نقد و تبصرہ

درسِ قرآن کی تیاری کیسے کی جائے؟

مصنف                     :               جناب محمد عبداللہ وانی (امیرجماعت اسلامی جموںوکشمیر)

ترتیب و تدوین          :               ایس۔ احمد۔ پیرزادہ

ناشر                          :               چنار پبلی کیشنز،سری نگر

سنہ اشاعت              :               ۲۰۱۳ء    صفحات:    ۴۶           قیمت:       ۶۰/-روپے

تربیت و تزکیہ کے لیے قرآن کریم سے قریبی ربط و تعلق ضروری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جائے، اس کے معانی ومطالب سمجھنے کی کوشش کی جائے، اس کے احکام و تعلیمات پر عمل کرنے کاجذبہ پیدا ہو اور اس کی روشنی میں اپنے مسائل و مشکلات کا حل تلاش کیاجائے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر تحریک اسلامی نے ’درسِ قرآن‘ کو اپنے پروگراموں کا بنیادی جز بنایا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ زیرنظرکتاب اس موضوع پر مفید معلومات فراہم کرتی ہے۔

یہ کتاب اصلاً ایک تربیتی خطاب ہے، جو جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے امیر جناب محمد عبداللہ وانی نے جماعت کے ہمہ وقتی کارکنوں سے کیاتھا۔ اس کی افادیت کے پیش نظر اسے پہلے جماعت کے ترجمان ’مومن‘ میں شائع کیاگیا، بعد میں کتابی صورت میں اس کی اشاعت عمل میں آئی۔

ابتدا میں درسِ قرآن کی تیاری کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ پھر اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ درس قرآن دیتے وقت کن باتوں کاخیال رکھنا چاہیے؟ درس قرآن کے مختلف اجزاء کی نشان دہی کرکے بتایا گیا ہے کہ کس جز پر کتنا وقت صرف کیاجائے؟ درس قرآن یا تو کسی مخصوص سورت کا دیاجاتاہے یا کسی موضوع پر دیاجاتا ہے۔ اگر درس کسی سورت کا دیا جائے تو اس میں کن نکات کو پیش نظر رکھاجائے اور اگرکسی موضوع پر دیاجائے تو اس میں کن مراحل کی رعایت کی جائے، دونوں پر الگ الگ روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں بہ طور نمونہ سورۂ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات کا درس شاملِ کتاب کیاگیا ہے۔

تحریکی کارکنوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ اس سے انھیں بہتر انداز میں درسِ قرآن دینے کا سلیقہ آئے گا۔

سید مودودیؒ کے قرآنی دروس

مرتب          :           غازی امتیاز

ناشر              :           چنار پبلی کیشنز، سری نگر

سنہ اشاعت  :             ۲۰۱۳ء    صفحات:    ۵۸          قیمت:۱۴۰/- روپے

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء۔۱۹۷۹ء) نے قرآن فہمی کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ زرّیں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ ان کی تفسیرتفہیم القرآن لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے اور بے شمار انسانوں کو اس کے ذریعے دین کا صحیح فہم حاصل ہوا ہے۔ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ (م۱۹۹۸ء) نے اس کی ایک تلخیص تیار کی ہے۔ اس کی بھی بڑے پیمانے پر اشاعت ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ مولانا کا ترجمۂ قرآن بھی مختصرحواشی کے ساتھ طبع ہورہاہے اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ مولانا کی ان خدمات سے پوری دنیا میں بے شمار انسان فیض اٹھارہے ہیں۔

مولانا مودودیؒ ایک مدت تک لاہور کی مسجد مبارک میں باقاعدگی سے درس قرآن دیتے رہے۔ ان دروس میں تفہیم القرآن کے علاوہ بھی فہم قرآن کے بہت سے نکات سموئے ہوئے ہیں۔ مثال کے طورپر انھوںنے اپنے ایک درس میں اَعوذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیم (تعوّذ) اور بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ (تسمیہ) کی جو تشریح کی ہے وہ قرآن کے موضوع پر ان کی کسی تحریر میں نہیں ملتی۔ ان دروس کو ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے محفوظ کرلیاگیاتھا، لیکن کتابی صورت میں اب تک ان کی اشاعت نہیں ہوپائی تھی۔ ان میں سے تعوّذ و تسمیہ پر مولانا کے درس کو راقم سطور نے مرتب و مدوّن کرکے زندگی نو میں شائع کردیاتھا۔ بقیہ سورتوں : الصف، الجمعۃ، المنافقون، التغابن، الطلاق، التحریم اور المزمّل کے دروس مدوّن کرکے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور میں شائع کردیے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے جماعت اسلامی جموںوکشمیر کے شعبۂ تصنیف و تالیف کے ناظم جناب غازی امتیاز کو کہ انھوںنے ان تمام دروس کو زیرنظر کتاب میں جمع کردیا ہے۔ مذکورہ جماعت نے چنار پبلی کیشنز کے نام سے اپنا دارالاشاعت ازسرنو منظم کیاہےاور اس کے تحت مختصر عرصے میں کئی مفید اور اہم کتابیں منظرعام پر آئی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرمائے اور اپنے دین کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائے۔

اس کتاب میں شامل دروس کا مطالعہ تحریکی کارکنوں اور دینی ذوق رکھنے والے عام افراد کے لیے بہت مفید ہے۔ ان کاتربیتی پہلو بہت نمایاں ہے۔ اسلوب عام فہم اور سلیس ہے۔ ان کے مطالعہ سے عمل کاجذبہ ابھرتاہے۔ بالخصوص جو حضرات اجتماعات میں درسِ قرآن کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب ایک گائیڈبک کاکام دے گی۔

اس اہم علمی ودینی خدمت پر فاضل مرتب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو شرف قبولیت سے نوازے۔

خدا کی ضرورت

مصنف         :           ایس، امین الحسن

ناشر              :           القلم پبلی کیشنز، بارہ مولہ، کشمیر۔۱۹۳۱۰۱

سنہ اشاعت  :             ۲۰۱۳ء    صفحات:۴۸              قیمت:۴۰/-روپے

موجودہ دور کے جملہ مسائل کی جڑ یہ ہے کہ انسان اللہ کو بھول گیا ہے اور اپنی خواہشات کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہاہے۔ اس نے بس اسی دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا ہے، چنانچہ زیادہ سے زیادہ اپنی خواہشات پوری کرنے میں لگارہتا ہے اور جب ان کی تکمیل نہیں ہوپاتی تو اس پر شدید مایوسی طاری ہوتی ہے اور وہ خودکشی تک کربیٹھتا ہے۔ حالاںکہ اگر انسان غور کرے تو اس کی فطرت اللہ کے وجود کا تقاضا کرتی ہے، اس پر ایمان سے اسے سکون اطمینان حاصل ہوتاہے اور تقدیر پر یقین اسے مایوسی سے نجات پانے اور جدوجہد کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر اس کتاب میں بہت آسان اور علم فہم اسلوب میں گفتگو کی گئی ہے۔

اس کتاب کے مصنف جناب ایس امین الحسن (وانم باڑی، تامل ناڈو) طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کے کل ہند صدر رہ چکے ہیں اور آج کل جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔ انھوںنے سول انجینئرنگ میں گریجویشن کرنے کے بعد سائیکولوجی سے پوسٹ گریجویشن کیاہے۔ ان کے قرآنی لیکچرز پر مشتمل سی ڈی نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔

آج کل سماج میں ایسے لوگ خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں، یا اس پر اس طرح ایمان نہیں رکھتے جس طرح رکھنا چاہیے۔ اس صورت حال میں اس طرح کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب اس قابل ہے کہ اس کا دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیاجائے۔ امید ہے، اسے دعوتی مقاصد میں بھی استعمال کیاجائے گا۔

حرفِ شیریں (انتخاب کلامِ اقبال مع شرح)

مصنف     :               فہیم محمد رمضان

ناشر          :               القلم پبلی کیشنز، بارہ مولہ، کشمیر۔ ۱۹۳۱۰۱

سنہ اشاعت :             ۲۰۱۳ء    صفحات: ۲۰۰            قیمت:۱۴۰/- روپے

گزشتہ صدی میں جن شخصیات نے اپنی شاعری کے ذریعے فکراسلامی کی ترجمانی کی ہے اور احیائے امت کا فریضہ انجام دیاہے ان میں علامہ محمد اقبالؒ (م ۱۹۳۸ء) کا نام نامی سرفہرست ہے۔ کلامِ اقبال کی متعدد شرحیں اساطینِ علم و ادب نے کی ہیں، جو دست یاب ہیں۔زیرنظر کتاب میں چند نظموں کا انتخاب کرکے بہت آسان اسلوب میں اس کی شرح پیش کی گئی ہے۔ اس کے مؤلف جناب فہیم محمد رمضان فارسی اور اردو زبان و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی شاعر ہیں اور انھیں علامہ اقبال کی فکر اور کلام سے بھی مناسبت ہے۔ انھوںنے ’فکرِ اقبال اور فکرِ شاہ ولی اللہ: ایک مطالعہ‘ کے موضوع پر ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اس وقت وہ کشمیر یونی ورسٹی کے اقبال انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

سری نگر (کشمیر) کے روزنامہ ’مومن‘ میں ۲۰۰۵ء سے اس کی ہفتہ وار اشاعتوں میں ’حرف شیریں‘ کے عنوان سےجناب فہیم رمضان نے ایک کالم شروع کیا، جس کے تحت علامہ اقبال کی اردو اور فارسی کی متعدد نظموں ، قطعات اور رباعیات کی شرح بہت آسان اور عام فہم اسلوب میں شائع ہوتی رہی۔ انہی کو اس کتاب میں جمع کردیاگیا ہے۔ ان میں خاص طور سے علامہ کی تین اہم نظمیں: شکوہ، جوابِ شکوہ اور من و تو قابل ذکر ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اشعارکی شرح کے دوران ان کے علمی اور فلسفیانہ پہلو کے بجائے دینی اور تحریکی پہلو کو نمایاں کیاگیا ہے۔ شرح سے قبل مشکل الفاظ کےمعانی بھی درج کردیے گئے ہیں۔

اس کتاب پر مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور اسلامیات کے معروف محقق ڈاکٹر عبیداللہ فہد ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مسلم یونی وسٹی علی گڑھ کے تعارفی کلمات ہیں، جن میں انھوںنے فاضل مؤلف کی اس کاوش کو سراہا ہے۔ خاص طور سے ڈاکٹر فہد نے اپنے مبسوط مقدمہ میں فکرِ اقبال کا ان کے اشعار کی روشنی میں بھرپور تعارف کرایا ہے۔ انھوںنے علامہ کو ’عاشق رسولؐ‘ اسی طرح اسلامی عظمتوں اور قرآنی رفعتوں کا عاشق اور ان کی شاعری کو مکمل اسلام کی ترجمان اور قرآن کی نقیب و پاسبان (ص۱۶۔۱۷) قرار دیا ہے اور ان کے فلسفۂ خودی پر تفصیل سے اظہارِ خیال ہے۔

امید ہے، یہ کتاب نئی نسل کو کلامِ اقبال کی تفہیم کرانے میں معاون ثابت ہوگی۔

شعاعِ نوا (مجموعۂ نعت)

نعت گو         :           رئیس احمد نعمانی

ناشر              :           گوشۂ مطالعات فارسی، پوسٹ بکس نمبر ۱۱۴، علی گڑھ۔ ۲۰۲۰۰۱

سنہ اشاعت  :           ۲۰۱۳ء    صفحات: ۱۹۲             قیمت:۱۵۰/-روپے

ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی ایک قادر الکلام اور صحیح العقیدہ نعت گو شاعر ہیں۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں پر انھیں ماہرانہ دست رس حاصل ہے۔ عموماً شعراء کے لیے نعت گوئی کے میدان میں جادۂ اعتدال پر قائم رہنا دشوار رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کے غلو میں وہ بسااوقات ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں، جن کی قرآن و حدیث سے تائید نہیں ہوتی، بلکہ ان کے ڈانڈے گم راہی اور انحراف سے جاملتے ہیں، لیکن ڈاکٹر رئیس نعمانی اس معاملے میں بڑے سخت ہیں۔ انھوںنے نہ صرف یہ کہ بہت محتاط رہ کر نعتیہ شاعری کی ہے، بلکہ وہ ان نعت گو شعراء کے بڑے زبردست ناقد ہیں جو اس معاملے میں جادۂ مستقیم پر قائم نہیں رہ سکے ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ انھوںنے اپنی نعتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، ارشادات اور پیغام کو پیش کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ ان کی نعتوں کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ مثلاً چراغ نوا، سلام بہ حضور خیرالانام، فروغ ِ نوا وغیرہ۔ اب یہ تازہ مجموعۂ نعت منظرعام پر آیا ہے۔

ذیل میں اس مجموعہ سے چند منتخب اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

وہی رحمتیں برستیں، وہی نعمتیں برستیں

اگر آج بھی جہاں میں انہی کا نظام ہوتا

دونوں جہاں کا سب سے بڑا بدنصیب ہے

جو تابعِ شریعتِ شاہ امم نہ ہو

تمام معجزوں کا معجزہ ہے اک ’قرآن‘

عیاں ہیں جس سے صفات اور بیّناتِ رسول

طاعت نہ ہوتو الفتِ آقا ہے بس یونہی

جس طرح شمع جلتی رہے، روشنی نہ ہو

مومنو! ان کے نقشِ قدم پر چلو، تم ذرا ان کی سیرت کو اپناتو لو

پوری دنیا کا نقشہ بدل جائے گا، کفر کے سارے ایوان ہل جائیںگے

فاضل شاعر نے کتاب کی ابتدا میں اپنے پیش لفظ میں اور آخر میں حواشی میں بعض متنازع موضوعات چھیڑدیے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ علامہ اقبال کو لوگوں نے خواہ مخواہ شاعرِاسلام بنادیاہے، حالاںکہ ان کے بہت سے اشعار شرکیہ اور گم راہ کن ہیں۔ یہ خیال انھوںنے اپنی متعدد تحریروں میں ظاہر کیا ہے۔ اس کتاب میں بھی انھوںنے ماہ نامہ ’سب رس‘ حیدرآباد سے سیدشکیل وسنوی کاایک طویل مراسلہ نقل کیاہے، جس میں مراسلہ نگار نے اللہ کے رسول ﷺ سے علامہ اقبال کی عقیدت و محبت کا رد کیاہے (ص۱۵۷۔ ۱۶۰)۔ اس موضوع پر کوئی محاکمہ کیے بغیر محض یہ عرض کرنے کو جی چاہتاہے کہ اس کتاب میں اسے چھیڑنے کاکوئی موقع نہیں تھا۔

اسی طرح انھوں نے حضرت حسان بن ثابتؓ کے درج ذیل شعر:

خُلِقْتَ مُبَرَّءاً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ

کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ

کے معروف عام ترجمہ ’’آپؐ کو ہر عیب سے بری پیداکیاگیا، گویاکہ آپؐ کی تخلیق آپؐ کی مرضی اور چاہت کے مطابق کی گئی ہے‘‘  کو غلط قرار دیتے ہوئے اس پر طویل بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص پیدا ہونے سے پہلے کیسے کچھ چاہ سکتاہے؟ اس کا صحیح ترجمہ وہ یہ قرار دیتے ہیں: ’’آپؐ کو ہرعیب سے پاک صاف پیدا کیاگیا،گویاکہ آپؐ کو ایسا پیدا کیاگیاجو آپ کے شایانِ شان تھا‘‘ (ص۲۳)۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے مصرع کا آخری لفظ تشاءُ (بضمّ التاء) ہے، جس کو لوگ غلط طورپر ’تَشَاءُ ‘ (بفتح التاء) پڑھتے اور لکھتے ہیں اور پھر اس کا غلط ہی ترجمہ بھی کرتے ہیں (ص۲۲۔۲۳)۔ ان کی یہ بات صحیح نہیں، اس لیے کہ اگر یہ لفظ مجہول ہوتا تو تَشَاءُ (ت سے) نہیں، بلکہ یَشَاءُ(ی سے) ہوتا، جب کہ دیوان حسان کے تمام نسخوں میں یہ تَشَاءُ ہی چھپا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے اچھا ہی سوچتا ہے۔ اس مصرع کے شروع میں ’کَاَنَّ ‘ (گویا کہ) آیا ہے، جو حرفِ تشبیہ ہے اور تشبیہ میں صرف حقیقت بیانی ہی نہیں، بلکہ کچھ خیال آرائی بھی ہوتی ہے۔

امید ہے، ڈاکٹر نعمانی کے دیگر نعتیہ مجموعوں کی طرح اس مجموعہ کو بھی علمی و دینی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوگی۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2014

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau