انسان کی بہت سی ضرورتوں میں ایک اہم ضرورت اجتماعیت ہے، اس میں اللہ نے برکت رکھی ہے اور اس میں اس کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:
ید اللہ علی الجماعۃ (ترمذی) جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
اس لیے اجتماعیت سے الگ ہوکر زندگی گزارنا پسندیدہ نہیں ہے۔ایسی حالت میں خاتمے کو میتۃ الجاہلیہ (جاہلیت کی سی موت) سے تعبیر کیا گیا۔ اجتماعیت ہوگی تو لازما اس کا ایک امیر اور سربراہ ہوگا جو اس کی قیادت کا فریضہ انجام دے گا۔ عوام اس کی رہ نمائی میں اپنا سفر حیات جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف کام یابی کے ساتھ گامزن ہوںگے۔ قیادت وسربراہی کی اس ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے آپؐ کا ارشاد ہے:
اذاکان ثلاثۃ فی سفرفلیؤمراحدہم (ابوداؤد)
جب تین آدمی سفرمیں ہوں تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔
قوم کا سربراہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خیر خواہی کرنا ،ہر طرح کی ضرویات کا خیال رکھنا اور اس کی بہتری کی فکر کرنا ،اس کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ عین فرض منصبی ہے۔ اسے اس کا احساس ضروری ہے۔قوم کے رہبر و رہ نما کی حیثیت ایک خادم کی سی ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس فرض منصبی کو صحیح طریقہ سے انجام دے تو رعایا اور اس کے ماتحت افراد خوشحال ہوںگے، جانثاری کے جذبے کے ساتھ اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریںگے۔ لیکن اگر اس کے برعکس سربراہ اگر خود کو قوم کا خادم تصور کرنے اور اس کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنے کے بجائے مخدوم سمجھ بیٹھے اور آرائش و آسائش کی زندگی کو مقصد بنا لے اور ؎
’’بابرعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘
کے مصداق رعایا کے مسائل سے آنکھیں بند کرلے تو ایسے حالات میں رعایا بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوگی اور بسا اوقات اس سربراہ کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔
نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل دنیائے انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا، رقص وسرور میں ڈوبے عیش پسند ناعاقبت اندیش رہ نماؤں اور بادشاہوں کو عوام کی ذرہ برابر بھی فکر نہ تھی بلکہ وہ وقتا فوقتا انھیں اپنے عتاب کاشکار بناتے رہتے تھے۔مگر یہ بادل چھٹا اور آفتاب کی شکل میں ایک عظیم رہ نمانمودار ہوا جس نے لوگوں کو معرفت خداوندی کے ساتھ قیادت وسیادت کے اصول سمجھائے۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹ کر انھیں حقیقی زندگی جینا سکھایا اور بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قائدانہ کردار پیش کرسکتا ہے۔حقیقی قائد وہ ہے جو امانت دار، امن وامان کا خواہاں اور انسانوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہو نہ کہ عیش و عشرت کا خواہاں ہو۔ یہ بہترقیادت عملی طور پر کیسے ممکن ہے۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی سے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ (متفق علیہ)
تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔
احساس جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو ذمہ دارشخصیت بنادیا، جو دنیاوالوں کے لیے نمونہ بنے۔ پھر دنیا نے آپؐ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کا دور بھی دیکھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓامیرالمومنین ہیں ، بیت المال کے موجود ہوتے ہوئے بھی زندگی کس مپرسی میں گزری ۔مگر رعایا کے سرمایہ کو اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لائے اور غیر ضروری خرچ سے گریز کرتے رہے۔ انھوںنے پوری دور اندیشی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا۔ قیصر وکسری کو فتح کرنے والے اوروسیع وعریض دنیا میں اسلام کا پرچم لہرادینے والے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کھجور کی چٹائی پر سوتے ہیں ،جسم پر اس کے نشانات ابھر آتے ہیں۔ ان کی سادگی پر لوگوں کو معلوم کرنا پڑتا تھا کہ امیر المومنین کون ہیں؟ ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کے احوال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود پیٹھ پر غلوں کا بوجھ اٹھالیتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے قائد سرور عالم کو بدست خودخندق کھودتے دیکھا تھا۔
تاریخ کے اوراق کو مزید پلٹ کر دیکھیں تو تابعین میں عمر ثانی عمربن عبدالعزیز کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اپنے دورخلافت میں عدل و انصاف کا وہ گراں قدر کارنامہ انجام دیا کہ سنگ والی بکری بھی بغیر سنگ کی بکری کو مارنے سے کتراتی تھی۔ جب کہ ان کی جوانی کا وہ دور (جب آپ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے) بڑے ہی ٹھاٹ باٹ اور شان وشوکت میں گزر اتھا۔ خوبصورت لباس ، عمدہ خوشبو جسے دیکھ کر لوگ ٹھہر جاتے تھے اور گلی معطر ہوجاتی تھی۔مگر بہ حیثیت خلیفہ خود کو خادم کی حیثیت سے پیش کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
آج کا انسان اپنے اس احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ہے۔ اب قوم کا رہبر اس کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ اس (قوم ) سے خدمت وصول کرنے کے لیے اپنی عیاری اور مکاری سے کام لیتا ہے۔ ٹھاٹ باٹ کے لیے بیت المال میں جمع قوم کا سرمایہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں انسانیت سوز واقعات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ذہن میں سوال آتا ہے کہ اقتدار بھی کیا چیز ہے ، جس کے لیے لوگ اپنے ضمیر کے خزانے لٹادیتے ہیں۔اب یہ بات رعایا کے ذمہ ہے کہ وہ اپنا ذمہ دار کسے چنتے ہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کس کے سپرد کرتے ہیں کیوں کہ یہ قیادت بھی ایک امانت ہے ، جو اس کے اہل تک پہچانا ضروری ہے، قرآن کا اعلان ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلٰیٓ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہٖ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا oیَآٰ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓاْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ ۔ (النساء:۵۸،۵۹)
مسلمانو،اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوںکے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تعالیٰ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اوراطاعت کرورسولﷺ کی اوران لوگوںکی جوتم میں سے صاحب امرہوں۔ (النساء:۵۸،۵۹)
پھر ذمہ داروں میں اہل شخص اپنی امانت داری اور صلاحیتوں کے ذریعے اعلیٰ اصولوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے ۔ عوام کی توقع کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر جہاں احساس ذمہ داری ہے وہیں ایمان کے تقاضے بھی ہیں۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ۔ (ابن ماجہ)
اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو۔
دور حاضر میں پر غیر مذہبی رہ نما اور مذہبی رہ نماؤں کے طرز زندگی کا جائزہ لیں تو بلادریغ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کے مال کا بڑا حصہ غیر ضروری اخراجات اور جھوٹی شان بگھارنے میں صرف کرتے ہیں۔ جب کہ قریب میں رہنے والا غربت اور استحصال کی چکی میں پستا ہے۔
آج اقتدار کی خاطر جنگ ہوتی ہے، جس کے حصول پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے فسادات بھی کروائے جاتے ہیں ،جن میں ہزاروں لوگوں کے ارمان لٹ جاتے ہیں، جانیں تلف ہوجاتی ہیںاور مکان خاکستر کردیے جاتے ہیں۔
جب کہ پہلے لوگ قیادت کی باگ ڈور کو تھامنے سے ڈرتے تھے خود کو کمزور سمجھ کر ذمہ داری کا بار اٹھانے سے کتراتے تھے۔ کوئی اس کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا تھا۔ حتی کہ ذمہ داری ٹھکرانے کی پاداش میں بادشاہوں کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑتا تھا۔
ذرا غور کریں کہ اگر قیادت و سربراہی کا وہی مفہوم آج بھی لیاجاتا جوپہلے سمجھا جاتا تھا اور جواب دہی کا تصور نگاہوں کے سامنے ہوتا تو لازما قیادت کی جنگ کبھی نہ ہوتی اور ہم وہی دور دیکھتے جو خلافت راشدہ اور عمربن عبدالعزیز کا تھا۔ کاش ملت کے قائدین اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے ۔تو ہم ہر گز یہ نہ کہتے ؎
مجھے رہ زنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
مشمولہ: شمارہ اپریل 2015