اس میں شک نہیں کہ مولانا مودودیؒ نے زندگی بھر اپنے مجدد ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا جب کہ نادان مخالفوں نے تو ان کے انقلاب انگیز کارناموں کی جلن میں اور بالخصوص “تجدید و احیائے دین”میں امام مہدی کے تصور پر غیر روایتی انداز سے روشنی ڈالنے کے ردعمل میں یہ پیشین گوئی کرڈالی کہ مولانا مودودی خود ہی مہدیٔ وقت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ مگر مولانا نے زندگی بھر اس طرح کا کوئی دعویٰ نہ کرکے مخالفین کو دنیا سے آخرت تک مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔
اسلام کی تجدیدی تاریخ شاہد ہے کہ بالعموم مشاہیر مجددین کے تجدیدی کارناموں کا اعتراف ان کے انتقال کے بعد ہی ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن و سنت کے کتابی شکل میں مدون و مشتہر ہوجانے کے باوجود ہر صدی یا ہر دور میں کسی مجدد کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے: ۔
(۱) اولاً یہ پورا کائناتی نظام ثبات کے ساتھ تغیر کی بنیاد پر اس کے خالق نے قائم کیا ہے۔ تغیر کو اللہ نے ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔“كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ”علامہ اقبال کے لفظوں میں ع ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
(۲) قرآن پاک آخری الہامی کتاب اور صاحب قرآن محمد رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں اب قیامت تک نہ کوئی نبی اور نہ کتاب نازل ہونے والی ہے تو قیامت تک متغیر حالات میں قرآن و سنت کی اساس پر انسانی ارتقا کا عمل تو بہرحال جاری رہنا ہے ورنہ ملت جمود وفنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔ لہذا کار تجدید قیامت تک جاری رہے گا۔
کائنات کی روحانی تعبیر
اسلام کی تجدیدی تاریخ میں تین تجدیدی رجحانات تقریباً ہر دور میں پائے گئے ہیں۔ اولاً روایت پسند دوم اساسیت پسند اور سوم جدیدیت پسند۔ مولانا مودودیؒ کے تجدیدی کارناموں کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اسلامی تاریخ کے عالمی اور ہندوستانی تناظر میں کچھ مجددین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس وقت تفصیل کی گنجائش نہیں ہم صرف چند نام گنانے پر اکتفا کریں گے۔
عالمی تناظر کے مجددین: ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ(پ ۶۱ھ۔، و۱۰۱ھ) امام ابو حنیفہؒ، (پ۸۰ھ، و۱۵۰ھ۔) امام مالکؒ،(پ۹۵ھ، و ۱۷۹ھ۔) امام شافعیؒ، (پ۱۵۰ھ، و ۲۰۴ھ۔) امام احمد بن حنبلؒ،(پ۶۴ھ،و۱۴۱ھ) امام غزالیؒ(پ۴۵۰؍ و ۵۰۵ھ؍)امام ابن تیمیہؒ (پ ۶۶۱ھ؍ و ۷۲۸ھ؍) شاہ ولی اللہؒ (پ ۱۱۱۴ھ؍، و ۱۱۷۶ھ؍) نیز جمال الدین افغانیؒ، علامہ اقبالؒ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔
ہندوستانی تناظر کے مجددین: ۔ شیخ احمد سرہندیؒ، شاہ ولی اللہؒ، سید احمد بریلویؒ، سرسید احمد خاںؒ، علامہ اقبالؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا مودودیؒ۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ اور مولانا مودودیؒ کی ہمہ گیری اور مجموعی اساسیت، سید احمد خان اور چراغ علی کی فطری عقلیت، مولانا ابوالکلام آزادؒ کی مذہبی کثرتیت اور غلام احمد پرویز کی توضیحی نو جدیدیت نے اس برصغیر میں کار تجدید کو خاصا تہدار، پیچیدہ اور کثیر الجہات بنادیا ہے۔ اس سلسلے میں بالخصوص امام ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہؒ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے تجدیدی کارناموں میں ہمہ گیری، عالمی تناظر اور کلی و تحریکی نقطہ نظر سے بعض جزوی فرق کے باوجود جو مماثلت اور جہانی اثرات پائے جاتے ہیں وہ تقابلی مطالعہ کا ایک اہم موضوع بن سکتے ہیں۔
علامہ اقبال نے “تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ”(Reconstruction of Islamic Thought in Islam ) میں امام ابن تیمیہؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ
“امام ابن تیمیہؒ کی تعلیمات کا اثر نجد کی سرزمین پر اولین ارتعاش کی شکل میں ابھرا۔ پھر تو ایشیا، افریقہ اور عالم اسلام کی ہر تحریک پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کا اثر نمایاں ہے۔ مثلاً سنوسی تحریک، تحریک اتحاد اسلامی(جس کی بنا جمال الدین افغانی نے رکھی) بابی تحریک (عجمی صدائے باز گشت) عربی احتجاجیت (Protestantism ) بدعات کے خلاف مصلح عظیم محمد بن عبدالوہاب۔”
ان سب میں آزادی اجتہاد کی روح جاری و ساری تھی۔ مولانا مودودیؒ نے ’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں شاہ ولی اللہؒ کے بارے میں تسلیم کیا ہے کہ “انھوں نے اسلام کے پورے فکری، اخلاقی، شرعی اور تمدنی نظام کو ایک مرتب صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے”۔۔۔۔۔“حجۃ اللہ البالغہ اور البدور البازغہ”دونوں کا موضوع بھی یہی ہے۔
ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے بعد مولانا مودودیؒ نے پوری کائنات کو ایک منظم ادارے کی حیثیت سے دیکھا اور اس کے اندر فطرت انسانی کو کائناتی کل کے ساتھ بالکل ہم آہنگ محسوس کیا۔ تفہیمات حصہ اول کا مضمون ’’کوتاہ نظری‘‘ کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں: “ائنات علیحدہ علیحدہ مستقل الوجود اجزا پر مشتمل نہیں بلکہ وہ ایک کل ہے جس کے تمام اجزا ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ جیسے ہمارے سر کا ایک بال اور ہاتھ کا ایک رونگٹا”۔ مولانا مودودیؒ کو اہل نظر نے ایک عالمی انقلابی مجدد کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے جس کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔ انھوں نے مغرب کی جدید فکری یلغار پر تفہیمات و تنقیحات جیسی تصانیف کے ذریعے نہ صرف موثر کلیمی ضرب لگائی بلکہ نعیم صدیقی صاحب کے لفظوں میں مغرب زدہ مسلمانوں کے “احساس کمتری کے رتوند”اور “یرقان ابیض”کو بھی دور کیا اور اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے مدلل و موثر بنا کے پیش کیا۔ اس چوکھٹے میں انھوں نے اسلام کے سیاسی نظریے اور تصور خلافت کو “خیالی پلاؤ”اور “خیالی جنت”(Utopia ) سمجھنے والوں کو نہ صرف مسکت جواب دیا بلکہ اس تصور کے عملاً دنیا کے کئی مسلم ملکوں میں برپا ہونے والی تبدیلیوں میں ان کے اثرات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ بالخصوص ایران، سوڈان، پاکستان اور کئی دوسرے ممالک میں ““پردہ”جسے “پردہ غفلت”سے عابد حسین جیسے دانش وروں نے تعبیر کیا وہ آج مسلم ممالک کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی مسلم خواتین کی تہذیبی شناخت اور دینی و تحریکی کشمکش کے ایجنڈے میں شامل ہوچکا ہے۔ “سود” کو مسلم دنیا نے بھی تقریباً جدید معیشت کا جزو لاینفک باور کرلیا تھا مگر مولانا مودودیؒ کے اجتہادی فکر نے اس موضوع کے اس طرح بخیے ادھیڑے کہ آج عالمی معیشت میں بلا سودی اسلامی معاشیات کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں کئی ماہرین اسلامی معاشیات بالخصوص پروفیسر خورشید احمد صاحب اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب وغیرہ نے اس موضوع کو خاصا آگے بھی بڑھایا ہے۔
تقویٰ اور جہاد کو مریضانہ تصوف اور سامراجی قوتوں کے علمبرداروں نے بطور خاص نشانہ بنایا۔ جب کہ اسلامی نظریہ کا بنیادی قانون یہ ہے کہ انسان تقویٰ اور جہاد کی روش اختیار کرے۔ اصول تقویٰ فرد کی زندگی سنوارتا ہے اور خدا سے راست تعلق قائم کرتا ہے اور اصول جہاد تہذیب اور تاریخ کو صحیح سمت عطا کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو آج یہ جذبۂ جہاد ہی ہے جس نے پوری امت مسلمہ کو ظلم و طغیان کے مقابلے میں اپنے اعصاب پر کھڑا کررکھا ہے۔ جب کہ مسیحیت، صیہونیت، احمدیت اور تبلیغیت نے اسے دہشت گردی، تعطل اور ’’محنت‘‘ کی لچھمن ریکھا میں مقید کردینے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پر مولانا مودودیؒ کی گرانقدر تصنیف الجہاد فی الاسلام ہنوز اسلامی لٹریچر میں ایک اہم ترین لاثانی اضافہ ہے جس کی معنویت و اہمیت کو علامہ سید سلیمان ندویؒ اور علامہ اقبالؒ نے بھی قابل قدر تسلیم کیا، اس اسلامی سیاست کے ذیل میں مولانا مودودیؒ نے ایک گراں قدر علمی و عملی ریکارڈ چھوڑا ہے۔ انھوں نے ’’تجدید‘‘ میں صاف لکھا ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ
“حکومت کے بغیر کسی نظریہ و ضابطہ کو پیش کرنا یا اس کا منعقد ہونا محض بے معنی ہے۔۔۔۔۔۔پس دنیا میں انبیا علیہم السلام کے مشن کا منتہائے مقصود یہ رہا ہے کہ حکومت الٰہیہ قائم کرکے اس پورے نظام زندگی کو نافذ کریں جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے”۔(تجدید ص۲۱۔۲۲)
مولانا مودودیؒ نے تجدید میں جملہ مجددین کو جزوی مجدد ثابت کیا ہے ان کے خیال میں مجدد کامل امام مہدی قسم کی کوئی شخصیت ہوگی، اس مجدد کامل کا مقام ابھی تک خالی ہے:
“ر وہ مجدد کامل تسبیح ہاتھ میں لیے یکایک کسی مدرسے یا خانقاہ کے حجرے سے برآمد نہیں ہوں گے۔ وہ تو اپنے زمانے میں بالکل جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا۔ وقت کے تمام علوم جدیدہ پر اس کو مجتہدانہ بصیرت حاصل ہوگی۔۔۔۔وہ خالص اسلام کی بنیادوں پر ایک نیا مذہب فکر (School of Thought ) پیدا کرے گا، ذہنیتوں کو بدلے گا، ایک زبردست تحریک اٹھائے گا جو بیک وقت تہذیبی بھی ہوگی اور سیاسی بھی، جاہلیت اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اس کو کچلنے کی کوشش کرے گی مگر بالآخر وہ جاہلی اقتدار کو الٹ کر پھینک دے گا اور ایک ایسا زبردست اسلامی اسٹیٹ قائم کرے گا جس میں ایک طرف اسلام کی پوری روح کارفرما ہوگی اور دوسری طرف سائنٹفک ترقی اوج کمال پر پہنچ جائے گی۔ جب کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے ’’اس کی حکومت سے آسمان والے بھی راضی ہوں گے اور زمین والے بھی، آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی”۔
سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ اس مجدد کامل کی آمد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھی رہے یا امت کے اہل نظر اس کی آمد کے لیے جس فضا اور سائنٹفک ترقی کی ضرورت ہے اس میں اپنا رول بھی ادا کریں۔
اس وقت غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اکیسویں صدی میں ایک مجدد کامل کی آمد کے لیے جہانی اسٹیج تیار ہوچکا ہے۔ علمی دھماکے میں بالخصوص مائیکرو ٹکنالوجی بائیوٹکنالوجی اور نیوکلیر ٹکنالوجی نے سارے جہان میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا ہے۔ زمین کے خزانوں کا منھ کھل چکا ہے ہر قسم کی مادی نعمتوں کی افراط ہے۔ مگر عالمی سودی نظام معیشت نے سارے جہاں کے وسائل کو بٹور کے چند ملکوں اور چند جیبوں میں بھرنا شروع کردیا ہے۔ جدید سائنس و ٹکنالوجی نے انسانی ہاتھوں میں اتنی طاقت پیدا کردی ہے کہ وہ اس کرۂ ارضی کے دس بار پرخچے اڑا سکتا ہے۔ چناں چہ اس جدید انسان کے اندھے ہاتھ کو روکا نہ گیا تو دنیا کی تباہی یقینی ہے لہذا اس رواں اکیسویں صدی میں اس کرۂ ارضی کو کسی مصنوعی قیادت سے اگر بچنا ہے تو اس کا نسخہ اسلام کے سوا کسی “سمپورن کرانتی”(انقلاب کامل)یا نام نہاد “نیو ورلڈ آرڈر”کے کسی دعویدار کے پاس نہیں ہے۔ وجہ صاف ہے کہ جدید مغربی سائنس و ٹکنالوجی کے پاس علت و معلول (Cause & Effect )کے سوا غایت(Purpose )کا روحانی فارمولہ ہے ہی نہیں۔ اس وقت یہ فارمولہ صرف اسلام کے پاس ہے۔
مزید یہ ہے کہ جدید سائنسی معروضی نقطۂ نظر اور سائنسی وحدت نے مسلم سائنس دانوں اور محققوں کے لیے کئی نظری و عملی میدان خالی رکھ چھوڑے ہیں جن پر تحقیق و تجربہ کے بعد ہم اس دنیا اور عالم اسلام کو نہ صرف تباہی سے بچا سکتے ہیں بلکہ اسے جنت ارضی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ قرآن پاک کا بھی ارشاد ہے کہ منافع بخش فرد اور قوم باقی رہتی ہے اور بیکار و منجمد اشیاء جھاگ کی طرح رائیگاں ہوجاتی ہیں۔
نظری پہلو سے ذیل کے چند نکات قابل غور ہیں:
(۱) حرکیات حرارت (Thermo Dynamic ) کی تھیوری کی رو سے مادہ قدیم نہیں رہا۔
(۲)آئن اسٹائن کے نظریہ اضافی (Theory of Relativity ) یا ایٹم تھیوری کی رو سے آخری تجزیے میں کائنات صرف ایک ناقابل مشاہدہ برقی لہر رہ جاتی ہے جس نے طبیعات (فزکس) کے ڈانڈے مابعد الطبیعات(Metaphysics ) سے ملا دیے ہیں اور توحید کے سائنسی ثبوت کا مواد فراہم کردیا ہے۔
(۳)اسی طرح تاریک غار (Black Hole ) نے قرآنی حقیقت “علم قلیل”(اسرا۔۸۵) کو بھی ثابت و مبرہن کردیا ہے۔
عملی میدان میں تحقیق و ایجاد کی ایک پوری دنیا منتظر ہے۔ جدید سائنس دانوں کے نزدیک چار اہم ترین قوتیں کائنات میں پائی جاتی ہیں۔(۱) قوت کشش ارضی Gravity Force (۲) برقی مقناطیسی قوت Electro Magnetic Froce (۳) مضبوط نیوکلیائی قوت Strong Nuclear Force (۴) کم زور نیوکلیائی قوت Weak Nuclear Force۔ آئن اسٹائن ایٹم تھیوری کی تلاش کے باوجود ۲۵ برسوں تک ان میں سے کسی دو قوتوں کو جوڑ کر عظیم ترین قوت کی دریافت کرنے سے معذور رہا۔ البتہ ڈاکٹر عبدالسلام نے ان چار میں سے دو قوتوں کو جوڑنے کی تھیوری تیار کرلی اور نوبل انعام کے حقدار ہوئے۔
اسی طرح نباتاتی اور معدنی آئندھن کی جگہ غیر مختتم انرجی مثلاً شمسی، سمندری اور ہوائی توانائی کے استعمال کو کس طرح آسان اور سستا بنایا جائے اس پر سارے جہاں میں زبردست تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر ہم ہیں کہ ایمان و عقائد کے دائرے سے ان مسائل کو باہر سمجھتے ہیں۔ نیز مائیکرو ٹکنالوجی جس نے سارے عالم کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے اس کے کمپیوٹر اور انٹرنٹ کے میدان میں Simulation اور Artificial Intelligence میں ہر روز کا جادو کیسے اپنی مٹھی میں بند کیا جائے اس میں لوگ مصروف ہیں ان کے علاوہ الکٹرانک میڈیا بشمول انٹرنٹ ویب سائٹس اور بائیو ٹکنالوجی کے چمتکار بھی مسلم سائنس دانوں کی راہ تک رہے ہیں۔ دینی و روحانی، سماجی علوم اور اخلاقی تربیت کے ساتھ اگر عصری سائنس و ٹکنالوجی میں مسلم امت اسی طرح پچھڑی رہی تو موجودہ خفت و ذلت اور عالمی غنڈہ گردی سے نجات ممکن نہیں۔ کیوں کہ معاشی سوپرپاور جاپان اور سائنس و ٹکنالوجی کی سوپرپاور امریکہ کے پاس سب کچھ ہے مگر اخلاقی و روحانی طاقت کے فقدان نے ایک ہی سانس میں تاریخ کے اختتام از فوکویاما (The end of history ) کے ساتھ اپنے داخلی عظیم بحران (The great disruption ) کا بھی اعتراف کیا ہے۔ امت مسلمہ نظریاتی سوپر پاور ضرور ہے مگر سائنسی و مادی اعتبار سے عالمی طاقتوں کی غلام ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اس جہانی اسٹیج اور عالمی گاؤں کے تحفظ امن و سلامتی اور اخلاق مندانہ ارتقا کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے۔ اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے دماغ اور عظیم مجدد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے عالمی اسلامی انقلاب کے خواب، جہانی ریاست (World state ) اور جہانی قومیت (World nationality )کے تصور کو اس طرح عملی جامہ پہنائے کہ یہ امت قعر مذلت سے نکل کر دنیا اور آخرت کی صلاح و فلاح کی داعی بنے۔ مشہور مستشرق پروفیسر گسٹاف اے فان گرونیبام (Prof. Gustave E Van ) کے لفظوں میں:
“انسانی شعور کی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ حقائق کے نامعلوم و پوشیدہ خطوں سے روشناس کرائے بلکہ خدا و رسول کے ارشادات کے ان گوشوں، بصیرتوں اور سمتوں کو وا کرے جوان میں پوشیدہ ہیں”۔(برصغیر میں اسلامی جدیدیت۔پروفیسر عزیز احمد۔ص۳۸۱)
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لاالٰہ الا اللہ
مشمولہ: شمارہ مئی 2023