جریدہ ’’اکنامسٹ‘‘ کاایک مضمون نگار لکھتا ہے:
“Maudoodi had a huge effect on the cause of the 20th century by insisting that Islam in a pure and rigorous form could be a recipe for contemporary life”
”Political Islam: A Movement in Motion”, The Economist, June 2014) (Jon Peter Harting(
ترجمہ: ’’مولانا مودودی نے بیسویں صدی میں دورس اثرات مرتب کیے ان کا استدلال یہ تھا کہ اسلام اپنی خالص ترین اور ٹھیٹ شکل میں دور جدید کی زندگی کے لئے موزوں ترین نسخہ ہے۔‘‘
یہ الفاظ کسی عام پڑھے لکھے شخص کے نہیں اور نہ کسی سطحی دانشور کے ہیں، بلکہ یہ الفاظ اسکول آف اورنٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز سے وابستہ جرمن اسکالر جان پیٹر ہارٹنگ(Jon Peter Harting) کے ہیں۔ انہوں نے مولانا مودودی کی زندگی اور ان کی فکر پر کم وبیش پندرہ سال تحقیق کی ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مغربی اہل علم گہرائی سے فکر مودودی کا مطالعہ کررہے ہیںاور ساتھ ہی یہ بھی تجزیہ کرتے ہیںکہ اس فکر سے اب تک مشرق و مغرب پرکتنے اثرات مرتب ہوچکے ہیںنیزآنے والے زمانے میں اس فکر کے کیا اثرات پڑنے والے ہیں اور کیا نتائج نکلنے والے ہیں؟ مولانا مودودی بیسویں صد ی کے جلیل القدر مفکر، مایہ ناز مصنف ،بے باک متکلم اسلام اور احیائے اسلام کے روح رواں تھے۔ انھوں نے اسلام کو اسی نہج اور طرز پرپیش کیا جس طرح ماضی میں امام غزالی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی جیسے مجددین نے پیش کیا تھا۔
مولانا مودودی نے غلبہ دین کے لیے جدوجہد کا آغاز بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے کیا جب انھوں نے محض ۲۳ سال کی عمر میں مولانا محمد علی جوہر ؒ کی تحریک پر (۱۹۲۶ء میں) الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی۔ اس سے پہلے مولانا موصوف صحافت کی دنیا میں قدم رکھ کر متعدد اخبار ورسائل میں اپنی تحریروں کے ذریعے اہل علم کے درمیا ن اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔ الجہاد فی الاسلام تالیف کرنے کے بعد ۱۹۳۴ سے ترجمان القرآن کی وساطت سے لوگوں کو ہم خیال بنانے کے لیے راہ ہموار کرنا شروع کیا۔
۱۹۳۴ سے۱۹۴۱ کے درمیان مولانا مودودی نے احیائے اسلام جیسا عظئم کار نامہ انجام دینے کے لیے اہل علم کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی طور سے تیار کیا۔ نہ صرف صحافت کے ذریعے بلکہ باشعور مسلمانوں کے پاس جا جا کر امت مسلمہ کی ناگفتہ بہ حالت سے باخبرکرایا اور انہیں ایک صالح جماعت یا تحریک کی اہمیت وافادیت کی طرف متوجہ کیا ، دوسری طرف مولانا نے عوام اور دہات کے لوگوں کو اسلام سمجھانے کا کام جاری رکھا اور اس دوران خطبات جمعہ کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ (ان ہی خطبات کو بعد میں مولانا نے حذف و اضافہ کر کے مرتب کیا)۔ خطبات مولانا کی مشہور و معروف کتاب ہے جو اسلامی لٹریچر میں اہم اضافہ ہے یہ کتاب اسی دور کی پیداوار ہے۔ مولانا مودودی جب ۱۹۳۸ ء میں پہلی بار دارالاسلام(پٹھان کوٹ، پنجاب) میں قیام پزیر ہوئے تو وہاںمسجد میں نماز جمعہ کا سلسلہ شروع کیا۔ اور مقامی لوگوں کو اسلام کی بنیادی باتیںسمجھانا شروع کیں۔ مولانا کے مخاطب دہاتی لوگ تھے جن کو اردو زبان سے معمولی شد بد تھی اس لیے انھوں نے زبان اور انداز بیان دونوں نہایت سہل اور عام فہم استعمال کیے۔ یہ مجموعہ انہی خطبات جمعہ پر مشتمل ہے ۔خطبات ۱۹۴۰ ء میں پہلی مرتبہ پٹھان کوٹ سے شائع ہوئی اور نومبر ۱۹۵۱ ء تک ۱۱ سال کی مدت میں اس کے سات ایڈیشن شائع ہوئے۔ پاکستان میں ۲۰۱۲ء کے آغاز میں اس کا ۱۰۰ واں ایڈیشن اردو میں دیدہ زیب اورجازب نظر ٹائیٹل کے ساتھ شایع کیاگیا۔ علاوہ ازیں دوسرے اشاعتی اداروں نے بھی اردو کے ساتھ دیگر زبانوں میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع کئے۔ انگریزی میں اس کا خوب صورت ترجمعہ خرم مراد مرحوم نے L1et us be Muslimsکے عنوان کے تحت کیا، اس کے بھی ہند پاک میںکئی ایڈیشن منظر عام پرآچکے ہیں۔ سندھی زبان میں اس کے سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ پاکستان میں صرف اسلامی پبلی کیشنزکے مطبع سے ۲۰ لاکھ سے زائدنسخے فروخت ہوچکے تھے۔ ہندوستان میںاب تک صرف مرکزی مکتبہ دہلی نے پانچوں حصوں کی ۱۳زبانوں میں گیارہ لاکھ کی تعداد میں اشاعت کی۔ یہ کتاب ہندوستان کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے۔
خطبات کی تصنیف کو اب بہتر سال گزر گئے لیکن اس کی اہمیت و افادیت اور دلکشی قائم ہے۔ خطبات نے جو اثرات پچاس یا ساٹھ کی دہائی میں مرتسم کیے وہ اثرات آج بھی متلاشان حق کے دل وماغ پر قائم ہو رہے ہیں۔ خطبات کا ترجمعہ ۴۷سے زائدزبانوں میں ہوچکا ہے۔ جِن میںانگریزی،عربی،فارسی،فرانسیسی،جرمن ،جاپانی،ہندی، بنگلہ ،سندہی ،ملیاوی ،پشتو اور کشمیری قابل ذکر ہیں۔ اس کو اگر مقبول عام(Best seller) کتابوں میں شمار کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ خطبات مولاناکی مقبول ترین کتب میں سے ایک ہے ویسے کہاجاسکتا ہے کہ ان کی ایسی کون سی کتاب ہے جو عوام اور خواص میں مقبول نہ ہوئی ہو، ان کی ہر کتاب یا تحریر نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں یہ کتابیںمشرق ومغرب میں وہی اثرات مرتب کر رہی ہیں جو تصنیف کے وقت کررہی تھیں۔ کتاب ہذا نے اب تک لاکھو ں مسلمانوں کی اصلاح کرنے میں بے حد اہم رول ادا کیا ہے اور ہزاروں مسلمانوں کی زندگیوں کی کایا ہی پلٹ دی ہے۔ غیر مسلموں نے بھی خطبات سے اسلام سمجھنے میں خوب استفادہ کیا ہے۔ خطبات نے اب تک کتنے گرتوں کو تھام لیا، کتنے دلوں میں اسلام کی حقانیت اور صداقت کا بیج بو دیا۔ اس کا اندازہ آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔
خطبات میں مولانا نے جو زبان استعمال کی وہ سہل اور آسان ہے کسی بھی جگہ کوئی مشکل ترکیب دیکھنے کو نہیں ملتی اور نہ ہی اس میں کوئی ایسا دقیق یا پے چیدہ لفظ ہے جو فہم و ادراک سے بالا تر ہو۔ انداز بیان خوب صورت ہے جو قارئین کو دین کی بنیادی اور اہم باتوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ اس میں جاذبیت بھی ہے جو مطالعہ کرنے والے کو دین کی طرف کھینچتی ہے اس لیے کہ اس میں خلوص اور درد مندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ایک کلمہ گو کو جتنا بنیادی علم درکار ہے خطبات میں وہ موجود ہے۔
معروف اسلامی مفکر پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں’’خطبات نے میری زندگی کا رخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں نے یہ کتاب پہلی بارطالب علمی کے دور میں پڑھی اور اس کے بعد بار بار پڑھ چکا ہوں اس کتاب نے مجھے دین کی حقیقت اور عبادت کی اصل روح کو سمجھنے کا موقع دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا جو عبادات محض خاندانی تربیت کی روشنی میں انجام دی جارہی تھیں ان کو شعوری طور پر دین کی اصل روح کے مطابق ادا کرنے کی خواہش اور جستجو نے ایک نئی معنویت عطا کر دی جس کے نتیجے میں اللہ کے فضل و کرم سے اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے سمجھنے کا شعور حاصل ہوا ‘‘
خطبات کا ایک مرتبہ بھی سنجیدگی اورذہنی یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اسلام کی بنیادی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ خطبات ایسی کتاب نہیں کہ الماری کی زینت بنائی جائے بلکہ یہ اس قابل ہے کہ اس کو با ر بار پڑھا جائے اور دوسروں کو بھی اس کا مطالعہ کرنے کے لیے راغب کیا جائے۔ معروف داعی اور اسلامی اسکالر مرحوم خرم مراد کے بقول:’’ میں ذاتی طور پر اس کتاب کا کتنا احسان مند ہوں ، اس کے اظہار کے لیے کم سے کم یہ کہنا ضروری ہے کہ میں تقریبا چالیس سال سے اس کو بار بار پڑھ رہا ہوں اور ہر دفعہ میں نے اس کو پہلے کی طرح ہی تر وتازہ اور اثر آفریں پایا ہے۔ یہ اقرار کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ آج بھی میں بلا تکلف اس کتاب کے الفاظ اور تراکیب کو اسی طرح بولتا اور لکھتا ہوں جیسے وہ میرے اپنے ہی ہوں۔ ‘‘
ہردور کے علماء نے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرنے کے لیے خطبات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی ، قاری محمد طیب ، مولاناسید سلیمان ندوی، مولانامجاہد الاسلام قاسمی، مولانا علی میاں،ڈاکٹر تقی عثمانی ،علامہ اقبال ،ڈاکٹر محمود احمد غازی، پکھتال اور مراد ہاف مین کے خطبات قابل ذکر ہیں۔ ان سبھی خطبات کی خوبیاں جداگانہ ہیں البتہ مولانا مودودی کے خطبات کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ اپنی جگہ منفرد ہے۔
خطبات کی عبارتیں قاری کو غور وفکر اور احتساب پر مجبور کرتی ہیں کہ کیا واقعی میں حقیقی مسلمان ہوں ؟ مسلمان اور کافر میں کیا فرق ہے؟ کلمہ طیبہ اور ایمان کے کیا تقاضے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟ ان بنیادی اوراہم سوالات کے حسین پیرائے میں جوابات ملتے ہیں جو متلاشان حق کو اسلام کے بنیادی ارکان پر عمل پیرا ہونے کے لیے ابھارتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھئے مولانا کس طرح دلنشین انداز میں آغاز ہی میں علم اور عمل کی وضاحت کرتے ہیں : ’’اسلام پہلے علم کا نام ہے۔ اور علم کے بعد عمل کا نام ہے ایک شخص علم کے بغیر برہمن ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ برہمن پیدا ہوا ہے اور برہمن ہی رہے گا مگر ایک شخص علم کے بغیر مسلما ن نہیں ہوسکتا چونکہ مسلمان پیدائش سے مسلمان نہیں ہوا کرتا بلکہ علم سے ہوتا ہے جب تک اس کو یہ علم نہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کیا ہے تو وہ اس پر کیسے ایمان لاسکتا ہے، اس کے مطابق کیسے عمل کرسکتا ہے‘‘ (خطبات،ص:۳۲)
اس کے بعد نام کے مسلمان اور حقیقی مسلمان کے درمیان فرق کی یوں وضاحت کرتے ہیں کہ:’’ ہر شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے ، جس کا نام مسلمان کا سا ہے جو مسلمان کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آ پ کو مسلمان کہتا ہے حقیقت میں مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان درحقیقت وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو پھر اس کو جان بوجھ کر مانتا ہو ‘‘ (ایضا ص:۳۲)
خلاصہ کلام یہ کہ خطبات صدا بصحرا ہونی والی آ واز نہیں بلکہ دل و دماغ کو بیدار کرنے والی پکار ہے ۔ خطبات ایک دعوت ہے اسلام کی طرف پلٹنے کی ، اپنے خالق ومالک کا حقیقی بندہ بننے کی اور سچا مسلمان بن کرزندگی بسر کرنے کی۔ خطبات نہ صرف بصیرت افروز ہےبلکہ ایمان افروز بھی ہے یہ ایک مرتبہ پڑھنے کی نہیں بلکہ بار بار پڑھنے کی مستحقہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2015