ہمارا ملک مادی طور پر خوب ترقی کررہا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کا اوسط تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حروف شناسی سے محرومی ختم ہورہی ہے اور معاشی میدان میں بھی استحکام پیدا ہورہا ہے۔ یہ سب چیزیں بہ ظاہربڑی خوش آئند ہیں، لیکن ان کا دوسرا پہلوبڑا تشویش ناک ہے، وہ یہ کہ ہرشعبۂ حیات میں اخلاقیات کا بحران ہے۔ اس سنگین صورتِ حال سے پورا ملک دوچار ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے سنسنی خیزخبروں، اشتہارات، فحش لٹریچر اور عریاں ونیم عریاں تصاویر کے ذریعہ بے حیائی کو فروغ دینے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ نصف النہار کی طرح واضح ہے۔ نصاب میںجنسی تعلیم کی شمولیت پر غورو فکر ہی نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ ترجیحات میں داخل ہے۔ ملک میں ہم جنسی جیسی گھنائونی چیزدر آئی ہے اوراسے سند جواز فراہم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اخلاق کا دامن پکڑ کر ملک کی ترقی ناممکن ہے۔ دفاتر، دانش گاہیں، تعلیمی و صنعتی مراکز سب اس برائی میں مبتلا ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی صورت حال ہے۔ غیرملکی منظر نامہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مغرب نے مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دے دیا ہے۔ اس کے نزدیک شخصی طور پر مذہب کو اپنانے کی اجازت تو ہے، لیکن اجتماعی معاملات میں اس کی مداخلت کو گوارا نہیںکیا جاتا۔ چنانچہ تعلیم، تہذیب، معاشرت، معیشت، سیاست ہر شعبۂ حیات کو اس نے مذہب سے دور رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ جھوٹ، مکروفریب، دغابازی، خیانت،بدعہدی، غلط کاری، بدخلقی وغیرہ کی شکل میںظاہر ہورہا ہے اور اخلاقی گراوٹ کومزید فروغ حاصل ہورہا ہے۔
عرب کی اخلاقی حالت
عہد جاہلیت میں عرب کی اخلاقی زندگی کیسی تھی اس کاحال حضرت جعفر طیارؓکی زبانی سنیے
’’اے بادشاہ ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردست زیردستوںکو کھاجاتے تھے۔ اس اثنائ میں ایک شخص ہم میںپیدا ہوا، اس نے ہم کو سکھایا کہ ہم پتھروں کوپوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں، خون ریزی سے باز آئیں، یتیموںکا مال نہ کھائیں،ہمسایوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں‘‘۔ ﴿سیرۃ النبیﷺلابن ھشام، الجزئ اوّل،ص:۳۵۸﴾
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب کے یہاں اخلاقی قدریں بالکل ناپید ہوچکی تھیں۔ جس کے جی میں جو آتا تھا وہ کر گزرتا تھا۔ کوئی رکاوٹ اور قانونی تازیانہ نہ تھا، جو ان کو ارتکاب جرم سے روک سکے۔
ایسے عالم میں اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو اس ظلمت و تاریکی سے روشنی کی طرف نکالنے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپﷺکی بعثت کا بنیادی مقصد ہی اخلاق کریمانہ کی تعلیم کو عام کرنا اور انسانیت کو اس سے آراستہ کرناتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بعثت لأتم حسن الأخلاق ﴿مؤطا امام مالک، کتاب حسن الخلق:۸﴾
’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کی تکمیل کروں‘‘
اخلاق کی اہمیت و فضیلت ارشادات رسول کی روشنی میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات عالیہ میں بڑے دل نشیں اور مؤثر اسلوب میں اخلاق حسنہ کو اپنانے کی تلقین کی ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:
أکمل المؤمنین ایمانا أحسنہم خلقا۔ ﴿ابودائود: ۲۸۶۴۔ترمذی:۲۶۱۱﴾
’’کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں‘‘
ان المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجۃ الصائم القائم۔﴿ابودائود: ۸۹۷۴﴾
’’مومن اپنے حسن اخلاق سے دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کا درجہ پالیتا ہے‘‘۔
دوسری حدیث میں آپﷺنے فرمایا:
مامن شیٔ یوضع فی المیزان اتقل من حسن الخلق و ان صاحب حسن الخلق لیبلغ بہ درجۃ صاحب الصوم و الصلوٰۃ۔﴿ترمذی: ۳۰۰۲﴾
’’﴿روز قیامت﴾ میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی، بااخلاق شخصاپنے حسن خلق سے روزہ اور نمازکی پابندی کرنے والے کا درجہ حاصل کرلیتا ہے‘‘۔
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
مامن شیٔ اتقل فی المیزان منحسن الخلق ﴿ابودائود: ۹۹۷۴﴾
’’حسن خلق سے زیادہ باوزن ترازو میں کوئی چیز نہ ہوگی‘‘۔
اچھے اخلاق رسول کا محبوب اورمقرب بننے کا بہترین ذریعہ ہیں، آپﷺنے فرمایا ہے:
ان من احبّکم الیَّ احسنکم اخلاقاً۔﴿بخاری: ۹۵۷۳﴾
’’میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں‘‘۔
ایک حدیث میں آپﷺنے حسن اخلاق کے حامل شخص کی ان الفاظ میں تعریف و تحسین کی ہے:
ان من خیارکم احسنکم أخلاقاً۔﴿بخاری:۳۵۵۹﴾
’’تم میں بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں‘‘۔
بدخلقی کی شناعت
اللہ کے رسول ﷺ نے جہاں حسن اخلاق کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے، وہیں معاملات کوبخوبی انجام دینے پر زوردیا، اچھی صفات سے متصف ہونے کی تاکید کی ہے اوربدخلقی کی مذمت کی ہے۔ اس کے بھیانک اور مہلک نتائج سے خبردار کیا ہے اوربدخلق شخص سے اپنی بے زاری اورناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس موضوع کی چند احادیث ملاحظہ ہوں:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
أبغض الرجال الی اللّٰہ الالدّ الخصم ﴿ترمذی: ۲۹۷۶﴾
’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض شخص وہ ہے جو ضدی قسم کا اورجھگڑالو ہو‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
المؤمن غیّر کریم و الفاجر خبّ لئیم۔ ﴿ترمذی: ۱۹۶۴ حسنہ الالبانی﴾
’’مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر چالاک اور کمینہ ہوتا ہے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ان اللّٰہ لیبغض الفاحش البذیئ۔ ﴿ترمذی: ۲۰۰۲ صححہ الالبانی﴾
’’اللہ تعالیٰ بے حیا اور فحش گو شخص سے نفرت کرتا ہے‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولاللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
البذائ من الجفائ والجفائ فی النار۔ ﴿ترمذی: ۲۰۰۹ صححہ الالبانی﴾
’’فحش گوئی ﴿اللہ سے ﴾ بدعہدی ہے اور بدعہدی جہنم میں ﴿لے جانے والی﴾ ہے‘‘۔
ایک حدیث میںحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول خدا ﷺنے فرمایا :
ان شر الناس منزلۃ عند اللّٰہ یوم القیامخ من ورعہ او ترکہ الناس لاتقائ فحشہ ﴿بخاری: ۲۰۵۴۔ مسلم: ۵۲۹۱﴾
’’قیامت کے روز اللہ کے نزدیک بدترین انسان وہ ہوگا، جس سے لوگ اس کی فحش کلامی کی وجہ سے دور رہیں‘‘
معاشرتی زندگی میں رسول کریمﷺ کا اسوہ
رسول اللہ ﷺکا مقام و مرتبہ اس حیثیت سے بھی بہت بلند اورممتاز ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ اور پہلومزین، روشن اور تابناک ہے، آپﷺ نے جو کچھ کہا سب سے پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھایا ۔ آپﷺکا جو قول تھا وہی عمل بھی تھا۔ آپﷺ کی عملی زندگی کے واقعات کے لیے تو تفصیل درکار ہے۔ چند واقعات پیش کرتا ہوں :
کفار مکہ نے رسول اکرم ﷺاور آپﷺ کے صحابہ پر ظلم و ستم کا کوئی حربہ ایسا نہ تھا جسے نہ آزمایا ہو۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھربار اوروطن چھوڑنے پر مجبورہوگئے تھے۔ جب مکہ فتح ہوا تو اسلام کے یہ بدترین دشمن آپﷺ کے سامنے تھے۔ وہ مکمل طور پر آپﷺ کے رحم و کرم پر تھے اور آپﷺ کے فیصلے کے منتظر تھے۔ آپ نے پوچھا:
’’تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟انہوں نے جواب دیا: ‘‘آپ ہمارے شریف بھائی اور شریف برادرزادے ہیں۔تو حضورﷺ نے فرمایا: ’’آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں ، جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔ ﴿سیرۃ النبی لابن ہشام۔الجزئ:۴، ص:۳۲﴾
اس بے مثل عفو عام کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام اہل مکہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور ایک سال کاعرصہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ پورا ملک اسلام کے سایہ تلے تھا۔ اللہ کے رسول ﷺکے اعلیٰ اخلاق و کردار کی گواہی آپﷺکے دشمنوںنے بھی دی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعدآپﷺ نے مختلف حکمرانوں کو خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی، آپ کا خط جب شہنشاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے تحقیق حال کے لیے مناسب سمجھا کہ مکہ کے کسی فرد کو بلاکر آپ کے بارے میں دریافت کرے، اس کے کارندوں نے ابوسفیان کو جو ان دنوں ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ وہیں کہیں قریب ہی تھے اس کے دربار میں حاضر کیا۔ اس وقت تک ابو سفیان کو قبول اسلام کی سعادت نہیں حاصل ہوئی تھی، ہرقل نے ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کے بارے میں دیافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ آپﷺکے اخلاق بڑے بلند ہیں، آپﷺقول کے پکے اور بات کے سچے ہیں۔ ﴿بخاری:۷﴾
اخلاقی بلندی کا نمایاں ثبوت یہ ہے کہ حضرت سائبؓ جو آپﷺکی نبوت سے قبل آپﷺکے شریک تجارت تھے، انہوں نے آپ کے اخلاق کی گواہی ان الفاظ میں دی :
کنت شریکی ،فنعم الریک و کنت لاتداري ولاتماري۔ ﴿ابو دائود:۶۳۸۴ صححہ الالبانیٔ﴾
’’آپ میرے شریک تھے اور بہت ہی اچھے شریک تھے آپﷺنہ کبھی دھوکہ بازی سے کام لیتے تھے اورنہ جھگڑتے تھے‘‘
ابتدائے اسلام میں جب آں حضرت ﷺ کی دعوت ابھی زیادہ عام نہیں ہوئی تھی، ابو ذر غفاریؓ تک آپ کی خبر پہنچی انہوں نے مزید تحقیق اور تفصیل معلوم کرنے کے لیے اپنے بھائی کو بھیجا تھا، انہوںنے واپس آکر یہ رپورٹ دی:
رأیتہ یأمر بمکارم الأخلاق ﴿بخاری:۳۸۶۱﴾
’’میں نے ان کواچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا‘‘۔
انسان کے اخلاق کی سب سے معتبر گواہی اس سے قریب ترین شخص کی ہوگی ۔
آپ کے مکارم اخلاق کی پہلی شہادت ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے دی، جب آپﷺ پر پہلی وحی آئی تو آپ گھبرا گئے، آپﷺ پرلرزہ طاری ہوگیا۔ اسی پریشانی اورگھبراہٹ کے عالم میں سیدھے گھر تشریف لائے اور اپنی اہلیہ خدیجہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا مجھ کو اڑھادو، مجھ کو اڑھا دو، مجھے اپنی زندگی خطرے میںمعلوم ہوتی ہے، اس پر ام المؤمنینؓ نے فرمایا:
کلا واللہ ما یجزئک اللہ أبدا، انک لتصل الرحم، و تحمل الکل، وتکسب المعدوم وتقري الضیف و تعین علی نوائب الحق۔﴿بخاری:۳﴾
’’اللہ کی قسم اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ یقینا صلہ رحمی کرتے ہیں، معذور وںکا بوجھ اٹھاتے ہیں، مفلس کو سہارا دیتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی خاطر ہونے والی مصیبت پر مددکرتے ہیں‘‘
حضرت عائشہؓ سے آپﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : ان خلق نبی اللہ کان القرآن۔ ﴿ابو دائود: ۱۳۴۲﴾
’’اللہ کے نبی ﷺکا اخلاق قرآن تھا‘‘۔
ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں: میںنے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺکے اخلاق کیسے تھے تو انہوں نے فرمایا :
لمیکن فاحشا ولامتفحشا ولاصخابا فی الأسواق ولایجزي بالسیئۃ السیئۃ ولکن یعفو و یصفح۔ ﴿ترمذی: ۲۰۱۶ صححہ الالبانی﴾
’’آپ نہ فحش گو تھے اورنہ فحش گوئی کو پسند کرتے تھے، اورنہ بازار میں چیخ پکار کرتے تھے اورنہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے،بلکہ معاف فرماتے اور درگزر کردیتے تھے‘‘۔
آپﷺکے خادم خاص حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں
’’میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دس سال رہا، اللہ کی قسم آپﷺنے مجھ سے کبھی اف تک نہیں کہا اورنہ کسی بات کے تعلق کے سے کہا کہ ایسا کیوں کیا؟ ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘﴿مسلم:۲۳۰۹﴾
گزشتہ تفصیل سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام میں حسن اخلاق کو کتنی اہمیت دی گئی ہے اور اللہ کے رسول کا اسوہ اس معاملے میں کیا رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کا رویہ اسلامی تعلیمات اور اسوہ نبیﷺسے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کی اکثریت اخلاق و کردار سے عاری ہے۔ معاملے کی صفائی اور شفافیت، دوسروںکے ساتھ اچھا برتائو، اعلیٰ اخلاق وکردار کامظاہرہ اور دیگراخلاق فاضلہ جو کبھی ان کی پہچان ہوا کرتے تھے اب عنقا ہوچکے ہیں اور تمام اخلاقی برائیاں جو دیگر اقوام میں پائی جاتی ہیں، وہ ان میں درآئی ہیں۔ جب تک وہ اپنے اخلاق و کردار کو نہیں سنواریں گے اوران کی زندگیاں اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ نہیں پیش کریںگی اس وقت تک اشاعت اسلام کی راہ کی رکاوٹ دور نہیں ہوسکتی۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2010