سورۃ الصَّفْ آیت 4میں فرمایا گیاہے :
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہ صَفَّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرَصُوْصٌ۔
’’ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بند ہو کر لڑتے ہیں گو یا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔
اس آیت کی تشریح ہے:۔’’اس سے اوّل تو یہ معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرے سہنے کے لیے تیارہوں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو جو فوج پسند ہے ان میں تین صفات پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بد نظمی وانتثار میں مبتلا نہ ہو بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بند ہو کر لڑے ، تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلے میں اس کی کیفیت ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار ‘‘ جیسے ہو۔
اس آیت سے قبل والی آیت میں فرمایا گیاہے۔
یٰاَیُّھاَ الّذِیْنَ اٰمَنُوْ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقَتاً عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ۔
’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہوتم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ،اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں) ۔ اس کی تشریح ہے:
اس کا پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہئے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ انسان کی بد ترین صفات میں سے ہے۔ نبی ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔
اس آیت میں اُن لوگوں کی روش پر گرفت کی گئی ہے جو خاص مدعا یہ ہے کہ وہ لوگ ملامت یاب ہیں جو اسلام کے لیے سرفروشی و جاں بازی کے لمبے چوڑے دعوے تو کرتے ہیں مگر جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو بھاگ نکلتے ہیں۔ سورہ نساء آیت 77اور سورہ محمد آیت 60میں بھی ایسے ضعیف الایمان لوگوں کی اِن کمزوریوں پر گرفت فرمائی گئی ہے۔ اس سورہ کے شان نزول کے سلسلہ میں صاحب تفہیم القرآن فرماتے ہیں۔ ’’اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانے میں نازل ہوئی ہوگی۔ بُنیان مرصوص ‘یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند مضبوطی صرف جنگی حالات میں ہی مطلوب نہیں ہے بلکہ عام حالات میں بھی اہل ایمان کو بنیان مرصوص بنے رہنا ہے۔ بنیان عمارت کو کہتے ہیں یہاں دیوار مراد ہے جس کی اینٹیں باہم سیسہ پلاکر جوڑی کی گئی ہیں اس لیے مضبوطی میں یہ دیوار بے مثال ہے ۔ عام دیوار کی ایک اینٹ اکھاڑ لی جائے تو پوری دیوار کو منہدم کردینا آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن سیسہ پلائی دیوار کو ڈھا دینا آسان نہیں ہوتا۔ کسی اسلامی اجتماعیت کی کیفیت بنیان مرصوص کے مانند ہو اس کے لیے ضروری ہے۔(۱) اس اجتماعیت کا ہر فرد قول و فعل میں یکسانیت کا حامل ہو۔( ۲)رب کی رضا و خوشنودی کی طلب میں اور راہ خدا میں اس کی زندگی بسر ہو۔ (۳)اس اجتماعیت میںسمع و طاعت کے نظم کا محرک و منبع رضائے اِلٰہی ہو۔ (۴)اس اجتماعیت کا ہر فرد اِعْتَصام بِااللہِ کی تصویر ہو۔
’’بنیان مرصوص‘‘کا اجمالی مفہوم سامنے آجانے کے بعد دیکھنا چاہئے کہ اس پیمانے کے مطابق ایک صالح و مستحکم اجتماعیت کاقیام کس طرح عمل میں آتا ہے۔اس کے چند مراحل ہیں۔
(۱)علم حقیقی کی وسیع پیمانے پر اشاعت: معاشرہ کا ہر فرد اس قدر با شعور ہو کہ ہدایت اِلٰہی کا جامع علم اسے حاصل ہوجائے۔ جس کے دو بنیادی ماخذ ۔ قرآن اور سنت ہیں۔ دیگر علوم کے حاصل کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن معاشرہ کا ہر فرد یہ جان لے کہ وہ جس عالمی امت سے وابستہ ہے اس کا مشن کیاہے اور وہ کیوں بر پا کی گئی ہے۔ دینی مدارس کے استفادے کے علاوہ عمومی و خصوصی اجتماعات اور لٹریچر کے مطالعہ کے ذریعہ اس علم کا حصول ممکن ہے۔ جدید و سائل علم سے بھی استفادہ کیا جانا چاہئے۔ (۲)تبلیغ و تلقین و اشاعت افکار کے ذریعہ ذہنوں و سیرتوںکی اصلاح ہو اور کم از کم حسب ذیل امور کی ضروری معلومات ہوجائیں۔
٭فرائض کی پابندی ٭کبائر سے اجتناب ٭اکل حرام سے پرہیز ۔٭حقوق العباد کی ادائی٭رسوم جاہلیت سے برأت ٭باہمی تعلقات کی استواری اور ٭راہ خدا میں سرگرمی۔
مراحل کی ضروری وضاحت یہ ہے
(الف) حصول علم:مطالعہ قرآن مجید بنیاد ہے۔ اسےاصطلاحاً تلاوت کلام پاک کہتے ہیں۔ پہلا حق یہ ہے کہ صحت تجوید و تر تیل سے کلام اللہ کو پڑھاجائے ۔ حروف ٹھیک ٹھیک اداہوں ‘ وقوف کلمات کا لحاظ ہو اور ٹھہرٹھہر کر مضامین آیات پر غور و فکر کرتے ہوئے انہیں پڑھا جائے۔ دیگر ضروری باتیں یہ ہیں۔
٭ذوق و شوق سے مطالعہ کیا جائے۔ تلاوت سے پہلے طہارت و نظافت کا اہتمام ہو۔ ٭قبلہ رخ دو زانو گردن جُھکا کر بیٹھیں اور انتہائی توجہ ‘ یکسوئی ‘ دل کی آمادگی اور سلیقے سے تلاوت کریں ٭یوں تو ہر وقت تلاوت ہوسکتی ہے لیکن بالخصوص سحر کے وقت تلاوت کلام پاک کریں۔ ٭قرآن پاک کی تلاوت طلب ہدایت کی نیت سے کریں ۔ کتاب اللہ کا فہم بہ توفیق اِلٰہی ملتا ہے لیکن قاری ہدایت کی طلب کے ساتھ تفکّر و تدبّر کرے ‘ حقائق اور حکمتوں کو سمجھنے کی سعی کرے۔ اس عزم کے ساتھ تلاوت کرے کہ اس کے احکام کے مطابق زندگی کو ڈھالنا ہے اور تلاوت کے دوران آیات رحمت و مغفرت سے اثر لے اور آیات غیظ و غضب پڑھتے وقت سے اللہ کی پناہ طلب کرے ‘ تو انشاء اللہ ضرور اس کو فہم و بصیرت قرآنی حاصل ہوگی۔
(ب) حدیث پاک اور سیرت طیبہ سے اکتساب اقامت دین کا مفہوم دین کو زندگی میں قائم رکھنے کی سعی اور نظام زندگی کو اس کے مطابق قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں حضور اکرم ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ کا اسوہ داعیان دین حق کے لیے مثالی ہے ۔عبادات ‘ اخلاق‘ معاملات‘ اور تعلقات میں اسوہ رسول آپ ؐ کے اقوال و اعمال مبارکہ کی روشنی میںکتب سیرت میں موجود ہے۔ دین کو قائم کرنے کی 23سالہ نبوی جدوجہد کے سلسلے میں بھی کتب سیرت تحریکی قائدین ‘ علماء اور دانش وروں نے لکھی ہیں۔ جن کا مطالعہ تحریکی کا رکنوں کے لیے ضروری ہے ۔ ان دونوں پہلوؤں سے آگہی و شعور کے حصول او ر سیرت پاک ؐ سے حقیقی اکتساب فیض کے لیے ضروری ہے کہ مستند کتب سیرت مطالعہ میں رہیں، خصوصاً حیات طیبہؐ ، محسن انسانیت ؐ اور سیرت سرورعالم ؐ جیسی انقلابی کتب سیرت کا ضرورمطالعہ کریں۔
(ج) دینی و تحریکی کتب کا مطا لعہ: اسلام اور جاہلیت کے فرق کو جاننا ‘ حدود اللہ سے واقف ہوجانا نہایت اہم فکری تقاضا ہے۔ دینی و تحریکی فکر سے آگاہی اور عصری تقاضوں کے سیاق میں اسلام کے احکامات سے واقفیت کے لیے تحریکی کتب لکھی گئی ہیں۔ مولانا مودودی ؒ نے اسلام کے صحیح فہم اور جاہلی افکار و اوہام سے واقفیت کو ارکان کے انفرادی اوصاف میں اولین حیثیت دی ہے۔ ’’سب سے پہلی چیز اسلام کا صحیح فہم ہے۔ جو آدمی اسلامی نظام زندگی کوبر پا کرنا چاہتا ہواسے پہلے خود اس چیز کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا چاہئے جسے وہ برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس غرض کے لیے اسلام کا محض اجمالی علم کافی نہیں ہے بلکہ کم و بیش تفصیلی علم درکار ہے اور اس کی کمی و بیشی ہر شخص کی استعداد پر موقوف ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس راہ کا ہر راہ رواوراس تحریک کا ہر رکن مفتی یامجتہد ہو لیکن یہ بہر حال ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک اسلامی عقائد کو جاہلی افکار و اوہام سے اور اسلامی طرز عمل کو جاہلیت کے طور طریقوں سے ممّیز کرکے جان لے اور اس بات سے واقف ہو جائے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام نے انسان کو کیا رہنمائی دی ہے۔ اس علم و واقفیت کے بغیر آدمی خود صحیح راہ پر چل سکتا ہے نہ دوسروں کو راستہ دکھا سکتا ہے اورنہ تعمیر معاشرہ کے لیے کوئی کام صحیح خطوط پر کرسکتاہے۔ ‘‘
(تحریک اور کارکن ، باب پنجم ‘ انفرادی اوصاف صفحہ 183از مولانا مودودی ؒ )
تحریکی و دینی کتب میں مولانا مودودی ؒ کی رسالہ دینیات ‘ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی ‘ اسلام کا نظام حیات ‘ رسائل و مسائل ‘ اور مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی فریضہ اقامت دین ‘ اسلام اور اجتماعت وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں۔
٭فرائض کی پابندی : حصول علم کے بعد عبادات اوردیگر فرائض کی پابندی ضروری ہے۔ اسلام میں عبادات او راعمال کے سلسلے میں فرائض و واجبات ‘ سنن اور نوافل کی ترجیحات متعین کی گئی ہیں۔ معروف عبادات میں پنجوقتہ نمازیں و نماز جمعہ ‘ ماہ رمضان کے روزے صاحب استطاعت ہونے کی صورت میں عمر میں ایک بار حج اور سالانہ ادائیگی زکوۃ ہیں‘ یہ سب فرائض میں داخل ہیں‘ دیگر نمازوں میں عیدین کی نمازیں واجب ہیں ‘ تراویح کی نماز سنت اور تہجد کی نماز نفل ہے۔ نمازوں کو ظاہر ی و باطنی محاسن کے ساتھ ادا کرنا خوشنودی رب کا موجب ہے۔ نماز کا ظاہری حسن کے اجزاء یہ ہیں: طہارت ‘ وضو‘ نیت کی درستگی ‘ قبلہ رخ ہو کر نمازکی ادائیگی ‘ تلاوت وارکان نماز کی تعدیل نماز کا باطنی حسن یہ ہے کہ اس کو خشوع و خضوع کے ساتھ اداکیاجائے ۔ اس طرح دیگر عبادات کے بھی آداب ظاہر ی و باطنی مطلوب ہیں۔
٭کبائر سے اجتناب
اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَاتُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُم۔(النساء :۳۱)
’’اگر تم ان بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے)۔ بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں میں اصولی فرق ہے۔ تین چیزیں کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں‘‘۔
(۱) کسی کی حق تلفی ‘ خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیاگیا ‘ یا والدین ہوں یا دوسرے انسان یا خود اپنانفس۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بناء پر کبیرہ گناہ۔ ’’کو ظلم ‘‘ بھی کہاجاتاہے اور اسی بناء پر شرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہاگیا ہے ۔ (۲)اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلے میں استگبار جس کی بناء پر آدمی اللہ کے امر و نہی کی پرواہ نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصدا وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے اور عمداً ان کاموں کو نہ کرے جن کا اس نے حکم دیا ہے ۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخدا ترسی کی کیفیت اپنے اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا۔ اس معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ’’فسق ‘‘ اور ’’معصیت‘‘ کے الفاظ استعمال کے گئے ہیں (۳) ان روابط کو توڑنا اور ان تعلقات کو بگاڑ نا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے ‘ خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان ۔ پھرجو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے او ر جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملے میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے ‘ اسی قدر اس کوتوڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اوراس کے مختلف مدارج پر غور کیجئے۔ یہ فعل فی نفسہٰہ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے۔ اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے مگر اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے سے گناہ میں ‘ شدید تر ہیں۔ شادی شدہ آدمی کا زنا کرنا بن بیا ہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے زنا کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ بُرا ہے۔ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کافرق انہی وجوہ سے ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ جہاں مامونیت کی توقع، جس قدر زیادہ ہے جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحق احترام ہے اور جہاں اس رابطہ کو قطع کر نا جس قدر زیادہ موجب فساد ہے وہاں زنا کاارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے کبیرہ گناہوں میں شرک ‘ زنا‘ قتل ناحق‘ سودخوری‘ شراب‘ نوشی ‘ قمار (جوّا) سرقہ (چوری) ‘ غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا جلال الدین دوانی نے شرح عقائدعضدیہ میں حسب ذیل کبائر شمار کیے ہیں۔
(۱) قتل ناحق ۔(۲) زناو لواطت ۔ (۳) چوری ۔ (۴) شراب نوشی ۔ (۵) ہرنشہ اور چیز کا استعمال ۔ (۶) سوّر کا گوشت کھانا ۔ (۷) کسی کا مال ناحق چھین لینا۔ (۸) زنا کی تہمت لگانا۔ (۹) جھوٹی گواہی دینا۔ (۱۰) سود کھانا ۔ (۱۱) رمضان کا روزہ قصد اً اور عمد اًبے عذر توڑ دینا۔ (۱۲) جھوٹی قسم کھانا۔ (۱۳) قطع رحم کرنا ۔ (۱۴) یتیموں کا مال ہڑپ کرنا۔ (۱۵) ناپ تول میں خیانت کرنا۔ (۱۶) بار سمجھ کر وقت سے پہلے نماز پڑھ لینا۔ (۱۷) زکوۃ نہ دینا۔ (۱۸) مسلمانوں سے ناحق لڑنا۔ (۱۹) رسول اکرم ؐ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا۔ (۲۰) صحابہ ؓ کو گالی دینا۔ (۲۱) بے عذر گواہی چھپانا (۲۲) رشوت لینا۔ (۲۳) مرد عورت میں نا اتفاقی پیدا کرنا۔ (۲۴) بادشاہ سے چغلی جالگانا۔ (۲۵) باوجود قدرت ہونے کے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھنا۔ (۲۶)قرآ ن یاد کرکے بھلا دینا۔ (۲۷) جانداروں کو جَلانا۔ (۲۸) عورت کا بے عذر شرعی اپنے خاوند کی اطاعت فی المعروف نہ کرنا۔ (۲۹) خدا کی رحمت سے مایوس ہونا۔ (۳۰) عذاب اِلٰہی سے بے خوف و نڈر رہنا (۳۱) اپنی عورت سے ظہارکرنا۔ (اسلامی انسائیکلو پیڈیا ۔ کبائر ، ص:1372-74)شریعت میں جس فعل بد پر حد مقرر کردی گئی ہے وہ گناہ کبیرہ ہے۔
٭اکل حرام سے پرہیز:۔ شراب نشہ آوراشیاء لحم خنزیر،حرام مال، سود، چوری، رشوت سے خریدی ہوئی غذا اورغیر اللہ کے نام کے چڑھاوے سے پرہیز لازم ہے۔ عام انسانوں کے جو حقوق شریعت نے مقرر کیے ہین وہ حتی المقدور احسن طور پر اداکئے جائیں۔ اس کے علاوہ کارکنان تحریک اسلامی کے باہمی تعلقات (تفصیل کے لیے خرم مراد ؒ کی کتاب پڑھیں) بھی استوارو خوشگوار ر ہیںکیونکہ ان کی خصوصی اہمیت ہے۔
٭رسوم جاہلیت سے دوری: شادی بیاہ اور گھر یلو زندگی میں ہندوستانی ماحول کے زیر اثر بے شمار ایسے رسومات داخل ہیں ، جن کی بنیاد اسلامی شریعت نہیں ہے۔ ایسے اعمال و رسوم جو توہمات اور مقامی جاہلی روایات کے اثرات کی وجہ سے مسلمان معاشرے میںرواج پاگئے ہیں ان سے دوری اختیار کرنا لازم ہے۔
٭راہ خدا میں سرگرمی: بندگان خدا کوکلمہ طیبہ کے تقاضے اور امت کے منصبی نصب العین یعنی اقامت دین کی دعوت دینا راہ خدا میں وہ سرگرمی ہے جس کی کامیابی پردینوی فلاح اور اخروی نجات کا دارومدار ہے۔ اس سرگرمی کوبامقصد اور موثر و نتیجہ خیز بنانا ضروری ہے آج جو اضمحلال اس سلسلہ میں پایا جاتاہے وہ دارصل عزم و ارادے کی کمزوری کی بنا پرہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ فرماتے ہیں : انسان ایک تحریک کی دعوت سن کر صدق دلی سے لبیک کہتا ہے اور اول اول خاصا جوش دکھاتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دلچسپی کم ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اسے نہ اس مقصد سے حقیقی لگائو باقی رہتا ہے جس کی خدمت کے لیے وہ آگے بڑھا تھا اور نہ اس جماعت کے ساتھ کوئی عمل وابستگی باقی رہتی ہے جس میںوہ دلی رغبت کے ساتھ شامل ہواتھا۔ اس کا دماغ بہ دستور ان دلائل پر مطمئن رہتا ہے جس کی بنیاد پر اس نے تحریک کو بر حق مانا تھا۔ اس کی زبان بہ دستور اس کے بر حق ہو نے کا اقرار کرتی رہتی ہے ۔ اس کے دل کی شہادت بھی یہی رہتی ہے ۔کہ یہ کام کرنے کا ہے اور ضرور ہونا چاہئے لیکن اس کے جذبات سر د پڑ جاتے ہیں اور قوت عمل کی حرکت سست ہوتی چلی چاتی ہے ۔اس میں کسی بد نیتی کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ مقصد سے انحراف بھی نہیں ہوتا نظرے کی تبدیلی بھی قطعاً واقع نہیں ہوتی اس وجہ سے جماعت کو چھوڑنے کا خیال بھی نہیں کرتا مگر بس وہ ارادے کی کمزوری ہوتی ہے۔ جو ابتدائی جوش ٹھنڈاہو جانے کے بعد مختلف شکلوں میں اپنے کرشمے دکھانے شروع کردیتی ہے‘‘۔
شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے دعوت و تحریک کے کاموں میں دوبارہ سرگرم عمل ہو جانا اس کمزوری کا علاج ہے۔ ایک صالح و مستحکم جماعت اپنے وابستگان کو مذکورہ بالا خصوصیات کا حامل بنائے رکھتی ہے اور اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرتی ہے۔
(الف) معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے مسائل کے حل میں مددگار بنیں۔ مشکل حالات میں رفقاء کا ساتھ دیں اور موجودہ خود غرض و مادہ پرستانہ ذہنیت سے بچیں۔
(ب) مقامی سطح پر دعوتی و اصلاحی کاموں کی انجام دہی کے لیے منصوبہ بندی ہو طے شدہ کاموں پر عمل درآمدکے جائزہ کا نظم ہو اور افراد معاشرہ کو آمادہ کیا جائے کہ اس سلسلے میں مالی و بدنی تعاون کریں اور اپنے اوقات کی اس طرح تنظیم کریں کہ ان کاموں کے لیے وقت فارغ کرسکیں جس طرح اپنے ذاتی کاموں کے لیے کرتے ہیں ۔
(۵)مذکورہ بالا کاموں کی انجام دہی کے لیے جو نظم قائم ہو اس کا ایک ذمہ دار ہواور اس کی مشاورتی مجلس بھی ضرور ہوتا کہ یہ کام باہمی مشاورت اور تنظیم سے انجام پائیں اورحسب ضرورت افراد کی تر بیت واصلاح کی سرگرمیاں ایک نظام کے تحت پورے معاشرے میں جاری رہیں۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014