آج مسلمان آپسی اختلافات اور رنجشوں کا شکار ہیں، وہ اکثر ان مسائل کولے کر ایک دوسرے سے دوریاں بنا لیتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے، ایسے بیشتر مسائل بناوٹی ہوتے ہیں۔
ہم سب بہت اطمینان سے اختلاف کے آداب پر گفتگو کر تے ہیں اور اکثر بہت دل کش نظریات بھی پیش کردیتے ہیں، لیکن ہم میں سے بہت کم ان نظریات پر عمل کرپاتے ہیں، یہ نظریات ہماری باتوں سے آگے بڑھ کرہمارے برتاؤ میں کم ہی نظر آتے ہیں، بلکہ ہم اکثر دوسروں سے اختلاف کے وقت ان آداب کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ شاید اس کا راز یہ ہے کہ جب دوسرے ہم سے اختلاف کر رہے ہوں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ اختلاف کے آداب ملحوظ رکھیں، لیکن جب ہم دوسروں سے اختلاف کرتے ہیں تو خود کو ان آداب کا پابند نہیں رکھتے۔
ایسے ہی ایک صاحب ’اعلیٰ ذوق‘ کے عنوان پر لیکچر دے رہےتھے، سامعین میں سے کسی نے ان کے مزاج کے برخلاف ایک سوال کی پرچی بھیج دی، وہ اپنے لیکچر میں بیان کررہے ’اعلی ذوق‘ کو لمحوں میں فراموش کر بیٹھے اور کہنے لگے: کس گدھے نے یہ سوال لکھا ہے؟
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنے اسکولوں، جامعات، مدارس اور مساجد میں اختلاف کے آداب سکھائیں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کو یہ آداب اپنی عملی زندگیوں میں برتنے کی مشق کرائیں، تاکہ یہ آداب ان کی عادت اور عبادت بن جائیں اور یہ آداب اسی وقت عادت بن سکتے ہیں جب انھیں ان آداب کا اتنا زیادہ عادی بنا دیا جائے کہ وہ بلاتردد و تصنع، برجستہ ان پر عمل کرنے لگیں۔
اختلاف کے آداب اور ان کی اہمیت
ایک سربراہ کواختلاف کے آداب کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی ان رعایا کے حقوق کی حفاظت بھی کرسکے جو اس سے اختلاف کرتے ہیں، نبی ﷺ نے تومدینہ منورہ میں اپنے مخالف یہودیوں اور منافقوں کے حقوق کی بھی پاسداری کی۔ نبی ﷺ کا اپنے اصحاب کے معاملات میں صبر، حسن رعایت، تحمل، عدل و انصاف اور صاحب حق کو اس کا حق دلانے کی کوششوں کا کیا کہنا! اسی اعلی معیار کی پابندی آپ کے اصحابؓ نے کی۔ جس کا اعلی نمونہ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ایسے سخت حالات میں پیش فرمایا جب خوارج آپ سے عین اس معرکے کے وقت الگ ہوگئے جس کی وجہ سے تاریخ، خلافت اور فتح اسلامی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، آپ ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے وہ ہمارے بھائی ہیں جنھوں نے ہم سے بغاوت کرلی۔ آپ نے ان کے لیے ’کافر‘ و غیرہ القاب کا استعمال کرنے سے سختی سے منع فرمایا اور ان کے حقوق ادا کرتے رہے۔ ان کی سرکوبی کی کارروائی اس وقت کی جب انھوں نے ہتھیار اٹھالئے، راستوں کے لیے خطرہ بن گئے اور قتل و غارت گری کرنے لگے۔
ایک ٹیچر کو بھی اختلاف کے آداب کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ طلبہ کے حقوق کی پاسداری کرسکے اور ان کے درمیان برابری کا سلوک کرے۔ وہ ان کے سوالات، اشکالات اور اعتراضات پر خندہ پیشانی سے پیش آئے، وسیع قلبی کا مظاہرہ کرے، ان تربیت کرتے ہوئے ان کی خود مختاری کا لحاظ رکھے، انھیں اپنی شخصیت میں ضم ہونے پر مجبور نہ کرے، تاکہ وہ بے بصیرت مقلد بننے کے بجائے بلند کردار اور شریف النفس قائد بن سکیں۔
ایک باپ کو بھی اختلاف کے آداب کی ضرورت ہوتی ہےتاکہ اس کے اور اس کی اولاد کے دلوں میں محبت و ہم آہنگی بنی رہے اور وہ اختلاف کے وقت بھی اپنی اولاد کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرسکے۔ یہ ضروری نہیں کہ اولاد بالکل اپنے والدین ہی جیسی ہو، بلکہ بچوں کی سوچ اور ان کی فکر بالکل اسی طرح الگ نقوش رکھتے ہیں جس طرح ان کے ہاتھ، ان کی زبان، ان کی آنکھ، انگلیوں کے پَور یا ان کی آواز کے نقوش جداگانہ ہوتے ہیں۔
ہاں ! ہم اختلاف کے آداب پر گفتگو کرتے ہیں اور ہمیں ان پر گفتگو کرتے رہنا ہوگا، لیکن ساتھ ہی ہمیں کچھ اصول وضع کرنے ہوں گے جو ہمارے درمیان ہونے والے اختلافات کی نگہبانی کرسکیں کیوں کہ اختلافات کا سلسلہ تاحیات جاری رہے گا۔
ڈبیٹ اور بحث و مباحثے کے پلیٹ فارم
ہمارا یہ زمانہ کھلا ماحول رکھتا ہے، اس میں بے جا پابندیاں اور حدبندیاں اپنا اثر کھوچکیں اور بہت سی رکاوٹیں ختم ہوگئی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بشر بن مروان جسے وقتًا فوقتًا کسی بھی چیز کا وہم ہونے لگتا تھا، اسے یہ وہم ہوا کہ اس کا ’باز‘ شہر میں کھو گیا ہے، تو اس نے فوراً حکم دیا کہ فصیل شہر کے دروازے بن کردیے جائیں اور وہ یہ بھول گیا کہ ’باز‘ کھلے آسمان میں اْڑتا ہے!
آج ہم اسی کھلے آسمان کی وسعتوں میں جی رہے ہیں، اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور حکومتیں بھی سمجھ چکی ہے کہ پابندی لگانے، منع کرنے اور تنگ کرنے کے طریقے اب بے اثر ہوچکے ہیں اور اب صرف ایک ہی حل ہے، وہ یہ کہ اختلاف کا سامنا کیا جائے اور ایک دلیل کا دوسری دلیل سے مقابلہ کیا جائے۔
آج لوگوں کی محفلیں متضاد باتوں، رایوں اور موشگافیوں سے بھر پور ہوتی ہیں۔ ان میں ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جن کا انھیں علم ہوتا ہے اور وہ باتیں بھی ہوتی ہیں جن سے وہ بے خبر ہوتے ہیں۔ ان رایوں کو بھی وہ پیش کر تے ہیں جن کا انھیں شعور ہوتا ہے اور ایسی رائیں بھی پیش کررہے ہوتے ہیں جن کا انھیں شعور نہیں ہوتا۔ دوران گفتگو دوسروں کی توہین کرنا اب نامناسب سمجھا جاتا ہے، خواہ ان کے خیالات کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں، بلکہ ان کی باتوں کو سننا، انھیں اہمیت دینا اور سوچ سمجھ کر ان کا جواب دینا ضروری ہے۔ مرض اور دوا کے درمیان مطابقت جسم کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ علاج قبول کرے اور صحت یاب ہو سکے۔
انٹرنیٹ اور بحث و مباحثے کے بے شمار پلیٹ فارم ایک آئینہ ہیں جہاں بحث و مباحثے کے طریقہ کار میں پائے جانے والے گہرے عدم توازن کو دیکھا جاسکتا ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ ان چیزوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں جن میں مسلمانوں کے درمیان اور اہل علم و فن کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے، جب کہ ان متفق علیہ چیزوں کا دائرہ بہت وسیع ہے، لیکن اس کے باوجود، چاہے وہ دینی مسائل اور ان کا فہم ہو، یا مفادِ عامہ کے مسائل ہوں اور ان پر غور کرنا ہو۔ عام طور پر اکثر لوگ متفق علیہ چیزوں کو نظر انداز کرکے، مختلف فیہ مسائل میں الجھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان بحثوں اور مباحثوں میں منفی باتوں کی کثرت ہوتی ہے۔
ان میں اکثر درج ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں:
اگر تم میرے ساتھ نہیں تو میرے مخالف ہو
دوسرے لفظوں میں یا تو آپ کسی کے لیے سب کچھ ہیں یا کچھ بھی نہیں ہیں۔ محض اتنا معلوم ہوجانے پر کہ میرے اور تمھارے درمیان کوئی اختلاف یا سوچ کا کوئی فرق پایا جاتا ہے، لمحوں میں ایسی دوریاں بن جاتی ہیں گویا تعلقات پر تیز دھار دار تلوار چلادی گئی ہو، گرچہ وہ اختلاف جزوی یا بہت چھوٹے مسائل ہی میں کیوں نہ ہو۔ بجائے اس کے کہ ہمارے درمیان اس اختلاف کے باوجود گہری دوستی بنی رہے، ہم ایک دوسرے کے سخت دشمن بن جاتے ہیں۔
خلط مبحث او ر ذاتیات پر گفتگو
اکثر مباحثے ایک خاص موضوع، آئیڈیالوجی یا مسئلے سے شروع ہوتے ہیں لیکن جلد ہی افراد کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے، ایک دوسرے کی شخصیت کومجروح کرنے، نیتوں پر انگلی اُٹھانے، ایک دوسرے کے ماضی سے گڑے مردے اکھاڑنےمیں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بحثوں کے یہ میدان تہمتوں اورملامتوں کے سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں، جن میں غیر مصدقہ الزام تراشیوں کا غلبہ ہوتا ہے۔
بحث ومباحثے میں نامناسب زبان کا استعمال
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بحث و مباحثے شائستہ زبان کے بجائے، چیخ پکار اور گالم گلوج میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور جیسا کہ علمائے کرام کہتے ہیں: اگر مباحثے میں چیخ پکار کرنے، اونچی آواز میں بات کرنے اور گالم گلوج کرنے سے کام یابی ملتی تو ایسی کام یابی کے زیادہ حق دار جاہل افراد ہوتے، جب کہ سنجیدہ مباحثوں میں دلائل، منطق اور شائستہ لہجے سے گفتگو ہوتی ہے۔ مشہور کہاوت ہے: خالی برتن، بھرے برتن سے زیادہ آواز کرتے ہیں۔
الفاظ کے تیروں کی بوچھار
ہم اس وہم میں رہتے ہیں کہ پُر زور لفاظی کے سہارے ہم اپنے مخالفین سے جیت جاتے ہیں۔ اسی خوش فہمی میں ہم اپنے معاشرے کی اصلاح و تربیت کرتے وقت بھی یہی اندازِ گفتگو اختیار کرتے ہیں۔ آج جب کوئی کہتا ہے: فلاں صاحب نے کیا بہترین مقالہ لکھا ہے! تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مقالے میں گہرائی ہوگی، صاحب قلم نے تحریر کا حق ادا کیا ہوگا، کوئی مفید بات پیش کی ہوگی اور ایک بہترین نتیجے تک پہنچا یا ہوگا یا موضوع کے اہم پہلوؤں کو مقالے میں سمیٹا ہوگا، بلکہ زیادہ تر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقالے میں ببانگ دہل مخالفین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ بہت سے لوگ اسی انداز کو مقالے کی قوت کا راز سمجھتے ہیں۔
خود کو ممتاز اور یکتائے روزگار سمجھنا
اس سے ہماری مراد وہ رویہ ہے جسے فرعون نے اختیار کیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں فرعون نے کہا تھا: میں تو تمھیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمھیں بھلائی کی راه ہی بتلا رہا ہوں “ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِیكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِیكُمْ إِلَّا سَبِیلَ الرَّشَادِ” [سورة المومن 29]
اس رویے میں فرد اپنی رائے اور اپنے نقطہ نظر ہی کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے، جب کہ اس کی پشت پر نہ قرآن کی کوئی آیت ہوتی ہے، نہ احادیث کا کوئی حوالہ ہوتا ہے اور نہ وہ بات اجماع سے ثابت ہوتی ہے، بلکہ دلیل ومنطق سے عاری محض اس کی ایک رائے ہوتی ہےجس کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ حق اسی میں ہے۔ اسے کچھ اندھے مقلد بھی مل جاتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگوں کی انا پسندی کا حال یہ ہوتا ہے کہ “ میری بات حق ہے، اس میں کسی خطا کی گنجائش نہیں اور میرے علاوہ کی بات غلط ہے، اس میں کوئی حق ہو ہی نہیں سکتا۔”
سہل پسندی بھی ایک مرض ہے
وه مباحث جنھیں ہم سمجھ نہیں پاتےیا جن کا سمجھنا ہمارے لیے دشوار ہوتا ہے یا جنھیں سمجھنے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے، ہم انھیں فوراً غلط، حق کے خلاف اور سنت کے منافی کہہ دیتے ہیں، جب کہ آسان اورمختصر مباحث ہمیں حق اور سچ لگتے ہیں، انھیں ہم قرآن و سنت کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔
یہ وہ مغالطے ہیں جن کا مشاہدہ آپ سوشل میڈیا پر کرتے ہیں، جہاں نہ جانے کتنے ڈبیٹ پلیٹ فارم چلائے جا رہے ہیں، جن پرتمام مذاہب، تمام ممالک اور تمام افکار کے حاملین باہم دست وگریباں ہیں۔ انھیں بحث کے دوران آپے سے باہر، غصے سے لال پیلا ہوتے دیکھا جاتا ہے، درج ذیل فقروں کا تجربہ تو مجھے خود ہوا ہے:
فلاں شخص کی اللہ اور اس کےنیک بندوں کے یہاں کوئی عزت نہیں۔
فلاں کو اللہ کے یہاں کوئی اجر نہیں ملنے والا۔
فلاں شخص کی اہل توحید کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔
فلاں شخص مرگیا؛ وہ جہنم میں جائے گا اور اس کا ٹھکانا بہت بُرا ہے۔
فلاں شخص بد عقیدہ ہے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالے ہوئے ہے۔
فلاں شخص کافر ہے۔
فلاں شخص منافقین میں سے ہے۔
گویا کہنے والے نے حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے پوچھا ہو بلکہ حضرت جبریل امینؑ سے معلوم کیا ہو !!
ایسے لوگوں کو اپنے بارے میں غرہ ہو تا ہے کہ وہ اللہ کے مخلص بندوں میں سے ہیں، وہ خدا کے دین کے لیے سب سے زیادہ غیرت مند اور اللہ کے بندوں کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں۔
ایسے مباحثے سے کس خیر کی امید کی جاسکتی ہے جس میں ہر فریق یہ سمجھتا ہو کہ وہ یقینی طور پر تنہا مکمل حق پر ہے اور اس کا مدّمقابل مکمل خطا پر ہے؟!
بحث و مباحثے میں اگر فردکو خود پر قابوہو، دل میں اطمینان ہو، گفتگوپرسکون ہو، عبارتیں شائستہ اور دلائل مضبوط ہوں، تو یہ خوبیاں اس کے تئیں دلوں میں جھکاؤ پیدا کردیتی ہیں اور وہ جس حق کا علم بردار ہوتا ہے، دوسرے اس کے گِرویدہ ہوجاتے ہیں اور حق ان کے باطل پر غالب آجاتا ہے۔
آج ہم خلقِ خدا کے درمیان مذاق بن کر رہ گئے ہیں، خاص کر دور حاضر میں، جب دنیا ایک چھوٹے قصبے کی طرح، بلکہ ایک کمرے کی طرح ہوگئی ہے، جس میں ہر شخص اپنے سے کوسوں دور کے فرد کوآسانی سے سن لیتا ہے۔
ہمارے درمیان اکثر ان مسائل کو لے کر لاحاصل، گرماگرم بحثیں چھڑ جاتی ہیں جو نہ آگے بڑھتی ہیں، نہ رُکتی ہیں، نہ ان سے کوئی نتیجہ نکلتا ہے، نہ کوئی فیصلہ ہوپاتا ہے، نہ ان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے، نہ ان سے دنیا آباد ہوتی اور نہ آخرت ہی سنورتی ہے۔ بلکہ ہمارے قریب اور دور کے مخالفین اور دشمن ان جھگڑوں کو سن رہے اور دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ دل میں ہم سے کہتے ہیں: جس دین کی تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اور جو افکار و آرا تم ہمارے سامنے پیش کررہے ہو، پہلے تم خود اس پر آپس میں اتفاق کرلو، پھر آنا ہمیں دعوت دینے۔
کیا اختلاف کرنا ایک برائی ہے؟
اختلاف کرنا اپنے آپ میں کوئی برائی نہیں ہے۔
حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔
حضرت موسیؑ و حضرت خضر ؑمیں اختلاف ہوا۔
حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیهما السلام میں اختلاف ہوا۔
صحابہ کرامؓ نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا بلکہ کبار صحابہؓ میں اختلاف ہوا۔
حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ میں اختلاف ہوا۔
حضرت ابن عباسؓ اور حضرت معاویہؓ میں اختلاف ہوا۔
ان کے بعد حضرات ائمہ کے درمیان اختلاف ہوا۔
دراصل اختلاف میں بے شمار رحمتیں پوشیدہ ہیں، لیکن خرابی اور پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب اختلاف کے پیچھے کوئی لالچ یا مفاد ہو، یا غیر شرعی طریقے سے اس اختلاف سے نمٹا جائے۔ ایسی صورت میں اختلاف مؤمنین کے درمیان انتشار، کشیدگی اور گروہ بندی کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی لیے اختلاف کے آداب کی تعلیم بہت ضروری ہے۔
اختلاف کے آداب
اختلاف كرنے والوں کی تحقیر نہیں کی جائے گی
جس سے آپ اختلاف کر رہے ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ آپ ایمان میں اس سے زیادہ پختہ ہوں یا اس سے زیادہ صاحب علم ہوں یا اس سے زیادہ معاملہ فہم ہوں۔ یحیی بن سعیدؒ کہتے ہیں: لوگ فتویٰ مانگتے ہیں تو انھیں فتویٰ ملتا ہے کہ یہ حرام ہے اور یہ حلال ہے، اس لیے جسے حرام کا فتویٰ ملتا ہے اسے یقین نہیں آتا کہ بیچی گئی چیز ضائع ہوگئی۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: امام اسحاق سے افضل شخص پُل عبور کرکے ہم تک نہیں آیا، گر چہ کچھ چیزوں میں ہم ان سے اختلاف کرتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔
کسی کا فہم اور اس کا استنباط وحی کا درجہ نہیں رکھتا۔ نہ ہی فقہی مدارس اور تحریکی مکاتب فکر اسلام ہیں، ہاں وہ اسلام سے تعلق ضرور رکھتے ہیں اور ا س کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
میں نے کئی مرتبہ اجتہادی مسائل میں اپنا خیال پیش کرنے والے کو کہتے سنا: میں خود سے یہ بات نہیں کہہ رہا ہوں، میں اپنی رائے نہیں پیش کر رہا ہوں بلکہ یہ اللہ کا طریقہ ہے، یہ اللہ کا حکم ہے، سبحان اللہ! گویا دوسرے لوگ تورات اور انجیل سے احکام اخذ کر رہے ہیں یا دانیال سے پہلے کی منسوخ آسمانی کتابوں سے اخذ کر رہے ہیں! درحقیقت تمام ائمہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی احادیث سے استنباط کرتے ہیں، لیکن نصوص کے مطالب میں ایک سے زائد اجتہاد، ایک سے زائد احتمال اور ایک سے زائد رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔
ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ایسے مسائل جن کے متعلق کوئی نص موجود نہ ہو بلکہ اجتہاد کی بِنا پر کوئی رائے قائم کی جائے تو ایسی رایوں کے حوالے سے یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ نے یہ حرام کیا اور فرض کیا یا یہ اللہ کا حکم ہے۔
ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: بہت سے لوگ اپنی باتوں کو شریعت کی طرف منسوب کرکے بیان کرتے ہیں، ایسا وہ لاعلمی کی وجہ سےیا غلطی کی بنا پر یا جان بوجھ کر اور افترا پردازی میں کہتے ہیں۔
عباسی خلیفہ منصور نے امام مدینہ حضرت مالک بن انسؒ کے سامنے اپنی خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کی کتاب ’مؤطا‘ کو ہر جگہ بھیجے گا اور اس کتاب سے احکام اخذ کرنے اور اسی کے مطابق عمل کرنے کو لازم کردے گا تو امام مالکؒ نے اسے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ یہ ایک عظیم اما م کی اعلی ظرفی اور تقویٰ تھا کیوں کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر انھیں موقع مل جائے کہ وہ حاکم وقت کو اپنا ہم خیال بنا کر اپنے فریق مخالف پر طاقت حاصل کرسکیں تو وہ ایسا موقع بالکل نہیں چھوڑتے۔
زمانہ قدیم اور اس دور جدید میں ایسا اکثر ہوتا رہا ہےکہ مختلف فقہی مسالک سے وابستہ افراد اوردیگر افکار کے حاملین نے حاکم وقت کی مدد سے اپنے حریفوں اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا اور انھیں کنارے لگایا اور تکلیفیں پہنچائیں۔
عدل کا دامن چھوٹنے نہ پائے
امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمار ؓ نے فرمایا: “ جس شخص میں یہ تین خوبیاں جمع ہوجائیں، اس کا ایمان مکمل ہوگیا: اپنے آپ سے انصاف کرے، لوگوں کے درمیان سلام کو رواج دے اور تنگی میں بھی خیر کے کاموں پر خرچ کرے۔” (بخاری)
عدل ایک حسین قدر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں، (ا گر میں اس کی جگہ ہوتا، یا مجھ سے ایسا ہوگیا ہوتا تو میری خود کے بارے میں کیا رائے ہوتی اور میں لوگوں سے اپنے تئیں کس اچھے رویے کی امید کر رہا ہوتا)
عدل ایک اہم ضرورت ہے اور اس کے کچھ اصول ہیں، جن میں سے چند کا ہم ذکر کریں گے:
جو چیز محکم دلائل سے ثابت ہو وہ محکم دلائل ہی سے رد ہوگی
جس شخص کا مسلم ہونا ثابت ہوجائے اس کے اسلام کا انکار نہیں کیا جائے گا اور نہ اس پر کفر کا فتوی ٰ دیا جائےگا جب تک کہ پورےطور پر اس کا کافر ہونا ثابت نہ ہوجائے اور اسی طرح سنت کا معاملہ بھی ہے کسی کے بارے میں انکار حدیث کا فتوی نہیں دیا جائے گا جب تک کہ واضح دلائل سے ثابت نہ ہوجائے، بالکل ا سی طرح کسی شخص کے متعلق کوئی چیز دلائل سے معلوم ہوجائے تو پختہ دلائل ہی کی بنیاد پر اس سے متعلق کچھ کہنے کا جواز ہوگا۔
(ایک روایت پر عمل کی وجہ سے دوسری روایت چھوڑ دے یا کسی روایت کی صحت پر تحقیق کی بنیاد پر اس پر عمل نہ کرے تو وہ انکار حدیث نہیں)
غلطی سے کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنا، غلطی سے کسی کے کفر کا فیصلہ کرنےسے زیادہ آسان ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ظاہری احوال کی بنیاد پر آپ نے کسی کے اسلام کا فیصلہ کردیا، گرچہ وہ حقیقت میں منافق ہی کیوں نہ ہو، یہ اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ آپ جلد بازی کریں اور کسی کے متعلق کفر کا فتوی ٰ دے دیں، جب کہ وہ کافر نہ ہو، اگر ایسا کسی نے کیا تو اس کے سر اس سخت وعید کا وبال ہوگا: “ جس شخص نے کسی کو کافر کہا، یا اللہ کا دشمن کہا جب کہ وہ ایسا نہ ہو تو اس کی یہ تہمت اسی پر عائد ہوگی” (مسلم)۔۔ (یعنی کہ جس نام یا صفت سے اس نے دوسرے کو پکارا تھا وہ نام یا صفت اسی کے لیے ہوجائے گی)۔
اجتہاد طلب مسائل میں اجتہاد پر نکیر نہیں کی جائے گی
جیسا کہ ابن تیمیہؒ نے واضح کیا اوریہی اہل سنت کا طریقہ ہے۔ علمائے کرام اس شخص کو گنہگار نہیں سمجھتے تھے جو فروعی اور اصولی ہر طرح کے مسائل میں اجتہاد کرتا ہو، کیوں کہ ایسا شخص جو اللہ کی مرضی کو جاننے کے لیے اپنی پوری کوشش کرے اور وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہو، تو ایسا شخص اپنے اجتہاد کی وجہ سے گنہگار نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ اسے ایک اجر یا دوگنا اجر ملے گا، ( اگر اجتہاد صحیح ہوا تو مجتہد کو دوگنا ثواب، ایک اجتہاد کرنے کا اور دوسرا صحیح نتیجے تک پہنچنے کا اور اگر اس کا اجتہاد غلط ہوا تب بھی اسے اجتہاد کرنے کا ثواب ملے گا) کیوں کہ اجتہاد طلب مسائل میں اجتہاد کرنا، گناہ کا سبب نہیں بنتا اور ایسے شخص سے مسلمانوں کو متنفر نہیں کیا جانا چاہے۔
کسی متعین شخص کی تکفیر اور لعن طعن سے اجتناب
گرچہ وہ اس گروہ میں سے ہی کیوں نہ ہو جس پر ’ کفر‘ کی صفت صادق آتی ہو۔ امام احمد بن حنبلؒ فرقہ ’جہمیہ‘ اور قرآن کو مخلوق کہنے والے کے بارے میں کفر کا فتویٰ دیتے تھے لیکن آپؒ نے کبھی کسی خاص متعین شخص کو کافر نہیں کہا، نہ خلیفہ مامون رشید کو جس نے آپ پر ظلم کیے اور نہ ہی کسی اورکو، بلکہ آپؒ اس کے حق میں دعا کرتے اور اس کے لیے مغفرت کے طالب رہتے۔اسی طرح مامون کے ظالمانہ برتاؤ سے آپؒ نے درگذر فرمایا۔
ظاہر کو پیش نظر رکھا، جائے باطن کا علم تو اللہ کو ہے
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا “ میں نے نہ دلوں میں جھانکنے کا حکم دیا، نہ سینو ں کو شق کرنے کا حکم دیا” (بخاری)
علمائے اسلام پر کفر کا فتوی لگانا سنگین ترین جرم ہے
اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی مسلم عالم دین کے خلاف صرف اس کی کسی غلطی کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا، بلکہ عام مسلمانوں میں سے بھی کسی پر صرف غلطی کے سرزد ہوجانے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا۔ امام ابن رجبؒ نے فرمایا: اکثر علما سے چھوٹے چھوٹے مسائل میں غلطی ہوئی ہے، لیکن اس سے نہ ان کی امامت پر اور نہ ان کے علم پر کوئی حرف آتا ہے، تو پھر ان کی اس خطا کو کیا سمجھا جائے؟ ان کی یہ غلطیاں ان کے علم کے سمندر میں غرق ہوگئیں، ان کے نیک مقاصد اور ان کی دین کی سرفرازی کی جدوجہد نے ان خطاؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ ان کی ان لغزشوں کو کریدنے میں منہمک ہوجانا، ناپسندیدہ اور معیوب عمل ہے، خاص کر ان لاحاصل مسائل میں جن میں کی گئی غلطی سے نہ کوئی نقصان پہنچتا ہو اور نہ ان کے انکشاف سے کوئی فائدہ ہوتا ہو۔
تعجب ہوتا ہے کہ اکثر لوگ شراب پینے یا برہنہ تصاویر دیکھنے جیسے حرام کاموں سے بچتے ہیں لیکن اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتے، وہ زندہ اور مردہ انسانوں کی عزتیں تاتار کرنے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ انھیں اپنی زبان سے نکل رہے جملوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
اسی لیے علمائے کرام نے یہ فیصلہ کیا کہ علما کی ایک دوسرے سے متعلق زبان درازیوں کو خاطر میں نہ لایا جائے، خاص کر اگر ان کی باتوں میں عداوت یا مسلک پرستی یا حسد کی بو آرہی ہو، اس مرض میں تقریباً سب ہی مبتلا ہیں، سوائے اس کے جسے اللہ نے محفوظ رکھا۔
امام ذہبیؒ کہتے ہیں: انبیا اور صادقین کے علاوہ میں ایسا کوئی دور نہیں جانتا جس میں لوگ آپسی عداوت، مسلکی تعصب اور حسد جیسے مرض سے محفوظ رہ سکے ہوں، چاہو تو میں اس کی داستانیں سنا دوں۔
ایک موقع سے امام احمد بن حنبلؒ نے بعض طلبہ سے پوچھا: تم کہاں سے آرہے ہو؟
انھوں نے جواب دیا: ہم ابو کریبؒ کے پاس سے آرہے ہیں۔ یہ ابو کریبؒ، امام احمدؒ کی توہین کیا کرتے تھے اور کچھ مسائل میں ان پر شدید نقد کرتے تھے۔
امام احمدؒ نے طلبہ کا جواب سن کر فرمایا: کیا ہی نیک شخص ہیں، ان سے استفادہ کرو اور ان سے علم حاصل کیا کرو۔
طلبہ نے کہا: وہ آپ کی بے عزتی کرتے ہیں اور آپ کے بارے میں نا مناسب بات کہتے ہیں۔
آپؒ نے کہا: ان کے لیے میں کیا عذر دو ں؟ وہ ایسے شخص ہیں جو میرے متعلق آزمائش میں ڈالے گئے۔
اعمشؒ روایت کرتے ہیں کہ زر بن حبیشؒ حضرت علی بن ابی طالبؓ کی طرف زیادہ جھُکاؤ رکھتے تھے جب کہ ابو وائلؒ حضرت عثمانؓ کی جانب، آپسی اختلاف کے باوجود ان کے درمیان بے انتہا محبت و شناسائی تھی، ان دونوں نے تا حیات کبھی ایک دوسرے کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا، احترام کا اس قدر پاس و لحاظ تھا کہ حضرت ابو وائلؒ حضرت زرؒ کی مجلس میں کبھی بات نہیں کرتے کیوں حضرت زرؒ ان سے عمر میں بڑھے تھے۔
امام ذہبی، کتاب ’المحلی‘ کے مصنف اور ظاہریہ کے قدآور امام ابو محمد بن حزم کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں: چوں کہ ابو محمد بن حزم صحیح احادیث کے جانکار اور علم حدیث سے محبت کرنے والے ہیں اس لیے میں ان سے الفت رکھتا ہوں، گرچہ راویوں کے بارے میں ان کی بہت سی آرا میں ان سے اختلاف کرتا ہوں اور ان کی خطا کا رد کرتا ہوں لیکن میں انھیں گم راہ یا کافر کہنے کی جسارت نہیں کرتا بلکہ ان کے گہرے علم و بے پناہ ذہانت کو تسلیم کرتا ہوں اور مسلمانوں کے لیے اور ان کے لیے عفو درگذر اور رواداری کا متمنی رہتا ہوں۔
عدل کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے مخالف کی اچھائی اور اس کی درست آراکو تسلیم کریں گرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو بلکہ وہ صاحب بدعت یا کافر ہی کیوں نہ ہو۔
امام ابن تیمیہؒ نے اہل سنت میں سے ان بعض علما کی مذمت کی ہے جو فلاسفہ اور متکلمین سےاپنی نفرت و نا پسندیدگی کی وجہ سے ان کی درست باتوں سے اتفاق کرنے سے گریز کرتے ہیں یا آل بیت کے بعض فضائل تسلیم کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: رافضی ہی نہیں بلکہ کوئی یہودی یا مسیحی بھی اگر ایسی بات کہے جس میں حق ہو، تو نہ ہم اسے چھوڑیں گے اور نہ اس کا یکسر انکار کریں گے بلکہ اس میں ہم صرف اس غلطی یا غلط بیانی پر نکیر کریں گے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔
نرمی اور شائستگی سے پیش آنا
قرآن مجید نے بہترین اصول دیا: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَینَكَ وَبَینَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِی حَمِیم (اورنیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے) [سورة فصلت، آیت 34]
پیارے نبی ﷺ نے اس حکم پر عمل کرکے دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنالیا اور ان کے دلوں میں بسی نفرت، عداوت اور سنگدلی کا ایسا علاج فرمایا کہ وہ نرم پڑ گئے، نور ہدایت سے مستفید ہوئے اور حق کی راہ اپنا لی۔ یہ حقیقت ہے کہ اچھی بات، سچی مسکراہٹ اور دوسروں کے ساتھ قول و فعل کے ذریعے کیے جانے والا مثالی رویہ، دشمنی ختم کرنے اور دلوں کو جوڑنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
پارٹی، گروہ ،نظیم ،بزرگ ، منہج یامسلک کے تئیں تعصب نہ ہو
کہا جاتا ہے کہ: ( کسی سے تمھاری محبت، اس کے تئیں، تمھیں اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے)۔ یقینًا متعصب شخص قوت بینائی سے اس طرح محروم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی پستی کے سبب وادی کی بلندی کو جان نہیں پاتا اور نہ صحیح و غلط میں تمیز کر پاتا ہے، کبھی کبھار متعصب شخص جس قدر محبت کررہا ہوتا ہے اسی قدر دشمنی پر اُ تر آتا ہے، حضرت علی بن ابی طالبؓ کا قول ہے، (اس قول کو حدیث رسول بھی بتایا جاتا ہے لیکن زیادہ راجح ہے کہ یہ حضرت علیؓ کا قول ہے) “ أحبب حبیبك هونا ما عسی أن یكون بغیضك یوما ما وأبغض بغیضك هونا ما عسی أن یكون حبیك یوما ما” (ترجمه: اپنے پسندیدہ شخص کو ایک حد میں چاہو، ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دن تمھارا دشمن بن جائے اور اپنے ناپسندیدہ شخص کو ایک حد تک ہی ناپسند کرو ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دن تمھارا محبوب بن جائے) (ترمذی)
زیادہ تر کسی کے معاملے میں مبالغہ آرائی یا تعصب لوگوں کو اس شخص سے دور کردیتا ہے اور اس کے تئیں نفرت پروان چڑھتی ہے، درحقیقت لوگ اپنے مدّاحوں اور ناقدوں، دونوں ہی کے ذریعے آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔
امام محمد بن یحیی نیسابوریؒ، امام احمد بن حنبلؒ کے انتقال پر اس قدر افسردہ ہوئے کہ کہنے لگے: بغداد کے ہر گھر پر واجب ہے کہ وہ امام احمدؒ کے انتقال پر نوحہ کرے۔ آپ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ امام ابن یحییؒ غم کی شدّت میں ایسا کہہ گئے نہ کہ شریعت کی زبان میں۔ شریعت تو نوحہ کرنے سے منع کرتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شہر خراسان کے لوگ گمان کرتے تھے کہ امام احمد بن حنبلؒ انسان نہیں بلکہ فرشتوں میں سے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جن کا یہ کہنا تھا کہ: ہمارے نزدیک امام احمدؒ کو صرف دیکھ لینا ہی ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: یہ سب غلو ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
امام احمدؒ سیدھے سادھے شخص تھے، تکلفات سے بہت دور رہتے، لیکن مذکورہ بالا قسم کے اقوال غم و حسرت کے نتیجے میں لوگ کہہ گئے، بہر حال یہ باتیں وقتی نوعیت کی تھیں ان سے اجتناب کرنا، ان کی تردید کرنا اور ان کا انکار کرنا ضروری ہے جیسا کہ امام ذہبیؒ اور دیگر ائمہ نے کیا۔
محمد بن مصعب نے کہا: وہ کوڑا جس سے امام احمدؒ کو مارا گیا بشر الحافی کی پوری زندگی سے زیادہ افضل ہے۔ ان کے اس قول پر امام ذہبیؒ نے فرمایا: امام احمد کی طرح بشر الحافی کا بھی بلند رتبہ ہے اور ہم اعمال کے وزن کو نہیں جانتے، اس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے اور وہی بہتر جانتا ہے۔
انٹرنیٹ پر مجھے ایک مکتوب ملا جس میں تھا: ابن بازؒ ہی الجماعت ہیں اور تم چاہو تو البانیؒ کے بارے میں بھی ایسا کہہ سکتے ہو۔ ہم مکمل احترام کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ابن بازؒ مسلمانوں کے ائمہ میں سے تھے اور اپنے وقت میں وہ علما کے پیشوا تھے، ہم ان سے محبت پر اللہ کو گواہ بناتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ میں نے انھیں ایک دن کہتے سنا –وہ اپنی بات میں سچے تھے- بخدا جب سے میں نے ہوش سنبھالا اس دن سے آج تک کوئی ایسا کام مجھے یاد نہیں آتا جسے میں نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی خوشنودی کی طلب میں کیا ہو۔ یہ ان کے اخلاص اور پاسداری کا اعلی نمونہ ہے۔ آج کے زمانے میں عام لوگو ں کے درمیان تو دور ہمارے علما کے درمیان بھی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
لیکن اس کے باوجود، ایک فرد کی ذات میں پوری امت کو محدود کردینا انصاف نہیں ہوگا، چاہے وہ ابن بازؒ ہوں، البانیؒ ہوں یا ابن عثیمینؒ ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بہت زیادہ خیر کا حامل بنایا اور مختلف صلاحیتوں، متعدد خوبیوں کے حامل افراد اور مختلف علوم کے ماہرین کو اس امت میں پیدا کیا۔ اس لیے کسی ایک فرد کو مکمل جماعت کا درجہ دے دینا اور ہر حال میں اس کی اتباع سب پر لازمی قرار دینا، ان علمائے عظام کے پیمانوں کے مطابق بھی قابل قبول نہیں۔
ایک صاحب ابن جوزیؒ کا تذکرہ کررہے تھے اور ان کی غلطیاں اور عیب گنا رہے تھے، اپنے دعوے کی تائید میں وہ کہنے لگے: میں نے کسی صاحب علم و عقل اور کسی دیندار کو ابن جوزی سے بہتر نہیں پایا۔ امام ذہبیؒ ان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر اللہ ابن جوزیؒ سے راضی ہو تو ان لوگوں کی باتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2024