انسانی زندگی میں فیصلہ سازی کا عمل ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ شورائیت کیا ہے؟ کسی فیصلے تک پہنچنے کا ایسا عمل جس میں ایک سے زائد لوگ شریک ہوں۔ فیصلے کی اساس علم، عقل اور حکمت پر ہے۔ علمی وسعت، عقلی پختگی اور حکیمانہ بصیرت میں فرق کے اعتبار سے فیصلہ بہتر یا کمتر ہو سکتا ہے۔ فرد ہو یا اجتماعیت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہتر فیصلوں کی محتاج ہے۔ اور یہ تو ظاہر و باہر ہے کہ علیم و حکیم ہستی صرف اللہ سبحانہ تعالی کی ذات ہے۔ اس لیے اگر کسی معاملہ میں اس کی ہدایت نص صریح کی صورت میں سامنے ہو تو پھر نہ کسی انسانی فیصلے کی ضرورت ہے، نہ مشاورت کی الّا یہ کہ ہدایت الہی کی تفہیم اور اطلاق کے سلسلے میں عقلی استدلال کی گنجائش ہو۔
مشاورت کی ناگزیریت
معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی انسان کو ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ معاملہ انفرادی ہو تو ایک شخص اپنے معاملات کا فیصلہ اپنی انفرادی عقل سے بھی کر سکتا ہے کیوں کہ وہ دوسروں سے مشورےکے بغیر اپنے نجی فیصلے کرنے کے لیے خود مختار ہے۔ تاہم انفرادی معاملات میں بھی قابل اعتماد لوگوں سے مشاورت کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسروں کے مشوروں کو قبول کرنے، نہ کرنے کا اختیار تو اسے ہے ہی۔
لیکن جہاں معاملات کا تعلق اجتماعیت سے ہو وہاں اجتماعی مشاورت اصولی طور پر لازم قرار پاتی ہے کیوں کہ جب معاملہ کے فریق دیگر لوگ بھی ہوں تو فیصلہ سازی کے عمل سے انھیں الگ رکھنا بدیہی طور پر غلط ہے۔ مزید یہ کہ اہم اجتماعی معاملات کی پیچیدگی کے پیش نظر، اجتماعی عقل کا استعمال ناگزیر بھی ہے کیوں کہ باہمی مشاورت سے معاملات کے ان پہلوؤں کے اوجھل رہ جانے کا امکان کم سے کم تر ہو جاتا ہے جو علم و عقل میں تفاوت اور ذاتی محرکات کی وجہ سے مخفی رہ سکتے ہیں۔
شورائی فیصلہ: قابل قبول حل
بلاشبہ شورائیت فیصلہ سازی کا سب سے بہتر اور قابل قبول طریق کار ہے۔ لیکن قابل ذکر حقیقت یہ بھی ہے کہ انسانی مشاورت چاہے کتنی ہی اعلی درجہ کی ہو وہ کلی طور پر صحیح اور ہر اعتبار سے بے نقص فیصلہ کی ضمانت نہیں ہے۔ مشاورت کا عمل ممکنہ حد تک صحیح فیصلے کے قریب تر ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ کلی طور پر برحق اور بے نقص فیصلہ کے لیے جس عقل مطلق، علم محیط اور حکمت کاملہ کی ضرورت ہے وہ فردا فردا یا من حیث المجموع انسان کو حاصل ہی نہیں۔ وہ ذات تو صرف اللہ سبحانہ تعالی کی ہے جس کا ہر فیصلہ برحق اور ہر نقص سے پاک ہے اور وہ کسی مشورے کا محتاج نہیں۔ انسان کا انفرادی فیصلہ ہو یا شورائی فیصلہ وہ کسی بھی صورت نقص سے پاک ہو ہی نہیں سکتا،الّا یہ کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے غیبی طور پر زیر غور معاملہ کے ہر پہلو کو اصحاب شوری پر آشکار کردے۔ اس لیے کسی شخص کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اگر اس کی بات مان لی جاتی تو فیصلہ بالکل صحیح ہوتا۔ یہ فیصلہ ہو یا وہ فیصلہ اپنے بے شمار مضمرات (implications) کے لحاظ سے کم یا زیادہ ناقص ہو سکتا ہے۔ اس لیے مشاورت کے نتیجے میں کسی بھی فیصلہ کے بعد اسی قادر مطلق ہستی سے دعا مانگنی چاہیے جو فیصلے کو نقص کے باوجود مقصد کے حصول کا ذریعہ اور اجتماعیت کے لیے باعث خیر و برکت بنا دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
شورائی فیصلے کا امتیاز
شورائی فیصلہ کے تین امتیازی پہلو ہیں: اوّل یہ کہ اجتماعی معاملات میں انفرادی رائے کے بالمقابل اجتماعی رائے پر مبنی فیصلہ ہی زیادہ قابل قبول ہو سکتا ہے؛ دوم یہ کہ شورائی فیصلے میں بہر حال اس کا امکان زیادہ ہے کہ اس کا نقص کم سے کم تر ہو اور صحیح فیصلے کے قریب تر ہو؛ تیسرا اور اہم ترین امتیازی پہلو یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالی نے اجتماعی امور و معاملات میں باہمی مشاورت کی ہدایت فرمائی ہے (امرھم شوری بینھم) جس کی پابندی مشاورت کے عمل کو بابرکت بنا دیتی ہے۔ اگر شورائی فیصلے کے یہ سب پہلو ہمارے سامنے رہیں تو ہم کسی پیچیدہ مسئلہ کا حل تلاش کر لینے کے بعد اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوں گے کہ ہماری اجتماعی عقل نے بالکل صحیح فیصلہ کر لیا ہے جو ہر نقص سے پاک ہے بلکہ ہم جذبۂ شکر سے لبریز دل کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالی سے دعا کریں گے کہ بار الہا! ہم نے تو تیری ہدایت کے مطابق حتی الامکان مسئلہ کے ہر پہلو کا جائزہ لے کر محدود علم و عقل سے صحیح فیصلے کے قریب تر ہونے کی کوشش کر لی، اب تو ہی ان فیصلوں کو نقص کے باوجود مفید بنانے والا ہے۔
شورائیت کی صورتیں
شورائیت کی کئی صورتیں ہیں جو اجتماعی معاملات کی فیصلہ سازی میں رائج ہیں۔ بنیادی اجتماعیت (Primary Social Group) مثلاً خاندان، قبیلہ، گاؤں، وغیرہ میں مشاورت کا نظام عام طور پر غیر رسمی اور سادہ ہوتا ہے جہاں وقتی یا دور رس فیصلہ سازی کے عمل میں یا تو سب لوگ یا چنندہ لوگ شریک ہوتے ہیں اور ان کے فیصلے سماجی روایات کے تحت قبول کیے جاتے ہیں۔ فیصلوں کے نفاذ، اس سے اختلاف یا انحراف کا انحصار اس اجتماعیت میں موجود ہم آہنگی پر ہے۔ یہ مثال اس لیے دی گئی ہے تاکہ واضح رہے کہ سادہ ترین اجتماعیت میں بھی شورائیت کا عمل جاری و ساری ہے۔ اجتماعیت کا بنیادی اور محدود ادارہ خاندان ہو یا وسیع اور منظم ادارہ حکومت، شورائیت ایک لازمی عنصر کے طور پر ہر طرح کی اجتماعیت میں پائی جاتی ہے۔
منظم اور ضابطہ بند اجتماعیت میں شوری یا مشاورتی نظام ادارہ جاتی شکل میں پایا جاتا ہے اور امر و اطاعت کے نظام میں وہ متعین أصول و ضوابط کے ساتھ کام کرتا ہے۔ شورائیت کی غیر متنازع حیثیت کے باوجود شورائیت کے مختلف النوع طریقے رائج ہیں جو فیصلہ سازی کے عمل اور اجتماعی نظام کا رخ متعین کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بنیادی پہلو شوری اور صاحب امر کے مابین اختیار کے تعین کا ہے۔ اس لحاظ سے عمومی طور پر شورائیت کی درج ذیل تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
شوری صاحب امر کے تابع ہو
صاحب امر شوری کے تابع ہو
صاحب امر عمومی طور پر شوری کا پابند ہو لیکن استثنائی صورت میں اس کی رائے شوری پر حاوی ہو
پہلی صورت در اصل شوری کو ایک ایسے مشیر میں بدل دیتی ہے جو ہر دم صاحب امر کے اشارۂ چشم و ابرو کے مطابق رائے دینے پر مجبور ہے۔ ایسی شورائیت سے صاحب امر کو فیصلہ سازی میں جو رہ نمائی ملتی ہے وہ اتنی ناقص ہوتی ہے کہ فیصلے کے نقص میں مزید اضافہ ہی کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ایسا شورائی نظام کسی قدر مفید مطلب ہو سکتا ہے تو اسی صورت میں کہ صاحب امر فیصلے تو خود کرے لیکن وہ اصحاب شوری کو آزادانہ رائے دہی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔ ایسے اجتماعی نظام کی کم زوری یہ ہے کہ فیصلہ ساز اور صاحب امر دونوں ایک ہی فرد ہوتا ہے۔ وہ نہ تو اجتماعیت کا منتخب کردہ ہوتا ہے اور نہ ہی اجتماعیت کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے بلکہ وہ بزعم خود صاحب امر اور فیصلہ ساز ہونے کا دعویدار ہوتا ہے۔ اس طرح کے اجتماعی نظام میں فیصلہ سازی اور امر و اطاعت کا نظام تو ہوتا ہے لیکن اصولاً جواب دہی کا نظام نہیں ہوسکتا۔
دوسری صورت میں فیصلہ سازی کا عمل کسی جبر کے بغیر انجام پاتا ہے۔ شوری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرے جو اجتماعیت کے لیے بہتر ہوں۔ گویا صاحب امر اصلاً ایک ایسا منتظم اعلی ہوتا ہے جس کا کام صرف فیصلے کا نفاذ ہے۔ اس صورت میں شوری کی حیثیت دماغ کی اور صاحب امر کی حیثیت اعضا و جوارح جیسی ہے۔ شوری کی یہ حیثیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اصحاب شوری اجتماعیت کے منتخب نمائندے اور قابل اعتماد لوگ ہوں اور شوری اپنے فیصلوں کے لیے اجتماعیت کے سامنے جواب دہ بھی ہو۔ اس نظم اجتماعی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ صاحب امر شورائی فیصلوں کو حتی المقدور ٹھیک ٹھیک نافذ کرنے کی کوشش کرے اور وہ فیصلوں کو روبعمل لانے کے سلسلے میں شوری کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس طرح کے اجتماعی نظام میں جواب دہی کا الگ الگ تعین ممکن ہے اور جواب دہی کا ادارہ جاتی نظام کار کردگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
تیسری صورت ان تحریکوں کے مناسب حال ہے جو ایک نظم اجتماعی کے ساتھ ہمہ جہت تبدیلی کے لیے سرگرم کار ہوں۔ اگر تبدیلی کی منزل اسلامی نظام زندگی کو فکری اور عملی سطح پر لوگوں کے لیے قابل قبول بنانا اور انفرادی و اجتماعی سطح پر جاری و ساری کرنا ہو تو اس طرح کی اجتماعیت میں صاحب امر کی ذمہ داری اجتماعی فیصلوں کی تنفیذ کے ساتھ ساتھ فکری، اخلاقی اور روحانی رہ نمائی بھی ہے۔ اقدامیت پسندی (initiativeness) قیادت کا جوہر ہے۔ اقدامیت پسندی صاحب امر سے دو باتوں کا تقاضا کرتی ہے
اوّل یہ کہ فیصلہ سازی کے عمل میں اسے استثنائی صورت حال میں یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ تحریک کے وسیع تر مفاد کے لیے شوری کی اقلیتی رائے کے مطابق فیصلہ کر سکے اگر اسے شرح صدر ہو کہ حالات کا یہی تقاضا ہے۔ فیصلہ سازی میں اس طرح کے صوابدیدی اختیار (discretionary power)کا استعمال ناگزیر صورت حال میں ہی کیا جانا چاہیے جب صاحب امر کو یقین ہو کہ دلائل کے اعتبار سے اقلیتی رائے اکثریتی رائے کے مقابلے میں نظم اجتماعی کے وسیع تر مفاد میں زیادہ بہتر ہے اور جسے نظر انداز کرنے سے نظم اجتماعی کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوم یہ کہ وہ ایسے فیصلوں کو رو بعمل لاتے ہوئے اجتماعی رائے عامہ کو اس کے مطابق ہم وار کرنے کے لیے بھی کوشاں رہے اور شوری کو بھی اس فیصلے کی موزونیت پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اس کے لیے فکری دلیل یا شخصی اپیل یا دونوں کے ساتھ صاحب امر کو اپنا خون جگر نچوڑنا ہوگا۔ لیکن اگر تجربے سے اس طرح کے فیصلے کی نا موزونیت واضح ہوتی چلی جائے تو اس فیصلے کے سقم کو دور کرنے کے لیے شورائی نظام میں تنقید و اصلاح کا دروازہ بھی کھلا ہے اور مزید بہتر بنانے کی گنجائش بھی موجود ہے، کیوں کہ فیصلہ فی نفسہ مقصود نہیں بلکہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔
ایسا نظم اجتماعی دو طرح کے نظام جواب دہی کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک منصبی جواب دہی کا نظام جس میں ہر سطح کے ذمہ داران کو اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی جواب دہی کرنی ہوتی ہے۔ دوسرا اجتماعی جواب دہی کا نظام جس میں من حیث المجموع تمام افراد جماعت جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس انفرادی اور اجتماعی نظام جواب دہی کا امتیازی پہلو خوش دلانہ احتساب ہے جس کا واحد مقصد فرد اور جماعت کو بہتر سے بہتر کارکردگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس نظام جواب دہی کی روح اللہ سبحانہ تعالی کی رضا جوئی ہے۔
مثالیت اور عملیت میں مطابقت کی تلاش
شورائی فیصلے میں دو پہلو بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے فیصلہ کرنے میں اصحاب شوری کو بڑی عرق ریزی کرنی پڑتی ہے۔ ایک طرف مقصد و نظریہ مثالیت پسندی (idealism)کی طرف مائل رکھتا ہے تو دوسری طرف بدلتے حالات عملیت پسندی (pragmatism) کا تقاضا کرتے ہیں۔ راہ کھوٹی نہ ہو، منزل قریب تر ہوتی جائے اور قافلہ بد دلی یا کنفیوژن کا شکار نہ ہو، ان سب کا بڑا انحصار شورائی فیصلوں کی مقصد و نظریہ سے ہم آہنگی اور حالات سے مطابقت پر ہے۔ اس شعور کے ساتھ فیصلہ سازی کا شورائی عمل کتنا جاں گسل اور کٹھن چڑھائی جیسا ہو جاتا ہے اس کا ادراک و احساس کارکنان تحریک کو بھی ہونا چاہیے۔ مثالیت اور عملیت کے درمیان تطابق اور اعتدال کی راہ کیا ہو؟ اسی چیلنج کے جواب کی تلاش اصلاً ایک گراں بار ذمہ داری کے طور پر اصحاب شوری کو نبھانی پڑتی ہے۔ کسی فیصلہ تک پہنچنے کے دوران رایوں میں اختلاف کا پیدا ہونا اور کبھی دلیل کبھی جذبات کی تگ و تاز سے مجلس شوری کا گرم ہونا ایک فطری امر ہے۔ فیصلہ سازی کے اس عمل میں ہر صاحب رائے کے دماغ میں درج ذیل دو سوال گردش کرتے رہتے ہیں جنھیں ایک ہی فیصلے میں سمونے کی کوشش کی جاتی ہے: –
اوّل: مقصد و نظریہ سے ہم آہنگ فیصلہ کیا ہونا چاہیے؟
دوم: حالات کے اعتبار سے عملیت پسندی کا تقاضا کیا ہے؟
اگر فیصلہ مقصد و نظریہ کا واضح ترجمان ہو لیکن بدلے ہوئے حالات میں قابل عمل نہ ہو تو فیصلے کا ہونا، نہ ہونا برابر ہے۔ اسی طرح اگر فیصلہ مقصد و نظریہ سے ہم آہنگ نہ ہو تو اس کا محض قابل عمل اور مناسب حال ہونا اسے معتبر نہیں بنا سکتا۔ خواب کی الٹی تعبیر کے لیے مشقت ہی کیوں کی جائے؟ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ فیصلہ مقصد سے ہم آہنگ بھی ہو اور قابل عمل بھی۔ لیکن اس اعتدال کے ساتھ فیصلہ کرنا کسی بھی شورائی عمل کا سخت ترین مرحلہ ہے۔ ایسے فیصلے جو مقصد سے پوری طرح ہم آہنگ بھی ہوں اور قابل عمل بھی، ان تک پہنچنا زیادہ مشقت طلب نہیں ہوتا۔ مشکل تو اس وقت پیش آتی ہے جب مقصد کے وسیع تر تقاضوں کا تعین کرنا ہوتا ہے اور ان تقاضوں کے اعتبار سے بدلے ہوئے حالات میں عملی راہ تلاش کرنی ہوتی ہے تاکہ موزوں و مناسب فیصلہ کیا جا سکے۔ ایسے موڑ پر جرح و استدلال کے طویل مرحلے سے گزر کر ہی اتفاق رائے سے کی جانے والی فیصلہ سازی نظم جماعت کو بہت سارے داخلی مسائل سے بچا سکتی ہے۔ اس اتفاق رائے کی کوشش ناکام بھی ہو سکتی ہے لیکن ناتمام نہ رہ جائے اس پر نظر رکھنا صاحب امر کی ذمہ داری ہے اور اسی کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالی سے بار بار توفیق کی طلب بھی ناگزیر ہے۔
فیصلہ سازی اور بشری کم زوریاں
عام طور پر فیصلہ سازی کے عمل کو تین چیزیں کم زوری سے دوچار کرتی ہیں:
جذباتیت
یک رخا پن
عجلت پسندی
جذباتیت: کسی بھی زیر بحث معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ٹھنڈے ذہن کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرت در پرت اور تہہ در تہہ چھپے گوشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے تحلیل و تجزیہ اور جرح و استدلال کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہماری عقل منطقی ترتیب کے ساتھ معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ لیکن جذباتیت عقل کے منطقی سفر میں رکاوٹ بنتی ہے۔ غیر منطقی ذہن بہت جلد تلاش و جستجو کے اس عمل سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کا کھل کر اظہار اس وقت ہوتا ہے جب مشاورتی بحث و گفتگو میں دلیل اور جوابی دلیل کے ذریعے کسی فیصلہ تک پہنچنے کی کوشش ہو رہی ہوتی ہے۔ کسی بھی انسانی فیصلے کے موزوں یا ناموزوں ہونے کا پیمانہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ علم و عقل کے ذریعے اس پر دلیل قائم کی جائے۔ مشاورتی عمل میں کئی رخ سے بحث و گفتگو ہوتی ہے۔ دلیل اور جوابی دلیل کے ذریعے کسی بات پر اتفاق رائے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دلیل کی بنیاد پر اپنے ذاتی رجحان سے اوپر اٹھ کر دوسری رائے کو قبول کرنے کا نام ہی معقولیت ہے۔ لہذا! اجتماعی مشاورت میں ہر شخص کو دل ہی دل میں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ وہ معقولیت پسندی کی راہ پر گامزن ہے یا جذبات و رجحان کا اسیرہے۔
یک رخا پن: معاملہ کا کوئی ایک ہی رخ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہی فیصلہ موزوں ہو سکتا ہے جو کسی معاملہ کے حتی المقدور تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر کیا جائے۔ اگر کسی ایک پہلو سے کوئی فیصلہ مفید ہو سکتا ہے تو دوسرے پہلو سے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ فائدہ زیادہ ہے یا نقصان۔ اس جائزہ کے لیے ضروری ہے کہ مشاورتی عمل کے دوران ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے۔ یک رخا پن نگاہ کو معاملہ کے کسی ایک ہی پہلو پر منجمد کر دیتا ہے۔ یک رخے پن کی وجہ سے کوئی ایک پہلو اتنا حاوی ہو جاتا ہے کہ یا تو دوسرے پہلو نگاہ سے اوجھل رہ جاتے ہیں یا نا قابل اعتنا قرار پاتے ہیں۔
عجلت پسندی: یہ کم زوری صائب و موزوں فیصلہ سازی کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کہاوت ہے جلد بازی کا کام شیطان کا، مطلب یہ کہ جلد بازی میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ فیصلہ کسی لمحاتی رد عمل کا نام نہیں ہے۔ بلاشبہ بعض فیصلے فوری کرنے ہوتے ہیں لیکن اس فوری فیصلے میں بھی عزم اور رد عمل کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
ان تین کم زوریوں کو کم سے کم تر کرنا ہر صاحب شوری کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی شخص ان کم زوریوں کے ساتھ فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہو تو وہ خود بھی مضطرب رہتا ہے اور دوسروں کو بھی مبتلائے اضطراب رکھتا ہے۔ معاملہ کو صحیح طور پر سلجھانے اور جادۂ اعتدال تلاش کرنے میں جذباتیت، یک رخا پن اور عجلت پسندی کو ممکنہ حد تک قابو میں رکھنا ضروری ہے۔
شورائی فیصلہ، عمل آور ی اور اختلاف
کسی بھی شورائی نظم جماعت میں سرگرمیوں کی بنیاد شورائی فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلوں کا احترام اور اس پر عمل اور ی حسب استطاعت ہر فرد جماعت پر لازم ہے۔ من پسند فیصلوں پر عمل اور ناپسند فیصلوں سے گریز کسی نظم اجتماعی سے وابستہ فرد کے لیے زیبا نہیں۔ ایسی روش کا آغاز نامعقولیت سے اور اختتام خود سری پر ہوتا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی فیصلہ افراد جماعت کے حق اختلاف کو سلب کر لیتا ہے؟ نہیں۔ بلکہ اختلاف رائے کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے اختلاف عمل کے رجحان پر قدغن لگاتا ہے۔ اسی کے ساتھ اختلاف رائے کے اظہار کا دائرہ بھی متعین کرتا ہے۔ وہ دائرہ کیا ہے؟ اختلاف رائے کو یا تو ذمہ داران کے سامنے پیش کیا جائے یا اس مجلس میں پیش کیا جائے جہاں فیصلہ سازی ہوتی ہے یا اس فورم پر پیش کیا جائے خاص طور پر اختلافی معاملات پر افہام و تفہیم اور بحث و مذاکرہ کے لیے بلائی گئی ہو۔ یہی موزوں اور فطری دائرہ ہے۔ یہ دائرہ اختلاف رائے کے حق کو نتیجہ خیز بناتا ہے۔
جب کہ نظم جماعت کے طے کردہ دائروں سے باہر اختلاف رائے کا اظہار بد دلی اور دھڑے بندی کا باعث بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایک ہی مقصد و نظریہ کی بنیاد پر تشکیل پانے والا نظام اجتماعی ایسی کوتاہیوں کی اجازت نہیں دے سکتا جو داخلی طور پر نظم کو کم زور کرنے والی ہوں۔ مقصد و نظریہ سے دلی وابستگی تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ: اولاً تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہوں، دوم اگر فیصلے اتفاق رائے سے نہ ہو پائیں (جو انسانی فیصلہ سازی میں کوئی عجوبہ نہیں ہے) تب بھی خوشدلی کے ساتھ انھیں رو بہ عمل لانے میں تمام لوگ شریک ہوں، سوم اگر کچھ لوگوں کو کوئی فیصلہ مقصد و نظریہ کے علی الرغم نظر آتا ہو تو وہ اس کی تبدیلی کے لیے اپنے دلائل صاحب امر اور فیصلہ ساز مجلسوں کے سامنے پیش کرتے رہیں لیکن فیصلے کے نفاذ میں عملی رکاوٹیں نہ کھڑی کریں، اور آخری معقول راستہ یہ ہے کہ اگر نظم جماعت کے ساتھ وابستگی اور اختلافی فیصلہ سے بے زاری کے درمیان انھیں ترجیحی رویہ وابستگی کے بجائے بے زاری ہی کا مناسب نظر آتا ہو تو نظم جماعت سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ تاہم اس آخری فیصلے سے پہلے انھیں تین سوالوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے: (1)کیا واقعتاً وہ اختلافی فیصلہ مقصد و نظریہ سے واضح طور پر ٹکراتا ہے یا محض حکمت عملی کے اعتبار سے غیر معقول ہے؟ (2)کیا اس کا امکان نہیں کہ تجرباتی عمل سے گزرنے کے بعد عقل اجتماعی اسے بدل کر بہتر فیصلہ کر سکے؟ (3)کیا نظم جماعت سے وابستگی اس اختلافی فیصلہ کی وجہ سے دین و ایمان کا مسئلہ بن گیا ہے؟ تاہم ان تین سوالوں کوکھڑا کرنے سے پہلے خود نظم اجتماعی کو وہ تمام ممکنہ مواقع فراہم کرتے رہنا چاہیے جن میں اختلاف رائے کے حاملین گھٹن کے احساس سے دوچار نہ ہوں۔ اختلاف رائے کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا مناسب فورم اور میکنزم وضع کرنا چاہیے۔ اس عمل سے فیصلوں سے اتفاق اور اختلاف رکھنے والوں کے درمیان افہام و تفہیم کی راہ ہم وار ہوگی اور اختلافی و اتفاقی آراکے استدلالی تعامل (rational interaction) سے نئی راہیں کھلیں گی۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2022