زندگی – ریٹائرمنٹ کے بعد؟

مسلم معاشرے میں زوال اور کسی حد تک دوسری قوموں کی نقالی میں بعض ایسی عادتیں و روایتیں رواج پا چکی ہیں جن کا اسلام اور اس کے نظریۂ حیات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کی وجہ سے معاشرے میں مجموعی طور پر مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے۔جس میں تبدیلی کے بظاہر کوئی آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ ہم بذاتِ خود عملی طور پر اپنے حالات بدلنا نہیں چاہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اسی وقت کسی قوم کی حالت کو بدلتا ہے جب کہ وہ خود اس کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔ارشادِ ربانی ہے:

اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ                  (الرعد:۱۱)

’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف نہیں بدل دیتی‘‘۔

مسلم معاشرے میں پائی جانے والی مختلف غیر ضروری روایات میں سے ایک روایت ’ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کرنا‘ بھی ہے۔اس کے معنی چھوڑدینے،پناہ مانگنے اور الگ تھلگ ہوجانے وغیرہ کے آتے ہیں۔ اصطلاح میں اس کے معنی نوکری کی مدت ختم ہو جانے کے ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں سرکاری نوکری کی مدت ساٹھ(۶۰) سال ہے،جسے اب سے پینسٹھ (۶۵)سال کرنے کی بات کی جا رہی ہے اورملٹی نیشنل کمپنیوں یا بعض دوسرے اداروں میں ڈائریکٹر وغیرہ کی ستّر( ۷۰) سال ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔

کچھ لوگ بڑی عمر میں نیکی کے رویہ کو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ ماضی کے گناہوں کی تلافی کی جاسکے۔ مگر سوال یہ ہے جانتے بوجھتے ایسا عمل آخر کیا ہی کیوں جائے کہ بعد ازاں اس کی تلافی کرنی پڑے اور اگر اس دوران بیچ ہی میں رخصت ہو گئے تو اس کا موقع بھی نہیں ملے گا۔جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔بیماری سے پہلے صحت کو،مشغولیت سے پہلے فرصت کو،تنگ دستی سے پہلے فراخی کو ،بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘(المستدرک علی الصحیحین:۴ /۳۰۲)

حقیقت یہ ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں ،وہی وقت معاشرے اور ملک کو کچھ واپس دینے کا ہوتا ہے کیوں کہ ریٹائر ہونے کے بعد انسان بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی دلچسپی کے میدان میں باآسانی خدمات انجام دے سکتا ہے۔جب آدمی خود کو ریٹائر سمجھ کر گھر میں بیٹھ جاتا ہے تو وہ بے شمار ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے لگتا ہے کیوں کہ وہ خود کو بے کار اور دوسروں کے لیے ایک بوجھ سمجھتا ہے اورقدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی انسان اپنے کو بے کار اور دوسروں پر بوجھ سمجھ بیٹھے تو وہ ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر ختم ہونے لگے گا ۔ایک ایسا آدمی جو روزانہ باقاعدہ تیار ہو کر گھر سے آفس کے لیے نکلتا ہو لیکن ایک دن اسے اچانک منع کر دیا جائے تو وہ خود کو بے کار ،بوڑھا اور مرنے کے قریب سمجھنے لگتا ہے۔اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ڈپریشن ،مایوسی،مختلف طرح کی کش مکش،نفسیاتی الجھن،چڑچڑے پن اورتنہائی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔خصوصاً اس وقت جب بیٹے اور بیٹیاں ان کوپوچھتے نہیں اور ایک کونے میں ’فالتو سامان ‘کی طرح ڈال دیتے ہیں۔ایسے میں وہ گھر کی محبت اور توجہ سے محروم ہو جاتے ہیںتو مزید دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بیشتر بزرگ غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک ہو تے ہیں۔

قرآن و حدیث میں اس سلسلے میں جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے کہ انسان دنیا میں مختلف طرح کے کام انجام دیتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:

’’اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔(الروم:۲۳)

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَّجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا۝۱۱۠ (النبا:۱۱) ’’اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔‘‘

ان آیات میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ۔ نہ تو دین اور دنیا کوئی الگ الگ چیز ہے اور نہ ہی دنیا حاصل کرنے میں کوئی عمر متعین کی گئی ہے۔دنیا کو دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کرنا بھی نیکی ہے۔اگر ہم پیغمبرانہ زندگی کا جائزہ لیں تو پیغمبر کسی نہ کسی طرح کا معاشی شغل اپنائے ہوئے تھے۔حضرت داؤود ؑ زرہ بنانے کاکام کرتے تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ نبی تھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا عظیم فریضہ آپؐ کو انجام دینا تھا، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیا ۔گھر کے کام آپؐ خود انجام دیتے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں آپؐ نے بذاتِ خود ۵۳ سال کی عمر میں حصہ لیا ،خندق کی کھدائی میں آپؐ نے بھی صحابہ کرامؓ کے ساتھ حصہ لیا۔اسی طرح صحابہ کرامؓ محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے۔وہ جہاں ایک طرف نمازیں پڑھتے اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے تھے وہیں دوسری طرف تجارت، کھیل، سیر و تفریح وغیرہ کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔ان کے یہاں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہ تھااور نہ ہی عمر کبھی ان کی ترقی کی راہ اور کام کو انجام دینے میں رکاوٹ بنی ۔حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اسّی( ۸۰) سال کی عمر میں جہاد کیا تھا۔بسااوقات ہمارے قائدین اور رہ نما جتنے زیادہ ’بڑے‘ ہوتے ہیں اتنا ہی وہ کام کرنے سے اجتناب کرتے ہیںاور کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔یہ صرف ایک روایت سی بن گئی ہے کہ عمر دراز لوگوں کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے بعض طبقوں میں بزرگوں اور بڑوں کا کام کرنا ان کے بیٹوں کے لیے باعثِ شرم ہوتا ہے ،حالاں کہ ان کی زندگی کا تجربہ دوسروں کے کام آسکتا ہے اور پھر اس سے ان کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔آیات و حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو دنیا و آخرت اور جسمانی و روحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی کام ختم ہوتے ہیں۔اس لیے جب تک انسان کی صحت ،طاقت اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت باقی ہو اس وقت تک اسے حسبِ استطاعت سرگرم رہنا چاہیے۔

 ریٹائر منٹ کے بعد کے کام

یہ بات اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ آپ نے کتنی لمبی عمر پائی بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کو کہاں اور کس طرح کھپایا؟ اور اسی کوقیامت کے دن پوچھا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزو ں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے عمر کس چیز میں صرف کی،جوانی کہاں خرچ کی،مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جوکچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا۔‘‘(ترمذی:۲/۳۰۶)

اس لیے ہم سب کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اگر ان سب کا شروع میں نہیں حق ادا کر سکے تو ریٹائرمنٹ کے بعد اب جو فرصت ملی ہے اس کو غنیمت جانا جائے اور سب کاحق ادا کیا جائے۔چند اہم کام درج ذیل ہیں۔

صحت کا خصوصی خیال رکھنا

اسلام مسلمانوں کو دوسری قوم کے مقابلے میں نمایاں اور ممتاز دیکھنا چاہتا ہے۔اس لیے وہ لباس اور صحت پر بھی خصوصی توجہ دیتا ہے کہ ایک مومن کا جسم پر کشش اور طاقت ور ہو۔ویسے بھی صحت اچھی رہے گی تب ہی انسان کچھ کر سکے گا۔ظاہر ہے ایسا اس وقت ہی ممکن ہوگا جب انسان کھانے پینے میں اعتدال سے کام لے اور یہی اسلام کو مطلوب بھی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

’’کھاؤ ،پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ،اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف:۳۱)

حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں :

’’کھانے پینے میں زیادتی سے بچو،کیوں کہ بسیار خوری سے جسم میں خرابی آتی ہے، بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور نماز میں تساہلی اور سستی پیدا ہو جاتی ہے۔کھانے پینے میں میانہ روی سے کام لو کیوں کہ اس سے جسم درست رہتا ہے ،بیماری نہیں آتی ۔اللہ تعالیٰ پیٹو اور موٹے شخص کو پسند نہیں کرتا،آدمی اس وقت تک ہر گز ہلاک نہیں ہوتا جب تک اپنی شہوت کو اپنے دین پر ترجیح نہ دے‘‘۔ (کنزالعمال:۸/۴۷)

بدقسمتی سے مسلمان خواہ مرد ہوں یا عورتیں، صحت اور اس کے اصولوں کی طرف سے بڑے لاپرواہ نظر آتے ہیں ۔دین دار طبقہ ورزش کرنے اور چہل قدمی کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہے اگرچہ پیٹ نکلا ہو اہو اور ذرا سا چلنے میں سانس پھولنے لگتی ہو ،بلڈ پریشر ،شوگر اور اسی طرح کی دوسری بیماریاں لاحق ہوںلیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔جس کے نتیجے میں بڑھاپے میں اور تکلیف جھیلنی پڑتی ہے اوراس کاایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ فسادات میں دفاع کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ صحت کی جانب ریٹائر افراد کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دینی علوم میں اضافہ

اگر نوکری کے درمیان مصروفیت نے دینی تعلیم سے روکے رکھا تھا تو اس عمر میں اس کو جاننے اور سیکھنے کی کوشش کی جائے اور عمر اس میں رکاوٹ نہ بنے ۔امام ابوعمرو بن علاءؒ سے کسی شخص نے سوال کیا :

آدمی کو کب تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیے؟فرمایا:

ما دام تحسن بہ الحیاۃ (جامع بیان العلم لابن عبد البر:۱/۹۶)

’’جب تک اس کی زندگی وفا کرے۔‘‘

اسی طرح امام عبداللہ بن المبارکؒ سے کسی نے پوچھا :

آپ کب تک علم حاصل کرتے رہیں گے؟فرمایا:

حتیٰ الممات و لعل الکلمۃ التی انتفع بھا لم اکتبھا بعد (جامع بیان العلم لابن عبد البر:۱/۹۶)

’’مو ت تک،اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ جو بات میرے حق میں مفید ہو اسے اب تک نہ حاصل کر سکا ہوں۔‘‘

ایک مسلمان کو سب سے پہلے قرآن پھر سنت ِنبوی پھر سیرتِ نبوی اور ضرورت کے مطابق دین کے شرعی احکام سے واقفیت ہونی ضروری ہے تاکہ وہ مستشرقین اور غیروں کے ذریعہ پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں سے نہ صرف یہ کہ خود بچا رہے بلکہ گھروالوں اور معاشرے کو بھی محفوظ رکھ سکے اور ہمیشہ ان میں اضافہ کی دعا مانگی جائے۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا                                                                            (طہ:۱۱۴)

’’اور دعا کروکہ اے پروردگار!مجھے مزید علم عطا فرما۔‘‘

البتہ مسلکی اختلافات اور فرقہ بندی سے اجتناب کیا جائے ۔موجودہ دور میں کتابیں اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے صحیح اور باطل میں تمیز باآسانی کی جا سکتی ہے۔اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو یہ کہ آدمی مسلکی اختلافات سے محفوظ رہے گا، دوسرا یہ کہ وہ گھر والوں کی صحیح اور اسلامی نہج پر تربیت کر سکے گا اور اس کا کوئی محدود دائرہ نہ ہوگا۔ ساتھ ہی علم پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

بلغواعنی و لو آیۃ و حدثوا عن بنی اسرائیل و لا حرج ومن کذب علی متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار(بخاری:۳۴۶۱)

’’میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ!اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو ،اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘

گھر کا ماحول خوش گوار رکھنا

ریٹائر افراد کا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزرتا ہے ۔بسااوقات ان میں برداشت کا مادہ کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھر کی عورتوں، بچوں اوردیگر افراد پر وقت بے وقت ناراض ہوتے رہتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں ۔اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بہتر ہوگا کہ ان کی نفسیات کو سمجھیں اور بجائے سختی،ڈانٹ ڈپٹ اور جبر و تشدد کے شفقت،محبت ،ہمدردی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ورنہ حقیقتاًیہ ہوگا کہ آپ کی موجودگی میں تو مؤدب بن کر رہیں گے، لیکن غیر موجودگی میں ہر وہ کام ہوگا جسے آپ ناپسند کرتے ہیں۔

ساتھ ہی بچوں ،بچیوں کو اپنی بات کہنے کی پوری آزادی دی جائے، ان کے تمام معاملات کو دوست سمجھ کر حل کیا جائے اور انعام و اکرام کے ذریعہ ان کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔اس سے وہ خوش بھی رہیں گے اور دل سے خدمت و احترام کریں گے۔

موجودہ دور میں عموماً والدین جاب پر ہوتے ہیں اور وہ صبح کے نکلے شام کو لوٹتے ہیں تو گھر کے بچوں اور بچیوں کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ہے ۔اس کمی کو گھر کے ریٹائر افراد پوراکر سکتے ہیں۔وہ ان کے کتب و رسائل،دوست احباب،محفلوں، موبائل اورانٹرنیٹ کی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دیںتاکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کام یاب ہو سکیں ۔اسی کو قرآن نے کہا:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (التحریم:۶)

’’ائے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے‘‘

بعض بزرگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بچوں اور بچیوں سے ہنسی مذاق یا کھیل کود نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے وہ ان کی نظر میں کم حیثیت ہو جائیں گے یاان کی صحیح تربیت نہیں ہو پائے گی۔ یہ غلط سوچ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں اور بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ایک مرتبہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:

جس کا کوئی بچہ ہو اسے اس کے ساتھ کھیل کود کرنا چاہیے۔(کنز العمال:۴۵۴۱۳)

اس سے بچوں میں خود اعتمادی آتی ہے اور ان کے اندر بھی رحم اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

ایک اور جگہ آپ ؐ نے فرمایا:

’’ ہر وہ امر جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے خالی ہو غفلت ہے یا بھول، سوائے چار باتوں کے۔تیر اندازی کے ہدف کے درمیان دوڑنا،گھوڑے کی تربیت کرنا، تیراکی سیکھنا اور گھر والوں کے ساتھ خوش وقتی کرنا‘‘(الطبری:۶)

عورتوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آنے کی اسلام نے تعلیم دی ہے اور اس پر ثواب بھی بتایا ہے۔ حدیثِ نبوی ہے:

و لست تنفق نفقۃ تبتغی بھا وجہ اللہ الا اجرت بھا حتیٰ اللقمۃ تجعلھا فی فی امرتک۔ (بخاری:۴۴۰۹)

’’تم اللہ کی خوش نودی چاہتے ہوئے جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں اجر ملے گا،یہاں تک کہ اس لقمہ پر اجر پاؤ گے جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔‘‘

رشتے داروں کے حقوق ادا کرنا

اگر نوکری اور مصروفیت نے رشتہ داروں سے دور کر دیا تھا تو اب جو فرصت ملی ہے تو ضروری ہے کہ ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان کے کام آیا جائے۔قرآن کریم میں رشتہ داری نبھانے اور اس کا خیال رکھنے کی مختلف مقامات پر تعلیم دی گئی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ            (النساء:۱۰)

’’اور اس اللہ سے ڈرو،جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے(اپنے حق)مانگتے ہو اوررشتہ داری اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا

(بنی اسرائیل:۲۶)

’’رشتہ داروں کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا یدخل الجنۃ قاطع رحم   (مسلم:۲۵۵۶)

’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘

ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا:

ما من ذنب اجدر ان یعجل اللہ لصاحبہ العقوبۃ فی الدنیا، مع ما یدخر لہ فی الآخرۃ،من البغی و قطیعۃ الرحم (ترمذی:۲۵۱۱)

’’بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جو اس لائق ہو کہ اس کا ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ آخرت میں سزا دینے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا دے۔‘‘

صلہ رحمی کے مختلف طریقے ہیں جیسے مال سے مدد کرنا،خیر خواہی،ہمدردی اور محبت سے پیش آنا،ملاقات کرنا،مسکرا کر خوش دلی سے ملنا،سلام کرنا،تحفہ دینا،تعاون و ایثار کرنا اورعیادت کرنا وغیرہ۔اس میں پہلے ماں پھر والد پھر قریب ترین رشتے داروں کا خیال رکھا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ تمہیں ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھرماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھرماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھر باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھر قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے ۔‘‘(ابن ماجہ:۳۶۶۱)

قطع رحمی کتنا بڑا گناہ ہے۔اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:

الرحم معلقۃ بالعرش تقول:من وصلنی وصلہ اللہ و من قطعنی قطعہ اللہ ۔(مسلم:۲۵۵۵)

’’رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے ۔وہ کہتی ہے جو مجھے جوڑے گااللہ تعالیٰ اسے جوڑے گا اور جو مجھے کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے کاٹے گا۔‘‘

رفاہِ عامہ کے کام

صحیح معنوں میں ایک مسلمان شخص لوگوں کا خیر خواہ ہوتا ہے اور وہ دوسروں کے ہر ممکن کام آتا ہے۔جیسا کہ حدیثِ نبوی ہے:

الدین النصیحۃ قلنا:لمن؟قال:لللہ و لکتابہ و لرسولہ ولائمۃ المسلمین و عامتھم(مسلم:۵۵)

’’دین خیر خواہی کانام ہے۔‘ (صحابہ کہتے ہیں)ہم نے عرض کیا :کس کے لیے؟فرمایا:اللہ کے لیے ،اس کی کتاب،اس کے رسول،مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘

ایک اور جگہ آپؐ نے فرمایا:

’’آدمی کو چاہیے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم،اگر ظالم ہو تو اس کو ظلم سے باز رکھے ،یہی اس کی مدد ہے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مددکرے۔‘‘ (مسلم:۲۵۸۴)

ریٹائر افراداپنے پیشے ،وقت ،سہولت اور جمع خرچ کے لحاظ سے محلے اور آس پاس کے علاقوں میں رفاہ عامہ کے کام انجام دے سکتے ہیں۔جیسےکسی کی بیٹی کی شادی میںمدداور کم زوروں کی تعلیمی (پروفیشنل اور غیر پروفیشنل )،قانونی،مالی امداد ،حکومت کے ذریعہ ملنے والی اسکیموں کی جان کاری اور معلومات ان کے مستحقین تک پہنچانا ،صحت سے متعلق بے داری اور مسابقاتی امتحانات کی تیاری وغیرہ میں مد د کرنا وغیرہ وغیرہ۔

خواتین جو بطور ٹیچر ریٹائر ہوئی ہوں وہ اپنے گھر،محلے اورآس پڑوس کی طالبات یا بڑی عمر کی ناخواندہ خواتین کو بھی تعلیم دیں تاکہ کم از کم وہ دین کی بنیادی باتیں پڑھ اور سیکھ سکیں۔ایسے ہی کمپیوٹر،سلائی کڑھائی اور کوکنگ وغیرہ کی بھی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ان رفاہِ عامہ کے کاموں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مرنے کے بعد بھی فاعل کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔جیسا کہ حدیث نبوی ہے:

’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کاثواب جاری رہتا ہے۔ایک صدقہ جاریہ کا،دوسرے اس کے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ،تیسرے نیک اولاد کا جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘(مسلم:۴۲۲۳)

مشمولہ: شمارہ جون 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223