زنده باد! خواتین جماعت اسلامی!

اندرا حکومت کے آخری پونے دو برس میں ایمر جنسی قانون لاگو رہا۔ بہت سے لوگ ڈی آئی آر اور میسا کے تحت گرفتار ہوئے۔ جماعت اسلامی ہند کے ارکان اور ہمدرد بھی دھر لیے گئے۔ ان غریبوں نے جس صبر و استقلال اور استقامت کے ساتھ اکیس مہینے جیلوں میں گزارے اور وہاں بھی جس طرح دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا وہ ہمیں اسوۂ یوسفی کی یاد دلاتا ہے۔ اس پر ہم جماعت اسلامی کے وابستگان جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے۔ لیکن اسی عرصے میں ہم نے اسیرانِ جماعت اسلامی کے گھروں میں ان کے بال بچوں کا بھی کردار دیکھا ہے۔ ان سے ہماری خط کتابت رہی ہے، جہاں تک ہمیں معلوم ہوسکا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس زمانے میں ان کم زور جان والیوں نے صبر وشکر کے ساتھ گھر کو نہ سنبھالا ہوتا اور اللہ کا نام لے کر بال بچوں کو سمیٹ کر نہ بیٹھی ہوتیں اور اسیروں کی ہمت نہ بڑھائی ہوتی تو ہوسکتا تھا کہ صنفِ شدید میں سے بہتوں کے قدم ڈگمگا جاتے اور پھر وہ اس آزمائش سے اس کام یابی کے ساتھ نہ نکلتے جس طرح سرخرو ہو کر نکلے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی لاج رکھنے میں اس کم زور جان کا زیادہ ہاتھ ہے۔ جومرد ڈی آئی آر اور میسا کے تحت جیلوں میں رہے ان کا کاروبار چوپٹ ہو گیا۔ بے شک یہ بھاری نقصان ہوا۔ وہ بال بچوں سے جدا ہو گئے۔ بے شک یہ دکھ کی بات تھی۔ اس بھری دنیا سے الگ کر کے جیلوں کی کو ٹھریوں میں بند کر دیے گئے۔ واقعی یہ بہت بڑا ظلم تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس عرصے میں بھوکے رہے؟ قید کے علاوہ انھیں حکومت کا کوئی اور خطرہ رہا؟ کیا جیلوں میں حکومت کی پولیس اور سی آئی ڈی نے انھیں ہراساں اور پریشان کیا؟ اور کیا واقعی وہاں وہ قید تنہائی میں تھے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ ان کے ساتھ ہزاروں مسلمان اور غیر مسلم قیدی تھے۔ خوب کھاتے پیتے تھے۔ خوب باتیں کرتے تھے اور ہر طرح غم غلط کر کے دن گزار دیتے تھے۔ ان کے مقابلے میں ان کم زور جانوں اور بے کس عورتوں کا تصور کیجیے۔ جنھوں نے اپنے اپنے شوہر کو، جنھوں نے اپنے بیٹوں کو اور جنھوں نے اپنے باپ اور بھائیوں کو صبر کے کلمات کہتے ہوئے جیلوں کی طرف روانہ کیا، جن کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن لبوں پر صبر وشکر کا تبسم کھیل رہا تھا۔ انھوں نے یہ واویلا نہیں مچایا کہ ہائے ہم بے کسوں کو کس پر چھوڑے جاتے ہو۔ انھوں نے نہایت صبر و سکون کے ساتھ اپنے سرتاجوں کا سامان باندھا اور جیل بھیج دیا۔ سامان بھیجتے وقت حیرت انگیز استقامت کا ثبوت دیا۔ میرے اسیر رفقا نے مجھے بتایا کہ ضرورت کی ہر شے یہاں تک کہ بٹن ٹانکنے کے لیے سوئی تک رکھ دی گئی۔ شوہر کی جدائی میں ان بے چاریوں کے سینوں کے اندر آگ لگی ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں حواس کا اس قدر بجا رکھنا اللہ کی توفیق کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ بے شک خواتینِ جماعت اسلامی نے صبر و استقامت کا حق ادا کردیا۔ کاروبار برباد ہونے کے بعد گھر کا سامان بیچ کر کھاتی رہیں پھر اللہ کا نام لے کر کسی نے اپنی سلائی کی مشین سنبھالی، کسی نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ذریعے گھروں میں بیچنے کے لائق سودا منگوایا اور بیچنا شروع کردیا، کسی نے بچوں کو ٹیوشن کے طور پر پڑھانا شروع کردیا۔ مطلب یہ کہ جس طرح ان سے ہوسکا اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا۔ کسی جان نے بھی روزی کا شکوہ نہیں کیا۔ جو کچھ ملا صبر و شکر کے ساتھ خود کھایا اور بچوں کو کھلایا۔ اس عرصے میں اللہ کا یہ فضل ملاحظہ ہو کہ اس نے بچوں کے دلوں میں سکینت کے ساتھ غیرت بھی بھردی اور انھوں نے اپنی اپنی ماں کا ساتھ خوب دیا۔ غیرت کا ایک واقعہ عرض کروں۔

واقعہ یوں ہے چھنڈ واڑہ کے ایک رفیق جیل گئے تو ان کی تیرہ چودہ برس کی بچی نے مجھے خط لکھا کہ چچا میاں! جماعت اسلامی کے جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان کے گھر والوں کے لیے کیا کوئی نظم ہے یا نہیں؟ میں نے اس سوال کو حسنِ طلب سمجھا پھر میں نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا اس کا جواب ملاحظہ ہو۔ بچی نے لکھا:

چچامیاں! امّی آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آپ کو جو خط لکھا گیا تھا اس سے یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ ایک ہمارے گھر کی خبر گیری کس طرح ہوگی بلکہ منشا یہ تھا کہ جماعت اسلامی کے تمام اسیر رفقا کے گھر والوں کے بارے میں کیا سوچا جارہا ہے؟

یہ اس چھوٹی سی بچی کا جواب تھا۔ پورے اکیس ماہ تک اسی طرح کے غیرت بھرے خط یہ غیرت مند بچی کبھی اپنی طرف سے اور کبھی اپنی والدہ کی طرف سے لکھتی رہی۔

چرکنڈہ کے ایک رفیق جیل گئے تو بال بچوں کو روزی کے لیے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ ایجنسی کے طور پر حجاب جاتا تھا تو ہمارے رفیق کے فرزند ارجمند نے لکھا کہ چچامیاں! ہم گھر چھوڑ کر دوسری جگہ جارہے ہیں۔ حجاب بند کردیجئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حجاب کی واجب الادا رقم ادا نہ ہو سکے۔

اس عرصے میں میں زیادہ سے زیادہ اس کھوج میں رہا کہ اسیر رفقا کے گھر والوں کا حال معلوم ہوتا رہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ خواتین کے میکے والوں نے انھیں سرپرستی میں لے لیا، کچھ خواتین اپنے بال بچوں کو لے کر بھائیوں کے گھر چلی گئیں لیکن ان کے اصرار پر، کچھ خواتین باپ کے پاس چلی گئیں لیکن ان کے بلانے پر۔ ایسی خواتین کی تعداد انگلیوں پر گننے کے لائق ہے۔ زیادہ تر ایسی تھیں، جن کا کوئی والی نہ تھا لیکن شاباش ہے ان خواتین کی پامردی کی کہ انھوں نے اس اکیس ماہ میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی اخلاقی نعمت خواتینِ جماعت اسلامی کے حصے میں آئی۔ اس عرصے میں جس محنت اور مشقت سے انھوں نے روزی حاصل کی جس تندہی کے ساتھ بچوں کو سنبھالا، جس تمنا اور محبت کے ساتھ پیدل، رکشا پر یا ریل سے ہر ماہ شوہر سے ملنے جیل گئیں اور وہاں ملاقات کے وقت گو حالت یہ تھی جیسا کسی شاعر نے کہا ہے کہ

بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے

دل میں بے شک غم کا سمندر تلاطم برپا کیے ہوئے تھا لیکن جیلر گواہ ہیں کہ جماعت اسلامی کی خواتین بڑی گمبھیرتا اور متانت سے ملیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی نہ گرا۔

اس عرصے میں عیدیں بھی آئیں۔ رشتہ داری میں تقریبات بھی ہوئیں۔ ایسے موقعوں پر کس کا ارمان نہیں ہوتا کہ بیوی کے شوہر اور بچوں کے ابا جان گھر پر ہوں، مگر خواتینِ جماعت اسلامی نے یہ سب بھی بڑے ضبط سے جھیلا۔ مجھے معلوم ہوا کہ ایسے موقعوں پر چھوٹے چھوٹے بچوں نے اچھے کپڑوں کی فرمائش کی تو عجیب و غریب دل چسپ انداز سے ان کو مطمئن کیا۔ ایک خاتون سے میں نے پوچھا تو انھوں نے ہنس ہنس کر جی ہاں ہنس ہنس کر بتایا کہ پرانے کپڑے نکال کر مختلف رنگوں میں رنگ لیے اور پھر ان کے رنگین ٹکڑوں کو جوڑ جوڑ کر جمپر اور فراک سی دیے تو بچے خوش ہو گئے۔ ان کو تو بھڑکیلے کپڑے چاہئیں، وہ کیا جانیں کہ اصلیت کیا ہے۔

مراد آباد کے ایک رفیق اکیس ماہ جیل میں رہے۔ ان کی اہلیہ اپنے میکے چاندپور چلی گئیں۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہنے لگیں۔ ایسی حالت میں ایک پیسے کا سہارا بھی ملتا ہے تو انسان شکریے کے ساتھ قبول کر لیتا ہے۔ ایک آزاد رفیق جو ان غریبوں کی ہمدردی میں بہت پیش پیش تھے۔ چاند پور پہنچے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اسیر رفیق کی اہلیہ محترمہ سے ملے اور عید اور رمضان کے خیال سے ایک معتد بہ رقم پیش کی تو ان محترمہ نے فرمایا: بھائی، شکریہ لیکن میں اس رقم کی حقدار نہیں ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ بسر ہو رہی ہے، آپ یہ رقم کسی دوسری مستحق خاتون کو پہنچادیں۔ اللہ ہم سب کی مدد کرے۔

ایک بار میں دلی گیا ہوا تھا۔ وہاں معلوم ہوا کہ فلاں فلاں اسیر رفقا کی پیشی کی آج تاریخ ہے۔ میں ملنے کی غرض سے کچہری پہنچا وہاں بہت سے لوگ بغرض ملاقات پہنچے ہوئے تھے۔ اسیر رفقا کے بال بچے بھی موجود تھے۔ میں جس وقت اپنے رفیق سے ملا تو بغلگیر ہوتے وقت مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ میں رودیا۔ میرے رفیق کے بچے پاس ہی کھڑے تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ سے پکار کر کہا: امی ! دیکھیے تو چچا میاں رو ر ہے ہیں، ان کی امی نے جواب دیا، ہاں، دونوں بھائی بہت دنوں کے بعد ملے ہیں، یہ اسی کے آنسو ہیں۔

میری یہ حالت اور جن کو رونا اور واویلا کرنا چاہیے تھا ان کی پلکیں نہ بھیگیں، وہ سب مطمئن بالکل ایسے جیسے کسی نے کہا ہے کہ

پختہ طبعوں پر حوادث کا اثر ہوتا نہیں

کوہساروں پر نشانِ نقشِ پا ملتا نہیں

ایمرجنسی شروع ہوتے ہی بعض جگہ تو اندھا دھند گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ان میں سے ایک کانپور بھی ہے۔ وہاں بہت زیادہ تعداد میں رفقا گرفتار ہوئے۔ ان میں میرے ایک پھوپھی زاد بھائی اور ایک حقیقی بھتیجا بھی تھا۔ میں کانپور گیا تومیری پھوپھی اور میرے بھائی کی زبان سے نکلا تم یہاں کیسے؟ ان کا خیال تھا کہ میں بھاگا ہوا ہوں۔ میں نے حال بتایا۔ پھر حال پوچھا تو اس طرح حال بتایا گیا جیسے یہ بچوں کا ایک کھیل تھا جو کھیلا گیا۔ غم کا ہے کا۔ یہ جو کچھ ہوا، اُسے ہونا ہی چاہیے۔ ہم نے جب اس وادی میں قدم رکھا تھا اسی وقت سمجھ لیا تھا کہ یہ وادی مرغزار نہیں ہے بلکہ کانٹوں بھرا جنگل ہے۔ فلاں فلاں کا قید ہونا یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔ اب دعا کرو کہ انھیں اللہ استقامت عطا فرمائے اور وہ معافی مانگ کر واپس نہ آئیں۔ اسّی برس کی پھوپھی نے بیٹے کا نام لے کر ٹکڑا لگایا کہ اگر معانی مانگ کر آیا تو گھر میں گھسنے نہ دوں گی۔ میں نے اس وقت اسیروں کی بیویوں کی طرف دیکھا وہ دونوں منھ پر آنچل رکھے ہوئے تھیں لیکن ان کی آنکھوں کی چمک صاف بتا رہی تھی کہ یہ ضعیف خاتون جو کچھ کہہ رہی ہیں ہم دونوں ان کی تائید میں ہیں۔

واضح رہے کہ اس زمانے میں اس خاندان کی عورتیں کاغذ کی تھیلیاں بناتی تھیں اور چھوٹے چھوٹے بچے اخبار و رسائل بیچتے تھے۔

اس طرح کے واقعات بہت ہیں۔ ایک واقعہ اور سنیے۔ ایک بزدل اور سازشی ذہن والے شخص نے بجنور کی ان خواتین کو جن کے رفیق حیات جیلوں میں ٹھونس دیے گئے۔ خط لکھا کہ وزیر اعلی تیواڑی کے پاس جاؤ اور ان کے سامنے روؤ چیخو۔ ہوسکتا ہے کہ رحم کھا کر چھوڑ دیا جائے۔

بجنور کی خواتین نے اس خط پر اور خط بھیجنے والے پر لعنت بھیجی اور ایک زبان ہو کر سب نے کہا کہ ہمارا گھر سے نکل کر وزیر اعلیٰ کے سامنے جانا اور گڑگڑانا نہ تحریک اسلامی کے لیے مفید ہے اور نہ ہم مسلمان عورتوں کو زیب دیتا ہے۔ اس کے بعد جب جیلوں میں ملنے گئیں تو ہنس ہنس کر بتایا کہ دیکھیے: ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے!

مشتے نمونہ از خروارے آج کی صحبت میں یہ چند نمونے پیش کیے گئے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان خواتین نے کس طرح تحریک اسلامی کے پودے کی جڑ کو سینچا۔ درختوں کی سرسبزی سب دیکھتے ہیں لیکن ان کی جڑوں میں جو پانی کے سوتے رواں ہوتے ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔ ہماری خواتین کی یہی مثال ہے۔ تحریک اسلامی کو آگے بڑھانے میں ان کی مثال اس گھی کی طرح بھی ہے جو دودھ کے اندر شامل ہوتا ہے لیکن کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ یہ گھی اس وقت اوپر آتا ہے جب دودھ کو آگ پر کسا جاتا ہے، اس کے بعد بلوکر اس میں تلاطم پیدا کیا جاتا ہے۔ بے شک ایمرجنسی کی آزمائش میں تحریک اسلامی کے دودھ پر جب آنچ آئی اور وہ بلویا گیا تو گھی کا پتہ لگا۔ معلوم ہوا کہ یہ گھی درحقیقت عورت تھی جو سب کی نظروں سے پوشیدہ تحریک اسلامی کو طاقت پہنچا رہی تھی۔ (حجاب، جون ۱۹۷۷، نظر بند ی نمبر ۱)

مشمولہ: شمارہ مئی 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223