گل ولالہ اورکوہ ودریا سے معمور ہمارایہ وطن جوکبھی مسلمانوں کی عظمت واقتدار کی نشانی تھی گزشتہ چند برسوں سے جس کرب سے گذرہا ہے تاریخ میں اس طرح کا دور نہ کبھی تھا اور خدا نہ کرے کبھی آئے ۔ جو آبشار ہو یا شہر نگار، چمستان ہویا نخلستان سبھی مسلمانوں کے ذوقِ جمال کے امین ونگہبان تھے مگر مٹھی بھر لوگ اِن دنوں اس ملک کے امن وامان کے دشمن بن کر سماج میں اُتھل پُتھل پیدا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ۔ امن وسانتی کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
اس ملک پر جب انگریزوں نے اپنا خونی پنجہ گاڑاتوزیادہ تر جوتباہی وبربادی آئی وہ مسلمانوں کے ہی حصہ آئی کیونکہ اُس وقت ملک کے مالک ونگہبان مسلمان ہی تھے۔ جب ملک کے عام باشندوں کو انگریزی حکومت کے ظلم وبربریت اورغلامی کااحساس ہوا اورملک میں آزادی کی ہوا چلی تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموںکی اکثریت نے بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیا اورایک دوسرے کے قریب آئے اور پھر مسلم ہندو دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف مورچہ لیا۔ یہ اتحاد ورشتہ بہت دور تک چلتا رہا تحریک خلافت میں بھی ملک کی یہ دونوں آبادی بڑے شوق وذوق کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے اور ہر ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے رہے۔
افسوس کہ آزادی کی جدوجہد کے درمیان چند مٹھی بھر لوگ جوانگریزوں کے مخبر اور زرخیر تھے ہندو فرقہ پرستی کے بیچ بورہے تھے ٹھیک آزادی سے قبل ان فرقہ پرستوں نے اپنا جال تیزی سے پھیلایا جس کے گواہ اس زمانہ کے اخبار ورسائل ہیں۔ کانجی دوار کاداس (Kanji Dowarka Das) نے اپنی کتاب’’ محمد علی جناح‘‘ (اشاعت ۱۹۷۰ء کوہِ نور پرنٹنگ پریس ۔ لال کنواں دہلی) میں بہت تفصیل سے ان عوامل کا ذکر کیا ہے وہ لکھتےہیں کہ جنا ح کو بٹوارے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں نومبر ۱۹۴۵ء تک ان کے دل ودماغ میں ملک کے بٹنے کا کوئی تصور نہیں تھا، داس نے بہت سے ایسے عوامل سے اُسےثابت کیا ہے ۔
مثلاً’’ ۵؍نومبر ۱۹۴۵ء کودیوالی تھی میں وقت مقررکئے بغیر اپنے بیٹے کوساتھ لے کر جناح کے یہاں دیوالی کی مبارکباد کہنے کے لئے پہنچ گیا ۔ انہوںنے بنگلے کی پہلی منزل پربلایا ۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر وہ واقعی پاکستان چاہتے تھے اوراس کے حصول کا انہیں یقین تھا توپھر ان کا پرانے مکان کی از سر نو تعمیر میں کئی لاکھ روپئے خرچ کرنے کے کیا معنیٰ تھے؟ مارچ ۱۹۳۴ء میں انہوں نےمجھ سے کہا تھا کہ وہ اس پرانے مکان کوفروخت کرنا چاہتے تھے لیکن جتنی قیمت وہ چاہتے تھے اتنی نہیں ملی اس لئے انہوں نے خیال ترک کردیا اور ۱۹۴۵ء میںنئی تعمیر ہوئی ۔ ۱۹۴۵ء میں اتنی بڑی رقم کا کیا اس بات کا اشارہ نہیں ملتا کہ وہ پاکستان کے وجود میں آنے پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ نومبر ۱۹۴۵ء تک جناح کا اس بنگلےکو چھوڑ کر کراچی جانے کا قطعی ارادہ نہیں تھا۔
مسٹر داس نے ایک واقعہ اورلکھاہے ’ اُسی دن ایک دلچسپ بات ہوئی موتی لال سیتلواد سے جوحال تک ہندوستان کے اٹرنی جنرل تھے کانگریس نے چاہا کہ وہ لیجس لیواسمبلی کے لئے بمبئی کی دونشستوں میں ایک کے لئے اُمیدوار ہوجائیں۔ سیتلواد نے پہلے تو رضا مند ہوگئے لیکن جب کانگریس نے ان سے عہد نامے پر دستخط لینے چاہے توانہوںنے نامنظور کردیا۔ میںنے اس کا ذکر جب جناح کے سامنے کیا توبولے کتنا اچھا ہوتا اگروہ بھی اسمبلی کے ممبر ہوجاتے مجھے ان کے ساتھ کام کرنے میں بڑی خوشی ہوئی۔ جناح کے الفاظ سے تویہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے مطالبے پر بہت زیادہ مصر نہیں تھے۔‘‘
اس کتاب میں مسٹر داس نے ہندوستان کے بٹوارے کی پوری ذمہ داری ولبھ بھائی پٹیل اور جواہر لال کے سر مڑھ دیاہے ۔ بہر حال فرقہ پرست گروہ انگریزوں کے قریب تھے بالآخر ملک دو حصوں میں تقسیم ہوکر آزاد ہوا ۔ آزادی کے زمانے میںبھی بہت سے مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنا پسند کیا اور ملک کی ترقی وتعمیر میں لگ گئے ۔ آزادی کے بعد یہ فرقہ پرست گروہ زیادہ کھل کر سامنے آیا جن کے گواہ آزادی کے بعد ہونے والے ہندو مسلم فسادات ہیں۔
ان تمام فسادات کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں نے پایا کہ برادرانِ وطن کی اکثریت امن وامان پر یقین رکھتی ہے بہتر سلوک اوررواداری کے ساتھ زندگی گزارناچا ہتی ہے۔آج بھی اس کے متمنی ہیں کہ مسلمان اور ہندو مل کر ایک ساتھ رہیں اوراس ملک کی ترقی وتعمیر میں اپنا رول ادا کریں ۔ ملک میں ہمدردی اور رواداری کا چلن جاری رہے ۔
اس موقع پر اگر مسلم سماج پر ایک جائزے کی نظر ڈالتےہیں توبڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کواللہ نے دنیا میں جس مشن پر بھیجا تھا اس کوہی بھول گئے۔ قرآن کریم نے صاف صاف اس بات کا اعلان کیا ہے کہ مسلم ہی وہ گروہ ہے جسے اللہ نے انسانوں کے بیچ اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کوبھلائی کا حکم دیںاوربُرائی سے روکیں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے عدل پر قائم رہ کر کام کریں۔
(مسلمانوں) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہوبدی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے توانہیں کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگران میں بیشتر افراد نافرمان ہیں۔ (آل عمران آیت: ۱۱۰) اس سے قبل سورۂ آل عمران میں ہی اللہ رب العزت فرماتا ہے ۔
(مسلمانوں) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئے جونیکی کی طرف بلائیں۔ بھلائی کا حکم کریں اور بُرائیوں سے روکتےرہیں ۔ جولوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔ (آ ل عمران آیت ۱۰۴)
مسلمانوں سے اس سلسلے میں کوتاہی ہوتی ہے ۔ مسلمانوں نے یہ ذمہ داری بحیثیت مجموعی ادا نہیں کی ہے ۔ آزادی سے قبل سے مسلمان یہاں کے نگہبان اورمالک تھے ان میں باضابطہ یہ گروہ نہیں رہا جواس ذمہ داری کوادا کرتے، آج بھی بحیثیت مجموعی امت مسلمہ اس کام کو نہیں کررہے ہیں الا یہ کہ جماعت اسلامی ہند نے اپنے ہر چہار سالہ منصوبہ میں اس کوشامل رکھاہے اوراپنی بساط بھر اس کام کو کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔
جماعت اسلامی ہند نے ہندوستان کی زیادہ تر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا۔ کتب کا بڑا ذخیرہ ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں تیار کیا اوردعوت کے کام میں لگے رہے مگر لمبے عرصہ تک مسلمانوں نے جماعت کی بات پر دھیان نہیں دیا بعض ان کی مخالفت بھی کرتے رہے ۔ اب خدا کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی نے مسلمانوں کو جن باتوں پر متوجہ کیا تھا اب ان کی سمجھ میں آرہا ہے ۔ اگر جماعت اسلامی کووسائل اورافرادی قوت میسر ہوتی توشاید یہ کام کچھ اورسرعت اور طاقت سے کیا جاسکتا تھا ۔ یہ بھی سچائی ہے کہ اس عرصہ میں جماعت نے سماج کے ذہن اورپڑھے لکھے ہندو ومسلم دونوں طرف افراد کومتاثر کیا ہے مگر جوکام عوامی نوعیت کا ہے وہ تو عوام کی مدد اورشرکت سے ہی ہوگا سماج کے کچھ کام ایسے بھی ہیں جس میں عوام کی شرکت بہت ضروری ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ و ہ اس کی راہیں پیدا کرے ۔ آمین ۔ بقول علامہ اقبالؒ
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے – کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اس بڑی آبادی میں ہر جگہ اورہرعلاقے میں سارے مسلم اگر دینی طور پر تیار ہو ں تو اس کی ادائیگی سے وطن کا نقشہ جوآج نظر آرہا ہے وہ نہیں آتا اوروطن کی قسمت ہی بدل جاتی مگر ہمارے اکثر دلوں سے احساس زیاں جاتا رہا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا – کاروان کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
صدیوں کی غلامی کے بعد ملک تقسیم ہوکر آزاد ہوا جوآبادی عدوی اعتبار سے بڑی تھی اس کو مذکورہ بالا فرقہ پرست گروہ کوورغلارہا تھا ان کی یہ خواہش ہوئی کہ وہ اپنی تہذیب وتمدن، اپنے نظریات ومعاشرت کو غالب دیکھیں اور ہندوراشٹریہ کے تصو رمیں عظمت محسوس کریں۔ فرقہ پرست جواس تاک میں لگے ہو ئے تھے اورزیادہ سرگرم ہوگئے ۔ ان کی اِس خواہش سے عام ہندو آبادی میں رواداری کمزور ہونے لگی۔ شعوری یا غیر شعوری طور سے اس فرقہ پرست گروہ کی آواز پر کان دھرنےلگے ۔ آزادی کے وقت سے ہی ہندوستان نے اپنی دستور کی بنیاد سیکولرازم پررکھی ہے اوریہ بنیاد مضبوط ہے لیکن ہندو احیا پر ستی اور سیکولرازم کے مابین کشمکش ہورہی ہے اس نازک موڑ پر ہم نے اپنا رخ اوررول عملی طور پر واضع نہیں کیا تووہ دن دور نہیں ہوگا جب ہندراشٹریہ کا نعرہ ہر شخص کے زبان پر ہوگا۔
ہندوستان کی طرح اسپین پر بھی مسلمانوں نے لگ بھگ ۷۸۰سات سواسی (۷۱۴ء سے ۱۴۹۲ء تک) سالوں تک حکومت کی مگر۱۴۹۲ءمیں غرناطہ جواسپین میں مسلمانوں کا آخری قلعہ تھا سے مسلمان پسپا ہونے لگے توان کے زوال کا سلسلہ ۱۹۱۲ء تک مکمل ہوگیا او ر پھر مسلمان وہاں سے دھیرے دھیر ے ختم ہوگئے۔ یہ بات ہمارے ذہن ودماغ میں رہنی چاہیے کہ اسپین ہر سطح پر چاہےوہ تعلیمی، سیاسی ، سماجی ، عمرانی ہویا کوئی اور ہندوستان سے بہت بہتر تھا ۔ تاریخ سےپتہ چلتا ہے کہ جس وقت اسپین سے مسلمانوں کا انخلا ہوا اس وقت متمدن دنیا مسلمانوں کے زیر اقتدارتھی ۔عثمانی ترکوں نے ۱۵۰۲میں قسطنطنیہ پر فتح حاصل کی اُنہیں دنوں مصر میں مملوکوں کی حکومت تھی اورایران میں صفوی حکمرانوں کا دور دورہ تھا ۔ ہندوستان پر بھی مغلوں کی حکومت تھی پھر بھی طارق بن زیاد کے ذریعے ایک تاریخی معرکہ سے حاصل شدہ اسپین نہ بچ سکا اورمسلمانوں کا زوال اس کی قسمت بنی۔عیسائیوں اوریہودیوں نے مسلمانوں کواسپین سے زوا ل پزیر کیاتھا اور مسلمانوں کی بڑی سے بڑی حکومتیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔ اگر مسلمانوں کو کوئی چیز ہندوستان میں بچا سکتی ہے تووہ کار دعوت ہے ۔دنیا کے جس حصہ میں بھی مسلم کش فساد ہوتی ہے اس کے بہت سے عوامل ہوتے ہیں جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کی منظم کو شش اور منصوبہ بندی ہوتی رہے مگر اس میں سب سےاہم مسلمانوں کا اس منصب سے اتر جانا ہے اوراس ذمہ داری کوادا نہیں کرنا ہے جس پر اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو سرفراز کیا ہے ۔ اللہ نے مسلمانوں کوجن ذمہ داریوں پر فائز کیا ہے اس میں سب سے بڑی ذمہ داری نیکی کا حکم کرنا اور بُرائیوں سے روکنا ہے ۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مسلم کے زوال پذیر کرنے میں عیسائیوں اوریہودیوں کی ریشہ دوانیاں رہی ہیں مگر اس مسئلہ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم نے ان تمام ذمہ داریوں کو چھوڑ دیا جوہم پر فرض کیا گیا تھا اورجس کا م کے لئے اللہ نے أمت مسلمہ کوبرپا کیا تھا۔
اِدھر مسلم دنیا میں جوتبدیلی آئی ہےوہ زیادہ تکلیف دہ ہے کہ ہماری بڑی آبادی اب نیکی اور بُرائی کا تمیز بھی کھوتی جارہی ہے اوریہ سچ ہے کہ جب ہم تارک قرآن وحدیث ہوجائیں گے توبُرائی اور بھلائی کا پیمانہ کہاں سے آئے گا ۔ قرآن وحدیث ہی تووہ پیمانہ ہے جس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ کون سی بات بُری ہے اوراللہ ورسول نے اس سے منع فرمایا ہے اورکونسی بات بھلی ہے جس کے کرنے کا حکم قرآن وحدیث نے دیا ہے ۔ آپ سماج میں اپنےرہنے والے بڑے سے بڑے نمازی کولے لیںجن کے مصلاً نماز کی قسمیں کھائی جاسکتی ہے وہ بھی اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ مذکورہ باتوں سے دور ہی رہووگرنہ اگرتم نے لوگوں کو بُرائیوں سے روکا اوربھلائی کا حکم کیا تودنیا کی چکی تمہیں پیس کر رکھ دے گی حالانکہ بقول علامہ اقبال ؒ
کچھ سمجھ کرہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف – ورنہ ہم بھی جانتے ہیں عافیت ساحل میں ہے
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اوران کے مال جنت کے بدلے خریدلئے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میںمرتے ہیں اورمارتے ہیں ۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمہ ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اورانجیل اور قرآن میں اورکون ہے جواللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہے ۔ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جوتم نے خدا سے چکا لیا ہے ۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ ( سورہ التوبہ آیت ۱۱۱) آبادی کے لحاظ سے وطن عزیز میں ہر چار انسانوں میں ایک مسلمان ہے ۔ لہٰذا اگرہم یہ طے کرلیں اپنے قول وعمل سے تین برادرانِ وطن کواپنی پوری زندگی میں اتنا کچھ اسلام کا پیغام پیش کردیں کہ کل قیامت کے دن اپنے رب کویہ کہہ سکیں کہ اے رب تونے جوپیغام ہمارے ذمہ بحیثیت بہترین گروہ کے دیا تھا اس کا حق ادا کرکے تمہارے جناب حساب وکتاب کے لئے آیا ہوں اوراللہ ہم سے راضی ہوجائے توملک کا ماحول بھی بدلے گا شانتی وبھائی چارگی کا ماحول بھی بنے گا اور کم از کم ہم تو قیامت کے دن سرفرازو کامیاب ہوجائیں گے ہی۔جس دن ہندوستانی مسلمانوں نے برادرانِ وطن کے سامنے خدا پرستی وخدا ترشی ، اخلاق وحرمت، حسن معاشرت و عدل وانصاف ، انسانی مساوات ، مالداروں کی فیاضی ، غریبوں کی خبر گیری ، پاکی وطہارت ، عہدوپیما کی پاسداری ، معاملات میں راستبازی وغیرہ وغیرہ کا اعلیٰ عملی نمونہ پیش کریں گے یقیناً اس وقت ہندوستان کی قسمت بدل جائے گی اورحالات بدل جائیں گے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستانی مسلمان کی اکثریت برادرانِ وطن کے سامنے اسلامی نظم وضبط ، شجاعت وایثار، موت سے بے خوفی ، ہرحالت میں اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری ثابت کردیں گے اس دن مسلمان اس ملک کو چمکادیں گے ۔ مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ برادرانِ وطن کوحریف کی طرح نہیں بلکہ اس نفسیاتی مریض کی طرح دیکھیں جواندھیرو ں میں روشنی کا متلاشی ہو اور ان کے سامنے نفسیاتی علاج اپنے عمل وکردارسے کریں گے وطن کے حالات بدل جائیںگے تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے جن بزرگوں نےوطن سے مذکورہ بالا کردار عمل کے ذریعے ان کی خدمت کی ہے ۔ برادرانِ وطن ان کے گرویدہ ہوئے ہیں ۔
قرآن کریم اورنبی اکرمؐ کی پوری زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ اس کار دعوت نے بہت ہی چھوٹی سی مد ت میں کتنا بڑ ا انقلاب برپا کردیا ۔ حضورؐ کی زندگی ہی میں سارا ملک عرب جنوب ساحل سےلے کر شما ل میں سلطنت روم کی شامی اورسلطنت فارس کی عراقی سرحدوں تک اورمشرق میں خلیج فارس سے لے کر مغرب میں بحر احمر تک آپ کے زیر نگیں ہوگیا ۔ عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سرزمین ایک قانونی اور ضابطہ کے تابع ہوئی جوطاقت بھی اس سے ٹکرائی پاش پاش ہوکر رہ گئی اورملک کلمہ لاء الٰہ اللہ سے گونج اُٹھا۔ لوگوں نے صرف سرہی اطاعت میں نہیں جھکائے بلکہ ان کے دل بھی مسخر ہوگئے۔ عقائد، اخلاق اور اعمال میں ایک انقلاب عظیم برپا ہوگیا ۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ جاہلیت میں ڈوبی ایک قوم صرف تیئس ۲۳ سالوں میں اتنی بدل گئی ۔ اس کے بعد حضورؐ کی برپا کی گئی تحریک اِس طاقت سےاُٹھی کہ ایشیا، افریقہ اوریوروپ کے ایک بڑے حصے پرچھا گئی اوردنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پھیل گئے ۔ یہ سب کامیابی تودنیا میں ملی اورآخرت کا تو تصوّر بھی نہیں کرسکتے کہ رب کریم کیا کچھ نہ دےگا ۔ اسی دعوت نے پوری دنیا میں حضرات صحابہ کرامؓ کے ذریعے اسلامی امن وآشتی کا پیغام سنایا اور دنیا کا ایک بڑا حصہ تہذیب وتمدن کا گہوارہ بن گیا ۔ وہ خوش قسمت لوگ دنیا کے جس حصہ میں پہنچے اپنے عمل وکردار سے اسلام کی دعوت پیش کیں اورعوام ان کے گرویدہ ہوگئے۔
آج بھی ہوجوبراہیم سا ایماں پیدا – آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
آج اس ملک میں مٹھی بھر لوگ اس امر کی کوشیش کررہے ہیں کہ مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور ان کواصل ہدف سے ہٹادیں ان کوالجھائے رکھیں اور پھر ہندوستانی مسلمانوں کی حالت بھی اسپین جیسی کردیں ۔ دین کی روح ان سے نکل جائے۔ اگر مسلمانوں کی پوری آبادی جذباتی ہوجائے تو اس طرح ان کا ہدف بہت جلد اورآسانی سے پورا ہوجائے گا ۔
انشاء اللہ حق ہی کامیاب وکامران ہوگااورباطل تو دبنے کے لئے ہی ہے شرط صرف یہ ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کوکہاں رکھنا چاہتے ہیں ۔ وقت کا مورخ اس پُر فتن ماحول میں ہم کوکہاں پاتا ہے ۔ یا توہم اپنے قول ، عمل وکردار سے دعوت اسلامی کے ذریعے اس ملک کی تعمیر نو کریں اور عزت کی زندگی گزاریں۔ اگر ہم نے دعوت اسلامی کی راہ پکڑی تو ہمارا یہ قدم اقامت دین کی راہیں پیدا کرےگا ۔ انشاء اللہ ہماری کامیابی اس میں ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک زندہ وجاددان ملت کی حیثیت سے سماج میںپہچانے جائیں ورنہ و ہ دن دور نہیں کہ ہمارے غلط عمل سے اسپین کی تاریخ ہندوستان میں دہرائی جائے گی۔ اللہ ہمیں سمجھ بوجھ عطا فرمائے اورملت اپنے مشن پر ایمانداری سے لگ جائے۔
بیداروں کی دنیا کبھی لٹتی نہیں دوران – ایک شمع لئے تم بھی یہیں جاگتے رہنا
اللہ ہی ہمارا حامی ہے ۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2016