ہندوستان کی عام آبادی کو شدید معاشی بحران درپیش ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، آسمان کو چھوتی مہنگائی، زندگی کی ضروریات میں مسلسل اضافہ اور اس کے مقابلے میں بہت قلیل آمدنی۔ پھر خاص طور سے ملک کی مسلم آبادی کو اورزیادہ سنگین معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ فسطائی قوتوں کے ایجنڈے میں انھیں معاشی طور پر پسماندہ بنانا شامل ہے۔ کئی ریاستوں میں منصوبہ بند طریقے سے ان کی معاشی کمر توڑنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ صنعت و تجارت کے میدان ان پر تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ عام آبادی کے مقابلے میں معاشی خوش حالی وترقی کے مواقع ان کے لیے کم تر ہیں۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو اپنی دولت کے صحیح استعمال کے بارے میں سوچا سمجھا حکیمانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ فضول خرچیاں کسی انسان کے لیے مناسب نہیں ہوسکتی ہیں، لیکن جس کمیونٹی کو ایسے شدید معاشی خطرات درپیش ہوں، اس کے لیے کسی بھی نام سے فضول خرچی کا سماجی معمول بن جانا ہرگز درست نہیں ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں میں شاہ خرچیوں والی شادیوں کا بڑھتا رجحان اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ اپنی معیشت کو درپیش چیلنجوں کے سلسلے میں شدید غفلت کا شکار ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ محض شادی کی شاہ خرچیاں بند کرنے سے مسلمانوں کی معیشت محفوظ نہیں ہوجائے گی، لیکن بہت بڑے پیمانے پر شادی کی شاہ خرچیاں اس بات کا اشارہ ہیں کہ مسلمان معاشی استحکام کا شعور نہیں رکھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔
معاشی چیلنج سے زیادہ سنگین معاشرتی چیلنج ہے۔ پوری دنیا میں نکاح اور اس سے تشکیل پانے والے خاندان کو ختم کرنے کی مہم برپا ہے۔ نکاح سے ماورا تعقات (لیو ان رلیشن شپ)کو بڑے پیمانے پر بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ خاندانیت اور خاندانی نظام کے سب سے بڑے محافظ آج بھی مسلمان ہیں۔ حیا اور لباس و حجاب سے مسلمانوں کی مضبوط وابستگی ابھی بھی باقی ہے۔ لیکن فحاشی اور بےحیائی کے سیلاب کے سامنے مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے ضروری ہے کہ نکاح کو زیادہ سے زیادہ آسان اور نکاح کے بعد والی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوش گوار بنایا جائے۔ شاہ خرچیوں والی شادیوں کا رجحان نکاح کو مشکل سے مشکل تر بناتا جارہا ہے۔ زیادہ خرچ والی شادی اور زیادہ تکلفات والی ازدواجی زندگی کے لیے تیاری اتنی مشکل بنادی گئی ہے کہ شادی میں حد سے زیادہ تاخیر ہورہی ہے۔ اگر مسلمان اپنی معاشرت کو بے حیائی کے طوفانِ بلا خیز سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں کم سے کم خرچ والی شادیوں اور تکلفات سے خالی ازدواجی زندگی کو بڑھاوا دینا ہوگا۔ چند گھنٹوں کی وقتی خوشی اورمٹھی بھر لوگوں کے سامنے نمائش کی خاطر اپنے پورے معاشرتی نظام کو خطرے میں ڈالنا کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور خطرناک چیلنج نفسیاتی ہے۔ مادہ پرستی کی بڑھتی ہوئی وبا نے انسان کو اندر سے کھوکھلا اور بے چین کرکے رکھ دیا ہے۔ انسان زندگی کی خوشیوں کو دیکھنے سے پہلے ہی زندگی کی صعوبتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسانوں کی بھاری اکثریت نوجوانی کے آغاز سے ہی ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔ مشتاق یوسفی کا یہ فقرہ نئی نسل پر صادق آتا ہے: ’’جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے بے فکری کی نیند کبھی نصیب نہیں ہوگی۔‘‘
مادی اہداف ہی سب کچھ بن گئے ہیں اور ان کے حصول کی دوڑ میں شرکت بڑی محنت طلب ہے۔ ہر شخص اپنے مستقبل کے سلسلے میں بے یقینی کا شکار ہے۔ ایسی صورت حال میں شادی انسان کو خوشی اور سکون بخشنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو مرد و عورت کی صورت میں اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے سکون کا ذریعہ بنیں۔ شادی کو بھاری اخراجات سے جوڑ کر انسانوں نے شادی کو سکون کا ذریعہ نہیں رہنے دیا بلکہ خود اسے بھی نفسیاتی اضطراب اور بے چینی کا ایک سبب بنادیا۔ ایک نوجوان جب اپنی شادی کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس کے سامنے ایک پہاڑ حائل ہے، جسے عبور کرنے میں اسے برسوں لگ جائیں گے۔ لڑکیوں کے والدین کا حال تو نہ پوچھیں:
اُڑی جاتی ہیں کیوں آنکھوں کی نیندیں
مری بیٹی سیانی ہوگئی کیا!
۔۔۔۔۔۔۔
بعض خرابیاں لوگوں کے دلوں میں خوبیوں کا روپ اختیار کرلیتی ہیں۔ یہاں تک کہ انھیں خرابی باور کرانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک خرابی زیادہ خرچ والی شادی ہے۔ لوگ دھوم دھام اور شاہ خرچیوں والی شادیوں کا کئی دن تک چرچا کرتے ہیں۔ اسے شان دار تقریب قرار دیتے ہیں۔ جب کہ کامن سینس کے پیمانے سے بھی اگر جانچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شان دار تقریب نہیں بلکہ سراسر ناسمجھی اور نادانی والی حرکت ہوتی ہے۔ اگر عقل و بصیرت کے ترازو پر تولا جائے، اس کےمضمرات کا تجزیہ کیا جائے اور سماج پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے یہ محض نادانی کا کام نہیں بلکہ پورے سماج کے حق میں بہت ضرر رساں عمل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
بھاری اخراجات والی شادی ایک مرکّب برائی ہے۔ کئی ایک بڑی برائیاں تو اس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں، جیسے اسراف اور فضول خرچی، دولت اور مادّی اسٹیٹس کی نمائش، بہت سی جگہوں پر مخلوط محفلیں اور خواتین کی زینت وآرائش کی نمائش، معدے کی گنجائش سے زیادہ کھانا (over eating)،کھانے کا ضیاع وغیرہ۔
بہت سی برائیاں اس برائی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، جیسے شادیوں کا مشکل ہوجانا، شادیوں کا تاخیر سے ہونا، اس کے نتیجے میں نوجوان نسل کا ذہنی اضطراب میں مبتلا ہونا، ناجائز تعلقات میں پڑنے کا اندیشہ بڑھ جانا۔ اس کے علاوہ معاشرے میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دوری کا بڑھنا۔ کم استطاعت والوں کا زیادہ استطاعت والوں سے مقابلہ کرنا، وغیرہ خرابیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے غفلت و کوتاہی کا ایک بڑا سبب یہ برائی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ عام طور سے لوگوں کی آمدنی ان کی حقیقی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو اچھی صحت بخش غذا نہیں ملتی۔بہت لوگوں کو رہنے کے لیے صحت افزا ماحول میسر نہیں آتا۔ بہت لوگوں کے پاس اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کی استطاعت نہیں ہوتی اور بہت لوگ افرادِ خانہ کو لاحق امراض کے لیے مناسب علاج کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر اتنی فراوانی ہو کہ یہ سب ضرورتیں پوری ہوجائیں، تو بھی لوگوں کی بہت سی دوسری حقیقی ضرورتیں پوری نہیں ہوپاتیں۔ جیسے محلے اور خاندان کے ضرورت مند افراد کی مدد کے لیے وافر رقم نہیں ہوتی۔ اللہ کےراستے میں خرچ کرنے کے لیے اطمینان بخش سرمایہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی تو انسان کی حقیقی ضرورتیں ہیں۔
غرض ایک طرف یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور دوسری طرف اس سے زیادہ کڑوی صورت حال یہ ہے کہ عام طور سے لوگ عام شادی کی تقریب کے غیر ضروری کاموں پر اپنی آمدنی سے کئی گنا زیادہ خرچ کردیتے ہیں۔
یہ المیہ ہے کہ ہماری آمدنی ہماری حقیقی ضرورتوں سے کئی گنا کم ہوتی ہے اور ہم شادی کی تقریبات میں اپنی آمدنی سے کئی گنا زیادہ خرچ کردیتے ہیں۔
دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے حقیقی تقاضوں سے غافل ہوکر اپنے دل و دماغ پر شادی کی تقریبات کو حاوی کرلینا صریح نادانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ خرچ والی شادیوں کے پیچھے سماج کا شدید دباؤ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس معاملے میں سماج راست دباؤ نہیں ڈالتا ہے۔ لیکن انسان کا ذہن سماج کے دباؤ کو محسوس کرتا ہے۔ عام سوچ یہ ہوتی ہے کہ سماج میں شادیاں جس طرح ہورہی ہیں اسی طرح کی ہماری شادی بھی ہوگی۔ ایک عام منطق یہ ہے کہ ہم جتنے لوگوں کے یہاں بلائے گئے ان سب کو بلانا تو ضروری ہے۔ اس طرح آدمی اپنی مالی استطاعت نہیں دیکھتا ہے بلکہ سماج کے مطالبات دیکھتا ہے۔
زیادہ خرچ والی شادیاں سماج کا معمول بن جائیں تو وہ سماج کے غریب اور متوسط آمدنی والے لوگوں کے لیے بڑا بوجھ بن جاتی ہیں۔ کیوں کہ ہر کسی کو اپنی آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ والی شادی کرنی ہوتی ہے۔ سماجی معمول بن جانے سے اس خرابی کو دوام اور پائے داری حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر اس کے خلاف تقریریں اور بیانات بے اثر ہوجاتے ہیں۔
ایک فرد جب اپنی آمدنی سے کئی گنا زیادہ اخراجات والی شادی کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں سے انتظام کرتا ہی ہے۔ آپ شادی کی چمک دمک اور دھوم دھام سے آگے بڑھ کر جب حقیقتِ حال جاننے کی کوشش کریں گے تو بہت سے المیے نظر آئیں گے۔ کوئی اپنی جائیداد بیچ دیتا ہے۔ کوئی لوگوں سے بیاج پر قرض لیتا ہے۔ کوئی زکات و صدقات جمع کرتا ہے۔ کوئی رشتے داروں سے مدد مانگتا ہے۔ بہت سےلوگ کئی کئی سال تک اپنی آمدنی میں سے بچت کرتے ہیں۔ اس بچت کی خاطر وہ اپنے حقوق، دوسرے بندوں کے حقوق اور اللہ کے حقوق کی ادائی میں کوتاہی کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے سامنے ایک ہی ہدف ہوتا ہے، شادی کی تقریب۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف سماج شادی کے اخراجات کی ایک اونچی سطح متعین کردیتا ہے۔ اس کے بعد سماج کے خوش حال لوگوں کے غیر ذمے دارانہ رویے اس سطح کو مزید بلند کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کی تسکین کی خاطر سماج میں رائج شادیوں کی سطح سے بہت زیادہ اوپر اٹھ کر شادی کی تقریب کرتے ہیں۔ ان شادیوں کی دھوم دھام اور چکاچوند بہت سے دلوں میں اکساہٹ پیدا کرتی ہے اور سماج میں رائج شادیوں کی سطح جو پہلے ہی اونچی ہوتی ہے، مزید اوپر اٹھ جاتی ہے۔
اس خرابی میں بہت بڑا اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب اس میں مقابلہ آرائی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ بھائیوں میں مقابلہ آرائی، پٹی داروں میں مقابلہ آرائی۔ ایک بھائی بڑی دھوم دھام سے شادی کرتا ہے تو دوسرا بھائی اس سے زیادہ دھوم دھام سے شادی کرنے کی دھن سوار کرلیتا ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر نفس کی تسکین ہونہیں سکتی۔
مقابلہ آرائی کی یہ کیفیت جب گھر گھر پہنچنے لگتی ہے تو پورے سماج میں شادیوں کی شاہ خرچیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس طرح برسات کے موسم میں بارشوں کی زیادتی سے دریا کا پانی خطرے کے نشان سے اوپر بہتا اور تباہی مچاتا ہے۔ اسی طرح مقابلہ آرائی کے نتیجے میں سماج میں رائج شادیوں کے اخراجات کی سطح خطرے کے نشان سے بہت اوپر چلی جاتی ہے اور پورا سماج سنگین صورت حال سے دوچار ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی تقریب میں بہت بڑی رقم خرچ کردی جاتی ہے۔ یہ خرچ کی وہ بڑی مد ہے جس کے بدلے میں کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ آدمی بچت کرکے گھر تعمیر کرلے تو آنے والی کئی نسلوں کے رہنے کا انتظام ہوجاتا ہے۔ بچت کرکے حج کرلے تو اسلام کے ایک رکن کی ادائی ہوجاتی ہے اور انسان کی روحانی تربیت و ترقی کی ایک اہم ضرورت پوری ہوتی ہے۔ بچت کرکے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرے تو اگلی نسل کو روشنی ملتی ہے۔ بچت کرکے سماجی کاموں میں حصہ لے تو سماج کی خدمت ہوتی ہے اور بچت کرکے اپنے لیے صدقہ جاریہ کا انتظام کرلے تو آخرت کی کام یابی کا انتظام ہوجاتا ہے۔ لیکن اپنی عمر کے ایک طویل حصے کی خون پسینے کی کمائی کو اور پیٹ کاٹ کر اور جائزخواہشوں کا گلا گھونٹ کر کی گئی بچت کو شادی کی تقریب کے نام پر لٹادے تو اس کے بدلےنہ دنیا میں کچھ ملتا ہے اور نہ آخرت میں کچھ ملنے والا ہے۔ بلکہ آخرت میں تو اس کی بازپرس بھی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔
اسراف و تبذیر کی قرآن مجید میں سخت مذمت کی گئی ہے۔ دو مقامات پر تو خرچ کے حوالے سے کہا گیا کہ اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا یحِبُّ الْمُسْرِفِینَ [الأعراف: 31]
(کھاؤ اور پیو اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا)
كُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ یوْمَ حَصَادِهِ وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا یحِبُّ الْمُسْرِفِینَ [الأنعام: 141]
(جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا)
جب کہ ایک مقام پر تو تنبیہ کا اسلوب نہایت سخت ہوگیا ہے۔
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرًا۔ إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّیاطِینِ وَكَانَ الشَّیطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا [الإسراء: 26، 27]
(اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ، کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے)
یہاں علامہ طاہر بن عاشور سوال اٹھاتے ہیں کہ فضول خرچ کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کیوں کہا گیا؟ پھر اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: شیطان فضول خرچی پر اکساتا ہے۔ فضول خرچی میں انسان اپنا مال یا تو بگاڑ کی راہوں پر خرچ کرتا ہےیا نامعقول کاموں اور لذتوں کی راہوں میں لٹادیتا ہے اور اس طرح بھلائی کی مدوں میں خرچ کرنے کی گنجائش ختم کرلیتا ہے۔ اور شیطان کو یہ سب چیزیں خوش کرنے والی ہیں۔ (تفسیر التحریر و التنویر)
انفرادی زندگی میں تو اسراف و تبذیر کی بے شمار صورتیں لوگوں سے سرزد ہوتی ہیں، لیکن اسراف و تبذیر کی ایسی شکل جو بہت بڑے پیمانے پر سماج کا ایک بہت مضبوط معمول بن جائے، تمام لوگ اس سے منسلک ہوجائیں اور اس کے خلاف کوئی آواز اور کوئی اقدام برداشت نہ کیا جائے، وہ شادی کے موقع پر ہونے والا اسراف و تبذیر ہے۔ یہ اسراف و تبذیر کی وہ بڑی شکل ہے جس کو بلا اختلاف فرقہ و مسلک سب نے اپنا لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس سماجی معمول کی گرفت اتنی سخت ہے کہ کوئی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرپاتا۔ اس سلسلے میں دو مثالیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی مثال افسوس ناک اور دوسری مثال مضحکہ خیز ہے۔
افسوس ناک مثال یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو شادی کی شاہ خرچیوں کے خلاف ہیں، انھیں غلط سمجھتے ہیں، ان کے خلاف اپنے موقف کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن جب اپنا موقع آتا ہے تو بالکل بے بس ہوجاتے اور اسی رو میں بہہ جاتے ہیں۔
مضحکہ خیز مثال یہ ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو اپنی معمول کی زندگی میں بڑے کنجوس ہوتے ہیں۔ نادار رشتے داروں کی مدد نہیں کرتے، پڑوسیوں کا ذرا خیال نہیں کرتے، خیر کے کاموں میں شریک نہیں ہوتے، ان کے گھروں میں مہمانوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا، پائی پائی کا حساب رکھنے والے ایسے بخیل لوگ بھی جب شادی کا موقع آتا ہے تو اپنی تجوری کا منھ کھول دیتے ہیں اور پانی کی طرح دولت بہاتے ہیں۔
ایسے سخت گیر اور مضبوط سماجی معمول کو بدلنے اور اسے حالت اعتدال پر لانے کے لیے زبردست تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک پیچیدگی یہ پیش آتی ہے کہ اس رواج کو اختیار کرنے یا نہیں کرنے کا فیصلہ خاندان کے کسی ایک فرد کے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے۔ کہیں لڑکے کے اپنے ارمان ہوتے ہیں تو کہیں لڑکے کے والد یا والدہ کے، کہیں لڑکی کے اپنے ارمان ہوتے ہیں تو کہیں لڑکی کے والد یا والدہ کے۔ دونوں گھروں کے دیگر بزرگوں کی آرزوئیں بھی ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی اپنی تمناؤں کا شدت سے اظہار کرنے لگتے ہیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ شادی دھوم دھام سے ہونی چاہیے۔
عام طور سے تو دونوں خاندانوں کے سبھی لوگ شادی کی شاہ خرچیوں کی تائید اور ہمت افزائی کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ لوگوں کا اخلاقی ضمیر اور ان کی سوجھ بوجھ انھیں اس رواج کے خلاف چلنے پر آمادہ کرے تو بھی باقی لوگ ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں اور رواج کا ساتھ دینے پر اصرار کرتے ہیں۔
اس کا اصل حل یہ ہے کہ بہت پہلے سے خاندان کے تمام لوگوں کی ذہن سازی کی جائے اور انھیں اس رواج کی قباحت اور حماقت دونوں سے آگاہ کیا جائے۔
عین شادی کے وقت اپنے اصلاحی موقف کو پیش کرنے اور اس پر اصرار کرنے کا کبھی اثر ہو بھی جاتا ہے لیکن اکثر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے برسوں پہلے سے اور برسہا برس تک اپنے اصلاحی موقف کے حق میں رائے ہم وار کرنی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی تقریب کے بعض پہلوؤں کے بارے میں تو بعض لوگوں کی تنقیدی اور اصلاحی رائے بننے لگی ہے۔ جیسے یہ کہ لڑکی کے گھر والوں پر جہیز اور بارات کے کھانے کا بڑا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ لیکن موجودہ دور کی شادیوں میں جہیز اور بارات کا کھانا ہی بڑا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس سے بھی بڑا مسئلہ مجموعی طور پر شادی کی شاہ خرچیاں ہیں۔ یہ شاہ خرچیاں لڑکی والوں کے یہاں بھی ہوتی ہیں اور لڑکے والوں کے یہاں بھی ہوتی ہیں۔ نکاح کی محفل میں بھی ہوتی ہیں اور ولیمے کی دعوت میں ہوتی ہیں۔ نکاح سے پہلے کی بعض تقریبات میں بھی ہوتی ہیں اور ولیمے کے بعد کی بعض تقریبات میں بھی ہوتی ہیں۔ پکوانوں میں بھی ہوتی ہیں اور پہناوں میں بھی ہوتی ہیں۔
جہیز اور بارات کے کھانے کو معیوب سمجھنے والے انھیں معیوب نہیں سمجھتے ہیں۔ اس لیے اب صرف جہیز اور بارات کو نشانہ تنقید بنانے سے آگے بڑھ کر شادی سے جڑی تمام شاہ خرچیوں کو نشانہ تنقید بنانے کی ضرورت ہے، خواہ وہ شاہ خرچیوں والا ولیمہ ہی کیوں نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔
جب شادیوں میں بڑی تقریب منانے اور شاہ خرچیاں کرنے سے روکنے کی ترغیب دی جاتی ہے تو بعض لوگ خلط مبحث کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دینی جلسوں اور اجتماعوں کے انعقاد میں اچھا خاصا صرفہ آتا ہے، اس لیے دینی جلسے اور اجتماع بھی نہ کیے جائیں۔
یہ اپروچ درست نہیں ہے۔ فضول خرچیاں تو دینی جلسوں اور اجتماعوں میں بھی نہیں ہونی چاہئیں، تاہم یہ فرق اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ دینی جلسوں اور دینی اجتماعوں کے سماج پر اچھے اثرات پڑتے ہیں اور شادیوں کا معاملہ یہ ہے کہ جتنی بڑی تقریب ہوتی ہے اتنے ہی خراب اثرات سماج پر واقع ہوتے ہیں۔
دولت کے سلسلے میں ہمارا نقطہ نظر درست اور متوازن ہونا چاہیے۔ سلف صالحین نے بہت عمدہ اصول دیا ہے اور وہ ہے لا خیر فی سرف ولا سرف فی الخیر۔ ’’فضول خرجی كتنی ہی قلیل ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور کار خیر میں کتنا ہی زیادہ خرچ کیا جائے وہ فضول خرچی نہیں ہے۔‘‘
اگر کروڑوں روپیہ خرچ کرنے سے سماج کی اصلاح ہوتی ہو، افراد کی صالحیت اور صلاحیت بڑھانے میں مدد ملتی ہو، دین کے فروغ کا کام ہوتا ہو تو اتنے عظیم فائدوں کے مقابلے میں کروڑوں اور اربوں روپے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن اگر کچھ لاکھ روہے میں کی جانے والی تقریب سماج کو غلط سمت دکھائے تو اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔
شاہ خرچیوں والی شادیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان میں خرابیاں بہت زیادہ ہیں اور اچھائی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
شادی پر کتنا خرچ کیا جائے تو حد اعتدال شمار ہوگا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جنھیں زیادہ دولت سے نوازا ہے وہ زیادہ احتیاط سے کام لیں۔ عام آدمی کی طرح شادی کی تقریب انجام دیں۔ وہ عام آدمی کے لیے رول ماڈل بنیں۔ عام لوگ ان سے دولت کا غلط استعمال نہیں بلکہ صحیح استعمال سیکھیں۔
جہاں تک عام آدمی کی بات ہے تو اصول یہ ہونا چاہیے کہ سالانہ آمدنی کے اندر ہی شادی کی تقریب انجام پاجائے۔ اس کے لیے الگ سے رقم جٹانا نہیں پڑے۔ اسی میں جس طرح کا ولیمہ ہوسکے کرلیا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں شادی اسی طرح ہوتی تھی کہ جس کے پاس جو ہوتا تھا اسی میں وہ شادی کرلیتا تھا۔ شادی کی تقریب اس کی آمدنی پر اضافی بوجھ کا سبب نہیں بنتی تھی۔
اللہ کے رسول ﷺ کے پاس جو بھی شادی کے لیے آیا، آپ نے اس سے یہی کہا کہ تمھارے پاس جو ہے وہ لے آؤ اسی سے تمھاری شادی کردی جائے گی۔ کسی سے یہ نہیں کہا کہ جاؤ کچھ سال کماؤ، جب زیادہ سی دولت ہوجائے گی تب تمھاری شادی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی شاہ خرچیاں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں۔ اس میں روز نئے عناصر کا اضافہ ہورہا ہے۔ تفنن پسندی انسان کی جبلت کا حصہ ہے۔ خوشی کا اظہار ہو یا خوش حالی کی نمائش ہو، جب تک اس میں کچھ نیا نہ ہو نفس کو تسکین نہیں ہوتی۔ جدت طرازیاں شادی کی شاہ خرچیوں میں اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ لیکن جن جدت طرازیوں کا حاصل دولت کا ضیاع ہو، وہ قابل تعریف نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ اسراف و تبذیر اور نمود و نمائش کا راستہ اپنے اوپر مضبوطی سے بند کردیا جائے پھر اعتدال کے حدود میں جدت طرازیاں کی جا سکتی ہیں۔تفنن پسندی اور جدّت طرازی خرابیوں میں بہت زیادہ اضافہ کرتی ہے جب وہ شاہ خرچیوں کا راستہ اختیار کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے رسول ﷺ نے شادی کے موقع پر خوشی کے اظہار اور سادگی کے شعار کو بہت خوب صورتی کے ساتھ جمع کردیا۔ سنن ترمذی کی ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
أعلنوا هذا النكاح، واجعلوه فی المساجد، واضربوا علیه بالدفوف۔ ’’نکاح کا اعلان کیا کرو، اسے مسجدوں میں کیا کرو اور اس موقع پر دف بجالیا کرو‘‘ (امام ترمذی نے اسے حسن اور بعض محققین نے ضعیف قرار دیا ہے، بہرحال مفہوم قرآن وسنت کی روح کے مطابق ہے) نکاح کا اعلان کرنے سے لوگوں کو اس کی خبر ہوگی۔ مسجد میں کرنے سے سادگی اور روحانیت حاصل ہوگی اور دف بجانے سے خوشی کا ایک معتدل اظہار ہوگا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک طرف تو یہ تعلیم دی کہ نکاح آسان سے آسان تر ہونا چاہیے۔ فرمایا: خَیرُ النِّكَاحِ أَیسَرُهُ ’’جو نکاح جتنا زیادہ آسانی والا ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ اچھا ہوگا۔ ‘‘ (سنن أبی داود) نکاح آسان ہوتا ہے جب اس کے اخراجات کم ہوتے ہیں اور نکاح مشکل ہوتا ہے جب اس کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ دوسری طرف اللہ کے رسول ﷺ نے یہ تعلیم بھی دی کہ شاد ی کی خوشی منائی جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ انھوں نے ایک عورت کی شادی انصار کے ایک صاحب سے کی۔ پیارے نبی ﷺ نے اس موقع پر فرمایا: عائشہ تمھارے پاس کچھ تفریح کا سامان نہیں تھا؟ انصار تفریح پسند کرتے ہیں۔ (یا عَائِشَةُ، مَا كَانَ مَعَكُمْ لَهْوٌ؟ فَإِنَّ الأَنْصَارَ یعْجِبُهُمُ اللَّهْوُ) صحیح البخاری (7/ 22)، حدیث کی شرح کرنے والے لکھتے ہیں کہ تفریح کے سامان سے مراد گیت گانے اور دف بجانے کا انتظام ہے۔
معلوم ہوا کہ شادی میں تفریح کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے، مگر ایسی تفریح نہیں جو شادی کے اخراجات بڑھادے، بلکہ ایسی تفریح جو معمولی اخراجات میں حاصل ہوسکے۔ جیسے یہ کہ کچھ بچوں یا بچیوں نے گیت گادیا۔ کچھ ہلکا پھلکا دف بجالیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص کے اوپر زندگی کے کتنے بوجھ ہوتے ہیں؟ کم آمدنی میں اسے گھر کا خرچ چلانا ہے، بچوں کو تعلیم دلانا ہے، علاج معالجے پر خرچ کرنا ہے، گھر کی مرمّت کرواتے رہنا ہے، ناگہانی آفتوں کا سامنا کرنا ہے، بوڑھے والدین، بے روزگار رشتے دار، نادار پڑوسی، غرض اس کے اوپر ذمے داریوں کا اچھا خاصا بوجھ ہوتا ہے۔ اب اس سب کے بعد اس کے اوپر بالکل ہی غیر ضروری طور پر شادی کی تقریبات کا اچھا خاصا بوجھ ڈال دیا جائے، یہ کہاں کی رحم دلی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس سماج کا ہم حصہ ہیں، وہ سماج رحم دلی کی بنیادوں پر استوار نہیں ہوا ہے۔ اس لیے سماج کی تشکیل نو کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے۔ انسانیت کو ایسے سماج کی ضرورت ہے جس میں ہر کام یہ سوچ کر کیا جائے کہ باقی لوگوں پر اس کے منفی اثرات نہ پڑیں، مثبت اثرات پڑیں۔ ایسا سماج جس میں کوئی رواج کسی کو پریشانی میں ڈالنے والا نہیں ہو۔
ہمارا رب تو اتنا رؤوف و رحیم ہے کہ اس نے ہر چیز میں اپنے بندوں کی استطاعت کی رعایت رکھی ہے۔ حج کو بہت اہم فریضہ بتایا گیا، دین کا ستون قرار دیا گیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ حج استطاعت رکھنے والوں کو کرنا ہے۔
اور ہمارا سماج اتنا سنگ دل ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا لحاظ نہیں رکھتا۔ غیر مستطیع فرد پر بھی اس کی سکت سے کئی گنا زیادہ بوجھ ڈال دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ رشتہ اور تاریخ طے ہوتے ہی خاندان بھر کی فکر شادی کی تقریب پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ اسی کے لیے منصوبے بنتے ہیں، نئے نئے آئیڈیا سامنے لائے جاتے ہیں اور خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خود شادی کے بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں ہوتی کہ شادی کام یاب ہو اور زوجین خوشی اور محبت والی زندگی گزاریں۔ اس کی وجہ سے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شادی کی تقریب تو بڑی رنگین ہوتی ہے لیکن شادی کی زندگی بے رنگ گزرتی ہیں۔ شادی کے کھانے مزے دار مگر شادی کی زندگی بے مزا اور کبھی بدمزا ہوجاتی ہے۔
ہماری توجہ شادی کی تقریب سے کہیں زیادہ اس پر ہونی چاہیے کہ شادی کے بعد کی ازدواجی زندگی حسین و خوش گوار گزرے۔ شادی کی تقریب تو اتنی مختصر اور سادہ رہے کہ اس کے لیے کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہی نہ رہے البتہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے بہت اچھی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ گھر کے تمام لوگ ذہنی طور پر خود کو تیار کریں۔ زوجین خوش گوار زندگی گزاریں اور ان کے ساتھ تمام خاندان والے بھی الفت و محبت کا رشتہ رکھیں، یہ سب کا مشترکہ ہدف بن جائے اور اس کے سلسلے میں ارادہ اور منصوبہ خاندان کے ہر فرد کے دل ودماغ میں رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے یہاں شادی سے پہلے استعداد سازی (pre marriage counseling)کا بالکل مزاج نہیں ہے۔ بلکہ الٹا رشتے داروں اور تعلق والوں کی طرف سے زوجین کی منفی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ لڑکے کی ذہن سازی اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ بیوی سے زیادہ محبت کا اظہار نہ کرے، کیوں کہ یہ جورو کی غلامی کے مترادف ہے۔ لڑکی کے ذہن میں یہ بٹھایا جاتا ہے کہ ساس اور نندوں کو خاطر میں نہیں لانا اور جلد سے جلد شوہر کو ان سے الگ کرکے اپنے قبضے میں لے لینا ہے۔ اس طرح سے نہ لڑکا شادی کے بعد ٹوٹ کر محبت کرنے والا شوہر بن پاتا ہے اور نہ ہی لڑکی شادی کے بعد اپنی سسرال میں مثبت تعمیری کردار ادا کرپاتی ہے۔ شادی دھوم دھام سے ہوتی ہے مگر شادی کے بعد گھر ایک کشمکش کا میدان بن جاتا ہے۔ چوں کہ شادی کے مقاصد نگاہ سے اوجھل ہوتے ہیں اس لیے لڑکی اور لڑکے میں بے لوث محبت پروان نہیں چڑھتی ہے اور وہ رشتہ جسے دونوں کی زندگیوں میں شہد گھولنے والا ہونا تھا بدمزگیوں کے خارزار میں ٹھوکریں کھاتے اور ٹیسوں سے کراہتے ایک مجبوری کی طرح جی لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
حکومت کی طرف سے شادی کی کم سے کم عمر طے کی جاتی ہےاور اسے بڑھانے کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ دیگر لوگوں کے علاوہ اسلام پسند حلقوں کی طرف سے خاص طور پر اور بجا طور پر اس کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ خود ہمارے سماج کی طرف سے شادی کی کم سے کم عمر کافی زیادہ بڑھادی گئی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں کافی تاخیر سےہورہی ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ دیہی معاشروں میں جلدی شادیاں ہوجاتی تھیں لیکن جیسے جیسے شہری معاشرت کا رجحان غالب آتا جارہا ہے شادیوں میں تاخیر کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اس تاخیر کی ایک وجہ تو شادی کی تقریب کے بارے میں یہ تصور ہے کہ اس پر بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے، دوسری بڑی وجہ شادی کے بعد والی زندگی کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ بہت زیادہ اخراجات والی زندگی ہوتی ہے۔ یہ دونوں ہی تصورات درست نہیں ہیں۔ شادی کے بعد گھر کے خرچ میں کچھ اضافہ ضرور ہوتا ہے لیکن وہ اتنا نہیں ہونا چاہیے کہ شادی ہی میں تاخیر کرنی پڑجائے۔ زندگی کو غیر ضروری تکلفات سے آزاد کرکے گزارا جائے تو آسانی سے گزر جاتی ہے۔ ورنہ بہت سے ماہ و سال موسم بہار کا انتظار کرتے گزر جاتے ہیں جب کہ موسم بہار کی راہ میں رکاوٹ ہم خود بنے ہوتے ہیں۔ حفیظ میرٹھی نے خوب کہا ہے:
بزمِ تکلفات سجانے میں رہ گیا
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔
لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی وجہ یہ خیال بھی ہے کہ شادی کے بعد تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں ہوپاتا ہے۔ واقعاتی پہلو سے یہ بات درست بھی ہے۔ عمومًایہی ہوتا ہے کہ لڑکی خاص طور سے شادی کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی ہے۔ لیکن اس کی اصل وجہ نہ تو شادی کی پیچیدگیاں ہیں اور نہ ہی تعلیم کی پیچیدگیاں ہیں۔ اس کی اصل وجہ زندگی کے نظم و نسق کے تعلق سے ہماری اپنی کم زوریاں ہیں۔ زوجین اگر اپنی ازدواجی زندگی کی بہتر ترتیب و تنظیم کرلیں تو شادی کے بعد بھی تعلیم کا سفر بلکہ تعلیم کے عملی انطباق کے مواقع کا بھرپور استعمال بھی ممکن ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بے شمار شادی شدہ جوڑے اس کا کام یاب تجربہ کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہماری ترجیحات درست ہوجائیں تو ہمارے رویوں میں بہت بڑی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ خوش گوار ازدواجی زندگی کو شاہ خرچیوں والی تقریب پر ترجیح دی جائے۔ ازدواجی زندگی کی سعادت کو زندگی کے تکلفات پر ترجیح دی جائے۔ زندگی کے حقیقی تقاضوں کو سماج کے بے جا رواجوں پر ترجیح دی جائے۔ حقیقی خوشی کو مصنوعی خوشی پر ترجیح دی جائے۔عظیم اخلاقی قدروں کو معمولی نفسانی خواہشوں پر ترجیح دی جائے۔ آخرت کو دنیا پر ترجیح دی جائے۔ قرآن مجید بار بار اس ترجیح کی طرف متوجہ کرتا ہے:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَینَیكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیاةِ الدُّنْیا لِنَفْتِنَهُمْ فِیهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَیرٌ وَأَبْقَى [طه: 131]
(اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انھیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے اور تیرے رب کا رزق بہتر اور باقی رہنے والا ہے)
وَمَا أُوتِیتُمْ مِنْ شَیءٍ فَمَتَاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَزِینَتُهَا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَیرٌ وَأَبْقَى أَفَلَا تَعْقِلُونَ [القصص: 60]
(تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دُنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟)
فَمَا أُوتِیتُمْ مِنْ شَیءٍ فَمَتَاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَیرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ یتَوَكَّلُونَ [الشورى: 36]
(جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والا بھی ہے۔ وہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں)
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیاةَ الدُّنْیا . وَالْآخِرَةُ خَیرٌ وَأَبْقَى [الأعلى: ۱۶-۱۷]
(مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ حالاں کہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے)
کسی کے دل میں اگر جنت کا سودا سما جائے تو وہ چند گھنٹوں کے لیے عالی شان شادی ہال کی بکنگ نہیں کرائے گا، بلکہ جنت میں ہمیشہ کے لیے عالی شان محل بک کرانے کی فکر کرے گا۔ محض ایک شادی کے دن کے لیے لاکھوں روپے کا جوڑا نہیں سلوائے گا، بلکہ سندس و استبرق کے جنتی لباس زیبِ تن کرنے کا شوق پالے گا۔ انسانوں کے سامنے اپنی دولت کی نمائش کرنے میں اسے کوئی لطف نہیں آئے گا، حشر کے میدان میں اپنے اعمال نامے کو دیکھنے اور دکھانے کے لائق بنانے کی دھن اس پر سوار رہے گی۔
غرض اس کی زندگی راہ اعتدال پر اور صراط مستقیم پر رہے گی اور وہ بہت سی پیچیدگیوں، حماقتوں اور نادانیوں سے محفوظ رہے گا۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024