حیا کا مفہوم اور تقاضے

(1)

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّ سَبْعُوْنَ اَوْ بِضْعٌ وَّ سِتُّوْنَ شُعْبَۃً، فَاَفْضَلُھَا، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، وَاَدْنَاھَا، اِمَاطَۃُ الْاَذَیَ عَنِ الطَّرِیْقِ، وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ۔  (متفق علیہ)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں۔  ان میں سب سے افضل شاخ لاالہ الا اللہ اور کم تر شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے اور حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔

البِضْعُ  وَالبِضْعَۃُ

۳ سے ۹ تک عدد کو کہتے ہیں۔

شُعْبَۃٌ

کسی چیزکے حصے کو کہتے ہیں۔

اَلْاِیْمَانُ

ایمان درحقیقت زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے۔  اس کی تکمیل اعمال وکردار سے ہوتی ہے۔

اِمَاطَۃُ الْاَذَیَ

تکلیف دہ چیز کو ہٹالنا۔  اس حدیث میں راستے میں پڑی ہوئی کوئی تکلیف دہ چیز ہٹانے کو ایمان کا جز بتایاگیاہے۔

حَیَا

حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔  یہ بے شرمی اور بے حیائی کی ضد ہے۔

اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے ’’نفس کا کسی کام کے کرنے میں انقباض اور تنگی محسوس کرنا اور ملامت اور سزا کے ڈر سے اسے نہ کرنا‘‘ (موسوعۃ الاخلاق)

امام راغب اصفہانی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’حیاوہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔

علامہ ابن حجرؒ کے نزدیک ’’حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔‘‘ حیا کی دو قسمیں ہیں (۱) فطری (۲)کسبی۔

ہر انسان فطری طور پر زیور حیا سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر خیر اور بھلائی کے کاموں سے محبت ، عفت وپاکدامنی کے جذبات، سخاوت وفیاضی اور انسانی ہمدردی کی بنیادی صفات موجود ہوتی ہیں۔

کسبی حیا

حیا کی بنیادی صفت بچپن ہی سے ہر انسان کے اندر ہوتی ہے، اگرچہ کچھ تفاوت ہوتا ہے۔

بعض افراد کے اندر یہ صفت بہت اُبھری ہوئی ہوتی ہے، جب کہ بعض کے اندر کمزور ہوتی ہے۔ انسان کے اندر جو فطری حیا ہے اسلام نہ صرف اس کو باقی رکھنے پر زور دیتا ہے بلکہ اس میں اضافے پر اُبھارتا ہے۔ وہ تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفس کا ایک محکم نظام دیتا ہے جس کو اختیار کرکے فرد اور معاشرہ میں حیا کا چلن عام ہوسکتاہے۔ بے حیائی اور فحاشی کے امور سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ وہ عبادات کا ایک محکم نظام دیتا ہے جس کے ذریعے حیا کو تقویت ملتی ہے۔ اسلام نظروں کو پست رکھنے اور عورتوں ومردوں کو اپنے ستر کے حصوں کو ڈھانکنے اور چھپانے کاحکم دیتا ہے۔ آزادانہ اختلاط مرد وزن پر پابندی عائد کرتاہے، بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں پرسزاؤں کا اعلان کرتاہے۔ وہ ایسے قوانین دیتا ہے جن سے بے حیائی اوربے شرمی کے کاموں کو پروان چڑھنے کا موقع نہ مل سکے اور سماج اور معاشرے میں خیر کے پروان چڑھنے کے لئے پوری طرح سے فضاہموار ہو قرآن مجید میں تمام انسانوں کو تقوی کا لباس اختیار کرنے کا حکم دیاگیاہے۔

وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ (الاعراف:۲۶)

تقویٰ کا لباس، اللہ کا تقویٰ اور اس کا خوف ہے جوشیطان کے وساوس اور اس کی چالوں سے آگاہ رہنے سے عبارت ہے۔ شیطان انسان کو اللہ کی نافرمانی اور بے حیائی کی دعوت دیتاہے، اس لئے اسلام جہاں ظاہری لباس زیب تن کرنے کاحکم دیتاہے وہیں  ظاہروباطن  میں ہر جگہ اللہ کاخوف رکھنے اور تقویٰ کالباس اختیار کرنے کا حکم بھی دیتاہے۔ تقویٰ کے لباس کی تشریح یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب عزیز مصر کی بیوی نے برائی کی طرف دعوت دی تو انہوں نے کہا ’’معاذ اللہ‘‘ میں اللہ کی پناہ چاہتاہوں۔ یہ ہے لباس التقویٰ۔

جس طرح ظاہری لباس انسان کے لئے حفاظت اور ڈھال کا کام کرتاہے، اسی طرح تقویٰ کالباس بھی انسان کو ہلاکتوں اور گناہوں سے بچاتا ہے۔ اسلام نے جہاں ظاہری لباس سے سترپوشی کا حکم دیا ہے وہیں تقویٰ کا لباس اختیار کرکے بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں اور باتوں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر خیر وشر، بھلائی اور برائی دونوں طرح کے جذبات رکھے ہیں۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا۔ (الشمس:۸) ’’پھر اس پر اس کی بدی اور پرہیزگاری الہام کردی۔‘‘ یعنی نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات اور میلانات رکھ دیئے ہیں۔ جس شخص کے اندر جو جذبہ اور رنگ غالب آجاتا ہے، اس کااثر اور رنگ اس کی شخصیت پر نمایاں طور پر دیکھا جاسکتاہے۔

حیا بھلائی اور خیر کے جذبے کااظہار ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے متصف ہونے پر انسان کامیلان خیر اور معروف کے کاموں کی طرف ہوتاہے۔ اور برے کاموں ومنکرات سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الحَیَاءُ لَایَاتِیْ اِلَّا بِخَیْرٍ حیا سے خیر کی ہی اُمید ہوتی ہے۔ (متفق علیہ) دوسری حدیث کے الفاظ میں اَلْحَیَاءُ خَیْرٌ کُلُّہٗ۔ حیا پوری کی پوری بھلائی اور خیر ہے۔ (مسلم)

حدیث میں ایمان کے ستر سے زیادہ شعبوں کا بیان ہے لیکن رسول اللہ نے ان شعبوں کی تفصیل میں اعلیٰ اور ادنی کو چھوڑ کر صرف ’حیا‘ کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حیاانسان کو ان ستر سے زائد شعبوں کی طرف لے جائے گی۔ حیا ان تمام شعبوں کی محرک اور اصل ہے جس سے ان سب کے لئے قوت اور تقویت ملتی ہے۔ فرمایا ’اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِ وَالْاِیْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِی النَّارِ‘‘ حیا ایمان ہے ، ایمان کا جز ہے اور ایمان جنت کی طرف سے جاتا ہے۔ بے حیائی جفا ہے اور جفا جہنم کاموجب ہے۔ (مسند احمد)

اللہ  تعالیٰ کے بے پایاں احسانات اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر انسان کے اندر شکر کاجذبہ پروان چڑھتا ہے پھر ان نعمتوں کے چھن جانے کا خوف ہوتاہے تواللہ کی پکڑکا ڈر پیدا ہوتا ہے۔ شکر گزاری کا جذبہ اور نعمتوں کے چھن جانے کا خوف، اللہ کی معرفت اور بندگی کا محرک  ثابت ہوتے ہیں۔ بندہ خود کو اللہ کی بندگی اور اس کی غلامی میں دے دیتا ہے۔

چنانچہ ایمان خیروبھلائی ، اطاعت وفرماں برداری اور خدا کاہوکر رہنے کااعلان واعتراف ہے۔ اللہ کے ان انعامات اور احسانات کو دیکھ کر اس کی نعمتوں سے مستفید ہوکر، اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کی روش اختیار کرتے ہوئے حیا اور شرم دامن گیر ہوتی ہے۔ جس خدانے اتنے کرم کئے ، اتنے احسانات کئے، اُس کی نافرمانی کرتے ہوئے انسان کا دل بیٹھتا ہے، اور حیا کی وجہ سے وہ ہر طرح کی بے شرمی کی باتوں اور کاموں سے باز رہتا ہے۔

حیا خیر اوربھلائی کے کاموں کا داعی اور شرومنکرات سے نفرت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح ایمان ہر طرح کے خیر وبھلائی کا داعی اور برائیوں سے نفرت کاذریعہ ہے۔ ایک حدیث میںہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِنَّ الْحَیَاءَ وَالْاِیْمَانَ قُرَنآءَجَمِیْعًا فَاِذَا رَفَعَ اَحَدُھُمَا رَفَعَ الْاَمْرُ۔

’’حیا اور ایمان ایک ساتھ رہتے ہیں جب دونوں میں سے کوئی اُٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی چل دیتا ہے۔ (بیہقی ؍حاکم عن ابن عمر)

حیا ایمان کاجز ہے۔ ایمان انسانی زندگی کا چراغ ہے اور حیا اس کی روشنی ہے۔ جس طرح چراغ اور روشنی لازم وملزوم ہیں اسی طرح حیا اور ایمان کا باہم رشتہ ہے۔ اس کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں حیاکا اعلیٰ مقام رہاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:

اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَۃِ الأوْلی ’’اِذَا لَمْ تَسْتَحْییِ فَاصْنَعَ مَا شِئْکَ۔‘‘

انبیائے سابقین کے کلام میں جو باتیں ملی ہیں ان میں سے یہ مقولہ بھی ہے کہ ’’اگر حیا ختم ہوجائے تو جو چاہو سوکرو۔‘‘ (بخاری، عن ابن مسعود)

حیا انسان کو بے حیائی کے کاموں، نازیبا اور خلاف ادب باتوں اور حرکتوں سے روکتی ہے، اس لئے کہا گیا ہے کہ جب حیااور شرم نہیں تو انسان جو چاہے کرے۔ اس کو روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے۔   (جاری)

مشمولہ: شمارہ جون 2015

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223