے ،اس لیے یہ رائے قائم کرلی گئی ہے،حالانکہ تقویٰ کا معیار انسانی معاملات بھی ہیں۔صرف عبادت معیار نہیں ہے۔
ندوی صاحب نے آخر میں جماعت اسلامی کے قائدین کو دو اہم مشورے دئے ہیں۔پہلا مشورہ یہ ہے کہ جماعت کے اہل حل وعقد کو ان بعض عبارتوں سے رجوع کرلینا چاہیے جو باعث نزاع ہیں۔دوسرا مشورہ انھوں نے یہ دیا ہے کہ جماعت کو ہندوستان میں تمام سیاسی قضیوں سے قطع نظر کرکے اپنے کام کو مسلمانوں کے اجتماعی اور تعلیمی مسائل تک محدود کرلینا چاہیے۔ان کے مطابق ہندوستان کے موجودہ حالات میں جماعت کا سیاست سے الگ رہ کر رفاہ عام کے کام کرنا مسلمانوں کے لیے نفع بخش ہے اور خود جماعت کے لیے بھی بہتر ہے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مولانا مودودی نے ملک کی آزادی کے موقع پر جو مشورے اپنے ایک کتابچے(خطبۂ مدراس ) میں دئے تھے ،اُن پر ہندوستان کی جماعت نے عمل نہیں کیا۔ ۶؎
حوالہ جات
۱؎ عصر حاضر میں اسلامی تحریکیں،پروفیسر احتشام احمد ندوی،ص۲۱۷
۲؎ مولانا مودودی کی تحریک اسلامی،مولفہ محمد سرور،سندھ ساگر اکادمی لاہورص:۲۲ بحوالہ عصر حاضر میں اسلامی تحریکیں،ص:۲۱۹
۳؎ تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں بحوالہ عصرحاضر میں اسلامی تحریکیں،ص:۲۲۰
۴؎ عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں،پروفیسر احتشام احمد ندوی،ص:۲۲۳
۵؎عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں ،پروفیسر احتشام احمد ندوی،ص:۲۲۳،۲۲۴
۶؎ عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں ،پروفیسر احتشام احمد ندوی،ص:۲۲۵،۲۲۶
مشمولہ: شمارہ فروری 2019