نوجوانوں کی عمر جذبات، امنگوں اور حوصلوں کی ہوتی ہے۔ اس میں عموماً ان پر کچھ کر گزرنے کی دھن سوار ہوتی ہے۔ تعلیم کے مراحل طے کرتے ہوئے وہ بلندیوں کو چھونا چاہتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بیس بائیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ گریجویشن کر چکے ہیں اور پوسٹ گریجویشن کر رہے ہوتے ہیں۔ اس عمر میں عام طور پر وہ جن مسائل سے دوچارہوتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ شادی کا ہے۔
اسلام نے والدین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں، انھیں زیور تعلیم سے آراستہ کریں اور جب وہ بالغ ہو جائیں تو ان کی شادی کا نظم کریں۔ اس سلسلے میں لڑکے اور لڑکی کے معاملہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے اگر چہ صاحب معاملہ (لڑکے اور لڑکی) کی رائے اور آزادی کو تسلیم کیا ہے، لیکن محبت، سرپرستی اور تجربہ کی وجہ سے والدین کی رائے کو بھی اہمیت دی ہے اور انھیں اپنے بچوں کی شادی کی فکر کرنے اور ان کے لیے اچھے سے اچھا رشتہ تلاش کرنے کی تاکید کی ہے۔
نکاح میں تعجیل
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندروں میں جنسی جذبہ ودیعت کیا ہے۔ اسلام نہ تو اس کو کچلنے اور دبانے کا قائل ہے اور نہ اس کی تسکین کے لیے کھلی چھوٹ دینے کا روادار ہے، بلکہ وہ اس کو نکاح کے ذریعہ پابند کرنا چاہتا ہے۔ جنسی جذبہ اتنا طاقتور اور زور آور ہوتا ہے کہ اگر انسان کو اس کی تسکین کے جائز ذرائع میسر نہ ہوں تو اسے ناجائز ذرائع اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ نوجوان گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کرتے ہوئے عموماً بلوغ کے مرحلے سے گزر جاتے ہیں اور ان میں جنسی جذبہ عروج کی راہ پر ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں اگر ان کی صحیح رہ نمائی نہ ہو اور اس کا کوئی پائے دار حل نہ تلاش کیا جائے تو ان کے غلط راہوں پر پڑنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
اذا خطب الیکم من ترضون دینہ وخلقہ فزوّجوہ، الاّ تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد عریض۔ (ترمذی:۱۰۸۴، ابن ماجہ: ۱۹۶۷)
’’ جب تمھارے پاس کسی ایسے شخص کی جانب سے نکاح کا پیغام آئے جس کی دین داری اور اخلاق پر تمھیں اطمینان ہو تو اس سے نکاح کردو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو روئے زمین پر فتنہ اور بڑے پیمانے پر فساد برپا ہو جائے گا‘‘۔
لڑکیوں کے والدین سے خطاب اس لیے کیا گیا کہ ان (لڑکیوں) میں حیا پائی جاتی ہے اور وہ عموماً نکاح کے معاملے میں والدین کی دست نگر ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں لڑکے اپنی خواہش نکاح کے اظہار کے معاملہ میں بے باک ہوتے ہیں اور بسا اوقات وہ خود بھی اپنا نکاح کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرنے کے معاملہ میں نوجوانوں سے براہ راست خطاب کیا ۔ آپؐ نے فرمایا:
یا معشر الشباب من استطاع منکم البائۃ فلیتزوج، فانہ اغضّ للبصر واحصن للفرج ۔ (صحیح بخاری: ۵۰۶۶)
’’نوجوانو ! تم میں سے جو نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے ضرور نکاح کر لینا چاہیے، کیوں کہ وہ آنکھ کو نیچی رکھنے (یعنی بد نگاہی سے بچانے) والا اور شرم گاہ کو (غلط کاری سے) محفوظ رکھنے والا ہے‘‘۔
تاخیر كے اسباب
نکاح میں تاخیر کے قصوروار لڑکے اور ان کے والدین دونوں ہوتے ہیں ۔ لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا جوش رہتا ہے ۔ اگر تعلیم مکمل ہو گئی ہے تو پھر وہ ملازمت کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ تعلیم سے فراغت یا مستقل ملازمت پانے کے بعد ہی نکاح کے بارے میں سوچیں گے۔ والدین کی جانب سے بھی عموماً یہی عذر رہتا ہے۔ ان کو توجہ دلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ابھی لڑکا پڑھ رہا ہے۔ کماتا تو ہے نہیں ۔ اس کا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ شادی کر دیں تو اس کی بیوی کے مصارف بھی اٹھانے پڑیں گے۔لڑکیوں کے نکاح میں بھی عموماً اسی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے کہ ان کے سرپرست ان کے لیے بر سر روزگار اور صاحب ثروت لڑکا تلاش کرتے ہیں اور چوں کہ ان کے معیار اور مرضی کا لڑکا مل نہیں پاتا اس لیے لڑکیاں بڑی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود بیٹھی رہتی ہیں۔
اوپر جو احادیث نقل کی گئی ہیں ان کا خطاب لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے سرپرستوں سے ہے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ نہ لڑکی کا سرپرست اس وجہ سے اس کے رشتہ میں تاخیر کرے کہ جب صاحب حیثیت، مال دار اور بر سر روزگارلڑکا ملے گا تبھی اس کا رشتہ کریں گے، چاہے کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہو جائے اور نہ لڑکے کے سرپرست اس وقت تک اس کا نکاح ٹالتے رہیں جب تک اسے کوئی اچھی اور اونچی ملازمت نہ مل جائے۔
شادی میں تاخیر جہاں دینی اعتبار سے پسندیدہ نہیں ہے وہیں اس کے بہت سے اخلاقی، روحانی اور سماجی مفاسد بھی سامنے آتے ہیں۔ مغربی کلچر نے برائی کے ہزار دروازے کھول دیے ہیں۔ ٹیلی ویژن، ویڈیو، انٹرنیٹ، یو ٹیوب، سوشل میڈیا، فیس بک وغیرہ نے عریانیت اور فحاشی کو خوب بڑھاوا دیا ہے۔ اسمارٹ فون کی اسکرین پر نہ چاہتے ہوئے بھی گندے مناظر سے نگاہیں چار ہوتی ہیں۔ اس صورت میں بہکنے اور اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
اسلامی نظام خاندان میں بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اصلاً شوہر پر ہے۔ اس بنا پر لڑکوں کے اولیاء کا یہ عذر قابل ردنہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مصارف ہی سے گراں بار رہتے ہیں ، لڑکوں کے کمانے کے قابل ہونے سے قبل ان کی شادی کر کے گھر میں کچھ اور افراد کو كیوں بڑھائیں؟
ان تمام مسائل کا حل دوران تعلیم لڑکوں کی خود کفالتی ہے۔ اگر لڑکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کچھ کمانے کی فکر کریں تو شادی میں تاخیر کے سماجی مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں اس سلسلے میں اہم رہ نمائی ملتی ہے۔
خود كفیل ہونا
آں حضرت ﷺ یتیم پیدا ہوئے تھے۔ چھ سال کی عمر میں والدہ بھی چل بسیں۔ دادا عبد المطلب نے پرورش کی، لیکن دو سال کے بعد ان کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، توجناب زبیر بن عبد الطلب نے کفالت کی ذمہ داری لی، لیکن جلد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا تو آپؐ جناب ابو طالب کی سر پرستی میں آگئے۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
کنت أرعاھا (ای الغنم) علی قراریط لاھل مکۃ ( صحیح بخاری: ۲۲۶۲)
’’میں اہل مکہ کی بکریاں چند قرایط (سکوں) کی اجرت پر چرایا کرتا تھا‘‘۔
شارحین حدیث نے نو عمری ہی میں رسول اللہ ﷺکے بکریاں چرانے کی متعدد حکمتیں بیان کی ہیں، لیکن میری نظر میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جناب ابو طالب کثیر العیال تھے اور مالی اعتبار سے انھیں فارغ البالی حاصل نہ تھی (اسی وجہ سے بعد میں ان کی اولاد میں سے حضرت علی ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے اور حضرت جعفر ؓ کو حضرت عباس بن عبد المطلبؓ نے اپنی کفالت میں لے لیا تھا) اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان پر بوجھ بننا گوارا نہ کیا اور اہل مکہ کی بکریاں چرائیں، تاکہ اس سے کچھ اجرت حاصل ہو اور وہ اپنے عزیز چچا کا کچھ تعاون کر سکیں۔ علامہ شبلیؒ نے لکھا ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ کی عمر غالباً دس بارہ برس کی ہوگی ( سیرت النبی، شبلی نعمانی، دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ ۲۰۱۴ء:۱؍ ۱۲۵)
کتب سیرت میں مذکور ہے کہ جناب ابو طالب تجارت کا کاروبار کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ وہ آپؐ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریبا بارہ برس کی ہوگی۔ (حوالہ سابق ،ص ۱۲۶)
ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح سے قبل ان کا مال تجارت شام لے جانے کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ اس وقت آپ ؐ کی عمر پچیس سال تھی۔(حوالہ سابق ، ص ۱۳۳) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپؐ کا پہلا تجارتی سفر نہ تھا ، بلکہ اس سے قبل بھی آپ کی تجارتی سرگرمیاں معروف تھیں اور ان میں آپ کی دیانت زبان زدعام و خاص تھی۔ اس لیے حضرت خدیجہ ؓ نے آپ کو پیش کش کی کہ آپ میرا مال تجارت لے کر جائیں، جو معاوضہ میں اوروں کو دیتی ہوں، اس کا دوگنا آپ کو دوں گی۔ آپ ؐ نے ان کی پیش کش کو قبول فر ما یا۔
كمانے كی صورتیں
دوران تعلیم کمانے (Earning) کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ٹیوشن پڑھایا جا سکتا ہے۔ آج کل ٹیوشن نے ایک منافع بخش مشغلے کی صورت اختیار کر لی ہے اور جا بجا کوچنگ کے ادارے قائم ہو گئے ہیں۔ آدمی انفرادی طور پر بھی ٹیوشن پڑھا سکتا ہے اور کسی کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں بھی اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔ اسی طرح کسی آفس میں پارٹ ٹائم جُزوقتی کام کیا جا سکتا ہے۔ کسی کمپنی میں کچھ وقت لگایا جاسکتا ہے ۔ کسی دوکان پر بیٹھا جا سکتا ہے۔ ارادہ اور آمادگی ہو تو بہت سی صورتیں نکل سکتی ہیں۔
راقم سطور نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں نو سال طالب علم کی حیثیت سے گزارے۔ کچھ عرصہ ٹیوشن پڑھایا۔ اس کے علاوہ جدید عرب اصحاب قلم کی متعدد کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا، جس سے اتنے پیسے حاصل ہوئے کہ نہ صرف میرا اپنا خرچ پورا ہوا ، بلکہ میری ایک چھوٹی بہن اور ایک چھوٹے بھائی کے تعلیمی مصارف کے لیے گھر سے رقم منگوانے کی ضرورت نہیں پڑی۔
دوران تعلیم اگر نو جوان خود کفالتی کے مقصد سے اپنی کوئی مصروفیت تلاش کر لیں تو اس سے کئی فائدے حاصل ہوں گے۔ ان کے والدین پر مصارف کا بار کم ہوگا۔ وہ خود محنت کے عادی بنیں گے۔ فرصت کے اوقات کم ہو جانے کی وجہ سے ذہنی پراگندگی سے ان کی حفاظت ہوگی۔ اسی دوران اگر وہ شادی کے مرحلے سے بھی گزرجائیں تو حقیقی ازدواجی مسرت سے بہرہ ور ہوں گے، وہ ذہنی یکسوئی اور آسودگی سے شاد کام ہوں گے۔ خاندان کی توسیع اور استحکام کے نتیجے میں محبت اور تعاون کرنے والے افراد کا اضافہ ہوگا۔
ضرورت ہے کہ نوجوان اس مشورہ کو قابل غور سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ امید ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل میں اسے مفید پائیں گے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2019