ماہ جون کے تازہ شمارے میں، ام مسفرہ مبشرہ کھوت صاحبہ کا ایک اہم اور بہت مفید طویل مضمون شائع ہوا ہے، جو یقیناً کتابچے کی شکل میں بھی آنا چاہیے۔ والدین کے لیے جس قدر بھی سجھاؤ دیے گئے ہیں اور ان کی اپنی غفلت کا تدارک بھی بتایا گیا ہے وہ سب بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خطرناک صورت حال یہ بھی ہےکہ والدین اولاد کے لیے تو بڑی تمنا اپنے دل میں رکھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی شامل ہیں، جیسے کہ والدین کا معاشی سرگرمیوں میں بہت مصروف رہنا۔ پہلے تو صرف باپ کی مصروفیات ہوتی تھی اب آج کل لڑکیوں کی تعلیم بھی عام ہوتی جارہی ہے، جو بہت خوش آئند بات ہے۔ لڑکیاں پڑھ ہی نہیں رہی ہیں بلکہ پڑھائی میں لڑکوں سے بازی لے جارہی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ مقابلوں کے امتحانات میں بھی اپنی کام یابی درج کروا رہی ہیں۔ اس طرح برسر روزگار لڑکا اور برسر روزگار لڑکی کے درمیان رشتے ہورہے ہیں۔ اب لڑکوں کی زیادہ پسند بھی یہی ہوتی جارہی ہے، کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو، جاب کرتی ہو۔ دونوں طرف اس بات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رہی کہ ان میں دین داری بھی لازماً ہو، اگر ہے تو بہت بہتر۔ لیکن اولیت اعلیٰ تعلیم اور جاب کو دی جارہی ہے۔
پھر دوسری طرف ایک المیہ یہ بھی ہے کہ والد محترم کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ خود ان کو اپنے حال کی خبر نہیں ہوتی۔ گو کہ وہ تعلیم سے بے بہرہ بھی نہیں۔ اور انھیں بھی بچہ کی تعلیم کی فکر ہوتی ہے اور وہ چار سال کے بچے کو ماں کی گود سے محروم کردینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ اپنی حسب حیثیت والدین کسی کنڈر گارڈن میں انھیں داخلہ دلا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
بہت کم ہیں وہ والدین جو یہ جانتے ہیں کہ ان کے بچہ کو اخلاقی و دینی تعلیم اب ان اسکولوں میں نہیں ملنے والی، لہذا گھر پر اس کا انتظام کیا جائے اور کسی عالم و مربی کی نگرانی میں دینی تعلیم وتربیت دی جائے۔ اور اس کا بھی فقدان ہے کہ ماں کی گود بچہ کے لیے مدرسہ ثابت ہو۔
کچھ والدین کا خود دین سے ناواقف اور دور ہونا اور فرض نمازوں تک سے غافل رہنا خود بہت بڑا مسئلہ ہے۔
بہرحال یہ مانا جاتا ہے کہ دین دار والدین تو لازماً اپنے بچوں کی دینی واخلاقی تربیت پر توجہ کریں گے۔ لیکن ان میں بھی ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو نوجوانوں کی مطلوبہ تربیت سے قاصر ہے۔ بلکہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو موبائل کلچر سے بھی دور نہیں رکھ پاتے ہیں، دور رکھنا تو دور کی بات ہے، ان کی مہنگی سے مہنگی خواہش پوری کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے بچوں کے ہاتھ میں اعلیٰ سے اعلیٰ ہینڈ سیٹ دینا گویا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ جب کہ اس موبائل کلچر کے تباہ کن واقعات سامنے آرہے ہیں اور پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے۔
اس کے علاوہ نوجوان ہماری ملت کا نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہیں، ان کی تعلیم وتربیت کا معقول انتظام اگر گھرو ں میں نہ ہوسکے، جیسا کہ ہم نے جائزہ لیا ہے کہ آج بھی ایسے والدین ہیں جو اس طرف توجہ نہیں کر سکتے، پھر کیا انھیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے؟ اس پر سوچنے کی ذمہ داری تنظیموں اور جماعتوں کی ہے۔ پھر یہ تربیتی نظام بھی ادھورا نہ ہو، کہ بس وہ بظاہر دیندار نظر آجائیں۔ بہت سی خرافات میں مبتلا ہوکر بھی کچھ نوجوان نماز کے بڑے پابند ہوتے ہیں۔ آج صرف ایک روایتی قسم کی دین داری پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، اب باطل تحریکات ہماری ان کوتاہیوں سے واقف ہوچکی ہیں اور وہ ہمارے ایسے ہی دینی تعلیم سے ناآشنا نوجوانوں کو اپنے فریب میں مبتلا کر کے ان کے ہی ہاتھوں سے شجر طیبہ پر تیشہ چلوا رہی ہیں۔ مسلم لڑکے اور لڑکیوں کو منظم طریقے پر گم راہ کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس میں دین سے دور اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد و زن دونوں شریک ہیں۔ اور یہی اسلام کو رسوا کرنے میں پیش پیش بھی ہیں۔
ان حالات میں مسلم تنظیموں کی شدید ضرورت ہے کہ وہ ملت کے اس قیمتی سرمائے کو بچانے کی فکر کریں۔
الحمدللہ تحریک اسلامی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ ہم تحریک سے وابستہ افراد اپنے آس پاس کا جائزہ لیں کہ ہماری صفوں میںآج کتنے ہی نوجوان ایسے بھی ہیںجن کا گھریلو معاملہ بالکل الگ تھا والدین کو تحریک کا ذرا علم نہیں۔ اور آج ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم کے ساتھ، اسلامی طلبہ تنظیم سے وابستہ ہونے کے نتیجہ میں بہترین صلاحیتوں کی مالک ہے۔ اور معاملہ یہ بھی ہے، (بیشتر مقامات پر) کہ اولاد نے مکمل دین کو سمجھا اور دینی سرگرمیوں میں شامل ہوئے، تو انھی کے ذریعے والدین اور گھر کے دیگر افراد میں حقیقی دین داری آئی۔
نوجوانوں کی تربیت کی اولین ذمہ داری والدین کی ضرور ہے، اس طرف انھیں توجہ دلاتے رہنا بھی چاہیے، لیکن تحریک اسلامی کے طلبہ اور نوجوانوں کے گروہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولین ترجیح نوجوانوں اور طلبہ کو تحریک اور تحریکی پیغام سے وابستہ کرنے کی فکر کریں۔
موجودہ حالات میں تو بڑی شدید ضرورت ہے کہ مسلم نوجوانوں اور طلبہ پر فوکس کیا جائے۔ اور زمانے کی بدلتی ہوئی چالوں، سازشوں اور منصوبہ بندی سے انھیں آگاہ کیا جائے۔
کیوں کہ نوجوانوں کا ناسمجھ طبقہ پوری ملت کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ ایک ذرا کسی نے کوئی شوشہ چھوڑ دیا اور کسی بات پر مشتعل کر دیا تو یہ فوراً ایک خطرناک سازش کا شکار ہوجاتے ہیں اور سڑکوں پر اتر کر نعرے بازی اور دینی حمیت کا مظاہرہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر باطل قوتیں اپنا منشا پورا ہوتے ہوئے، دیکھ کر اپنے منصوبے کی تکمیل میں لگ جاتی ہیں اور یہ نادانی ایک بڑے فساد کو جنم دیتی ہے پھر وہی نوجوان اور ان کے علاوہ بالکل بے گناہ نوجوان بھی خطرناک پلاننگ کے ساتھ گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ اور ملت ایک بڑے خسارے کا شکار ہوجاتی ہے دکانوں اور مکانات کو نذر آتش کردیا جاتا ہے، پھر بے روزگاری، بے گھری، پریشان حالی کی دردناک تصویریں۔ مزید ستم یہ کہ ان حالات میں بھی سیاسی لوگ اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر نوجوانوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے لیے تحریکات اسلامی کی ذمہ داریاں بہت بڑ ھ جاتی ہیں۔
تحریک اسلامی کے لیے یوتھ ونگ اور طلبہ تنظیم کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنے اور رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ اک ذرا نوجوانوں میں بیداری آجائے اور حقیقی دین داری سے وہ آشنا ہوجائیں، اور اپنے فرض منصبی کو سمجھ کر اس کے ادا کرنے میں لگ جائیں تو ملک وملت کا بڑا فائدہ ہوگا۔ ایک بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔
— محمد ابراہیم خان ،آکوٹ، مہاراشٹر
مشمولہ: شمارہ جولائی 2023