اپریل 2023 کے زندگی نو میں محی الدین غازی صاحب کے مضمون “مسلم خواتین کی معاشی سرگرمیاں” میں مردوں کی بے روزگاری کے اس دور میں، تاریخی حوالوں کے ساتھ مسلم خواتین کو معاشی سرگرمیوں کی اہمیت اور مختلف سرگرمیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ تاہم مضمون میں کچھ اور سرگرمیوں کی نشاندہی بھی کی جاسکتی تھی، جسے کم سرمائے سے خواتین شروع کر سکتی ہیں۔ آج گھروں میں رہنے والی تعلیم یافتہ، یا کم تعلیم یافتہ خواتین کو معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت کھل کر رہ نمائی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے کے کچھ مضامین خواتین کے ماہ نامے ‘ھادیہ’ میں آئے ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کہ ماہ نامہ زندگی جیسا معیاری پرچہ بھی خواتین کے مطالعہ میں رہتا ہے یا نہیں۔ البتہ تحریکی خواتین ضرور پڑھتی ہیں جو یہ مضمون پڑھ کر ضرورت مند خواتین کی معاشی رہ نمائی کر سکتی ہیں۔
چند قابل عمل سرگرمیاں یہ بھی ہوسکتی ہیں:
· خواتین اپنے شہر کے اسکولوں میں جو بچوں کے لیے اسکول لائبریری، ہوتی ہے یا ٹیچرز لایبریری ہوتی ہے، اور کچھ اسکول کے رکارڈ ہوتے ہیں۔ ان کی بائنڈنگ کا کام بھی آسانی سے کر سکتی ہیں۔ یہ فن بہت مشکل نہیں ہے تھوڑی توجہ اور محنت سے اسے سیکھا جاسکتا ہے۔
· کچھ لوگ جو رسائل خریدتے ہیں، اور جن کے پاس کتابیں اور میگزین وغیرہ ہوتے ہیں۔ انھیں فائل بنا کر محفوط رکھنا چاہتے ہیں ان کو بھی توجہ دلائی جاسکتی ہے۔
· آج کل کسی بھی معاشی سرگرمی کا تعارف،اور اس کا اشتہار واٹس ایپ فیس بک وغیرہ کے ذریعے آسان ہوگیا ہے۔
· ایک سرگرمی چھوٹے بچوں کے کپڑے، عام طور پر ریڈیمیڈ ہی لوگ خریدتے ہیں۔ سلائی کا ہنر عام طور پر خواتین میں ہوتاہے ہے۔ اچھی مہارت سے بچوں کے ڈریس تیار کرکے دکانداروں کو دیے جاسکتے ہیں۔
· بچوں کے ڈریس کے لیے کپڑوں کے پیس بہت سستے مل جاتے ہیں۔
· آج کل پلاسٹک کی تھیلیوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ کپڑے کی ہر سائز کی تھیلیاں تیار کر کے، دکانوں پر دی جاسکتی ہیں۔
· اسی کے ساتھ اخبارات کی ردی لے کر، کلو آدھا کلو، پاؤ کلو۔ کے لحاظ سے گھر پر پاکٹ بنائے جا سکتے ہیں۔ دکان دار کاغذ کی پوڑیوں کے بجائے اس پاکٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
· مختلف قسم کے اچار، نمکین اور گلاب جامن وغیرہ تیار کر کے اچھی طرح پیکنگ کر کے چھوٹی بڑی دکانوں پر بھی دے سکتے ہیں، اور گھر سے بھی فروخت کیا جاسکتا ہے۔
· خواتین، چوڑیوں وغیرہ کے لیے باہر دکانوں پر جاتی ہیں جہاں یہ کاروبار مرد حضرات انجام دیتے ہیں، چوڑیاں، کنگن اور مختلف قسم کی زینت کا سامان گھروں سے فروخت ہوسکتا ہے۔
· کچھ تعلیم یافتہ بہنیں گھر میں سہولت ہوتو گھر میں یا پھر شہر میں کوئی اچھی کشادہ جگہ کرایے پر لے کر مختلف مشکل مضامین کے لیے ٹیوشن کلاسیں چلا سکتی ہیں۔ انگریزی، ریاضی اور سائنس وغیرہ پڑھانے والی خواتین کی ٹیم تیار کر لی جائے، اور پروجیکٹر وغیرہ کی مدد سے، مسلم بچیوں میں ان مضامین کی مہارت پیدا کی جائے۔ مقابلے کے امتحانات کی تیاری کروائی جائے۔
· سرمایہ لگا کر نقاب کے لیے کپڑا منگوایا جاسکتا ہے، اور نقاب کے ماہرین کے ذریعے نقاب تیار کروا کر دکانوں پر سپلائی کیے جاسکتے ہیں۔ خواتین خود سلائی کا کام انجام دے سکتی ہیں۔ کاروبار بڑھ جائے تو سلائی کا کام جاننے والی خواتین کو بھی مستقل روزگار مل سکتا ہے۔
· گھریلو استعمال کے برتن ہول سیل دکانوں سے لا کر گھروں میں رکھے جاسکتے ہیں۔
· شہر میں کالج کے طلبہ، یا سروس کرنے والے افراد کو کھانے کے لیے ہوٹل میں جانا پڑتا ہے۔ ان کے کھانے کے ٹفن ماہانہ رقم متعین کر کے لگائے جاسکتے ہیں۔ ان کے ہوسٹل یا دفتروں تک پہنچانے کے لے کسی قریبی رشتہ دار کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
· کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہمانوں کی آمد پر گھر میں بروقت کھانا تیار کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے ہوٹل سے منگوانا پڑتا ہے۔ ایک کام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے گھروں میں مہمانوں کی آمد یا پارٹی وغیرہ کے مواقع کے لیے اسپیشل کھانے یا بریانی وغیرہ کے آرڈر لیے جائیں اور انھیں تیار کر کے ہوم ڈلیوری دی جائے۔ اس کام کے لیے باورچی یا معاون وغیرہ رکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے یا، حسب ضرورت خواتین کو ہی اجرت پر رکھا جاسکتا ہے۔
معاشی سرگرمیوں کے یہ محض چند اشارے ہیں، غور وفکر کے بعد کاروبار کے مختلف تجربات کیے جا سکتے ہیں۔
دیانت داری سے کام کریں، صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں اور زیادہ منافع خوری سے گریز کریں، نیز حتی الامکان نقد کاروبار کی عادت ڈالیں۔ حسابات، خام مال، فروخت شدہ اور قرض مال، کام کرنے والوں کی اجرت، وغیرہ کی تفصیلات لکھ کر رکھیں۔ تشہیر کے مختلف ذرائع کا بھی استعمال کیا جائے، اور تجربہ حاصل ہوجائے تو کام بڑھنے کے بعد توسیع کرنے کی بھی کوشش کی جائے۔ آج کل آن لائن بھی لوگ خریداری کرتے ہیں۔ جیسے جیسے تجربہ ہوگا ترقی بھی ہوگی، اور خوش حالی بھی آئےگی۔ ان شاءاللہ۔
معاشی خوش حالی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ غیر ضروری اخراجات کیے جانے لگیں۔ ضرورتوں کی تکمیل کے بعد زکوة، صدقات، دینی کاموں میں تعاون وغیرہ کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔
ماہرین سے اس طرح کی معاشی رہ نمائی حاصل کرکے ایک کتابچہ تیار کیا جائے اور اسے حلقہ خواتین کے ذریعے مسلم خواتین میں عام کیا جائے، تاکہ ہمارے معاشرے میں بے روزگاری کا مسئلہ باقی نہ رہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2023