دور حاضر میں تعلیمی سفر کا آغاز بے شمار فنون کی بہاروں سے ہوتا ہے۔ جہاں ننھے نونہالوں کو نظم خوانی کرنی ہے، پینسل بھی ننھے ہاتھوں میں پکڑنی ہے، کھیل کود میں حصہ لینا ہے، اسٹیج پر پیش کش کرنی ہے، مادری زبان کے ساتھ دوسری زبانوں کو سمجھنا ہے، ریاضی اور سائنس کی سیر کرنی ہے، جغرافیائی معلومات اور جرنل نالج کا لطف اٹھانا ہے۔ پھر تعلیمی اداروں میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسا ہوا کہ نمبرات کا کھیل شروع ہوگیا۔ طلبا و طالبات اپنی قابلیتوں کا لوہا منوانے کے لیے مسابقتی دوڑ میں لگ گئے۔ مقابلہ جاتی دور میں طلبا کے ساتھ والدین کے لیے بھی بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ ہر کوئی اپنے بچّوں میں یقینی طور پر کچھ خوبیاں تو ضرور دیکھنا چاہتا ہے۔ بچوں پر توجہ دینے کے علاوہ ان کی رہ نمائی کرنا اور انھیں مختلف میدانوں کے لیے تیار کرنا والدین کی ترجیحات میں شامل ہوتا جارہا ہے۔ یہ عمل اتنا تشویشناک نہیں ہے جتنا کہ ناکامی کا سامنا کرنا۔ ایسے میں بچوں میں خود اعتمادی کی کمی ہو تو والدین کے لیے نئے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ خود اعتمادی شخصیت کا وہ اہم پہلو ہے جو شخصیت کو مضبوط بنانے اور پروان چڑھانے میں بہت کارآمد ہوتا ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کام یابی کی راہوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس لیے والدین کا فکرمند ہونا بھی درست ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کے اسباب معلوم کرنے کے بعد تدبیر و ترکیب کی طرف پیش رفت بہت ضروری ہے۔
(الف) خود اعتمادی کی کمی کے چند اہم اسباب
مہمان کے سامنے پیش کش
ڈاکٹر نشا جین گروور، ایجوکشنل سائیکولوجی، کونسلنگ اور کیریر گائیڈنس کے لیے جانی جاتی ہیں۔ ویک اپ پیرنٹس کی سیریز میں دوران انٹرویو انھوں نے بچوں میں خود اعتمادی کی کمی پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ پیش کیا۔ ان کے مطابق والدین بچوں میں مختلف مہارتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچہ سیکھ جائے تو فوراً اسے دوسرے لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں کی بیشتر سرگرمیاں تو ان کے موڈ پر منحصر ہوتی ہیں۔ بچے حال ہی میں سیکھا ہوا کوئی بھی فن اوروں کے سامنے پیش کرنے سے کتراتے بھی ہیں۔ ایسے میں ان پر زبردستی کی جاتی ہے یا ان کی طرف سے مطلوبہ پیش کش نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہیں سے بچوں میں خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ دوسرے ملاقاتیوں سے شرمانے لگتے ہیں۔
ملاقاتیوں کے سامنے رویہ
تحقیقات کے مطابق انسان دو خوف لے کر دنیا میں آتا ہے۔ ایک اونچائی سے گرنے کا خوف اور دوسرا اونچی آواز کا خوف۔ باقی دیگر خوف آہستہ آہستہ شخصیت کو متاثر کرتے ہیں۔ Glossophobia پبلک اسپیکنگ کا خوف ایک ایسا خوف ہے جو دنیا کی 75 فیصد آبادی میں پایا جاتا ہے۔ یہ موت کے بعد دوسرا سب سے بڑا خوف ہے۔ پبلک اسپیکنگ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی اسٹیج پر تقریر کرے بلکہ عام لوگوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کے عمل کو بھی اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ بچپن میں اس خوف کا بیج اس وقت پڑ جاتا ہے جب گھر میں مہمان تشریف لاتے ہیں اور بچہ کوئی شکایت یا مسئلہ لیے آتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے: ’’خاموش! ابھی بڑے بات کر رہے ہیں‘‘ یا ’’ بڑوں کے بیچ میں مت بولو‘‘۔ والدین بچوں کی مداخلت سے مہمان کے سامنے شرمندگی محسوس کرتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بچوں کو نئے ملاقاتیوں، دوستوں یا رشتہ داروں کے سامنے ڈانٹنا، خاموش کرنا، نظر انداز کرنا یا بولنے کا موقع نہ دینا غیر محسوس طریقے سے ان کے اندر Glossophobia پیدا کرتا ہے۔
کلاس روم میں استاد کا سلوک
معلم جب بچے کو پہلی بار کسی سوال کا جواب دینے، نظم پڑھنے یا کتاب میں سے کچھ پڑھنے کے لیے کہتے ہیں، اس وقت کلاس روم میں ہم جماعت طلبا گھر سے باہر بچے کے لیے پہلا مجمع ہوتے ہیں اور بچہ بالکل پہلی مرتبہ مجمع میں پیش کش کے تجربے سے گزرتا ہے۔ بیشتر اوقات جھجک میں مبتلا ہوکر بچے مطلوبہ ردعمل کا اظہار نہیں کرپاتے۔ یہاں استاد کی ڈانٹ یا ایسے الفاظ جن سے بچے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، بچوں میں خود اعتمادی کی کمی کی وجہ بن جاتے ہیں۔
موازنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ
ہر بچہ منفرد ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپی، ذوق و شوق، پسند ناپسند مختلف ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کثرت سے ایسے والدین پائے جاتے ہیں جو اپنی سرپرستی کے سفر کی ابتدا سے ہی اپنے بچوں کا موازنہ اس کے سگے بھائی بہنوں سے یا دوسروں کے بچوں سے کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرا بچہ کیا کھاتا ہے، کتنا کھاتا ہے، کب سوتا ہے، کتنا سوتا ہے، کب رینگنے لگا، کب چلنے لگا، ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر کتنی نظمیں یاد ہیں، کیا لکھ سکتا ہے، کیا پڑھ سکتا ہے، کتنا جرنل نالج ہے، کتنے نمبرات ملے، دوسرے بچوں کی ایسی بہت سی معلومات والدین کو رہتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی جسمانی ساخت، خد و خال، رنگت نیز ذہنی نشوونما، تعلیم و ترقی، سرگرمیوں اور کاکردگی کا دوسرے بچوں سے موازنہ کرتے ہیں۔ موازنہ کرتے ہوئے تحقیر کرنا بچوں کی ذہنی صحت کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ اور یہ خود اعتمادی کی سطح کو گرانے کا سبب بھی بنتا ہے۔
(ب) چند تجاویز جن پر فوری عمل ضروری ہے
مثبت روی اپنائیں
بچوں کی تربیت پر بلاگس لکھنے والی نامور ریبیکا اینز، شہرہ آفاق کتاب Positive Parenting کی مصنفہ بھی ہیں۔ اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ والدین کو دوران تربیت درپیش مسائل میں جذبات پر قابو پاتے ہوئے مثبت روی اختیار کرنی چاہیے۔ والدین پریشانیوں کے سامنے تھک سکتے ہیں لیکن انھیں ہار نہیں ماننی چاہیے۔ خود اعتمادی کی کمی بچوں میں دیکھ کر والدین کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ والدین کا مثبت روی اپنانے کا مطلب نظم و ضبط کو اس طریقے سے سکھانا ہے جو بچے کی خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے نیز بچے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر باہمی احترام پر مبنی تعلقات کی حمایت کرنا ہے۔
والدین میں خود اعتمادی
انسانی بچے کی نگہداشت کرنا یقیناً مشکل ترین اور تھکا دینے والا کام ہے۔ بیشتر والدین بچوں کی صحت، بھوک اور نیند کے مسائل نیز چھوٹی بڑی ناکامیوں پر اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے تربیتی طریقۂ کار کے بارے میں مشکوک ہوجاتے ہیں۔ لورا مارکھم، چائیلڈ ساییکولجسٹ اور پیرنٹنگ گائیڈ ہیں جنھوں نے دماغ کی نشوونما پر تازہ ترین تحقیق اور والدین کے ساتھ طبی مشاہدات و تجربات کی بنا پر Peaceful Parents Happy Kids نامی کتاب قلم بند کی ہے۔ صاحب کتاب نے اہم نصیحت یہ کی ہے کہ ’’والدین کے لیے سب سے اہم مہارت: اپنے آپ کو سنبھالیں۔‘‘
آج کل کتابیں، ویڈیو، ورکشاپ، بلاگ وغیرہ پیرنٹنگ آرٹ سکھانے کے لیے موجود ہیں۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے تجربہ بہت اچھا استاد ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ والدین کے تجربات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور انھی تجربات کی بناء پر وہ تربیت کے تئیں پراعتماد نظر آتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے آپ پر بھروسا کریں کیوں کہ اللہ رب العزت کسی بھی نفس پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
منفی رویوں سے گریز کریں
بچوں میں اعتماد کی کمی کو لے کر فکرمند ہونا اور تدابیر کی طرف پیش رفت کرنا یقیناً نتیجہ خیز ہوگا۔ لیکن اسی کمی کو لے کر مسلسل سوچنا، پریشان رہنا، بچوں کو ڈانٹنا یا مارنا اور انھیں ان کی خامیوں کا احساس دلانا تشویشناک ہوسکتا ہے۔
(ج) چند تدابیر جو بچوں کی خود اعتمادی کے لیے کارگر ثابت ہوں گی
اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ
بچوں کے دلوں میں اللہ کو راضی کرنے کا شوق اور اس کی ناراضی سے بچنے کی فکر بڑھانی چاہیے۔ بچپن سے ہی یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو ںاور جو کچھ بھی کر رہے ہوں، رب العالمین کو ان کی خبر رہتی ہے۔ اس شوق اور فکر سے تقوی اور زندہ ضمیری کی بنیادیں بن جاتی ہیں۔ متقی شخص صرف اعلی اخلاق و کردار کا حامل ہی نہیں ہوتا بلکہ نڈر و بے باک بھی ہوتا ہے۔ اس کے اندر اقدام کرنے کی قوت پروان چڑھتی ہے۔
بچے کی شخصیت کو قبول کریں
بیسوی صدی میں کارل مارکس نے شخصیت کی دو بنیادی قسموں کی نشان دہی کرتے ہوئے تھیوری پیش کی ۔ ان کے مطابق یا تو انسان بروں بیں (extrovert) ہوتا ہے یا دروں بیں (introvert) ہوتا ہے۔ بروں بیں میں ان کا شمار ہوتا ہے جو اپنے جذبات کا پرجوش اظہار کرسکتے ہیں، لوگوں سے بہ آسانی گھل مل جاتے ہیں۔ جنھیں ہم عام زبان میں بولڈ بھی کہتے ہیں۔ دروں بیں وہ لوگ ہیں جو اندرونی شرم و حیا کے باعث اپنے جذبات کا کھل کر اظہار نہیں کرپاتے۔ ان دونوں طرح کی شخصیتوں میں منفرد خوبیاں ہوتی ہیں۔ مختلف شعبوں میں ان شخصی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمت دی جاتی ہے۔ کسی دروں بیں بچے کو دیکھ کر مایوس ہونا اور یہ سمجھنا کہ اس کے اندر خود اعتمادی کا فقدان ہے، غلط رویہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کی اصلی شخصیت کو قبول کریں۔ گھر کا ماحول جب بچے کی شخصیت کو قبول کرتا ہے تب بچے بڑے مقاصد اور بڑے اہداف کا تعین کرپاتے ہیں۔ 1960 میں اسٹینلی کوپراسمتھ، (محقق، معلم، چائیلڈ تھیراپسٹ) نے اپنی بچوں کی خوداعتمادی میں والدین کے کردار کے سلسلے میں اپنی تحقیق پیش کی۔ اس تحقیق میں ایک اہم مشاہدہ شامل کیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ خود مختار اور پر اعتماد بچوں کے والدین نے خامیوں کے باوجود ان کے احساسات اور جذبات کو قبول کرلیا اور انھیں محبت اور اپنائیت کی فضا فراہم کی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی کمیوں پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ والدین نے سلیقہ مندی سے انھیں نظرانداز کرتے ہوئے پہلے ان کی شخصیت کو قبول کیا۔
سخت تنقید سے گریز کریں
جو تبصرے بچے دوسروں سے (خصوصاً والدین سے) اپنے بارے میں سنتے ہیں وہ آسانی سے ان کے ذہن میں اتر کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ دوسرے ان کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ سخت الفاظ نقصان دہ ہیں۔ جب بچے اپنے بارے میں منفی پیغامات سنتے ہیں تو اس سے ان کی عزت نفس کو نقصان پہنچتا ہے۔ صبر سے بچوں کی اصلاح کریں۔ اس پر توجہ دیں کہ آپ ان کی غلطی کس طرح درست کرسکتے ہیں۔ اگلی بار وہ پھر سے غلطی نہ کر بیٹھیں،اس کے لیے آپ کو کون سے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ انھیں شفیق مربی کی ضرورت ہوتی ہے طعنے دینے والی کی نہیں۔
بسا اوقات اولاد کو سخت مزاجی اور ترش روی کی شکایت رہتی ہے۔ سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ میل ملاپ اور معاشرت میں اخلاقی مہارتیں استعمال کرتے۔ اس غیر معمولی اخلاقی کردار کی بدولت ہزاروں دل آپ کے گرویدہ تھے۔ یہ اعلی اخلاق بناوٹی نہیں تھے کہ گھر کے باہر چہرے پر مسکراہٹ سجی رہتی اور گھر میں چہرے پر غضب چھایا رہتا۔ لہذا سخت تنقید کرنے والے والدین کو اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنی وضع بدلنے کی ضرورت ہے۔
حوصلہ افزائی کریں
بچوں کی کارکردگی کی تعریف کیا کریں، اس سے ان کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ جب وہ کسی کام میں تعاون کررہے ہوں مثلاً پودوں کو پانی ڈال رہے ہوں، اس وقت ان کی تعریف کریں تاکہ وہ جان سکیں کہ آپ ان پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کسی معاملے میں الجھے ہوئے ہوں اور سلجھنے کی کوشش کررہے ہوں مثلاً ریاضی کا کوئی مسئلہ سمجھ نہیں آرہا ہو تب آپ ان کو ہمت دلائیں کہ وہ اس قابل ہیں کہ وہ حل کرسکتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے والدین جھوٹی تعریف حوصلہ افزائی کی غرض سے کرتے ہیں۔ مثلاً بچہ کسی کھیل کی بہت مشق کرتا ہے لیکن مقابلہ کے دوران وہ اچھا کھیل نہیں پاتا اور ہار جاتا ہے۔ تب والدین اس کی تعریفیں کرنے لگ جاتے ہیں تاکہ اس کی اداسی دور ہوسکے۔ لیکن بچے کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ ’’مجھ سے جھوٹ کہا جارہا ہے جب کہ میں اچھا نہیں کھیل سکا۔ ‘‘ اس لیے والدین کو چاہیے کہ مبالغہ آمیزی اور جھوٹی تعریف سے اپنے آپ کو بچائیں۔ تعریف جہاں مثبت تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے وہیں حد سے تجاوز کرنے پر منفی اثرات کی حامل بھی ہوتی ہے۔ تاہم سچے تعریفی کلمات اور حوصلہ افزائی سے بچوں میں خود اعتمادی پختہ ہوتی ہے۔ عبدالرحمن عریفی نے اپنی کتاب ’’زندگی سے لطف اٹھائیے‘‘ میں اپنا ایک تجربہ بیان فرمایا ہے۔ جب وہ کسی مقامی اسکول میں نماز کی اہمیت پر درس دے رہے تھے تب انھوں نے بچوں سے نماز کے متعلق حدیث دریافت کی۔ ایک بچے نے حدیث سنائی ’’آدمی اور کفر و شرک کے درمیان کا فرق نماز ہے‘‘ اس پر مقرر صاحب بہت خوش ہوئے اور بچے کو بطور انعام اپنی گھڑی اتار کردی۔ وہ گھڑی معمولی تھی لیکن اس بچے کے لیے یہ ایک خوش کن بات تھی۔ چناں چہ اس بچے نے قرآن حفظ کرلیا پھر مسجد میں امامت کی اور ساتھ ہی شریعہ کالج سے فارغ التحصیل ہوکر ایک عدالت میں اپنی خدمات انجام دینے لگا۔ اس بچے کی ملاقات موصوف تو بھلا چکے تھے لیکن کسی دن یکایک ملاقات ہونے پر معلوم ہوا کہ ایک معمولی سی گھڑی کی وجہ سے کس قدر حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
بچے اپنے کام خود کریں
والدین کے لیے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ بچے کی شخصیت کیسی ہو۔ بچہ جوان ہونے پر قدم قدم پر رہ نمائی اور تعاون کا محتاج رہے یا اس کی اپنی مستقل شخصیت اور انفرادی پہچان ہو۔ بچہ والدین کی شخصیت کا ضمیمہ ہو یا پھر اس کی بھی اپنی شناخت ہو۔ درحقیقت ہمیں خود مختار اور قابل نسلوں کو پروان چڑھانا ہے۔
ابن قیم فرماتے ہیں ’’بچے کو کاہلی، بے کاری، آرام پسندی اور عیش کوشی سے بچا کر اسے درست سمت پر لگانا چاہیے۔ سستی اور بے کاری کا انجام بھی برا ہوتا ہے۔ اور یہ ندامت آمیز خسارے کا باعث بنتی ہے۔ جب کہ محنت اور لگن کا انجام قابل تعریف ہوتا ہے خواہ اس کا صلہ دنیا میں ملے یا آخرت میں یا دونوں جہانوں میں۔ کوئی شخص جتنا زیادہ مشقت پسند ہوگا اسی قدر وہ آرام میں ہوگا۔ اور جس قدر کوئی شخص آرام میں ہوگا اسی قدر وہ پریشانی اور تکلیف میں ہوگا۔ گویا دنیا میں قیادت و سیادت اور آخرت میں خوش بختی اور سعادت تک رسائی محنت اور مشقت کا پل پار کرنے کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ ‘‘ (تحفة المودود) بڑھتی عمر کے ساتھ بچوں کو ان کے کام سکھائے جائیں اور انھیں کام کرنے کے مواقع دیے جائیں۔ جب جب وہ نیا کام سیکھتے ہیں ان کے شعور میں اضافہ ہوتا ہے اور عملی طور پر متحرک رہنے سے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ اپنے خاندان میں بچپن ہی سے ذمہ دار فرد کی حیثیت رکھتے تھے۔ انھوں نے کٹھن حالات میں نشو و نما پائی۔ ان کے والد نے انھیں سختی سے اونٹ چرانے اور لکڑیاں اکٹھی کرنے پر مامور کردیا تھا۔ وہ اپنی خالہ کی بکریاں بھی چرایا کرتے۔ یہی وہ دور تھا جس نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا اور وہ زندگی بھر اس دور کو یاد کرتے رہے۔ مورخین کے مطابق بچپن کی انھی مشقوں کی وجہ سے ان میں تحمل، طاقت، زور آزمائی اور جنگجوئی کی صفات پیدا ہوئی تھیں۔
انھیں خواب دیجیے
ہر بچہ میں کچھ نہ کچھ صلاحیت ہوتی ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں میں خوبیوں کو تلاش کریں اور ان کی قابلیتوں کی بنا پر انھیں خواب دیں۔ زندگی کا حسن خواب دیکھنے، خیالی قلعے تعمیر کرنے اور مستقبل کے منصوبے بنانے میں ہے۔ مقصد مل جانے کے بعد اس کے لیے مشقت کرنی ہوگی۔ انسان کے لیے اس کی مہارتیں اور صلاحیتیں قیمتی متاع ہیں۔ شعوری طور پر ان میں دلآویزی اور کشش پائی جاتی ہے۔ خواب اگر بچے کی لیاقت کی بنیاد پر بُنا جائے تو وہ اس کی دل چسپی کا سامان بن سکتا ہے۔ بچپن سے ایک ہی روش میں توانائی صرف ہو تو یقیناً خود شناسی، خود اعتمادی اور خود کاری کی صفات شخصیت میں جمع ہوتی رہیں گی اور اس طرح منزل کو پالینا آسان ہوگا۔
بحیثیت مسلمان والدین کا فرض ہے کہ امت کو پراعتماد، جرأت مند اور شجاعت سے مالا مال نسلیں دیں۔ ہماری اولاد ہمارا مستقبل ہے، ان کا باحوصلہ ہونا ہمارے پائیدار مستقبل کی ضمانت ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2022