یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب نے سرمایہ کو بطور سود کے استعمال کرنے کی ممانعت کی ہے اور ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس نے تو نہ صرف سود کی ممانعت کی بلکہ سرمایہ کے استعمال کا صحیح طریقہ بھی بتایا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کے مصنف محمّد منیر احمد اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں چیف مینیجرکےعُہدے پر رہ چکے ہیں۔
کل تین حصّوں پر مشتمل اس کتاب کے پہلے حصّے میں مختلف معاشی نظاموں کے اجزائے ترکیبی اور مدینہ اکنامکس کا دنیا میں پھیلاؤ پر گفتگو ہےاور دوسرے حصّے میں سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے حصّے میں مدینہ اکنامکس کی دورِ حاضر کے عالم گیر معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت پر زور دیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب میں مدینہ اکنامکس کے پانچ اصول بیان کیے ہیں، نمبرایک منڈی، نمبر دو زکات ٹیکس، نمبر3 سود کا خاتمہ، نمبر 4 حلال آمدنی رزق حلال،نمبر5 عوامی فلاحی معیشت۔
مدینہ اکنامکس کو سمجھانے کے لیے اسلام سے پہلے عربوں کی معاشی صورت حال پر ایک تجزیاتی روشنی بھی ڈالی گئی ہے اور مصنف نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ دور کے قرض (debt)اور شیئر (equity)کے طرز پر مدینہ اکنامکس میں عربوں کی معاشی سرگرمیاں تجارت پر منحصر تھیں۔ اہل ثروت لوگ نوجوانوں کو تجارت کے لیے سرمایہ نفع ونقصان کے اصولوں پر مضاربہ اور مشارکہ (profit and loss sharing)کی شکل میں فراہم کرتے تھے جو موجودہ دور کی اثاثہ پر مبنی سیکیورٹی (Asset-based security)کی طرح کا ہوتا تھا،نیز یہ کہ مارکیٹ میں قیمتوں کا تعین طلب اور رسد (demand and supply)کی قوتوں کے مطابق طے ہوتا تھا، لیکن سودی کاروبار بھی رواں دواں تھا۔ مصنف کا یہ کہنا صحیح ہے کہ مدینہ کی مالیاتی بازار کا یہ ڈھانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا۔
ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس تقریباً چار سو سال تک پوری دنیا میں ایک مضبوط معاشی نظام کے طور پر قائم رہی اور بیسویں صدی کے اواخر میں یہ دوبارہ عالمی معاشی افق پر اسلامی بینکنگ کی شکل میں نمودار ہوئی۔ لیکن مدینہ اکنامکس کا عالم گیر پھیلاؤ کس طرح کا تھا ؟
اسلامی تہذیب کا زوال دراصل مدینہ اکنامکس کی امتیازی خصوصیات کو لے ڈوبا اور نتیجتاً ایک سچے تاجر کا رتبہ،مارکیٹ کی حرمت اور معاشرتی فلاح کی شکل وصورت دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئی۔ لیکن یہ کہاں تک درست ہے؟ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ اسلام سے پہلے کی ایمپائرس (empires)میں بھی یہ سب چیزیں موجود تھیں۔ قرآنی تعلیمات سے پہلے بھی دولت پر ٹیکس،صدقات،اور ارتکاز زر (concentration of wealth)کے بارے میں تاریخ داں مفکرین نے بہت کچھ لکھ رکھا ہے۔
کتاب کے پانچویں باب میں مصنف نے حقائق کی بنیاد پر ایک سمجھ میں آنے والی تصویر کھینچی ہے۔ خاص طور پر مسلم ممالک کے ترقی یافتہ شہری علاقے، بحری تجارت کے زیر اثر بغداد میں ایک مکمل مالیاتی بازار کا وجود، نیز مسلم تاجروں کے ذریعے تجارت اور تبادلہ کی شروعات،اسلامی سکوں کا فروغ، اور پھر اسلامی بینکنگ ماڈل کی تیاری۔
اس ترقیاتی تفصیل کے بعد اس کتاب میں جوزف شمپیٹر (1950-1883- Joseph Schumpeter ) کے گریٹ گیپ (Great Gap)کے نظریہ پر مصنف نے خاصی روشنی ڈالی ہے جو پروفیسرایس ایم غضنفر اور پروفیسر عبدالعظیم اصلاحی کی عالمانہ کاوشوں سے اس وقت مشرق و مغرب کی یونیورسٹیوں میں اسلامی معاشیاتی فکر کے طالب علموں کے لیے ایک اہم نقطہ بحث و تحقیق کا حصہ ہے۔
علاوہ ازیں، مدینہ اکنامکس کے باب ٦ میں فائننس اور بینکاری پر ایک معلومات افزا بحث کی گئی ہے اور خاص طور پر اسلامی بینکنگ کے ارتقا اور فروغ کے بارے میں جو اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں مالیاتی بحران 2008 کے زیر سایہ بکھرتے ہوئے عالمی مالیاتی نظام کے بعد ماہرین بینکاری کی توجہ کا مرکز بنا اور جسے موازنہ کے طور پیش کر کے مصنف نے مدینہ اکنامکس کی مستقبل کے ایک متبادل مالیاتی نظام ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ساتھ مدینہ اکنامکس کے سامنے آنے والے مسائل کو بڑے عام فہم زبان میں مغربی مانیٹری معاشیات (monetary economics)کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے جس کا تعلق مالیاتی منڈیوں Financial Market میں کاروبار کی بدلتی ہوئی صورت حال سے ہے۔
مصنف نے کیپیٹلزم اور سوشلزم کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی عالمانہ اندازمیں صاف گوئی سے کام لیا ہے البتہ ایڈم اسمتھ ( Adam Smith,1723-1790)کی معاشیات کو مدینہ اکنامکس کا چربہ ثابت کیا ہے، لیکن کیا یہ صحیح ہے؟ نیز یہ کہ مدینہ اکنامکس کے اسلامک مین (Islamic man) اور کیپٹلزم کے اکنامکس مین (economics man)کا موازنہ کرنا کہاں تک درست ہوگا؟
در اصل اس کتاب میں خاص طور سے بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں کیپٹلزم اور سوشلزم کی ناکامی پر تجزیہ کرتے ہوئے مصنف نے مدینہ اکنامکس کا خاکہ بحیثیت ایک متبادل معاشی نیز مالیاتی نظام پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مصنف کی نظر میں اشتراکیت اور مدینہ اکنامکس میں حکومت کا ادارہ ہی معاشی نظام کو قانونی ڈھانچہ مہیا کرتا ہے۔ کتاب میں موجود معاشی نظام کے خدوخال کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس نظام میں کون کون سی اشیا پیدا کی جائیں گی، کیسے پیدا کی جائیں گی اور کس کے لیے پیدا کی جائیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے مدینہ اکنامکس کے خدوخال کی تشریح دور حاضر کی معاشیات اور بینکنگ کی زبان میں کی ہے۔ اس کتاب کی یہی خوبی بھی ہے کہ موجودہ بینکاری کے معاشی نظام کا موازنہ مدینہ اکنامکس میں آج کے دور میں ہونے والے حالیہ تجربات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سود پر چلنے والے عالمی مالیاتی اداروں میں خسارے اور ناکامیوں کی معلومات فراہم کی گئی ہیں تاکہ سود سے پاک مدینہ اکنامکس کو تازہ ترین معاشی صورت حال کے پس منظر میں پیش کیا جاسکے۔ دل چسپ پہلو یہ ہے کہ مدینہ اکنامکس میں سود کی خرابی کی عقلی توجیہ کو خاص طور سے علامہ اقبال کے معاشی فکر کی روشنی میں ایک علمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سود پر چلنے والی مروجہ بینکاری نے کس طرح سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے چنگل میں لے رکھا ہے جس میں بینکر، بینکوں سے قرضہ لینے والے اور سرمایہ کاری کرنے والے سبھی شامل ہیں۔ لیکن کیا مدینہ اکنامکس کا مالیاتی ڈھانچہ موجودہ مغربی بنکاری اور فائننس کے مثبت تجربات سے فائدہ اٹھانے کا اہل ہوگا ؟ اس سلسلے میں باب ١٠ میں محدود بنکاری (limited banking)کا ایک اسلامی خاکہ پیش کیا گیا ہے اور چودہ سو سال پہلے کی مدینہ مارکیٹ کا موازنہ موجود مالیاتی بازار سے کیا گیا ہے اور ایک اسلامی بینکاری ماڈل پیش کیا ہے تاکہ آج کی ڈانواڈول معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے مدینہ اکنامکس کے ڈھانچے میں ڈال کر بچایا جاسکے۔ لیکن کیا اس وقت کی مدینہ اکنامکس اپنی قابل عمل شکل میں ہے بھی؟ اس پہلو پر مصنف نے مضبوط دلائل پیش نہیں کیے ہیں سوائے یہ کہ دور حاضر سے مدینہ اکنامکس کی مطابقت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس اکیسویں صدی کی معاشی بدحالی کا علاج مدینہ اکنامکس سے نکالا جا سکتا ہے جو سرمایہ اشیاپیدا کرنے پر زور دیتا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکے گا؟ مدینہ اکنامکس بیع (trading)کی بنیاد پر ہے جو حقیقی پیداواری عمل پر زور دیتی اور یہ سودی کاروبار کے برعکس نفع ونقصان پر مبنی مالیاتی نظام ہے۔ لیکن کیا مدینہ اکنامکس کی کہیں پر عملی شکل موجود ہے؟ کیا وجہ ہے کہ مسلم ممالک اسے پوری طرح نافذ نہیں کر پا رہے ہیں ؟ کیا اس کے لیے موجودہ کیپیٹلزم اور سوشلزم ذمے دار مانے جائیں گے ؟ کیا مدینہ اکنامکس موجودہ دور کی معاشی ناہمواری نیز مسلم ممالک کو ان کی اپنی خودغرضی سے باہر نکال پائے گی ؟ اس کتاب میں اس کا جواب نہیں دیا گیا ہے اور اگر دیا بھی ہے تو شاید اشاروں میں یا علامہ اقبال کے اشعار میں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر مدینہ اکنامکس کی بنیاد اخلاقیات ہے تو اسلامک مین کا یہ مفروضہ کیسے عملی شکل میں لایا جا سکے گا ؟خاص طور پر اکیسویں صدی کی کھلی مالیاتی منڈیوں میں مغرب زدہ معاشی آدمی اور اسلام کا اخلاقی آدمی کس طرح باہمی طور پراپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے ؟ ابن خلدون (1406-1332 Ibne Khaldun)کے نظریات پر منحصر مدینہ کی خیمہ والی اسلامی مارکیٹ جس میں بقول مصنف تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا تھا آج کی اکیسویں صدی میں برق رفتار انٹرنیٹ سے منسلک رواں دواں مالیاتی منڈیوں میں تجارت پر ٹیکس نہ لگا کر حکومتیں کیسے تجارت اور سرمایہ کاری کر پائیں گی ؟
اس وقت تقریباً چار پانچ دہائیوں سے آزمائی جارہی مدینہ کی خیمہ والی اسلامی مارکیٹ بلا شبہ چودہ سو سال پہلے والی زراعت پر منحصر معیشت سے کچھ مختلف ہے جس میں سرمایہ کی قیمت (cost of capital) کا مروجہ تصور نہیں تھا جہاں معیشت ایک ایسے عالمی بازار میں پھیلی ہوئی ہے جہاں سودی سرمایہ کے ساتھ ساتھ مشارکہ،مضاربہ اور اسی طرز کے ونچر کیپیٹل (venture capital)کے ساتھ سرمایہ اور انسانی خواہشات سیکنڈوں میں محض کمپیوٹر کا ایک بٹن دبانے سے اربوں کھربوں کا لین دین کرتے رہتے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ صداقت اور امانت والے سرمایہ کار یا انٹرپرینور (entrepreneur)ناپید ہو گئے ہوں۔ جو ایک تیز رفتار کیپیٹل مارکیٹ (capital market)میں موجود ہیں۔ آج کی کیپیٹل مارکیٹ شرکت و مضاربت سے جڑی ہوئی شیر مارکیٹ نیز میچول فنڈ (Mutual fund )کی شکل میں مدینہ اکنامکس سے کچھ حد تک مطابقت بھی رکھتی ہے اور اس کو صرف اس لیے جھٹک کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کیپیٹلزم کے زیر سایہ کام کررہی ہیں۔ تعجب ہے مصنف کو مدینہ اکنامکس کا مستقبل موجودہ مسلم ممالک کے بجائے کمیونسٹ چین کی معیشت میں کیوں دکھائی دے رہا ہے ؟ کیا یہ محض اس وجہ سے ہے کہ کارل مارکس کے نظریات میں سُودی لین دین نہیں ہے؟ اور چوں کہ اب چین ہی دنیا میں کارل مارکس کی فکر کو تھامے ہوئے ہے اس لئےاگر چین سُودی کاروبار چھوڑ دے تو وہ مدینہ اکنامکس کا مثالی بن سکتا ہے؟
شاید مصنف کے سامنے اس طرح کے سوالات درپیش تھے چناں چہ کتاب کے آخری حصہ میں کچھ مناسب سوالات اٹھائے ہیں مثلاً کیا اسلامی مساوات اور سماجی عدل پر مبنی مدینہ اکنامکس کا نفاذ پاکستان میں ممکن ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سودی نظام سے باہر نہیں نکل پا رہا ہے ؟ اس سلسلے میں مصنف نےباب ١٣ میں ادھر تقریباً چار دہائیوں میں ہونے والی پیش رفت پر بڑی کارآمد بحث کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلم دنیا کی بینکاری نہ تو اپنے مالیاتی پروڈکٹس (financial products)کو سود سے پاک کر پائی ہے اور نہ ہی علمی سطح پر وہاں کے تعلیمی اداروں نیز مدارس میں کوئی خاطر خواہ تحقیق ہو پا رہی ہے۔ تو کیا مدینہ اکنامکس کا نفاذ اب بھی ایک بہت بڑا چیلنچ ہے ؟ یہ کتاب در حقیقت اسی طرح کےاہم سوالات کو اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہی ہے۔
اس کتاب کو لکھنے کے ابتدائی مرحلہ میں مصنف نے جہاں متعدد علمی شخصیات کا حوالہ دیا ہے وہیں ہندوستان کے ایچ عبدالرقیب، انڈین سنٹر فار اسلاک فائنانس، نئی دہلی کی مدینہ مارکیٹ کے متعلق ایک اہم تحریر کا بھی حوالہ دیا ہے۔ (سیرت نبی کا ایک گوشہ: مدینہ مارکیٹ، ترجمان القرآن، مارچ 2019) جو اس کتاب کو لکھنے میں محرک ثابت ہوئی۔
میرے خیال ہے اردو زبان میں اسلامی فائننس اور بینکاری کو سمجھنےکے لیے یہ ایک بہترین کتاب ہے اور ہندوستان میں خاص طور پر مدارس کے طلبہ وطالبات کے لیے اسلامی معاشیات اور سرمایہ کاری کے عالمی سطح پر ہونے والے جدید تجربات کے خد و خال کو سمجھنے کے لیے ایک اہم کتاب ثابت ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2022