مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند کی نئی تصنیف ’تجلیاتِ قرآن‘ حال میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔﴿صفحات:۵۶۰، قیمت: -/۳۰۰ روپے﴾ اس کی تقریب اجرا مرکز جماعت اسلامی ہند میں ۱۷/مارچ ۲۰۱۳ء کو منعقد ہوئی، جس میں متعدد نمایاں اصحابِ علم نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ یہ تحریر اسی موقع پر پڑھی گئی تھی۔ اسے افادۂ عام کے لیے زندگی نومیں شائع کیا جارہا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ ﴿م ۱۹۵۳ء﴾ کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ﴿م ۱۹۹۹ء﴾ نے ایک سے زائد مواقع پر اس قسم کے تاثر کا اظہار کیا ہے کہ ’’لوگ سید صاحب کو مؤرخ کی حیثیت سے جانتے ہیں، سیرت نگارکی حیثیت سے جانتے ہیں، متکلم کی حیثیت سے جانتے ہیں، لیکن ان کی اصل حیثیت ماہرِ قرآنیات کی ہے اور فہمِ قرآن میں ان کا پایہ بہت بلند تھا۔‘‘ یہی بات مولانا سید جلال الدین عمری ﴿پ ۱۹۳۵ء﴾ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ لوگ ان کو ماہرِ سماجیات کی حیثیت سے جانتے ہیں، انسانی حقوق اور خاص طورپر حقوقِ نسواں پر انھیں سند تسلیم کرتے ہیں، انھیں فقیہ مانتے ہیں ، لیکن زیرِ مطالعہ کتاب ’تجلیات قرآن‘ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ مولانا قرآنیات میں بھی گہری بصیرت کے حامل ہیں۔
علمی حلقوں میں مولانا سید جلال الدین عمری کا تعارف اسلامی نظامِ معاشرت اور اسلام میں حقوقِ نسواں پر ان کی وقیع تصانیف کے ذریعے ہوا ہے۔ اپنی تصنیفی زندگی کی ابتدا ہی سے انھیں اس موضوع سے خصوصی دل چسپی ہے۔ ان کی کتاب ’عورت- اسلامی معاشرہ میں‘‘ ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت سے اب تک ہندوپاک میں اس کے دودرجن سے زائد ایڈیشن منظرعام پر آئے ہیں۔اس موضوع پر ان کی دیگر تصانیف: ’مسلمان عورت کے حقوق اوران پر اعتراضات کاجائزہ‘، ’اسلام کا عائلی نظام‘، ’ عورت اور اسلام‘ اور ’مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں‘ کو بھی علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھاگیا ہے۔ دوسرا موضوع ، جس پر مولانا کا اہم کام ہے، وہ انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ ان کی تصانیف : ’اسلام- انسانی حقوق کا پاسبان‘، ’غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘، ’غیراسلامی ریاست اور مسلمان‘، ’کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں‘ اس موضوع پر ان کی ماہرانہ دست رس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ انھیں فقہ سے بھی شغف ہے۔ ان کی تصانیف میں فقہی موضوعات و مسائل پر بصیرت افروز تجزیہ و تبصرہ ملتا ہے۔ ان کے مستقل فقہی مقالات کا مجموعہ ’تحقیقات اسلامی کے فقہی مباحث‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ سماجی موضوعات پر ان کی تصنیفات ’صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات‘ ،’اسلام اور مشکلات حیات‘ اور ’اسلام میں خدمت خلق کا تصور‘ سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ دعوت کی اہمیت اور اصول وآداب پر ’اسلام کی دعوت‘ ، عقائداور کلامی مباحث پر ’خدا اور رسول کا تصور‘ اور’انسان اور اس کے مسائل‘ اور نظامِ اسلامی کی توضیح و تشریح میں ’معروف و منکر‘ شہرت رکھتی ہیں۔ دیگر موضوعات پر بھی مولانا کی متعدد اہم کتابیں ہیں، جن سے اسلام کا جامع اور ہمہ گیر تعارف ہوتا ہے۔ ان کتابوں کو علمی دنیا میں بڑی مقبولیت حاصل ہے، بہت سی ملکی اور غیرملکی زبانوں میں ان کے تراجم ہوچکے ہیں اور ان سے برابر استفادہ کیاجارہا ہے۔
مولانا عمری نے تمام تصانیف میں قرآن وسنت کو بنیاد بنایا ہے۔ وہ کسی بھی موضوع سے بحث کرتے ہوئے اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے کے لیے آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی سے استدلال کرتے ہیں۔زیرمطالعہ کتاب سے معلوم ہوتاہے کہ انھوںنے خالص قرآنی موضوعات پر بھی دادِتحقیق دی ہے۔
یہ مجموعہ پچیس ﴿۲۵﴾ مقالات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے سات ﴿۷﴾ مقالات ماہ نامہ زندگی رام پور/ زندگی نو نئی دہلی میں اور سترہ ﴿۱۷﴾ مقالات سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک مقالہ ﴿قرآن مجید کا اعجاز﴾ غیرمطبوعہ ہے۔ ان مقالات کا دورانیہ نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔ قدیم ترین مقالہ ﴿عقیدۂ توحید- تقاضے، فرد اور معاشرہ پر اس کے اثرات﴾ اپریل تا جولائی ۱۹۶۵ء میں شائع ہواتھا اور جدید ترین دو مقالات تحقیقات اسلامی جنوری- مارچ ۲۰۱۳ء ﴿قرآن مجید- ایک معجزہ﴾ اور زندگی نو مارچ ۲۰۱۳ء ﴿قرآن مجید کی اساسی تعلیمات- جن سے دنیا کا رخ بدل گیا﴾ میں شائع ہوئے ہیں۔
اس مجموعۂ مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلے حصے کا عنوان ’قرآنی مقالات‘ ہے۔ اس میں بارہ ﴿۱۲﴾ مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامین قرآن کی عظمت، آدابِ تلاوت، اعجاز، آفاقیت، اساسی تعلیمات اور دیگر مذاہب کے بارے میں اس کے نقطۂ نظر سے بحث کرتے ہیں۔ ایک مضمون میں احادیثِ نبوی کی روشنی میں تفصیل سے قرآن کی عظمت ، اس سے ربط و تعلق کی فضیلت، اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور اس سے استفادہ کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ اگلے چند مضامین میں قرآن کا تعارف کراتے ہوئے اس کے کتاب الٰہی ہونے کے دلائل کا ذکر کیاگیا ہے، اس کے مقصد نزول سے بحث کی گئی ہے اور اس سے استفادہ کا صحیح طریقہ بتایاگیا ہے۔ مصنف کے مطابق ضروری ہے کہ قرآن کا مطالعہ خالی الذہن ہوکر کیاجائے، ہر طرح کے فکرو خیال سے ذہن کو آزاد کرلیاجائے اور اس کے مطالعہ کا مقصد علمی موشگافیاں کرنا نہیں، بلکہ رہ نمائی حاصل کرنا ہو۔ قرآن کے صحیح فہم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عربی زبان سے ،جس میں وہ نازل ہوا ہے، واقفیت ہو۔ دو مضامین اعجازِ قرآن کے موضوع پر ہیں۔ ان میں قرآن کے ادبی اور معنوی اعجاز سے بحث کرتے ہوئے اعجاز اور تحدّی ﴿چیلنج﴾ کی نوعیت واضح کی گئی ہے۔ قرآن کی اساسی تعلیمات کے ضمن میں عقیدۂ توحید اور عقیدۂ آخرت پر تفصیل سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرد اور معاشرہ پر اس کے اثرات کو نمایاں کیاگیا ہے۔ قرآن میں گزشتہ اقوام کی تباہی کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔ ایک مضمون میں اس ’سُنَّۃ اللّٰہ‘ سے بحث کرتے ہوئے ان قوموں کی ہلاکت کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ موجودہ دور میں ’بین مذاہب مکالمہ‘ (Interfaith Dialogue) کابہت چرچا ہے۔ اس معاملہ میں احتیاط ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بات وحدتِ ادیان تک جاپہنچتی ہے۔ ایک مضمون میں واضح کیاگیا ہے کہ بغیر حدود وقیود متعین کیے مذاہب کے درمیان مکالمہ اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ قرآن نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے خطاب کیا ہے اور ان سے مجادلہ کی اجازت دیتے ہوئے حدود کی بھی نشان دہی کی ہے، جنھیں مکالمہ کے دوران پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ایک مضمون میں بیان کیاگیا ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کو بھی قبول اسلام کی دعوت دی ہے۔ ا س کے اسباب کیا ہیں؟
کتاب کا دوسرا حصہ، جس میں دس ﴿۱۰﴾ مضامین ہیں، ’قرآنی اصطلاحات‘ سے متعلّق ہے۔ اس میں چند اہم اصطلاحات کی توضیح وتشریح کی گئی ہے۔ وہ اصطلاحات یہ ہیں: حکمت ، تزکیہ، تقویٰ، ذکر،انابت الیٰ اللہ، دعوت الیٰ اللہ، شہادت علیٰ الناس اور اقامتِ دین۔ ایک مضمون کا عنوان ہے: ’قلب- خیروشر کا مرکز‘۔ اس میں قلب ﴿دل﴾ کے سلسلے میں قرآن کے مختلف بیانات کا مطالعہ پیش کیاگیا ہے اور تطہیرقلب کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ یہ اصطلاحات قرآن کریم میں بار بار آئی ہیں اور اس کی مجموعی تعلیمات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان سے قرآن کے مقصدِ نزول، بعثتِ انبیاء کی غرض و غایت، امتِ مسلمہ کے نصب العین اور اس کی اصلاح و تربیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ ان مقالات میں ان اصطلاحات کے معنی ومفہوم کی وضاحت کی گئی ہے، دین میں ان کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور ان کی وسعت وجامعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تیسرا حصہ تین ﴿۳﴾ مقالات پر مشتمل ہے۔ پہلے مقالہ میں قرآن مجید کے چند ماہر صحابہ کرام کا تذکرہ ہے۔ اس سے ان کی مختصر سوانح کے علاوہ قرآن کے ان سے شغف ، اس کے حفظ و فہم میں ان کے مقام اور ان کی عظمت پر روشنی پڑتی ہے۔ دوسرے مقالے میں مولانا حمیدالدین فراہیؒ ﴿م ۱۹۳۰﴾ کے طریقۂ تفسیر سے بحث کی گئی ہے اور نظمِ قرآن و ربطِ آیات، سورتوں کے عمود اور تفسیر القرآن بالقرآن کے سلسلے میں ان کے افکار کا مطالعہ پیش کیاگیا ہے۔ مولانا فراہیؒ کے بارے میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ انھوں نے تفسیر کے میدان میں سلف سے ہٹ کر منفرد منہج اختیار کیا ہے اور آیاتِ قرآنی کی جو تاویلات پیش کی ہیں، سلف سے ان کی تائید نہیں ہوتی، لیکن اس مضمون میں مولانا نے اپنا یہ نتیجۂ تحقیق پیش کیاہے کہ مولانا فراہیؒ کی تاویلات میں سے زیادہ تر کی تائید میں متقدمین کے اقوال میں سے کوئی نہ کوئی قول یا کسی نہ کسی مفسر کی رائے صراحتاً مل جاتی ہے۔ اس کی کئی مثالیں مقالہ میں دی گئی ہیں۔ تیسرا مقالہ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ ﴿م ۱۹۹۸ء﴾ کی تفسیر سورۃ البقرۃ بہ عنوان ’تیسیرالقرآن‘ کے مطالعہ و جائزہ پر ہے۔ مولانا عمری نے اسے فکرِ فراہی کے پہلی نمائندہ تفسیر قرار دیتے ہوئے لکھاہے کہ اس میں مولانا فراہیؒ کے افکاروخیالات کی ترجمانی کے ساتھ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ﴿م۱۹۷۹ئ﴾ کی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ سے بھرپور استفادہ کیاگیا ہے۔ اس بنا پر اس میں فکر فراہی اور فکرِ مودودی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ مقالہ میں اس تفسیر کے اسلوب اور مباحث کے ساتھ بعض تفردات کابھی جائزہ لیاگیا ہے اور ہر نکتہ کی متعدد مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
یہ مقالات، جو مجلّات میں شائع شدہ تھے، انھیں اس مجموعہ میں شامل کرتے وقت مولانا نے ان پر نظرثانی کی ہے اور حسب ِضرورت حذف و اضافہ کیا ہے۔ پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب قرآنیات کے میدان میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس کے مشتملات سے قرآن کریم کی اساسی تعلیمات پر روشنی پڑتی ہے، اس کی اہم اصطلاحات کی توضیح و تشریح ہوتی ہے اور تفسیر کے میدان میں موجودہ دور کی بعض کاوشوں کا تعارف حاصل ہوتا ہے۔ امید ہے، اس کتاب کا علمی حلقوں میں استقبال کیاجائے گا اور اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایاجائے گا۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2013