علم، اسلام اور مسلمان

اسلا م کی نظر میں تعلیم و تعلم کا مقصد خالص رضائے الٰہی کی طلب ہے، اور بس اس میں کسی دنیاوی غرض کا میل نہیں۔  اسکی نظر میں تعلیم کا مقصد انسانی پیدائش کے منشا ء کو پورا کرنا، اچھے اخلاق سے آپ آراستہ ہونا، اور دوسروں کوا ٓراستہ کرنا، علم کی روشنی سے جہل اور نادانی کے اندھیروں کو دور کرنا، نہ جاننے والوں کو سکھانا، بھولے بھٹکوں کو راہ دکھانا ، حق کو پھیلانا اور باطل کو مٹاناہے۔؎۱

اسلام نے علم اور دین دونوں کو ایک دوسرے سے اسطرح باندھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بے گانہ نہیں ہو سکتے ۔  قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت اقراء اس حیثیت کو لیکر اتری ہے اور اشارۃً بتاتی ہے کہ پیدا کرنے  والے نے ہمیں پڑھنے اور سیکھنے کے لئے بنایا ہے۔؎۲

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ  خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ  اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ  الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ  عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم العلق۹۶۔۵)؎۳

’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے جمے  ہوئے خون کے ایک لو تھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا ۔وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘

تعلیم کے لغوی معنٰی سکھانا اورسیکھنا ہے، مفہوم کے اعتبار سے تعلیم نہایت وسیع معنی میںہے،علم کی اہمیت کو بتاتے ہوئے قرآن مجید نے فرمایا :

ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ  (الزمر: ۹۔۲۹)؎۴

کیااہل علم اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں

وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْما(طہ:۱۱۴۔۲۰)؎۵

اے پیغمبر کہو اے میرے رب میرے علم میں اضافہ کردے

إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء  إِنَّ اللَّہَ عَزِیْزٌ غَفُور‘‘؎۶(فاطر:۲۸۔۳۵)

وہی فرما بردار لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔

قر آن کے علاوہ حدیث کے ذریعے بھی علم و تعلیم کی اہمیت سامنے آتی ہے ۔ حدیثوں میں علم کی روحانی قدرو منزلت اور مسلمانوں کے لیے اشاعت علم کی ضرورت پر یکساں زور دیا گیا ہے ۔

حصولِ علم کے لیے سفر میں جانے کے سلسلے میں خود پیغمبر اسلام کے ان الفاظ سے طالب علموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔

’’ جو علم حاصل کرنے کیلئے گھر سے نکلے وہ گھر لوٹ آنے تک خدا کے راستے پر چلتا ہے۔‘‘

’’مہد سے لحد تک علم حاصل کرو‘‘

’’علم حاصل کرو کہ علم آدمیوںکو خدا سے ڈرنا سکھاتا ہے‘‘

’’ علم کی طلب ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘؎۷

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سائنس کے مطالعے کو کبھی کبھی تعلیمات اسلامی کے منافی یا متضاد نہیں سمجھا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جامع ہیں: ’’علم کی تدریس  منزلہ ٔ عبادت ہے ‘‘ ’’علم پڑھائو،  جو علم پڑھاتا ہے اللہ سے ڈر تا ہے جو علم حاصل کرتا ہے اللہ کی شان بتاتا ہے ۔ جو علم پھیلاتا ہے خیرات بانٹتا ہے ۔ جس کے پاس علم ہو وہ احترام اور فیض کا پیکر بن جاتا ہے ۔ علم خطا اور گناہ سے بچاتا ہے یہ جنت کا راستہ ہموار کرتا ہے ۔ سفر میں ہمارا ساتھی اور دشت میں اعتماد کا موجب ہوتا ہے ۔ زندگی کی مسرتوں او ر تکلیفوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔؎۸

حضرت علیؓ کرم اللہ وجہ نے حضرت کمیلؓ سے فرمایا:

’’اے کمیلؓ علم دولت سے بہتر ہے ، علم پاسبانی کرتاہے اور دولت کی پاسبانی تمہیں کرنی پڑتی ہے ۔ اور علم حکمراں ہوتا ہے، اور دولت پر حکمرانی کی جاتی ہے، اور دولت خرچ ہونے سے کم ہوتی ہے اور علم خرچ ہونے سے زیادہ ہوتاہے ۔ ؎۹

اِن ارشادت کی بنا پردنیا ئے اسلام میں تعلیم بجلی کی سرعت سے عام ہوئی۔

امام ابو حنیفہ نے اسلام میں تعلیم کے مقصد کی تعریف کرتے ہوئے اسے تقویٰ یا ایسے پاکیزہ کردار کے حصول کا ذریعہ بتایا ہے جو ہر مسلمان شہری کا ضروری وصف ہے انکے خیال میں ایسا شعور ہے جو روح کی اصلاح کرتا یا بیگاڑتا ہے ۔ طاقت اسی سے حاصل ہوتی ہے اس سے دنیا اور آخرت کے لئے غلط اور صحیح نیز، نیک وبد میںتمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔؎۱۰

امام شافعی ؓنے فرمایا:

’’علم کی تحصیل نفل پڑھنے سے افضل ہے ۔‘‘؎۱۱

’’علم آدمی کے لئے اسکی تنہائی کا ساتھی ہے پر دیس میں اسکا دوست ہے، خوشی اور غم میں اسکا رہنما ہے ، یہ ایسا ہتھیار ہے جسے وہ دشمن کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ اور ایسی زینت ہے جسکی دوستوں میںنمائش کرسکتا ہے ۔ ؎۱۲

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اہل علم کی خوبیاں گنا کر ان کے مرتبے بڑھائے چنانچہ قرآن مجید اور حدیث کریمہ میں علم تعلیم اور علماء کی بزرگی اور بڑائی بیا ن کی گئی ہے۔

ایک بزرگ کا قول ہے’’ علماء زمانوں کے چراغ ہیں، اس میں سے ہر عالم اپنے اپنے زمانہ کے لئے روشنی ہے جس سے اسکے زمانے کے لوگ روشنی حاصل کرتے ہیں۔؎۱۳

انسانوں اور قوموں کو زندگی دینے والی  اہم چیز علم ہے، جوقومیں حصول علم میں پسماندہ رہ جاتی ہیں غلامی اور بے عزتی کی زندگی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ سچے قائدین اور ہمدردان قوم نے علم کی طرف توجہ کی ہے  جس کو ہمیشہ زمانے نے یاد رکھا ہے ۔ ان کی خدمات تعلیم کے میدان میںنمایاں ہیں۔ غالباً دنیامیں ایک بھی مثال ایسے مخلص رہنما کی نہیں مل سکتی جس نے علم حاصل کرنے سے روکا ہو یا ایسی کوشش کی مخالفت کی ہو جو قوم کو تعلیم اور علم کی طرف راغب کرنے کے لیے کی جائے۔؎۱۴

مسلمانوںکی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے  ایسی نمایاں شخصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنے زمانے میں دین و ملّت کی  خشک ہوتے ہو ئے شجر طیب کی آبیاری کی اور اسے حیات نو بخشنے میں اہم کردار ادا کیا، حضرت عمر بن عبدا لعزیز ،علامہ ابن تیمیہ ، شیخ احمد سرہندی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ، مولانا سید احمد بریلوی ،مولانا اسماعیل شہیدؒ او ر سر سید احمد خاں وہ تمام شخصیات ہیں جن کے علمی کارنامے معروف ہیں اورجنہوں نے تاریخ کے دھارے کوموڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔

ہندوستان کی تاریخ کا اہم واقعہ یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال اور برطانوی حکومت کے قیام کے بعد ہندوستانی مسلمان سیاسی و سماجی بد حالی و پسماندگی کا شکار ہوئے اور ان پر محرومی و مایوسی کے مہیب فضا طاری ہوئی۔؎۱۵

یہ وقت تھا جب جہالت مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں اسطرح سرایت کر چکی تھی کہ دین کی اصل تصویر اہل دین کی اکثر یت کی نگاہوں سے تقریباً چھپ سی گئی تھی۔؎۱۶

یہ کیفیت ایسی نہ تھی کہ باشعور افراد اس سے بے خبر رہتے چنانچہ اس سے نجات پانے اور سماج میں عزت کا مقام حاصل کرنے کے لئے کوششیں شروع ہوئیں۔ مذہبی و سیاسی مفکرین و سماجی معلمین نے الگ الگ انداز ِ فکر اختیار کیے اور مختلف تدابیر پیش کیں   ؎۱۷

انھیں شخصیات میں سے اہم کردار شاہ ولی اللہ صاحب کا تھا۔شاہ صاحب نے جو تجدیدی کارنامے انجام دیے انکا تعلق عقائد و اخلاق ، تہذیب و معاشرہ ، سیاست، امور معاش اور تعلیم و تدریس شعبوں سے ہے۔؎۱۸

اسی طرح سر سید احمد خاں کا نام تعلیم کے میدان میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے مختلف علوم وفنون کے فروغ، اور تعلیم کی اشاعت کا اولین کارنامہ انجام دیا اور اسے موثر و کامیاب بنانے کیلئے باقاعدہ ایک مہم شروع کی جو علی گڑھ تحریک کے نام سے معروف ہوئی ۔ مختلف انجمنوں سوسائیٹوں اور تعلیمی اداروں سے کام لیا بالخصوص مدرسۃ العلوم یا محمڈن اینگو اورینٹل کالج قائم کیا۔ یہ ادارہ 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں معروف ہوا۔ آج بھی  یہ تعلیم کے میدان میں مختلف علوم وفنون کی تدریس کے ذریعہ طلبہ کی اصلاح کا مرکز ہے ۔؎۱۹

حواسی

)۱(           ریاست علی ندوی ؛ اسلامی نظام ِ تعلیم، دارالمصفین اعظم گڑھ، ۱۹۸۴؁ء ص:۱۰۔۹

)۲(          ایضاً  ص:۹

)۳(         القرآن )۵:۹۶(

)۴(         القرآن )۹:۳۹(

)۵(         القرآن)۱۱۴:۲۰(

)۶(          القرآن: )۲۸:۳۵(

)۷(         رحمن مذنب : تہذیب تمدن اور اسلام ، مقبول اکیڈمی لاہور،۱۹۹۲؁ء  ص:۲۱۹،۲۲۳،۲۲۴

)۸(         ایضاً ص:۱۶۴

)۹(          ریاست علی ندوی ؛ اسلامی نظام ِ تعلیم، دارالمصفین اعظم گڑھ، ۱۹۸۴؁ء ص:۱۶

)۱۰(         رحمن مذنب : تہذیب تمدن اور اسلام ، مقبول اکیڈمی لاہور،۱۹۹۲؁ء ص:۲۰۷،۲۲۰،۲۲۱

)۱۱(          ریاست علی ندوی ؛ اسلامی نظام ِ تعلیم، دارالمصفین اعظم گڑھ، ۱۹۸۴؁ء ص:۱۷

)۱۲(         رحمن مذنب : تہذیب تمدن اور اسلام ، مقبول اکیڈمی لاہور،۱۹۹۲؁ء ص:۲۲۴

)۱۳(        ریاست علی ندوی ؛ اسلامی نظام ِ تعلیم، دارالمصفین اعظم گڑھ، ۱۹۸۴؁ء ص:۱۰،۱۸

)۱۴(        عارف الاسلام : سر سید آزاد اور ہندوستانی مسلمان، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ۲۰۰۸ص:۲۵

)۱۵(        محمد یاسین مظہر صدیقی: سر سید اورعلوم ِ اسلامیہ ، ادارہ علوم اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ۲۰۰۱ ص:۱۵۴

)۱۶(         عطا الرحمن قاسمی : امام شاہ ولی اللہ اورا ن کے افکار اور نظریات ، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ،۲۰۰۴، ص: ۹۰

)۱۷(        محمد یاسین مظہر صدیقی: سر سید اورعلوم ِ اسلامیہ ، ادارہ علوم اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ۲۰۰۱ ص:۱۵۴

)۱۸(        عطا الرحمن قاسمی : امام شاہ ولی اللہ اورا ن کے افکار اور نظریات ، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ،۲۰۰۴، ص:۹۲

(۱۹)         محمد یاسین مظہر صدیقی: سر سید اورعلوم ِ اسلامیہ ، ادارہ علوم اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ۲۰۰۱ ص:۱۵۴

مشمولہ: شمارہ فروری 2016

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223