مقاصد ِ شریعت :ایک مطالعہ

اسلام کی نگاہ میں انسانی زندگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ کی رضا کا حصول ہوجائے اور اس کے نتیجے میں انسان حسنات دنیا اور حسنات آخرت سے فیض یاب ہوسکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ معلوم ہوکہ اللہ کی رضا کے لیے کیسی فکر، کیسا جذبہ اور کیا عمل درکار ہے۔ عقیدے کی درستی،جذبات و احساسات کی ہدایت اور ان کے نتیجے میں اعمال صالحہ کی سعی وجہد انسان سے مطلوب ہے۔جہاں تک فکری رہنمائی کا تعلق ہے ،جس کے تحت عقیدے اور جذبات و احساسات آجاتے ہیں، اس کا وافر انتظام اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں موجود ہے۔ در اصل انسان کی فکر ی ہدایت کا مکمل خزینہ کتاب وسنت میں موجود ہے۔ کتاب و سنت کی طرف اخلاص کے ساتھ رجوع کرنے کے علاوہ اپنی تمام فکری رہنمائی یعنی ہدایت کے لیے انسان کو کچھ اور سعی کرنے کی حاجت نہیں ہے۔جہاں تک زندگی کے عملی مسائل کا تعلق ہے ، کتاب و سنت میں اس کے لیے ضروری ہدایات فراہم کردی گئی ہیں، جن کی بنیاد پر انسان قیامت تک آنے والے تمام مسائل کا حل تلاش کرسکتا ہے۔

سیدنا محمد مصطفےٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانشیں کے طور پر جو امت برپا کی، اس کے علما نے زندگی کے گوناگوں مسائل کے جوابات تلاش کرنے میں غیر معمولی محنت اور مشقت برداشت کی ہے اور ہر دورنے اور زمین کے تمام خطے میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگی کے عملی مسائل کے حل کے لیے ان احکام کو تلاش کیا ہے، جو منشاے الٰہی کے مطابق ہوں اور رضاے الٰہی پر منتج ہوں۔ احکام کے اس مجموعے کو ’’ فقہ‘‘ کے نام سے موسو م کیا گیاہے۔

عملی زندگی کے احکام کو شریعت کی روشنی میں تلاش و جستجو کی دلیل کے طور پر قرآن کریم کی جن آیات اور احادیث مبارکہ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے،ان میں وہ گفتگو بھی ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کی تھی۔ جب حضرت معاذ ؓ  یمن جارہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ وہ یمن میں شریعت کے احکام کیسے معلوم کریں گے؟ صحابی رسولﷺ  نے جواب دیا:

اَقْضِی بِکِتَابِ اللّٰہِ ﴿اللہ کی کتاب سے اخذ کروں گا﴾

آپﷺ  نے دریافت کیا: فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ ﴿اگر کتاب اللہ میں نہ ملے﴾

حضرت معاذؓ  نے جواب دیا: فَبِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﴿اللہ کے رسولﷺ  کے سنت میں﴾

آپ ﷺ  نے پھر سوال کیا: فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ فِی سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَلاَ فِی کِتَابِ اللّٰہِ ﴿اگر اللہ کے رسولﷺ  کی سنت اور اللہ کی کتاب میں بھی نہ ملے﴾

حضرت معاذؓ  نے جواب دیا: اَجْتَہِدُ بِرَأْیِيْ وَلاَ آلُو ﴿اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا﴾

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ حضور ﷺ  کے سوال میں یہ نہیں تھا کہ وہ حکم قرآن یا حدیث میں نہ ہو بلکہ فان لم تجد کا مفہوم یہ ہے کہ تم اسے وہاں نہ پاؤ۔ کسی چیز کا موجود نہ ہونا الگ بات ہے اور کسی چیز کو نہ پانا بالکل دوسری چیز ہے۔

درج بالا حدیث کی روشنی میں حکم شرعی تلاش کرنے یعنی کسی معاملہ میں منشاے الٰہی کو معلوم کرنے کا طریقہ اور اس کی ترتیب درج ذیل قرار پاتی ہے:

﴿۱﴾ اللہ کی کتاب میں تلاش کرنا﴿ ۲﴾ اللہ کے رسولﷺ  کی سنت میں تلاش کرنا

﴿۳﴾ اجتہاد کرنا

درج بالا حدیث سے اجتہاد کے سلسلے میں ایک شرط نوٹ کرنے کی ہے کہ یہ عمل انتہائی درجہ کوشش کرنے کا متقاضی ہے۔ حضرت معاذؓ  کے جواب میں ولا آلو ہے ، یعنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اس کام میں انتہائی درجہ کوشش امت مسلمہ کے مخلصین ہی کرسکتے ہیں اور اس کے لیے قرآن وسنت سے رجوع کرنے کی جو ضرورت ہوگی اس کا حق امت کے علما ہی ادا کرسکتے ہیں۔

اجتہاد کرنے والے او ر اس کا حق ادا کرنے والے مجتہدین سے امت مسلمہ کسی دور میں کبھی خالی نہیں رہی۔ یہ عمل جاری تھا، جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا ۔ ان شاء اللہ۔

طریقۂ اجتہاد:

امت مسلمہ کے علماء  نے اجتہاد کے کئی طریقے دریافت کیے ہیں۔ ہم سہولت کے لیے دو معروف طریقوں کا ذکر کرکے ، دوسرے طریقے کے سلسلے میں چند مزید باتیں کریں گے۔

ایک طریقہ منصوص احکام پر مبنی ہے دوسرا غیر منصوص احکام سے متعلق ، جہاں شریعت کے اصولوں ، مقاصد، مصالح ادا اسرار وحکم کے پیش نظر نئے احکام دریافت کیے جاتے ہیں۔منصوص بنیادوں پر اجتہاد کا ایک مشہور طریقہ قیاس کہلاتا ہے، جہاں کسی نئی پیش آنے والی صورت ﴿فرع﴾ کے مماثل کسی پہلے سے معلوم حکم شرعی ﴿جو براہ راست قرآن و سنت سے ماخوذ ہو﴾ کی وجہ یا وصف﴿ علت﴾ پر غور کرکے اس نئی صورت حال کے بارے میں شریعت کا رویہ طے کیاجاتا ہے۔ اس طرح یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ نئی صورت حال کے بارے میں کیا حکم ہے، آیا وہ فرض ہے، واجب ہے، مکروہ ہے، مباح ہے، حرام ہے وغیرہ۔﴿ڈاکٹر محمود احمد غازی، محاضرات فقہ صفحہ ۹۴﴾ یہ بات ظاہرہے کہ ہر نئی صورت حال کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں نص (text) کا پایا جانا اور اس تلاش میں کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے، اس سے غیر منصوص بنیادوں پر اجتہاد ضروری ہوجاتا ہے۔ البتہ اس غیر منصوص بنیاد کا مطلب آزادروی نہیں ہے۔ یہ بنیادیں بھی شریعت مطہرہ کی روشنی میں دریافت کی گئی ہیں۔

غیر منصوص طریقۂ اجتہاد:

غیر منصوص طریقۂ اجتہاد میں ہم تین طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے، تیسرے طریقہ کے سلسلے میں مزید باتیں کریں گے:

﴿الف﴾ استحسان: یہ طریقہ قیاس سے قریب تر ہے۔ اسے قیاس کی ضد کے طور پر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ طریقہ قیاس میں کسی حکم شرعی کے بنیادی وصف یعنی نمایاں علت کے پیش نظر نئے معاملے ﴿فرع﴾ کے بارے میں حکم لگایا جاتا ہے۔ طریقہ استحسان میں اس کے برخلاف کسی مصلحت، ضرورت ، عرف﴿ عادت﴾ یا عموم بلویٰ کے پیش نظر ظاہری قیاس کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی مخفی یا باطنی قیاس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ﴿ایضاً ص:۱۰۲﴾

﴿ب﴾ اصول فقہ اور قاعدہ فقہیہ: یہ دو الگ الگ علوم ہیں۔ اصول فقہ اجتہاد میں ممد و معاون ہیں اور اس سے مراد وہ اصول وضوابط ہیں جن کی بنیاد پر فقہی احکام معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ یہ اصول و ضوابط کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ہی ماخوذ ہیں۔ فقہاے امت نے تفصیلی دلائل سے ان اصولوں کو اخذ کیا ہے اور اس کا استعمال نئے احکام معلوم کرنے کے لیے کیا ہے۔ فقہا کے ایک دوسرے گروہ نے قواعد فقہیہ کے عنوان کے تحت ان قواعد کی نشاندہی کی ہے جن کی بنیاد پر شریعت کے احکام کا فہم آسان ہوجاتا ہے۔ یہ در اصل فہم دین اور فقہی تربیت کا ایک مضبوط ذریعہ ہے۔ البتہ قواعد فقہیہ اجتہاد کا کوئی منہج نہیں ہے۔ ﴿ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی ، مقاصد شریعت ، صفحہ۳۳﴾

﴿ج﴾ مصالح مرسلہ اور مقاصد شریعت : مصالح مرسلہ کا ذکر سب سے پہلے امام مالکؒ  نے کیا تھا اور اس سے مراد وہ مصلحت ہے، جس کے سلسلے میںقرآن وسنت میں کوئی حکم نہ ملا ہو۔ امام غزالیؒ  نے مصالح مرسلہ کے لیے مقاصد ِ شریعت کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مقاصد اور مصالح کو ہم معنی الفاظ کے طو ر پر استعمال کیا ہے۔ ﴿ایضاً،ص:۲۴﴾﴾ یعنی ان امور کے احکام معلوم کرنے کا طریقہ جو براہ راست کتاب اللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں موجودنہ ہوں﴿ وہ حکم جو براہ راست قرآن یا سنت رسول اللہ میں موجود ہو اسے حکم شرعی کہتے ہیں﴾ اس طرح حکم شرعی کی غیر موجودگی میں شریعت کے مقاصد کے پیش نظر حکم کی تلاش مقاصد شریعت کا بنیادی موضوع ہے۔ ہم اس پوری گفتگو کودرج ذیل نتائج تک پہنچا سکتے ہیں:

﴿الف﴾ حکم شرعی کی غیر موجودگی میں نئے حکم کی تلاش میں حکم شرعی کے حوالے سے قیاس کیا جانا۔﴿ب﴾ حکم شرعی کی غیر موجودگی میں نئے حکم کی تلاش میں حکم شرعی کے حوالے سے ظاہری قیاس کو کسی مصلحت کی وجہ سے نظر انداز کرتے ہوئے باطنی قیاس کے مطابق اجتہاد کیا جانا۔﴿ج﴾ حکم شرعی کی غیر موجودگی میں نئے حکم کی تلاش میں حکم شرعی سے مستنبط اصول فقہ کے ذریعے اجتہاد کیا جانا۔﴿د﴾ حکم شرعی کی غیرموجودگی میں نئے حکم کی تلاش میں اصول فقہ سے مستنبط مقاصد شریعت کے ذریعے اجتہا د کیاجانا۔

درج بالا رائے کو اختیار کرنے میں یہ بات پیش نظر ہے کہ مقاصد شریعت در اصل اصول فقہ کی ہی ایک شاخ ہے۔ یہ شاخ چونکہ مضبوط ہے اس لیے خود ایک تناور درخت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ بہ ہر حال اسی شریعت سے متعلق ہے جس کی بنیاد منصوص احکام پر ہے اور جس سے قیاس، اصول فقہ اور قواعد فقہیہ جیسی شاخیں پھوٹتی رہی ہیں۔ یہ سب شریعت مطہرہ کے برگ و بار ہیں۔اصول فقہ اور مقاصد شریعت کی تاریخ ان شخصیات کے حوالے سے جنھوں نے ان میں نمایاں کام کیا ہے، یہ ظاہرکرتی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سلسلۂ ذھب کی کڑیاں ہیں۔

اصول فقہ اور اصولیین:

اصول فقہ میں نمایاں کام کرنے والے ائمہ کرام اصولیین کے نام سے موسوم ہیں۔ امام جعفر صادقؒ  ﴿متوفی: ۱۴۸ ھ﴾ اور امام ابو حنیفہؒ  ﴿متوفی: ۱۵۰ ھ﴾ کے تذکروں میں یہ بات آئی ہے کہ ان بزرگوں نے فقہ کے اصولوں پر رسالے تحریر کیے تھے لیکن ایسی کوئی تحریر محفوظ نہیں رہ سکی ۔ اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب جو محفوظ رہی وہ امام محمد ادریس شافعیؒ  ﴿متوفی: ۲۰۴ھ﴾ کی ’’الرسالہ‘‘ ہے۔ امت کے علماء  اور ائمہ کو اس کتاب نے اس راہ سے متعارف کرایا کہ نصوص پر غوروفکر کرکے اصولوںکو تلاش کریں تاکہ ان اصولوں کی بنیاد پر مزید غوروفکر کرکے زندگی کے عملی مسائل میں منشاے الٰہی کو تلاش کیا جاسکے۔ ابو منصور ماتریدیؒ  ﴿متوفی :۳۳۳ھ﴾ جو سمر قند کے پاس ماترید مقام پر پیدا ہوئے تھے اورجو حنفی مکتب فکر کے نمایاں ترین علم کلام کے ماہر کہے جاتے ہیں،نے بھی ماخذ الشرعی نام سے ایک کتاب لکھی تھی، لیکن کتاب محفوظ نہیں رہ سکی۔ البتہ علم کلام میں اشعری فکر کے نمایندہ امام الباقلانی ؒ ﴿متوفی: ۴۰۳ ھ﴾ جو بصرہ، بغداد کے رہنے والے تھے اور ایک نمایاں مالکی فقیہ تھے، اس موضوع پر جو رسائل اور کتابیں تحریر کیں وہ محفوظ ہیں۔ امام موصوف کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ انھوں نے فقہ و کلام کے مباحث کو یکجا کردیا تھا۔

مقاصد ِ شریعت کے ائمہ:

امام الحرمین الجوینی ؒ ﴿متوفی: ۴۷۸ ھ﴾ ائمہ اصولیین میں بھی شمار ہوتے ہیں اور مقاصد شریعت جس شکل میں آج موجود ہے، اس کے بانی بھی ہیں۔ موصوف امام الحرمین اس لیے کہے جاتے ہیں کہ حرمین مکہ و مدینہ دونوں مقامات کے امام رہ چکے تھے۔ شافعی فقیہ تھے۔ انھوں نے پہلی دفعہ ایک خاص ترتیب سے شریعت کے مقاصد اور اغراض سے بحث کی اور احکام کے علل کی بات کہی،جس سے ان کی مراد مقاصد شریعت کی سطحوں کی تھی۔ امام جوینی ؒ نے پانچ سطحوں کا ذکر کیا۔ امام موصوف کے مایہ ناز شاگرد امام غزالی ؒ نے انھیں تین سطحوں میں سمودیا۔ امام غزالی ؒ ﴿متوفی: ۵۰۵ ھ﴾ نے اپنے استاد امام جوینی ؒ کے کام کو تقویت دی۔ انھوں نے یہ بتایا کہ مقاصد شریعت سے وہی مراد ہے جو مصالح مرسلہ سے امام مالکؒ  ﴿ متوفی: ۱۷۹ھ﴾ کی تھی۔ امام غزالی نے مقاصد شریعت کو پانچ تحفظات میں بیان کیا۔ یہ پنجگانہ مقاصد ضرب المثل بن گئے۔فخر الدین امام رازی ؒ ﴿متوفی: ۶۰۶ھ﴾ نے اپنی کتابوں میں مقاصد شریعت کو اسلوب کے طور پر اختیار کیا۔ اسی طرح امام غزالیؒ  اور امام رازیؒ  جیسے مصنفین نے اس علم کو خوب شہرت بخشی۔ مصر کے اولو العزم شافعی فقہی عز الدین عبدالسلام ﴿متوفی: ۶۶۰ ھ﴾ جو اپنی بے مثال جرأت ، ہمت اور علمی حیثیت کی وجہ سے سلطان العلما کے لقب سے مشہور ہیں، انھوں نے تحریروں سے مقاصد شریعت کے مباحث کو آگے بڑھایا۔ یہی بات دمشق کے شافعی فقیہ تقی الدین ابن تیمیہ ؒ ﴿متوفی: ۷۲۸ھ﴾ اور ان کے شاگرد شمس الدین ابن قیم ؒ ﴿متوفی: ۷۵۱﴾ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے، جنھوں نے ا پنے فتاویٰ میں مقاصد شریعت کا خوب استعمال کیا۔ یہ حضرات مقاصد شریعت کے علم جیسا کچھ امام جوینی ؒ اور امام غزالی ؒ سے اُنھیں ملا تھا اس میں کوئی معنوی اضافہ تو نہیں کرسکے لیکن ان تصورات کے عملی استعما ل سے اس کے خطّ و خال کو واضح کیا۔ ابن تیمیہ ؒ اور ابن قیم ؒ فقہ حنبلی کے مجددین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

جس زمانے میں دمشق میں ابن قیمؒ  اپنا علمی کام کررہے تھے تقریباً اسی زمانے میں ابو اسحق ابراہم بن موسیٰ الشاطبیؒ  ﴿متوفی :۷۹۰ ھ﴾ اسپین میں مقاصد شریعت کے موضوع پر کام کررہے تھے، لیکن ان دونوں بزرگوں کو ایک دوسرے کے علمی کام کی خبر نہیں تھی۔ در اصل یہ دونوں اپنے طور پر الگ الگ امام غزالیؒ  اور امام رازیؒ  کے کاموں کو آگے بڑھارہے تھے۔ البتہ علامہ شاطبی ؒ نے اس موضوع پر جو کام کیا ہے، وہ اس وقت تک کیے گئے تمام کاموں سے افضل تھا اور بعد کے زمانے میں بھی اس میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ ﴿خطبات کراچی، ص ۵۱۱﴾

امام شاطبی کی کتاب ’’ المعافقۃ فی اصول الشریعۃ‘‘ کے بعد تقریباً چار سو سال تک اس انداز کا کوئی وقیع کام اس موضوع پر نہیں ہوسکا۔ بارہویں صدی ہجری کے اواخر میں ہندستان میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ  نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں شریعت کے جزوی احکام کی مصلحتیں بتائیں۔ یہ در اصل شریعت کے انفرادی احکام کے اسرا ر پر مباحث ہیں۔ بہرحال پوری شریعت کے عمومی مقاصد پر امام شاطبیؒ  کا کارنامہ ابھی بھی سب سے نمایاں ہے۔ تیونس کے عالم طاہر بن عاشورؒ  ﴿متوفی: ۱۲۷۶ ھ﴾ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور مقاصد شریعت کی پنچگانہ لسٹ میں اضافے کی تجویز دی، اس کے بعد یہ گفتگو کا موضوع بن گیا۔

امام شاطبیؒ  کا مقاصد شریعت سے متعلق کام :

امام شاطبیؒ  نے مختلف عناوین کے تحت شارع کے مقاصد کو سمجھنے کی سعی کی ہے۔ پوری شریعت کے مطالعے سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کن مقاصد کے پیش نظر انسانوں کو فراہم کی۔ ہم اس پوری گفتگو سے چند چیزوں کا انتخاب کرکے درج ذیل عناوین کے تحت بیان کرنے پراکتفا کرتے ہیں:

۱-  شریعت کے قیام سے متعلق شارع کے مقاصد

۲- لوگوں کو شریعت کا فہم فراہم کرنے سے متلعق شارع کے مقاصد

۳- لوگوں کو شریعت کے تقاضوں کا مکلف بنانے سے متعلق شارع کے مقاصد

۴- لوگوں کو شریعت کے تحت لانے سے متعلق شارع کے مقاصد

﴿۱﴾ شریعت کے قیام سے متعلق شارع کے مقاصد:

اس باب کے تحت امام شاطبیؒ  نے شریعت کے پانچ مقاصد اور ان کی تین سطحوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پوری شریعت درج ذیل پانچ چیزوں کے تحفظ کی غرض سے قائم کی گئی ہے: ﴿الف﴾ تحفظ دین ﴿ب﴾ تحفظ جان/نفس ﴿ج﴾ تحفظ عقل ﴿د﴾ تحفظ نسل ﴿ح﴾ تحفظ مال۔

مزید برآں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ شریعت کی تین سطحیں ہیں : ﴿۱﴾ضرورت شدیدہ کے لحاظ سے﴿۲﴾حاجات کے لحاظ سے ﴿۳﴾ تحسینات کے لحاظ سے

تحفظ دین: شریعت کا اصل مقصد اسلامی عقائد کو لوگوں کے ذہن نشین کرانا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت یہ چاہتی ہیں کہ اللہ اور بندوں کے درمیان رشتہ درست ہوجائے۔ اس غرض سے پہلی بات یہ ہے کہ بندوں کو عبادات کا طریقہ معلوم ہوجائے جس کے لیے شریعت میں احکام فراہم کیے گئے۔ عبادات کی تصحیح کے بعد شریعت کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص جس چیزسے متعلق ہے اس کے معاملات درست ہوجائیں۔ مثلاً ایک تاجر کو تجارت سے متعلق احکام معلوم ہونے چاہئیں تاکہ وہ انھیں درست کرلے۔ ویسے ہی ایک استاد کو اپنے کام سے متعلق شارع کا منشا اور انھیں پورا کرنے کا طریقہ معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ ان سے متعلق معاملات درست کرلے۔ اس طرح عبادات اور معاملات کی درستی کے ذریعے شریعت کا مقصد دین کا تحفظ ہے۔

تحفظ جان: شارع نے تمام انسانوں کو تکریم عطا کی ہے اور تمام انسانوں کے خون کو محفوظ و مامون کردیا۔ شریعت کے احکام کا ایک بڑا حصہ کرامت آدمیت ہے۔ اگر کسی کی جان یا جسم کے کسی حصے کو کوئی گزند پہنچ گیا ہو تو اس کے سلسلے میں دیت و ضمان کے احکام کا مقصد بھی یہی ہے۔ البتہ چند خصوصی حالات میں شریعت کسی کی جان لینے کی اجازت دیتی ہے۔ مثلاً قاتل کی سزا، فتنہ کے سد باب کے لیے سزا، یا اپنی جان کی حفاظت کے لیے حملہ آور کا قتل ۔ ان امور میں شریعت نے تفصیلی احکام فراہم کیے ہیں۔ مثلاً قاتل پر حد جاری کرنے کا کام افراد کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے اور اپنی جان کو کسی حملہ آور سے بچانے کاکام متعلق فرد کا ہے۔ جان کے لیے قرآن و سنت میں نفس کا لفظ آیا ہے اس لیے اسے تحفظ نفس بھی کہا جاتا ہے۔

تحفظ عقل: انسانوں کو شریعت کا پابند عقل نہ ہوتی تو تکلیف شریعہ بھی نہ ہوتی۔ اس لیے وہ تمام چیزیں جو عقل کے فتور کا باعث ہوں شریعت کی نگاہ میں نا پسندیدہ ہیں۔ جو چیزیں بھی عقل کو متاثر کرتی ہیں، وہ انسانوں کو جانوروں کے مقام پر پہنچا دیتی ہیں۔ شراب، منشیات، جادو، مسمرزم اور دیگر علوم ضار پر روک انسانی عقل کی حفاظت کی غرض سے لگائی گئی ہے۔ جو مشاغل انسانوں کی توجہ سنجیدہ اور مفید چیزوں سے دور کردیں، شریعت کی نگاہ میں مبغوض ہیں۔ شریعت کے احکام کا ایک حصہ تحفظ عقل کے لیے ہے۔

تحفظ نسل: یہ در اصل خاندانی نظام کی بقا کا معاملہ ہے۔ نسل انسانی کی بقا خاندان کی بقا پر منحصر ہے۔خود دین کا تحفظ بھی خاندان کے تحفظ میں مضمر ہے۔ کیوں کہ خاندان دین کا مضبوط ترین قلعہ ہے۔ دین اسلام کو جوانسان مطلوب ہے اور ہ جیسی اخلاقی و روحانی ترقی کی راہ دکھاتا ہے اس میں افراد کا خاندان کا جز ہونا ضروری ہے۔ نسل انسانی کی بقا انسان کی عزت سے تعلق رکھتی ہے۔ علما نے تحفظ نسل کی جگہ تحفظ عِرض ﴿عزت، وقار﴾ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔

تحفظ مال: انسانوں کے دین، جان ، عقل اور نسل کی طرح ان کے مال کی حفاظت بھی شریعت کا ایک مقصد ہے۔ مال انسانوں کی زندگی کی بقا کا ذریعہ ہے، اس لیے شریعت ما ل کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ حتیٰ کہ اگر کسی نادان کے پاس مال ہو اور وہ اسے برباد کررہا ہو تو شریعت حکومت کو اجازت دیتی ہے کہ اس کے مال کا بہتر نظم کرے۔ مال کا اصل مالک اللہ ہے، انسان اس کا امین اور اس کے لیے جوابدہ ہے۔ شریعت کو یہ پسند نہیں کہ مال انسانوں کے اغنیا کے درمیان گردش کرتا رہے۔ جائز آمدنی حاصل کرنے کا حق، صحیح طریقے سے خرچ کرنے کے طریقے، زکوٰۃ وعشرکے احکام، وصیت اور وراثت کے قوانین اور ان میں عدل واحسان کا رویہ، شریعت کے احکام کا انداز ہے۔ تاکہ مال کی حفاظت ہوسکے۔

مقاصد شریعت کی تین سطحیں :

شریعت انتہائی ضرورتوں کی درجہ بندی کرتی ہے اور اسی کے مطابق احکام دیتی ہے۔ چند ضرورتیں شدید ہوتی ہیں، دوسری اتنی شدید نہیں ہوتی ہیں اور بقیہ مزید اونچے درجے کی ضرورتیں ہیں۔ امام جوینی ؒ نے اس طرح کی پانچ سطحوں کا ذکر کیا تھا لیکن ان کے شاگرد امام غزالی نے تین سطحوں میں ان کو سمولیا ۔ امام شاطبیؒ  نے انھی تین سطحوں کا ذکر کیا۔ ایک سطح ضرورت کی، دوسری حاجت کی اور تیسری تحسینات کی۔ مثلاً عبادات میں فرائض ضروت کے تحت آئیں گی، سنت مؤکدہ/ واجبات کی درجہ بندی حاجت کے تحت ہوگی اور نوافل تحسینات کی مثالیں ہیں۔

﴿۲﴾ لوگوں کو شریعت کا فہم فراہم کرنے سے متعلق شارع کا مقصد:

اس باب میں امام شاطبی ؒ نے دوباتوں کا ذکر کیا ہے۔ایک یہ کہ شریعت عربی ہے اور دوسری یہ کہ شریعت اُمی ہے ﴿یعنی امیوں کے لیے ﴾شریعت کے عربی ہونے کا مطلب یہ کہ قرآن کی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کوئی مفہوم معتبر نہیں ہوسکتا جو اُس زمانے کی عربی خصوصاً قریش مکہ اور انصار مدینہ کی زبان کے مطابق نہ ہو، کسی لفظ یا استعارے کا ایسا نیا مفہوم جو نزول کے وقت کی عربی زبان کی نفی کرتا ہومعتبر نہیں ہوسکتا۔ دوسرے ادیان کے مقابلے میں جہاں ترجمہ در ترجمہ کے عمل میں اصل متن ضائع ہوگیا، دین اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ متن اپنی اصل زبان میں محفوظ ہے بلکہ تمام الفاظ اور استعاروں کا مفہوم بھی محفوظ ہے۔ شریعت کے اُمی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شریعت اُمی قوم میں نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت نازل ہوئی۔ پوری شریعت کا مخاطب تمام انسان ہیں بشمول تمام اُمی لوگ۔ اس طرح یہ شریعت صحیح معنوں میں عوامی ہے اور اپنے مخاطبین میں اُمی اور غیر ُامی کی تمیز نہیں کرتی۔

﴿۳﴾ لوگوں کو شریعت کا مکلف بنانے سے متعلق شارع کے مقاصد:

اس باب میں امام شاطبیؒ  نے بتایا ہے کہ شارع یہ چاہتا ہے کہ تمام انسان آسانی کے ساتھ کسی معمولی تکلیف اور جبر کے بغیردین پر عمل کرسکیں۔اس مقصد کے لیے شارع نے جو احکام دیے ہیں، امام موصوف نے ان کا تفصیلی جائزہ لیا۔ امام موصوف کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنے مباحث کو حقیقی مثالوں سے بھر دیتے ہیں اور صرف اصولی گفتگو کرنے پر اکتفا نہیں کرتے۔ مثلاً وہ بتاتے ہیں کہ شارع کا مقصد دفع مشقت ہے یعنی کسی انسان کو اس کام کا مکلف نہیں بنایا گیا جو کام وہ نہیں کرسکتا ہے۔ شارع کا مقصد دفع حرج ہے، کیوں کہ تکلیف میں مبتلا کرنا شریعت کا مقصود نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہر حکم کی اطاعت میں کچھ نہ کچھ مشقت اٹھانی پڑتی ہے لیکن مشقت میں مبتلا کرنا شارع کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ شریعت یسیر ہے اورانسانوں کو سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ سفر اور بیماری میں روزہ کو مؤخر کرنا، پانی نہ ہو یا اس کا استعمال مضر ہو تو مٹی سے تیمم کرنا اور پوری زمین کو مسجد بنا دینا وغیرہ سہولتیں فراہم کرنے کی مثالیں ہیں۔

﴿۴﴾ لوگوں کوشریعت کے تحت لانے سے متعلق شارع کے مقاصد:

اس بات میں امام شاطبیؒ  نے بہت سے مباحث شامل کیے ہیں۔ ہم چند مباحث کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔شریعت کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ عالم ہوں یا عامی، مرد ہو یاعورت، شہری ہوں یا دیہاتی، شریعت کے دائرے میں کوئی استثنائ نہیں ہے۔ اسی طر ح تمام انسانوں کی زندگی کے تمام پہلو مخاطب شریعت ہیں۔ شارع مکمل اطاعت چاہتا ہے، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ، گھر ہو یا بازار، شریعت کا مقصد پوری زندگی کو شارع کا مطیع وفرماں بردار بنانا ہے۔ شریعت کے احکام مواقع کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ سفر کے احکام حضر سے الگ ہوسکتے ہیں، اس لیے احکام کے تعین میں مقام و حالات کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ شریعت کے مقاصد اصلیہ بھی ہوتے ہیں اور ثانوی بھی ۔ مقاصد اصلیہ میں اطاعت کے لیے عیش، مسرت اور تفریح کو تج دینا ہوتا ہے، دوسری طرف ثانوی نوعیت کے مقاصد میں حدود کے اندر رہتے ہوئے تفریح و عیش کی گنجائش ہے۔

امام شاطبیؒ  نے دیگر تفصیلی گفتگو کے بعد اخیر میں یہ بات بتائی ہے کہ عبادات میں نیابت نہیں ہوسکتی ہے۔ اس مقام پر امام شاطبی ؒ نے قرآن و احادیث کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ ہر شخص کو اپنے فرائض خود ادا کرنے ہوں گے،کوئی کسی دوسرے کے بدلے میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ حج بدل کی اجازت سے متعلق جو روایت ہے، امام شاطبی ؒ اسے یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ خبر احاد کی بنیاد پر یہ روایت شریعت کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کی بنا پر ناقابل قبول ہے۔ یہ بات دیگر علما کے لیے قابل قبول نہیں ہے، جو بدنی عبادتوں میں نیابت کے قائل نہیں ہیں مگر مالی عبادتوں میں نیابت کے قائل ہیں اور حج بدل گرچہ بدنی و مالی دونوں طرح کی عبادتوں کا مجموعہ ہے، لیکن اس کے مالی پہلو کو زیادہ سمجھتے ہوئے حج بدل کی اجازت سے متعلق حدیث قبول کرتے ہیں۔ دیگر ائمہ کی طرح امام شاطبیؒ  سے بہت سے مقامات پر اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ مقاصد ِ شریعت کے موضوع پر شارع کے مقاصد کے عنوان سے جو مباحث انھوں نے کیے ہیں وہ امت کی تاریخ میں لا ثانی ہیں۔

مقاصد شریعت کی معنویت سے متعلق سوالات اور نقاط نظر:

مقاصد شریعت کی معنویت سے متعلق چند سوالات مختلف مصنفین نے اٹھائے ہیں اور اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ان کا جواب دیا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مقاصد شریعت پنجگانہ ہیں اور کیا اس میں اضافے کی گنجایش ہے؟ اس کے جواب میں ہمیں تین طرح کے جوابات ملتے ہیں۔ طاہر بن عاشور ؒ نے مزید مقاصد کو شامل کرنے کی تجویز تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں دی تھی۔﴿خطبات کراچی، ص:۹۱۱﴾ اس تجویز سے اختلاف بھی کیا گیا اور اتفاق بھی۔ حالیہ دنوں میں ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی نے اس سے اتفاق کیا اور اضافہ کی کئی تجاویز پیش کیں۔ ﴿مقاصد شریعت،ص:۳۸،۳۹﴾ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی تجویز رد کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ جن امور کی نشاندہی کی جارہی ہے ان سب کو پنجگانہ مقاصد کے عناوین کے مفہوم میں وسعت دے کر شامل کیا جاسکتا ہے۔ ﴿زندگی نو،مئی ۲۰۱۰﴾ دوسرے لفظوں میں پانچ کی گنتی پر اصرار ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ  بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایک ہزار سال سے زیادہ امت کے انتہائی ذہین اور مخلص افراد نے جن پانچ باتوں پر اتفاق کیا ہے اسے غنیمت جانتے ہوئے اسے نہ چھیڑا جائے۔ ﴿خطبات کراچی، ص:۱۱۹﴾

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیامقاصد شریعت کی مروجہ لسٹ میں جو ترتیب ہے، اسے برقرار رکھا جائے ؟ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کی رائے میں مقاصد کی لسٹ میں جو ترتیب ہے اسے ضرورت کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔ وہ اس سلسلے میں ابن تیمیہ ؒ کا حوالہ دیتے ہیں، جنھوں نے دین کو اپنی فہرست میں آخری مقام پر رکھا۔ ﴿مقاصد شریعت،ص۳۱﴾ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ  اس ترتیب کو برقرار رکھنے کے قائل ہیں۔ ﴿خطبات کراچی، ص:۱۲۵﴾

تیسرا سوال یہ ہے کہ ان پانچ مقاصد میں سب کا تعلق حفاظت سے ہے۔ تحفظ دین، تحفظ جان، تحفظ عقل، تحفظ نسل اور تحفظ مال۔ تحفظ منفی چیز ہے۔ آخر مثبت چیزیں مثلاً قیام عدل، تکریم آدمیت اور مساوات کیوں اس لسٹ میں شامل نہیں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ  نے بتایا ہے کہ تحفظ متعین چیز کا نام ہے جب کہ قیام عدل، تکریم آدمیت اور مساوات جیسے الفاظ کے مفہوم کو متعین نہیں کیا جاسکتا اور ان کی کمیت بیان نہیں کی جاسکتی۔ ﴿ایضاً،ص:۹۵﴾ ایک دوسرے انداز سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تحفظات میںلازماً منفی چیزیں نہیں ہوتیں۔ کسی چیز کو نشوونما دینا ہو تو اس پر آنے والے تمام خطرات سے اسے محفوظ کردیجیے، ترقی کی راہیں از خود وا ہوجائیں گی۔ ویسے بھی معاملہ عنوان کا نہیں بلکہ مشمولات (Content) کا ہے۔ تحفظات کے عنوان کے تحت امام شاطبیؒ  نے جن امور کا احاطہ کیا ہے انھیں لازماً منفی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس سلسلے کا آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا مقاصد شریعت کو اجتہاد کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ہاں اجتہاد مقاصد شریعت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ جس طرح اجتہاد میں اصول فقہ سے مدد لی جاتی ہے اسی طرح مقاصد شریعت جو اصول فقہ سے جڑی ہوئی آگے کی کڑی ہے، سے مدد لینی چاہیے۔ ایسا اگر نہ ہو تو اس فن پر اتنی محنت اور توجہ صرف کیوں کی جائے؟ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ  نے اس سوال کا جواب بھی نفی میں دیا ہے اور ایسا کرنے کو خطرناک کہاہے۔ ﴿ایضاً،ص:۱۲۱﴾ وہ کہتے ہیں کہ مقاصد شریعت اجتہاد کے رہنما تو ہیں، بنیاد نہیں ۔ اجتہاد کی بنیاد تو نصوص اور اصول فقہ ہیں۔البتہ مقاصد شریعت یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ ہمارا رخ درست ہے یا نہیں۔ سرسری نگاہ سے دیکھیے تو اس جواب پر تعجب ہوگا ،وہ خود اصول فقہ کو نصوص کے ساتھ اجتہاد کا منہج قرار دیتے ہیں ۔ اب اگر مقاصد شریعت ، اصول فقہ کی ایک شاخ ہے تو اس سے اعراض کیوں کیا جائے؟

دراصل جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مقاصد شریعت کی بنیاد پر اجتہاد کے نام پر جو تجاویز دی جارہی ہیں ان کی نوعیت کیا ہے تو ڈاکٹر محمو د احمد غازیؒ  کی یہ رائے سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ اسے خطرناک کیوں کہتے ہیں۔ معاملہ نظری نہیں عملی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ نئے مسائل جن کے سلسلے میں نصوص میں کچھ نہیں ملتا یا مختلف طریقہ اجتہاد سے کوئی رائے نہیں ملتی ہے ، ان پر غوروفکر کرکے نئی راہیں نکالی جاتیں۔جیسا کہ ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی نے تورق کے نام پر جدید اسلامی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہونے والی بے راہ روی پر گفتگو کی اور ان طریقوں کا غلط ہونا ثابت کیا ۔ ﴿مقاصد شریعت، ص:۸۳۲-۰۵۲﴾لیکن ہویہ رہا ہے کہ ان امور میں بھی جہاں نصوص کی بنیادوں پر فیصلے موجود ہیں اور امت میں مقبول عام ہیں، مقاصد شریعت کے نام پر چھیڑ چھاڑ کرنے کی سعی کی جارہی ہے اور اس میں پیش پیش وہ حضرات ہیں جو دیارِ مغرب سے یاتو متأثر ہیں یا خلوص کے ساتھ اسلام کو وہاں کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اس میں مشرقی دنیا میں بسنے والے امت کے افراد سے شاکی ہیں کہ وہ ایڈجسٹمنٹ (Adjustment) اور نئی راہیں نکالنے میں مانع ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی خاتون ایمان لے آئے اور اس کا شوہر ایمان نہ لائے تو اس خاتون کا اپنے شوہر سے الگ ہوجانا قرآن کی نص سے بھی ثابت ہے اور اس پر اجماع پایا جاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صلاح الدین سلطان کے اس مقالے میں جو اسلامی فقہ اکیڈمی ہندستان کے سمینار میں پیش کیا گیا، اس مسئلے پر مقاصد شریعت کے عنوان سے امریکی معاشرے کے حوالے سے یہ رائے دی گئی کہ اگر بیوی مسلمان ہوجائے اور اس کے شوہر نے اسلام قبول نہ کیا ہو تو ان کے درمیان تفریق نہ کرائی جائے۔

اس طرح فقہ المقاصدی کے نام پر مسلمہ امور میں دخل اندازی کی کوشش کی جارہی ہے اور اس تناظر میں بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ جیسے جدید و قدیم علوم کے ماہر کی اس رائے کی وجہ کیا ہے کہ یہ معاملہ خطرناک ہے، حالانکہ خرابی اس طریقے کی نہیں ہے بلکہ اس کے استعمال کی ہے۔ جو بات مصالح مرسلہ کے بارے میں کہی جاتی ہے وہی مقاصد شریعت کے بارے میں کہنی چاہیے کہ اس میں اس صورت حال کی رعایت رکھی جاتی ہے جس کے بارے میں شریعت نے امت کو آزادی دی ہو ،ان اصولوں سے صر ف اس وقت کا م لیا جائے گا جب کسی معاملے میں فقہ کے اولین ماخذ ﴿قرآن، سنت، اجتماع اور اجتہاد﴾ خاموش ہوں۔ خاموشی اور گویائی دونوں کے درست استعمال کا نام علم ہے۔ خاموشی کے وقت گویائی اور گویائی کے وقت خاموشی نادانی بھی ہے اور خطرناک بھی۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223