ماہنامہ ’’زندگیِ نو‘‘ بابت ماہ مئی ۲۰۱۴ء اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے۔رسائل و مسائل کے کالم میں سورہ توبہ آیت نمبر ۲۹ کے ٹکڑے{حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون} کے ترجمے کے تناظر میں ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب ندوی کی طرف سے(صفحہ ۷۳-۷۶ پر)ایک مفید گفتگو کی گئی ہے۔اس ٹکڑے کے ترجمے کے حوالے سے مندرجہ ذیل نکات پر غور وفکر میرے خیال میں زیادہ مفید ثابت ہوگا:(۱)’’اعطاء‘‘ {حَتَّی یُعْطُواْ}کے معنی کی لغوی وضاحت(۲)جزیہ کسے کہتے ہیں۔(۳)’’عن ید‘‘ میں ’’عن‘‘ کس فعل سے متعلق ہوگا۔ (۴)’’ید‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ (۵)’’صغار‘‘ {وَہُمْ صَاغِرُون}کسے کہتے ہیں۔
٭اعطاء:’’اعطاء‘‘ کے معنی عطا وبخشش کرنے اور نوازش کرنے کے آتے ہیں۔مثال کے طور پر{إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ}،ترجمہ:ہم نے تمہیں خیرِ کثیر سے نوازا ہے۔‘‘{وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی}،ترجمہ: جلد تیرا خدا اپنی بخشش سے تجھے خوش کر دے گا۔‘‘اعطاء کا حاصلِ مصدر عطاء ہوتاہے جس کے معنی نوازش ،بخشش اور عنایت کے وارد ہوئے ہیں۔حضرت سلیمانؑ پر اپنی نوازشوں کو اللہ تعالیٰ نے ’’ہذا عطاء نا‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے،یعنی یہ ہماری نوازش ہے۔قرآنی استعمالات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اعطاء کا یہ لفظ صاف اشارہ کر رہا ہے کہ جزیہ غیر مسلموں کو دینا ہے،لیکن جبر واکراہ کے ساتھ نہیں،بلکہ بہ رضا ورغبت اور خوشدلی وپاسِ خاطری کے ساتھ خوشی خوشی عطا کرنا ہے۔اردو مترجمین میں سے غالباً مولانا آزاد نے اس لفظ کی حقیقی روح کو ترجمے میںملحوظ رکھا ہے۔
(۲)جزیـہ: ’’جزیہ‘‘ جزی یجزی فعل کا ’’فعلۃ‘‘ کے وزن پر مصدر ہے۔عربی زبان کا مذاق رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’’فعلۃ‘‘ کاوزن بیانِ نوعیت کے لیے آتا ہے۔لہٰذا اس کا ترجمہ ’’ایک قسم کا بدلا‘‘ ہونا چاہیے۔گویا جزیہ ایک قسم کا بدلہ ہے؛ ان کی جان،مال،عزت وآبرو،عبادت خانوں اور پرسنل لاز کا بدلہ۔بیرونی حملوں اور دشمنوں سے ان کی سرحدوں کی حفاظت کا بدلہ۔جزیہ درحقیقت ایک معمولی سی رقم ہے جو اسلامی اسٹیٹ کا پرامن شہری بن جانے کی علامت کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔جزیہ لفظ کا ترجمہ ٹیکس یا خراج سے کرنا، اس لفظ کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔
(۳)عن ید:’’عن ید‘‘ کا ترجمہ عام طور پر اردو مترجمین نے ’’ہاتھ سے‘‘ کیا ہے جبکہ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ہی نہیں کیا ہے۔زندگی نو (ص۷۷)پر بیان کیا گیایہ ترجمہ محلِ نظر ہے۔اس سلسلے میں دو پہلووں پر گفتگو ہوسکتی ہے۔اول یہ کہ آیا ’’اعطی یعطی‘‘ کا صلہ عن آتا ہے کہ اس سے متعلق مان کر اس کاترجمہ ’’ہاتھ سے‘‘کر دیا جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ عربی زبان وادب کے ہر شناسا کے نزدیک اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔کیونکہ اعطیٰ یعطی فعل صلہ کے بغیر ہی دو مفعول چاہتا ہے جیسا کہ سورہ کوثر کی آیت میں دیکھا جاسکتا ہے۔اور کبھی کبھی ایک ہی مفعول پر اکتفا کرتا ہے جیسا کہ سورہ ضحی کی مذکورہ بالا آیت میں نظر آتا ہے۔اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’عن‘‘ اگر سابق الذکر فعل ’’یعطوا‘‘ سے متعلق نہیں ہے تو اس کا تعلق پھر کس سے ہے۔عربی زبان وقواعد کے لحاظ سے اس سوال کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ یہاں تضمین کا قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے اور ’’عن‘‘ کی مناسبت سے کوئی فعل یا مشتق یہاںمحذوف ہے جس سے متعلق حرفِ جار ’’عن‘‘ کو مانا جانا چاہیے۔موقعِ کلام کے لحاظ سے ’’معتزلین‘‘ یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ مثلاً’’مبتعدین‘‘وغیرہ یہاںمقدر مانا جاسکتا ہے۔
(۴)عام طور پر اردو مترجمین نے ’’ید‘‘ کا ترجمہ ہاتھ سے کیا ہے،حالانکہ جزیہ ہاتھ سے دینے کی بات ہی ہوتی تو یہاں ’’بایدیہم‘‘ کا استعمال زیادہ موزوں ہوتا اور اس طرح’’یعطوا‘‘ جو جمع کا صیغہ ہے اس سے مطابقت بھی ہوجاتی۔تاہم قرآنِ مجید میں’’ ید‘‘ اور اس کی جمع ’’ایدی‘‘ کا استعمال ایک اور معنی میں بھی ہوا ہے اور وہ ہے قوت،زور اور اقتدار کے معنی۔سورہ ص (آیت نمبر ۱۷)میں ہے{اصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَیْدِ إِنَّہُ أَوَّابٌ} ترجمہ:اور ہمارے بندے داؤد زور وقوت والے کو یاد کرو۔‘‘اسی طرح اسی سورہ کی آیت ۴۵ میں ہے: {وَاذْکُرْ عِبَادَنَا إبْرَاہِیْمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ أُوْلِیْ الْأَیْدِیْ وَالْأَبْصَار}ترجمہ:اور ہمارے بندے ابراہیم،اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو قوت وبصیرت رکھنے والے تھے۔‘‘سورہ ذاریات (آیت نمبر۴۷)میں ہے:{وَالسَّمَاء بَنَیْنَہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ }ترجمہ:اور ہم نے آسمان کو اپنے زور اور قوت کے ذریعے پیدا کیا۔‘‘لغت کے لحاظ سے بھی لفظ کا یہ مفہوم کافی معروف ہے۔المصباح المنیر میں ہے ’’تطلق الید علی القدرۃ،ویدہ علیہ أی سلطانہ‘‘۔ (صفحہ:۷۷۷،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
(۵)صاغرون:’’صاغر‘‘کے معنی ’’الراضی بالظلم‘‘کے ہوتے ہیں،(دیکھیں القاموس المحیط:مادۃ صغر؛ص:۹۳۱)بہت سارے الفاظ کی وضاحت کے لیے ان کے اضداد کا سہارا لیا جاتا ہے۔اگر ہم یہاں اس قاعدے کو عمل میں لائیں تو معلوم ہوگا کہ ’’ذل‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ’’العز‘‘ کی ضد کے طور پر آتاہے اور ’’عز‘‘کے معنی قوت واقتدار کے ہوتے ہیں۔لہٰذا اس کی روشنی میں ’’ذ ل‘‘ کے معنی محکومی وانقیاد کے اپنے آپ مستنبط ہوجائیں گے۔’’ناقۃ ذلول‘‘ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو منقاد ومطیع اوربہ آسانی سواری بنا لی جاتی ہو۔اس طور سے دیکھیں تو’’وہم صاغرون‘‘ کا جملہ پہلے جملے کی تاکید بن جاتاہے۔اس لغوی اور قوادعدِ زبان کی گفتگو کے بعد آیتِ بالا کا ترجمہ ہمارے نزدیک زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ ’’یہاں تک کہ وہ ہر قسم کے اقتدار سے دستکش ہوکر ایک قسم کا بدلا بخوشی دینے لگیں اور حالت یہ ہوکہ اسلامی حکومت کے سامنے سرِ تسلیم خم کیے ہوں۔امام شافعیؒ نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ ان کے لیے ’’صغار‘‘ یہی ہے کہ وہ اسلامی قوانین کی بالادستی تسلیم کر لیں۔‘‘ (بحوالہ تفسیر ماجدی جلد دوم۔)مولانا عبدالماجد دریابادی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’روم و ایران کی رعایا کو مسلمانوں کی حکومت میں آجانے کے بعد جو رقم جزیہ کی دینی پڑتی تھی وہ ان محصولوں سے کمتر تھی جو ان لوگوں کو پہلی حکومتوں کے وقت دینا پڑتے تھے۔یہ شہادت حال کے مشہور عیسائی اہلِ قلم جرجی زیدان کی ہے۔وہ لکھتا ہے کہ’’ الجزیۃ التی کانو ایتکلفون دفعہا إلی المسلمین اقل کثیرا عن مجموع الضرائب التی کانوا یؤدونہا إلی الروم والفارس‘‘۔ (بحوالہ تفسیرِ ماجدی جلد دوم ص۳۴۶۔مطبوعہ تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)متکلمِ اسلام مولانا مودودیؒ نے بھی مسئلۂ جزیہ پر نہایت ہی مدلل انداز میں گفتگو فرمائی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ’’ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو جزیہ عائد کیا جاتا ہے وہ درحقیقت کوئی سزا نہیں ہے، بلکہ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ امن وآئین کے پابند ہوں،رضا ورغبت کے ساتھ قانونِ عدل کی اطاعت کریں اور اپنی استطاعت بھراس حکومت کے مصارف ادا کریں جو انہیں پر امن زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے،ظلم وتعدی سے محفوظ رکھتی ہے،انصاف کے ساتھ حقوق تقسیم کرتی ہے،قوت والوں کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکتی ہے،کمزوروں کو قوت والوں کا غلام بننے سے بچاتی ہے اور تمام سرکش عناصر کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بناتی ہے۔‘‘(الجہاد فی الاسلام ص۱۲۵،مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی دسمبر ۱۹۷۹ء
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014