دنیا کے ہر ملک اور ہر سماج کے حالات منفرد ہیں۔ نہ ترکی کا تجربہ مکمل طور پر مصر میں دہرایا جاسکتا ہے نہ ہندستان میں۔ اس حقیقت کے شعور و ادراک کے باوجود، آج کی اس گلوبل دنیا میں مشترک مسائل اور حالات کی فہرست بھی بہت طویل ہے اور ہر ملک کے تجربات میں دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیے سیکھنے کے بہت سے پہلو موجود ہوتے ہیں۔
یہ بات معروف ہےکہ عالمی طاقتوں کو مشرق وسطی ٰ کے علاقہ سےگہری دلچسپی ہے۔اس دلچسپی کے چار بڑے اسباب ہیں۔ مشرق وسطٰی کا تیل، اسرائیل کا وجود اور اس کی سلامتی، اس علاقہ کی جغرافیائی مرکزیت اور اس علاقہ کا اسلام کا مرکز ہونا۔ ان چاروں امور سے عالمی طاقتوں اور امریکہ و یورپ کے گہرے سیاسی، معاشی، اور تہذیبی مفادات وابستہ ہیں۔
ترکی، مصر اور ایران ، مشرق وسطی کی تین بڑی طاقتیں ہیں۔مشرق وسطی کے تین مختلف کناروں، یعنی شمال مغربی، جنوب مغربی اور مشرقی کناروں پر واقع یہ ممالک، اس علاقہ کو بالترتیب یورپ ، افریقہ اور بقیہ ایشیا سے جوڑتے ہیں۔ آبادی، وسعت، سائنسی و تعلیمی ترقی اور دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے یہ مشرق وسطی کے ممتاز ترین ممالک ہیں۔ عالمی طاقتیں مشرق وسطی پرکنٹرول کرنا چاہتی ہیں، اس لیے ان کے نزدیک اِن تین ممالک کی بنیادی، اہمیت ہے۔ عالمی طاقتوں کے مفادات کا تقاضہ ہے کہ اس علاقہ کی ان تین بڑی طاقتوں کو اسرائیل کا حلیف بنایاجائے۔ مشرق وسطی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان تین ملکوں میں سے کم سے کم دو کو امریکہ اور اسرائیل کا ہمیشہ حلیف بنائے رکھا گیا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے ترکی اور ایران اس کے نہایت وفادار حلیف رہے۔ جب ایران میں اسلامی انقلاب کے آثار پیدا ہوگئے اور وہ اسرائیل مخالف ملک کی حیثیت سے سامنے آنے لگا، تو کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے ذریعہ مصر کو توڑ لیا گیااور اسے اسرائیل کے حلیف ، بلکہ وفادار خادم میں بدل دیا گیا۔
ان تین ممالک کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر، مصر کے حالیہ واقعات کو سمجھنے کے لئےبقیہ دوملکوں کی حالیہ تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔ جو کچھ مصر میں محمد مرسی اور اخوان کے ساتھ ہورہا ہے ، وہ حیرت انگیز مشابہت کے ساتھ، انہی واقعات کی تکرار ہے جو اس سے پہلے ایران اور ترکی میں پیش آچکے ہیں۔
ایرا ن اور ترکی کی حالیہ تاریخ
ایران میں ۱۹۷۹ کے مشہور اسلامی انقلاب سے بہت پہلے، ۱۹۵۱ میں محمد مصدق نے ملک کےپہلے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے چارج سنبھالا تھا۔ وزیر اعظم نے، جو خود ایک ممتاز دانشور اور مصنف تھے، دو سال کے مختصر عرصہ میں اراضی اصلاحات، اور سماجی بہبود کے مختلف اقدامات کے ذریعہ ملک کا نقشہ بدل دیا تھا۔ان کا سب سے جراء ت مندانہ اقدام ، ایران کی تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ تھا۔ یہ صنعت پہلی جنگ عظیم کے پہلے سے برطانوی قبضہ میں چلی آرہی تھی اور برطانوی کمپنی، اینگلوپر شین آئیل کارپوریشن اس کی بلاشرکت غیرے مالک تھی۔ ایرانی تیل کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ جہاں، ایران کی معاشی آزادی و ترقی کی سمت ایک اہم قدم تھا ، وہیں عالمی استعمار کے معاشی مفادات پر گہری ضرب بھی تھی۔
نتیجہ کیا نکلا؟ دو سال کے اندر امریکی سی آئی اے، اور برطانوی ایم آئی سکس نامی ایجنسیوں نے ایرانی اشرافیہ، یعنی فوج، نوکر شاہی اور عدلیہ کی مددسے، بغاوت کرادی۔ ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل فضل اللہ زاہدی نے، برطانوی استعمار کے وفادار خادم کی حیثیت سے ایرانی حکومت کا چارج سنبھالا اور محمد مصدق کو تین سال تک جیل میں اور پھر مزید گیارہ سال تک گھر پر نظر بند رکھا گیا۔ یہاں تک کہ اسی قید تنہائی میں ۱۹۶۷ میں وہ رحلت کرگئے اور خاموشی سے گھر کے احاطہ ہی میں انہیں دفن کردیا گیا۔
اسی طرح ترکی میں ۱۹۶۰ میں اسلام پسندی کے جرم میں، وزیر اعظم عدنان میندریس کو معزول کرکے پھانسی دے دی گئی۔ نجم الدین اربکان، ایک بار نائب وزیر اعظم اور دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ہر دفعہ ایک سال کے اندر اندر، انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا، ایران کی طرح یہاں بھی، منتخب وزیر اعظم کی جگہیں زیادہ ترفوجی جرنیلوں نے یا ان کے پٹھووں نے سنبھالیں اور اس تبدیلی میں بنیادی کردار، اسی طبقہ نے ادا کیا جسے آج کل، تحتی ریاست (Deep State) کہا جارہا ہے۔ یعنی فوج، نوکر شاہی اور عدلیہ کا مثلث جو ان ممالک کے اشرافیہ کی نمائندگی کرتا رہا اور جس کا ریاست پر نہایت مضبوط کنٹرول تھا۔
بعد میں کیا ہوا؟ دونوں ملکوں میں پہلے اسلامی تحریک نے گرچہ عوام کو متاثر کیا ۔ عوام کی منتخب حکومتوں کو چلنے نہیں دیا گیا لیکن اسلامی تحریکات نے صبر سے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اشرافیہ یا تحتی ریاست پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہوگئی اس کے بعد جو تبدیلی آئی تو یا تو اس کی پشت پر تحتی ریاست کی تائید کا سپورٹ بھی موجود تھی، جیسا کہ ایران میں ہوا، یا پھر عوامی سیاسی قیادت کو تحتی ریاست پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا۔جیسا کہ ترکی میں ہوا۔یہی مراحل اس وقت مصر میں درپیش ہیں۔ تبدیلی کا جو عمل ایران میں ۱۹۵۱ میں محمد مصدق کے انتخاب سے لے کر، ۱۹۷۹ میں اسلامی انقلاب تک مکمل ہوا یا جو ترکی میں ۱۹۹۷ میں اربکان کے استعفی سے لے کر، ۲۰۰۱ میں اردوان کے انتخاب تک مکمل ہوا، مصر میں اسی جیسے عمل کی اب ابتداءہوئی ہے۔ حالات و قرائن بتارہے ہیں کہ مصر میں ان شاءا للہ یہ عمل زیادہ تیزی سے مکمل ہوگا۔عالمی طاقتوں اور اسلام دشمنوں کی یہی کوشش ہے کہ یہ عمل مکمل نہ ہو۔اس مقصد کے لیے وہ ایک مبسوط حکمت عملی نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے بعض نکات کا تجزیہ درجِ ذیل ہے۔
(۱)اشرافیہ پر کنٹرول:
اس حکمت عملی کا پہلا اور سب سے اہم جز طبقہ اشرافیہ یا تحتی ریاست کا رول ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی نگرانی کے لیے اہم ممالک میں اپنے پٹھو حکمران بٹھاتی ہیں لیکن وہ یہ جانتی ہیں کہ حکمران مسنتقل نہیں رہ سکتے۔ وہ بدل سکتے ہیں اور شاہ فیصلؒ اور جنرل ضیاءالحقؒ جیسے لوگ بھی اقتدار حاصل کرسکتے ہیں۔ اس لیے اصلاً ان کے مفادات کی نگرانی ، تحتی ریاست کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کا سب سے اہم حصہ مسلح افواج ہوتا ہے۔ اس کے بعد نوکر شاہی، عدلیہ، میڈیا، دانشوران اور سماج کا اشرافیہ، اس کے اہم اجزا ہوتے ہیں۔بڑے اہتمام سے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہوتا ہے۔ایسا سماجی کلچر پروان چڑھایا جاتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں اس طبقہ کو عوام سے کاٹ کر رکھا جاتا ہے تاکہ عوامی رجحانات سے وہ متاثر نہ ہوں اور ان کے معاشی و طبقاتی مفادات کو خاص طور پر عالمی طاقتوں کے مفادات سے وابستہ کردیا جاتا ہے۔
اس پورے عمل کو سمجھنے کے لیے مصر کی فوج کو سمجھ لینا کافی ہے۔ مصر کی فوج ، دنیا کی دسویں سب سے بڑی فوج ہے۔یعنی اسرائیل کی فوج سے تقریباًڈھائی گنا۔ بعض وسائل کے اعتبار سے یہ فوج دنیا کی ممتاز ترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ مثلاً جنگی ٹینکوں کی تعداد کے اعتبار سے روس کے بعد دنیا میں دوسرا نمبر مصر کی فوج کا ہے۔
لیکن سب جانتے ہیں کہ اس قدر زبردست وسائل کے باوجود یہ فوج ، میدان جنگ میں آج تک کوئی معمولی کارنامہ بھی انجام نہیں دے سکی۔اسرائیل کے ساتھ جنگوں میں ہمیشہ شرمناک ہزیمت سے دوچار ہوئی اور ہر دفعہ نامراد لوٹی۔ غازہ کا علاقہ ہمیشہ کے لیے ہاردیا۔ سینا کا علاقہ بھی تقریباً ہار دیااور آج بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر سینا کے علاقہ میں نہ کوئی مصری فوجی داخل ہوسکتا ہے اور نہ ہتھیار بھیج سکتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ مصر کی فوج، کیمپ ڈیوڈ جیسے بزدلانہ اور شرمناک معاہدہ کے لیے مجبور ہوئی۔
پھر اس بھاری خرچ پر اتنی بڑی فوج کو رکھنے کا مقصد کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ادارہ کو میدان جنگ سے زیادہ عوام کو کنٹرول کے لیے تیار کیاگیا ہے۔ اس کا اصل مقصد مصر کی سرحدوں پر ملک کا دفاع نہیں، بلکہ سرحدوں کے اندر اپنے آقاؤں کے مفادات کا دفاع ہےاور اس مہم میں وہ بہت کامیاب ہے۔ ملک کی اکثریت کے ذریعہ منتخب حکومت کو وہ چند گھنٹوں کے اندر بے دخل کرسکتی ہے اور لاکھوں عوام کے احتجاج کو بے دردی سے کچل سکتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ، معاشی صنعتی اور تہذیبی محاذوں پر بھی وہ اپنے آقاؤں کے مفادات کا بھرپور تحفظ کرسکتی ہے۔ مصر کی فوج ،منرل واٹر بناتی ہے۔ آئل اسٹیشنز چلاتی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوںمیں زبردستی دوسرے برانڈز پر پابندی لگاکر اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہے۔ اہم شہروں میں بیش قیمت تجارتی جائیدادیں ، قیمتی زرعی زمینیں اور آراضی کاروبار کا بڑا حصہ فوج کے قبضہ میں ہے۔ سوئز کمپنی کا چیر مین ہمیشہ کوئی فوجی ہی ہوتا ہے۔اس طرح ملک کی سیاست، معیشت، میڈیا ، عدلیہ وغیرہ پر مکمل کنٹرول، اور ان سب کے ذریعہ عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ فوج کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جسے تحتی ریاستکہا جاتا ہے۔ جب اسلامی تحریکوں نے کا م کا آغاز کیا تو یہ اشرافیہ طبقہ سارا کا سارا نوآبادیاتی تہذیب کا پروردہ تھا۔ اسلامی تحریکوں سے بلکہ دین اور مذہب ہی سے اس کو چڑ تھی اور تحریکوں نے بھی اسے لبرل اور مغرب زدہ سمجھ کر بڑی حد تک نظر انداز کیا اور یہی طبقہ سب سے زیادہ ان کی راہ کی رکاوٹ بنا رہا۔
ترکی کے رہنمااربکان مرحوم کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے بڑے صبر اور حکمت کے ساتھ اس طبقہ کو مخاطب بنایا۔ صنعت کاروں اور تاجروں کو اپنے پیغام کی طرف راغب کیا۔مختلف پروفیشنلز کی تنظیمیں قائم کیں۔ فوج میں کام کیا۔ پڑھے لکھے طبقہ میں کام کیا۔ اور جب یہ کام مکمل ہوا تو آج تحریک اسلامی کے لیے راستہ نسبتاً ہموار ہے۔
اخوان ابھی تحتی ریاست کو متاثر نہیں کرسکے ہیں۔تجزیہ نگاروں کو اس بات پر حیرت ہے کہ انجنیروں، ڈاکٹروں اور دیگر پیشہ وارانہ ماہرین کی ایک بڑی تعداد اخوان کے پاس ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس تحتی ریاستمیں جگہ نہیں بنا سکے۔ اس کی وجہ تجزیہ نگار یہ بتاتے ہیں کہ اخوان کے ماہر پروفیشنلز کی عموماًایک کارکن Activist اور مبلغ Preacherکی حیثیت سے تربیت ہوئی ہے۔ چنانچہ سماج کے اشرافیہ میں ، وہ بہت کم نفوذ کر پائے ہیں۔
اس صورت حال سے اس طبقہ میں کام کرنے کی اہمیت کا سبق ملتا ہے۔ ان بااثر طبقات میں منصوبہ بند کام کی ضرورت ہے۔ یہ کام مسلمانوں میں بھی ہونا چاہئے اور غیر مسلموں میں بھی۔ روایتی ذہن اس طرح کے منصوبوں کا متحمل نہیں ہوپاتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کی اہمیت کا اور اس کے تقاضوں کا شعور اندر پیدا ہواوراس کی تربیت بھی دی جائے۔
(۲)اسلام پسندوں کو تقسیم کرنا:
ایران کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد دنیا کے وہ مسلمان جو اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے غالب دیکھنے کے آرزو مند تھے، یک جان و یک صف تھے۔ مگراس وقت کم از کم تین بڑے خانوں میں عالمی سطح پر بٹ چکے ہیں۔ شیعہ اسلام پسند، جن کی نمائندگی ایران اور حزب اللہ کرتے ہیں۔ سلفی کہلانے والے اسلام پسندجن کی نمائندگی دنیا میں پھیلی ہوئی سلفی تحریکات کرتی ہیں۔اور تحریکی اسلام پسند یعنی اخوان، جماعت اسلامی اور اُن سے متاثر افراد جو سید قطبؒ، حسن البناؒ اور مولانا مودودی ؒکے افکار سے متاثر ہوکر منظم ہوئے ۔عالمی طاقتوں کی بھر پور کوشش ہے کہ اسلامی تحریک ان خانوں میں بٹی رہے اور اُن کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی رہے۔ شیعہ اسلام پسندوں کو ایران کے قومی مفادات سے اور سلفی اسلام پسندوں کو آل سعود کے خاندانی مفادات سے وابستہ کردیا گیا ہے۔
بظاہراخوان کی موجودہ ہزیمت کا ایک بڑا سبب، اسلام پسند وں کے ان بقیہ دو دھاروں کو ساتھ لینے میں ناکامی ہے۔ ابتدا میں حزب النو ر کی تائید اخوان کو حاصل رہی۔ لیکن بعد میں چھوٹے چھوٹے مسئلوں کی بنا پردونوں جماعتوں میں دوریاں بڑھتی گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صورت حال کی اصل ذمہ داری سعودی ملوکیت کی مفاد پرستی اور حزب النور کے ایک طبقہ کی شدت پسندی اور تنگ نظری پر عائد ہوتی ہے۔ البتہ بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے، اس صورت حال کے باوجوداخوان کوان سے اچھے تعلقات بحال کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔
شام کے مسئلہ نے شیعہ اور سنی اختلاف کو نمایاںکردیا ہے۔ ایران اور حزب اللہ، شام کے ڈکٹیٹر کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں اور اس ڈکٹیٹرکےبد ترین ظلم کا نشانہ شام کے اخوانی بن رہے ہیں۔ دوسری طرف مصر میں اسلامی تبدیلی سے سب سے زیادہ خائف سعودی عرب کی وہی شاہی حکومت تھی جو سلفی تحریک کی طاقت و اثر و رسوخ کا بڑا مرکز ہے۔ ان حقائق کے باوجود، یہ ضروری ہے کہ اسلامی تحریک کو اس طرح خانوں میں تقسیم ہونے دیاجائے۔چنانچہ شیعہ اور سلفی مزاج تحریکوں سے مکالمہ اسلامی تحریک کا اہم ہدف ہونا چاہئے۔
ترکی کا تجربہ امید افزا ہے۔ ترکی کی اسلامی تحریک کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اپنی کوئی مسلکی یا فرقہ وارانہ،شبیہ نہیں بنائی ہے۔ اُس نے سب لوگوں کو یکساں طور پر قریب کیا ہے جو ، اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں۔مولانا رومیؒ کے مشرب سے وابستہ صوفی درویشوں سے لے کر سلفیوں تک اور اناطولیہ کے دیہاتیوں سے لے کر استنبول کے ارب پتی صنعت کاروں تک، ہر طرح کے افراد آج اردوان کی پارٹی میں موجود ہیں۔ ایران میں اردوان پر تنقید ضرور ہوتی ہے لیکن انہیں ایران کے ایک دوست کی حیثیت سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ اردوان کی قیادت میں دونوں ملکوں کی تجارت ایک بلین ڈالر سے بڑھ کر ۳۰ بلین کے قریب ہوچکی ہے۔ اسی طرح ترکی ،سلفی دنیا سے بھی قربت پیدا کرنے میں کامیاب ہے۔ شام کے قضیہ میں ترکی کی جانب سے باغیوں کی بھرپور حمایت کے باوجود، وزیر اعظم اردوان کی مقبولیت نہ ایران میں کم ہوئی ہے نہ عرب دنیا میں۔
(۲) اسلام پسندوں کی عام مسلم معاشرہ سے دوری
اسلامی تحریکیں دنیا بھر میں ایک منظم اندازمیںکام کرتی ہیں اور ایک اِسلامی نظریہ حیات پر پختہ یقین رکھتی ہیں۔ نظریے کی بنیاد پر وہ اپنے کارکنوں کی فکری و عملی تربیت کا خصوصی اہتمام کرتی ہیں۔ یہ ان تحریکوں کی مثبت خصوصیات ہیں جو ان کی طاقت کا منبع ہیں۔ لیکن بسااوقات احساس برتری کا منفی وصف اِن تحریکوں کے وابستگان میں پیدا ہوجاتا ہے ، جسے دشمن طاقتیں انہیں، سماج سے دُوررکھنےکے لیے استعمال کرتی ہیں۔
تحریکوں کے کارکن سمجھتے ہیں کہ ان کے افراد باکردار ہیں جبکہ معاشرہ کردار کے لحاظ سے پختہ نہیں ہے۔ وہ باشعور ہیں اور معاشرہ کے شعور کی تربیت ابھی باقی ہے۔انہیں اسلامی مقاصد اور نصب العین کی معرفت حاصل ہے۔ جبکہ معاشرہ بے سمت ہے۔ ان وجوہ سے ان کے نزدیک تحریک کے باقاعدہ وابستگان ہی قابل اعتماد قرار پاتے ہیں۔ چھوٹی بڑی امانتیں انہی کے سپرد ہونی چاہئیں۔ سیاسی قیادت ان کے پاس ہونی چاہئے۔ اداروں کے ذمہ دار وہی لوگ ہونے چاہئیں اور بالآخر حکومت کی اہم ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد ہونا چاہئیں۔ نہ صرف سیاسی ذمہ داریاں بلکہ وہ کام بھی جو پیشہ وارانہ قابلیت اور مہارت چاہتے ہیں ، ترجیحی طور پر انہی لوگوں کو دئے جانے چاہئیں۔
تحریک کے کارکن تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس رویہ کو اختیار کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے لوگ “تربیت یافتہ” اور “قابل اعتماد ” ہیں۔ وہ زیادہ بہتر خدمت دیانت داری کے ساتھ کریں گے۔لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کاموں کو انجام دینے کے لیے پیشہ وارانہ مہارتوں سے صحیح استفادہ نہیں ہوپاتا، جس کی وجہ سے کارکردگی ناقص رہ جاتی ہے دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ اِس طرزِ عمل کو ” تنظیمی عصبیت” کا مظہرسمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تحریکیں ہماری یا عوام کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ اس معاملہ میں ترکی کا تجربہ مختلف ہے۔ اربکان کی پارٹی عوامی پارٹی تھی۔اردوان نے اسے اور زیادہ وسعت دی اور پورے سماج کا احاطہ کیا۔قابلیت اور صلاحیت کو اپنی تنظیمی وابستگی پر فوقیت دی۔ جیسے دانشوروں، اور پروفیسروں علما اور صنعت کاروں کو پارٹی اور حکومت میں اہم مناصب دیئے۔اردوان کے دس سالہ دور حکومت میں ترکی کی غیرمعمولی معاشی ترقی کو تجزیہ نگار ایک کرشمہ قرار دیتے ہیں۔اسی معاشی شعبےکی قیادت کے لیے اردوان نے ایک تینتیس سالہ نوجوان کا انتخاب کیا جس کا تحریک سے اس سے قبل کوئی تعلق نہیں تھااور ترکی کے وزیر مالیات کی حیثیت سے تینتیس سالہ علی بابا جان (جو اب ۴۵ سال کی عمر میں نائب وزیر اعظم ہیں) نے اردوان کی توقعات سے بڑھ کر کارکردگی کامظاہرہ کیا۔اردوان کی جماعت ترکی کے سماج کی نمائندہ جماعت کے طور پر ابھری۔ کسی مخصوص مسلکی، گروہی یا تنظیمی دائرہ میں بند ہوئے بغیر اس نے پورے معاشرے سے اپنا تعلق قائم کیا۔
(۳)اسلام پسندوں کی شبیہ کو مجروح کرنا:
اسلام پسندوں کو بدنام کرنا اور ان کی شبیہہ کو مجروح کرنا ، عالمی طاقتوں کا اہم حربہ ہے۔ اسلام پسندوں پر یہ الزامات لگائے جاتے ہیں۔
(الف) اسلام پسند دہشت گرد ہوتے ہیں اور دہشت گردوں کی درپردہ حمایت کرتے ہیں۔
(ب) وہ صرف اپنی تنظیم کے لوگوں کی تائیدکرتے ہیں۔ عام معاشرہ سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
(ج) وہ صرف اچھے مبلغ اور نقاد ہوتے ہیں۔ حکومت چلانے کی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہوتی۔ ملک ان کی قیادت میںترقی نہیں کرسکتا۔
(د) عورتوں اور غیر مسلموں کے سلسلہ میں ان کارویہ غیر منصفانہ ہے۔
(ہ) اپنے ملک اور معاشرہ سے زیادہ ان کی دلچسپی ، عالمی اسلامی تحریک سے ہوتی ہے۔ ان کی قیادت میں ملک کے مفادات محفوظ نہیں رہ سکتے۔
(و) عالمی طاقتوں کے سلسلے میںان کا رویہ معاندانہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حکومت اُن کی ہو تو ملک عالمی طاقتوں کے غیض و غضب کا نشانہ بن سکتا ہے۔
مصراور تیونس سے لے کر بنگلہ دیش تک ، ہر جگہ انہی الزامات کی تکرار نظرآتی ہے۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ تحقیقی اداروں کی رپورٹوں سے لے کر فیس بک اور ٹوئیٹر کی سطح تک، ہر جگہ اس پروپگنڈا کا بھرپور اور منظم مقابلہ کیا جائے اور سچائی کو واضح کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے رویّے سے گریز کیا جائے جن سے اس طرح کے الزامات کی گنجائش پیدا ہوتی ہو۔ اپنی باتوں کی معقول انداز سے پیش کش، غیرمعتدل خیالات کی حوصلہ شکنی، تبدیلی کے عمل میں تدریج کا لحاظ اوراپنے موقف کے بیان میں عوامی جذبات کی معقول رعایت ضروری ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013