برکت کا مفہوم

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مادی اعتبار سے زمانہ ترقی پزیر ہے ۔ سائنسی ایجادات و انکشافات نے رزق اور مال و دولت اکٹھا کرنے کے وسیع تر امکانات پیدا کردیے ہیں۔ کمپنیوں اور کارخانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ سڑکوں پر دوڑتی ہوئی گاڑیاں ، فلک بوس عمارتیں، رہائش کے عمدہ مکانات ، تعیش کے اسباب و وسائل اور زیب و زینت کی نت نئی چیزیں نظروں کے سامنے ہیں۔ اِن میں صنعتی انقلابات اور ٹکنالوجی کی کثرت نے تصور سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔آسائش و آرام اور ارمانوں کی تکمیل کی نئی نئی راہیں کھلتی جارہی ہیں۔ اسی مادی ترقی کا نتیجہ ہے کہ کل تک جسے سائیکل بھی میسر نہیں تھی ، آج وہ قیمتی گاڑیوں پر چل رہا ہے۔ جھونپڑیوں میں زندگی بسر کرنے والے آج عالیشان بلڈنگوں میں سورہے ہیں۔ جو کل تک ایک ایک پیسے کے محتاج تھے ، وہ آج کروڑوں کے مالک ہیں اور ان کا پورا گھر اسباب تعیش سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود آج کے لوگ زیادہ پریشانی اور مایوس نظر آتے ہیں ، روحانی اور قلبی سکون کسی کو حاصل نہیں۔ ہر ایک کی زبان پر مال، وقت اور دولت میں بے برکتی کا شکوہ ہے ۔ کوئی مختلف بیماریوں کا شکار ہے تو کوئی گھریلو اور خاندانی اختلافات اور دشمنی کے سبب نہایت پریشانیوں میں مبتلا ہے، ناجائز مقدمات نے کسی کو تھکادیا ہے تو کوئی اپنی بیوی اور اولاد کی نافرمانیوں سے لاچار ہے ۔ غرض پریشانیوں کی نوعیت کچھ بھی ہو ، پریشانی اور مصیبت ہر ایک کے ساتھ ہے ۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک اور اہل ثروت بھی پریشان ہیں ، جن کو رات کی صحیح نیند بھی میسر نہیں ۔ بالآخر راحت و آسائش کے تمام سامان کے باوجود حقیقی راحت اور سکون کا فقدان کیوں ؟ بے اطمینانی اور پریشانی کی وبا نے ہر ایک کو کیوں مجبور کر رکھا ہے اور کیوں آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں خود کشی اور قتل وقتال کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ؟

در اصل لوگوں نے آج سکون اور راحت عہدوں اور پیسوں میں تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ مال و دولت کی کثرت نے بندوں کا رشتہ رب سے توڑ دیا۔ وہ آخرت کو بھول کر دنیا اور دنیا کے اسباب و وسائل کو جمع کرنے میں جُٹ گئے ہیں۔ قبروں کو روشن کرنے کے بجائے دنیوی گھروں کو عالیشان بنانے اور ان کے زیب و زینت میں مگن ہیں۔ ظاہر ہے کہ مال و دولت کی زیادتی اور خوبصورت عمارت میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو سکون فراہم کرسکے ۔ مال کی کثرت سے اگر سکون ملتا تو قارون دنیا کا سب سے پرسکون انسان ہوتا۔ حکومت اور عہدوں سے اگر سکون ملتا تو فرعون دنیا کا سب سے پرسکون انسان گزرتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ دولت اور عہدوں کے باوجود پریشان حال رہے اور پریشانی کے ساتھ ہی عبرتناک موت کے ذریعے دنیا سے چل بسے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دولت اورجائداد کے ذریعے عالیشان اور اونچی بلڈنگیں بناسکتا ہے ، مگر سکون نہیں خرید سکتا۔ عہدوں کے ذریعے سے لوگوں میں رعب و دبدبہ قائم کرسکتا ہے۔ مگر اسے حقیقی راحت میسر نہیں ہوسکتی ۔ جیسے ایک انسان مال سے کتابیں تو خرید سکتا ہے ، علم نہیں خرید سکتا۔ مال سے انسان اچھا لباس تو خرید سکتا ہے ، حسن و جمال نہیں خرید سکتا۔ مال سے انسان اچھی دوائیں تو خرید سکتا ہے ، اچھی صحت نہیں خرید سکتا ۔ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے عطا کرتا ہے ، سکون اور قلبی راحت بھی خدا کا عطیہ ہے، وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے تو کم آمدنی میں بھی برکتوں کے خزانے کھول دیتا ہے اور ہر طرح سے آرام و راحت میسر کرتا ہے اور جب چاہتا ہے تو مال و دولت کے باوجود مختلف مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا رکھتا ہے اور ہزار کمائی کے باوجود گھر میں برکت کا نام و نشان نہیں ہوتا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ اس طرح بیان کیا ہے :

وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالأَرْضِ     ﴿الأعراف : ۹۶﴾

’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔‘

آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد ہر قسم کی برکات ہیں ، صحت میں ، کاموں میں ، وقت میں ، مال میں ، کھانے پینے اوراستعمال و ضرورت کی تمام چیزوں میں برکت و رحمت نازل کی جاتی ہے ، جس سے مقصود ومطلوب آسان ہوجاتا ہے اور تادیر اس کے استعمال کی توفیق دی جاتی ہے ۔ مثلاً ایک آدمی کی صحت تقریباً دس سال سے بالکل ٹھیک ہے ، کبھی سر میں درد نہیں ہوا۔ اُسے یاد بھی نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس کب گیا تھا ؟ یہ صحت کی برکت ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے آنے کی کلفتوں اور الجھنوں سے بچ گیا۔ وہ مستقل اپنا کام کرتا رہا ۔ وقت بھی محفوظ رہا اور پیسہ بھی۔ اسی طرح تھوڑے وقت میں امید سے زیادہ کام کرنا بھی ایک قسم کی برکت ہے۔ جس کام کے لیے آدمی کہیں جاتا ہے یا جس کام میں مصروف رہتا ہے ، اگر وہ کام صحیح طرح ہوگیا ، کوئی رکاوٹ نہ آئی تو یہ بھی برکت ہے اور اگر کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے اعمال بد کی نحوست کے سبب اللہ کی طرف سے بے برکتی کا انتظام کیا گیا۔ بہت سے لوگ وقت میں بے برکتی کی شکایت کرتے ہیں کہ صبح سے شام ہوجاتی ہے ، وقت اس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے کہ دن کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کوئی کام مکمل نہیں ہوپاتا ہے کہ دوسرا دن بل کہ دوسرا ہفتہ اور دوسرامہینہ شروع ہوجاتا ہے۔ سالہا سال تیزی سے گزر رہے ہیں۔ کوئی قابل لحاظ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلا شبہ یہ بے برکتی ہے ، جو انسان کے اعمال بد کا نتیجہ ہے ؛ لیکن بہت سے بزرگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے ہزاروں کتابیں تصنیف کیں، لاکھوں شاگردپیدا کیے ، تصوف وسلوک کی راہ میں بھی خلفا اور مریدین کی ایک بڑی تعداد تیار کی، ان کی طویل خدمات کو اگر ان کی عمر پر آج تقسیم کیا جائے تو عقل حیران ہوجاتی ہے اور سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اتنے کم وقت میں اتنا عظیم کارنامہ کیسے انجام دیا گیا۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کی برکت کی وجہ سے ان کے وقت میں برکت دی تھی کہ کم وقت میں توقع سے زیادہ وہ کام کرگئے، جو آج لوگ صدیوں میں نہیں کرسکتے۔ ایسے خداترس افراد آج بھی موجود ہیں اور ان کے اخلاص و للہیت کے مطابق ان کے اوقات میں برکت کا سلسلہ جاری ہے۔بل کہ ایک عام مسلمان بھی جب اللہ سے ڈرتا ہے اور اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بناتا ہے تو اس کی نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے اس کے وقت میں برکت دے دی جاتی ہے ، جس سے وہ بہت سے ایسے کام کرلیتے ہیں ، جو گنہگار نہیں کرسکتے ۔

بہت سے کج فہم لوگوں کو برکت کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ بعض لوگ مذاق بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس دس ہزار روپے ہیں ، کیا نیک کام کرنے سے وہ بارہ ہزار بن جائیں گے۔ یاد رہے کہ برکت سے مراد روپے کی مقدار میں اضافہ نہیں ہے ، بل کہ روپے کا صحیح جگہ استعمال ہونا ، کم پیسوں میں کام کا بن جانا ،  تھوڑی آمدنی میں ضرورت پوری ہوجانا یہ سب مال کی برکت ہے ، جو اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کی وجہ سے عطا کرتا ہے ۔ بہت سے دوست و احباب کی آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہر مہینے ہوتی ہے ، مگر کچھ پیسے بیماریوں اور اسپتالوںمیں، کچھ ناجائز مقدمات کی پیروی میں، کچھ عیش و عشرت میں اور کچھ گناہ کے کاموں میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ مہینا پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے سارے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور قرض کی نوبت آجاتی ہے ۔ سماج میں کوئی عزت ہے اور نہ قلبی و ذہنی سکون انھیں حاصل ہے۔ یہ اللہ سے بغاوت کا نتیجہ ہے ، جس کے سبب مال سے برکت اٹھالی گئی۔ اس کے برعکس مدارس اور دینی کاموں سے وابستہ افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ایک کو حیرت ہوگی کہ معمولی تنخواہوں میں اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرتے ہوے وہ باعزت اور باوقار زندگی گزارتے ہیں ، جس پر بڑی تنخواہ پانے والوں کو رشک آنے لگتا ہے۔

اللہ تعالیٰ غیب سے اسلام کے پیروکاروں کے لیے ایسی راہیں کھول دیتا ہے ، جن کے ذریعے کم پیسوں میں وہ کام ہوجاتا ہے جس کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ  کا ایک مرید بہت پریشان ہوکر کہنے لگا : حضرت ! حج کا ارادہ ہے ؛ لیکن کچھ بھی مال میرے پاس موجود نہیں ۔ حضرت نے ایک دینار دیتے ہوئے فرمایا: جاؤ حج کرلو ، حج کے لیے ایک دینار معمولی سرمایہ تھا۔ بظاہر حج اس سے مشکل تھا ، مگر حضرت کا حکم ہوا ، وہ ایک دینار لے کر چل پڑا۔ ابھی بستی سے باہر ہی گیا تھا کہ ایک قافلہ آتاہوا دیکھا۔ اس نے قافلے والوں کو سلام کیا اور پوچھا : بھئی ! آپ لوگ کہاں جہارہے ہیں ؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ حج کے لیے جارہے ہیں ۔ اس نے کہا میں بھی حج پر جارہاہوں، مگر میں تو پیدل چلوں گا، قافلے والے کہنے لگے کہ ایک آدمی ہم میں سے بیمار ہوگیا، جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گیا ہے، اس کا اونٹ خالی ہے،آپ اس پر سوار ہوجائیے۔ یہ شخص اونٹ پر بیٹھ گیا۔ اب جہاں قافلے والے رکتے اور کھانا پکاتے اس کو مہمان سمجھ کر ساتھ کھلاتے ۔ پورا حج کا سفر اس نے اسی طرح طے کیا ۔ آخر کار ان کے ساتھ حج کرکے واپس آیا اور بستی کے کنارے پر انھوں نے اسے اتارا ۔ اس کو کہیں بھی پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا : حضرت ! عجیب حج کیا ، میں تو مہمان ہی بن کر پھر تارہار اور اب یہاں پہنچ گیاہوں ۔ حضرت نے پوچھاکہ تمھارا کچھ خرچ ہوا ؟ عرض کیا کچھ بھی نہیں ، فرمانے لگے : میرا دینار واپس کردو، اللہ والوں کا ایک دینار بھی خرچ نہیں ہوتا ۔﴿پریشانیوں کا حل ، از : مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی ، ص : ۴۸﴾

یہ مال کی برکت ہی تو تھی کہ غیب سے ایسے اسباب پیدا کیے گیے کہ باعزت طور پر اس مرید کا حج بھی ہوگیا اور ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ جب کہ ایک دینار کا سرمایہ حج کے لیے انتہائی ناکافی تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادیؒ  کی بزرگی اور اس مرید کے اخلاص و محبت کی وجہ سے اسی ایک دینار کو مکمل سفر کا سبب بنایا اور اس میں کچھ کمی بھی نہ آئی۔انسان میں کچھ دینی فہم اور صحیح ادراک کی صلاحیت ہو تو روز مرہ زندگی میں بھی مالی برکت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کے گناہ اور نافرمانیوں کی وجہ سے مال سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جیسے: مال کا چوری ہونا ، قرض لینے والے کا مال واپس نہ کرنا ، ادھار لینے والے کا وقت پر پیسے نہ دینا ، طاقت ور افراد کا زمین و جائداد پر قبضہ کرلینا وغیرہ ۔ اہل علم نے مال کی بے برکتی کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے کہ جو سامان جس کام کے لیے خریدا جائے، اس میں وہ تادیر استعمال نہ کیا جاسکے؛بل کہ بار بار خراب ہوتا رہے۔ اگر ایک شخص نے کوئی گاڑی خریدی اور خلاف توقع باربار اسے میکینک کے پاس جانے کی ضرورت پیش آئی تو بلا شبہ یہ بے برکتی ہے ، اس میں وقت اور پیسہ دونوں کی بربادی ہے اور اگر وہ گاڑی چلتی رہے تو اسی کا نام برکت ہے ۔

ایک بیٹے نے اپنے بزرگ والد محترم سے کہا کہ اباجی!برکت کا لفظ تو بہت سنتے رہتے ہیں ، مگر میری سمجھ میں نہیں آیا۔ آپ اس سلسلے میں کچھ بتائیے ، فرمانے لگے: بیٹا ادھر آؤ ، وہ اسے لے گئے اور اپنے گھر کا ہینڈ پمپ دکھاتے ہوے کہا کہ یہ برکت ہے ، بیٹا ہینڈ پمپ دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور پوچھا: ابا جی! یہ برکت کیسے ہے ؟ اس کے بزرگ والد نے فرمایا کہ بیٹا! تمھاری عمر بیس سال ہے اور تمھاری پیدائش سے پہلے ہی میں نے یہ ہینڈ پمپ لگوایا تھا ، آج تک اس میں خرابی نہیں آئی ، اس کو ٹھیک کرانے میں میرا مال لگا نہ وقت لگا اور نہ کوئی پریشانی ہوئی ، اسی کو برکت کہتے ہیں ۔

دنیا میں جتنے بھی لوگ ملازمت ، تجارت یا اور کسی طرح اپنی اقتصادیات کو مضبوط کررہے ہیں، ان کا مقصد سکون کی زندگی حاصل کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ شب و روز محنت کرتے ہیںاور اپنی وسعت کے مطابق راحت کے سامان بھی فراہم کرتے ہیں، مگر انھیں سکون و راحت نہیں ہے ۔ ظاہر میں محنت بہت ہے ، مگر نتیجہ صفر ہے۔ کیا آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کے کیا عوامل واسباب ہیں؟ کیوں پریشانیوں کی بارش ہورہی ہے ؟ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْن  ﴿الروم:۴۱﴾

’ خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ؛ تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آئیں ‘

دوسری جگہ ارشاد ہے :

مَنْ یَّعْمَلْ سُوٓئً ا یُجْزَ بِہٰ وَلاَ یَجِدْ لَہ‘ مِن دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَلاَ نَصِیْرًا ﴿النساء: ۱۲۳﴾

’ جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پاسکے گا ‘

ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ برائیوں اور گناہوں کی وجہ سے انسان پریشانیوں کا شکار ہوجاتا ہے اور مختلف جہتوں سے نحوست اسے گھیر لیتی ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص کی بد اعمالی اور برائی دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ، جس طرح کفر و ظلم کی شامت سے ملکوں اور جزیروں میں خرابی پھیل جاتی ہے اور امن و سکون ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح خود بندوں کی اپنی بدکاریوں کے سبب پوری دنیا میں اس کے غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بر و بحر ، خشکی اور تری ، آبادی اور جنگل میں ان کی برائیوں کی نحوست چھاجاتی ہے اور اس کی وجہ سے اللہ کی رحمتیں رک جاتی ہیں۔ جب ایک شخص کی برائی کا اثر قرب و جوار ، ملک اور قوم پر پڑتا ہے تو خود برائی کرنے والے کے گھر اور اس کی زندگی پر کتنا گہرا اثر ہوگا؟

مذہب اسلام میں جو شخص داخل ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر سے اسے ڈھانپ لیتا ہے ، جو اسے ہر طرح کی پریشانی اور مصائب و مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے۔لیکن جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس چادر میں ایک سوراخ ہوجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو وہ سوراخ باقی رہتا ہے اور پھر جتنا گناہ کرتا ہے ، اسی اعتبار سے سوراخ میں زیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ رحمتوں کی چادر چھلنی ہوجاتی ہے اور ان ہی سوارخوں کے ذریعے انسان پر مختلف قسم کی پریشانیاں نازل ہوتی ہیں ۔ کبھی بیماری ، کبھی گھریلو اختلاف ، کبھی تجارت اورکاروبار میں رکاوٹیں اور کبھی اولاد اور رشتے داروں کا دشمن بن جانا۔اس طرح کے بے شمار مسائل اس کے لیے کھڑے ہوجاتے ۔ وہ حیران و پریشان رہتا ہے ، مگر بہت کم لوگوں کا اس طرف ذہن جاتا ہے کہ یہ سارے مسائل اور پریشانیاں انھی کے اپنے عمل اور کردار کا نتیجہ ہیں۔

حضرت ابن عباس ؓ  سے مروی ہے :

ما ظہر الغلول في قوم الا ألقی اللہ في قلوبہم الرعب، ولا فشا الزنا في قوم الا کثر فیہم الموت ولا نقص قوم المکیال والمیزان الا قطع عنہم الرزق ولا حکم قوم بغیر حق الا فشا فیہم الدم ولا ختر قوم بالعہد الا سلط علیہم العدو ﴿مشکوۃ ، ص : ۴۵۹﴾

’جب کوئی قوم مال غنیمت میں خیانت کرنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دلوں میں دشمن کا رعب و خوف پیدا کردیتا ہے ، جس قوم میں زنا کاری پھیل جاتی ہے ، اس میں کسی وبائ وغیرہ کی وجہ سے اموات کی زیادتی ہوجاتی ہے ، جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، اس کا رزق اٹھا لیا جاتا ہے ، جو قوم غیر منصفانہ اور ناحق احکام جاری کرنے لگتی ہے ،اس کے درمیان خون ریزی پھیل جاتی ہے اور جو قوم عہد وپیمان کو توڑ دیتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دشمن ﴿ظالم حکمراں وغیرہ﴾ مسلط کردیتا ہے ۔‘

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کا وبال ہر حال میں بندوں پر پڑتا ہے ۔ جب انسان خدا کی طرف سے توجہ پھیر لیتا ہے اوردنیا کے عیش وعشرت میں پڑ کر غافل اور بد مست ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف شکلوں میں عذاب کا نزول ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی اور اہل خانہ کی بیماری ، رزق کی تنگی ، اولاد کی نافرمانی ، حکمرانوں کی ظلم و زیادتی اور مختلف حادثات ومصائب کا شکار ہوجاتا ہے۔ لیکن جب انسان اللہ کی نافرمانی ترک کردیتا ہے اور احکام الٰہی کی پوری پوری اتباع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیوی تمام ضرورتوں کے لیے کافی ہوجاتا ہے اوروہ غیب سے اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا انتظام کرتا ہے۔ حادثات اور پریشانیوں سے اسے محفوظ رکھتا ہے اور رزق ، وقت ، زندگی وغیرہ میں برکت کے راستے کھول دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے دلوں میںنیکوکاروں کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اورہر طرف سے انھیں خوش آمدید کی صدا آنے لگتی ہے۔ بڑے بڑے دنیوی عہدیدار ان کے قدموں میں پڑ جاتے ہیں اور ان سے دعاء کراتے ہیں۔ آخر ان کے پاس کونسی ایسی طاقت ہے ، جس کی وجہ سے تمام لوگ اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ ان کی نیکی اور صالحیت ہی ایسی مقناطیس ہے جو لوگوں کے قلوب کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور سارے لوگ ان کے گرویدہ بن جاتے ہیں ۔

اس لیے وہ لوگ جو دنیا میں بھی امن و سکون اور قلبی و ذہنی راحت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، انھیں چاہیے کہ دنیا بھی کمائیں ، مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فراموش نہ کریں ۔ خدا سے اپنے تعلق مضبوط و مستحکم رکھیں ، نیتوں میں اخلاص پیدا کریں ، زندگی کا ہر لمحہ عند اللہ جواب دہی کے احساس کے ساتھ گزاریں ۔ مال و دولت پر فخر و تکبر کے بجائے تواضع کی صفت پیدا کریں۔ جب زندگی ان خطوط پر گزرے گی جن پر صحابۂ کرامؓ   نے اپنی زندگی گزاری تو قدم قدم پر اتنی برکتیں نازل ہوںگی کہ آپ ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ بلا شبہ مال و دولت سے کچھ بھی نہیں ہوتا ، جب تک اللہ کی توفیق اور مدد شامل حال نہ ہو ۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223