قرآن کریم میں بہت سی قوموں کے ایسے واقعات بیان ہوئے ہیں جن میں ان کے غلط اعمال اور اللہ تعالیٰ کے احکام وحدود سے تجاوز کی پاداش میں ان کو عذابِ الٰہی کا سامنا کرنا پڑا۔اس سلسلہ میں ایک مشہور اور عبرتناک واقعہ اصحاب سبت کا ہے۔ یہ واقعہ یہودیوں کی ایک بستی سے تعلق رکھتا ہے۔ان لوگوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی، چنانچہ بطور سزا انہیں بندر بنا دیاگیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اصغر حضرت اسحاق علیہ السلام تھے۔ ان ہی کو بنی اسرائیل کا مورث اعلیٰ کہا جاتا تھا۔ ان کے فرزندحضرت یعقوب علیہ السلام اسرائیل کے نام سے بھی مشہور تھے۔ اور ان ہی کی اولاد اور پیرو کار بنی اسرائیل کہلائے جاتے تھے۔ اللہ نے ان کے لیے ہفتہ (سنیچر) کو عبادت کا دن مقرر کیا۔ اس دن ان کے لیے خرید و فروخت، زراعت و تجارت اور شکار و بیوپار کو حرام قرار دیا گیا اور اس دن کو صرف عبادت کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ ان کو تلقین کی گئی کہ وہ اس کی عظمت کا لحاظ اور اس کی حرمت کو قائم رکھیں۔ لیکن وہ اپنے اس عہد و پیمان پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے۔ اور جلدہی خدا کے حکم کے معاملہ میں اختلاف کرنے لگے۔ جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے۔
إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَإِنَّ رَبَّکَ لَیَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُواْ فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ۔ (النحل: ۱۲۴)
’’سبت کی پابندی ان ہی لوگوں پر عائد کی گئی تھی جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا۔ اور بے شک تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کردے گا جس بات میں وہ اختلاف کررہے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا شمس پیر زادہؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’مطلب یہ ہے کہ یہود کو ابتدا میں یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ جمعہ کے دن کو اللہ کے مخصوص احکام کی بجاآوری کے لیے خاص کرلیں۔ لیکن انھوں نے اپنے نبی سے اس معاملہ میں اختلاف کیا اور اس بات پر مُصر ہوئے کہ سنیچر کے دن کو مقرر کیا جائے۔ ان کے اس اختلاف کے بہ سبب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سنیچر کا دن مقرر کیا اور ساتھ ہی انھیں اس دن کو منانے کے تعلق سے سخت احکام دئے۔اگر وہ جمعہ کو قبول کرلیتے تو اتنے سخت احکام انھیں دئے نہ جاتے۔اس کے بعد جب نصاریٰ آئے تو انھوں نے نے سبت کے معاملہ میں اختلاف کر کے اتوار کا دن اپنے لیے مخصوص کرلیا۔ لیکن امت محمدیہ نے اللہ کے فضل سے جمعہ کے دن کو پالیا۔ ان کو جب جمعہ کے دن مخصوص عبادت کا حکم دیا گیا تو انھوں نے کوئی اختلاف نہیںکیا۔ اس طرح جمعہ کا دن جس سے حقیقۃً ہفتہ کا آغاز ہوتا ہے امت محمدیہ کے حصہ میں آیا۔ یہود سنیچر کی وجہ سے ایک دن پیچھے رہ گئے اور نصاریٰ اتوار کی وجہ سے دو دن پیچھے‘‘۔ (دعوۃ القرآن ج۲،ص: ۹۳۵)
اس سلسلہ میں ایک اہم حدیث اس طرح آئی ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہ اور حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو ہم سے پہلے تھے، جمعہ کے دن سے محروم کردیا۔ یہود کا دن سنیچر اور نصاری کا دن اتوار مقرر ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو بھیجا اور جمعہ کے دن کے لیے ہم کو ہدایت دی۔ اس طرح جمعہ، سنیچر اور اتوار کے دن مقرر ہوئے اور اس ترتیب کے لحاظ سے وہ (یہود و نصاری) قیامت کے دن ہمارے پیچھے رہیں گے۔ دنیا میں ہم سب سے پیچھے ہیں مگر قیامت کے دن سب سے پہلے ہمارا فیصلہ ہوگا‘‘۔ (صحیح مسلم ،کتاب الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الامۃ لیوم الجمعۃ، حدیث نمبر ۸۵۶)
یہود نے جمعہ کے بجائے سبت (سنیچر) کے دن کو عبادت کے لیے مقرر کرنے کی مانگ کی تھی، ان کی یہ مانگ ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ کا باعث بنی اور وہ اس طرح کہ ان پر اس دن کسی بھی طرح کے کاروبار کو حرام قرار دیا گیا ہے، جبکہ امت محمدیہ نے اس طرح کی کوئی مانگ نہیں کی اور وہ ملت ابراہیمی کی پیروی میںجمعہ کو تسلیم کرتی ہے، اس لیے اسلام نے جمعہ کے دن کاروبار کے معاملہ میں کسی طرح کی سختی نہیں رکھی ہے، البتہ صرف خطبہ و نماز جمعہ کے وقت میںمعاش کمانے سے روک دیا ہے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد حلال روزی تلاش کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے۔(ملاحظہ کیجئے سورۃ الجمعہ آیات: ۹۔۱۰)
واضح رہے قرآن کے مطابق یہود کوتلقین کی گئی تھی کہ وہ سنیچر کی حرمت کے عہد و پیمان پر قائم رہیں اور جن باتوں کو اس دن کے حوالے سے حرام کردیا گیا ان سے بچتے رہیں، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے:
وَقُلْنَا لَہُمْ لاَ تَعْدُوُا فِی السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْہُم مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاo (النساء: ۱۵۴)
’’اور ہم نے ان (یہودیوں) سے کہا کہ سبت (سنیچر) کے بارے میں حد سے نہ گزرنا اور ہم نے ان سے مضبوط عہد لیا‘‘۔
لیکن یہود زیادہ دیر تک اپنے رب سے کئے ہوئے عہد و پیمان پر قائم نہیں رہ سکے۔ او رانھوں نے حیلے بہانے کر کے اپنے کو بہت سی شرعی پابندیوں سے آزاد کرلیا تھا۔ او رانھوں نے سبت کے معاملہ میں کھلے عام احکام الٰہی کی خلاف ورزی کی اور نتیجتاً انھیں سخت ترین اور ذلت آمیز عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس عبرت انگیز واقعہ کے بارے میں کچھ اہم اور بنیادی باتیں قرآن کی ان آیات میں بیان ہوئی ہیں:
وَسْأَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِیْ السَّبْتِ إِذْ تَأْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعاً وَیَوْمَ لاَ یَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِیْہِمْ کَذَلِکَ نَبْلُوہُم بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَo وَإِذْ قَالَتْ أُمَّۃٌ مِّنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْماً نِ اللّٰہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَاباً شَدِیْداً قَالُواْ مَعْذِرَۃً إِلَی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَo فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ أَنجَیْْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوئِ وَأَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوُا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍ بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُونَo فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُہُواْ عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُونُواْ قِرَدَۃً خَاسِئِیْنَo (الاعراف: ۱۶۳۔ ۱۶۶)
’’اور (اے نبیؐ) ان سے اس بستی کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے آباد تھی، جہاں سبت (سنیچر) کے معاملہ میں لوگ حد سے باہر جاتے تھے۔ سبت کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے سامنے آجاتیں اور جب سبت کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اس طرح ہم ان کی نافرمانی کی وجہ سے انھیں آزمائش میں ڈالتے تھے اور جب ان میں سے ایک گروہ نے (نصیحت کرنے والوں سے) کہا تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ یا تو ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب دینے والا ہے؟ انھوں نے جواب دیا۔ اس لیے کہ تمہارے رب کے حضور معذرت کرسکیں اور اس لیے کہ یہ لوگ باز آجائیں۔ پھر جب وہ اس نصیحت کو بالکل بھلا بیٹھے جو انھیں کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے روکتے تھے۔ مگر غلط کار لوگوں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ اس کام کو جس سے انھیں منع کیا گیا تھا پوری ڈھٹائی کے ساتھ کرنے لگے تو ہم نے کہا، ذلیل بندر بن جاؤ‘‘۔
تورات میں اس واقعہ کا ذکر اس طرح آیا ہے:
’’اور خدا وند نے موسیٰ سے کہا، تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دینا کہ تم میرے سبتوں کو ضرور ماننا۔ اس لیے کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان پشت درپشت ایک نشان رہے گا، تاکہ تم جانو کہ میں خدا وند تمہارا پاک کرنے والا ہوں۔ پس تم سبت کو ماننا اس لیے کہ وہ تمہارے لیے مقدس ہے۔ جو کوئی اس کی بے حرمتی کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے۔ جو اس میں کچھ کام کرے وہ اپنی قوم سے کاٹ ڈالا جائے۔ چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتواں دن آرام کا سبت ہے، جو خداوند کے لیے مقدس ہے۔ جو کوئی سبت کے دن کام کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے‘‘۔ (تورات، خروج باب ۳۱، آیت ۱۲ تا ۱۶)
یہود کے لئے سبت (سنیچر) کے دن مچھلی کا شکار کرنا حرام قرار دیا گیا تھا ،لیکن ان کی آزمائش کے طور پر سنیچر ہی کے دن مچھلیاں ظاہر ہوتی تھیں اور ان کی آمد اس قدر افراط کے ساتھ ہونے لگی کہ سمندر کے تمام کنارے مچھلیوں سے بھر جاتے تھے، جس کی وجہ سے ان میں سے ایک گروہ نافرمانی کرتے ہوئے حیلہ سازی کرنے لگا۔ اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس اور ان کے شاگرد عکرمہ کا ایک واقعہ لکھا ہے جس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ رو رہے تھے۔ دیکھا کہ ان کی گود میں قرآن کھلا رکھا ہوا ہے۔ میں کچھ دیر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان سے قریب نہیں ہوا۔ لیکن جب اسی حالت میں کافی دیر ہوگئی تو پھر میں آگے بڑھ کر بیٹھ گیا اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ مجھ کو آپ پر قربان کرے، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا، ان اوراق (قرآن) نے مجھے رلادیا ہے۔وہ سورۃ الاعراف تھی،انھوں نے مجھ سے پوچھا: کیا تم ایلہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں؟ انھوں نے کہا: وہاں کچھ یہود آباد تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں ساحل پر نمودار ہوتیں ، پھر غائب ہو جاتیں، جنھیں حاصل کرنے کے لیے انھیں سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔ سنیچر کے دن خوب موٹی اور عمدہ مچھلیاں پانی کے اوپر تیرتے ہوئے بکثرت آتیں۔ کچھ عرصہ اسی طرح گزر گیا، پھر شیطان نے انھیں اُکسایا کہ سنیچر کے دن تو تمھیں صرف مچھلیاں کھانے سے منع کیا گیاہے۔ (شکار کرنے سے نہیں) سو تم سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑ کر دوسرے دن کھالیا کرو‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ج۲، ص: ۳۴۳)
ڈاکٹر اسرار احمد یہود کی اس حیلہ سازی کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
’’ان (یہود) میں سے کچھ لوگوں نے اس قانون میں چور دروازہ نکال لیا۔ وہ ہفتہ کے روز ساحل پر جاکر گڑھے کھودتے اور نالیوں کے ذریعے انھیں سمندر سے ملادیتے۔ اب وہ سمندر کا پانی ان گڑھوں میں لے کر آتے تو پانی کے ساتھ مچھلیاں گڑھوں میں آجاتیں۔ او رپھر وہ ان کی واپسی کا راستہ بند کردیتے۔ اگلے روز اتوار کو جاکر ان مچھلیوں کو آسانی سے پکڑ لیتے اور کہتے کہ ہم ہفتہ کے روز تو مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس طرح شریعت کے حکم کے ساتھ انھوں نے یہ مذاق کیا کہ اس حکم کی اصل روح کو مسخ کردیا۔ حکم کی اصل روح تو یہ تھی کہ چھ دن دنیا کے کام کرو اور ساتواں دن اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف رکھو۔ جبکہ انھوں نے یہ دن بھی گڑھے کھودنے، پانی کھولنے اور بند کرنے میں صرف کرنا شروع کردیا‘‘۔ (بیان القرآن، ج ۳، ص: ۱۸۰)
جب یہود کے ایک گروہ نے سبت کے احکام کے بارے میں نافرمانی کی تو دوسرا گروہ اس کی حیلہ سازی و کارستانی کو دیکھ کر اس کو خدا کے عذاب اور اس کی ناراضگی سے ڈراتا اور اس سے اپنی برأت کا بھی اظہار کرتا تھا۔ ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ آخر اس گروہ کی نافرمانی پر وعظ و نصیحت سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ہرگز اپنی روش سے باز آنے والا نہیں ہے۔ لیکن اس گروہ میں سبت کے احکام کی بے حرمتی کا رجحان بڑھنے لگا اور وہ اس کی علانیہ خلاف ورزی کرنے لگا۔
مولانا شمس پیر زادہؒ لکھتے ہیں:
’’سبت کی بے حرمتی کا رجحان جب بنی اسرائیل کے اس گروہ میں بڑھ گیا جو سمندر کے کنارے آباد تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت آزمائش میں ڈالا او راس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ سنیچر ہی کے دن مچھلیاں سطح آب پر آنے لگیں، اور دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ جن لوگوں کی ساری دلچسپیاں معاش سے وابستہ تھیں، وہ سبت کے احکام کی پروانہ کرتے ہوئے مچھلیوں کا شکار کرنے لگے۔ اس طرح سبت کی بے حرمتی اجتماعی طور پر ہونے لگی‘‘۔ (دعوۃ القرآن ج۱، ص: ۵۶۱)
قرآن میں اصحاب سبت کی بستی کا نام درج نہیں ہے ، صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ وہ بستی ساحل سمندر پر واقع تھی۔
اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
’’یہ وہی بستی ہے جس کا نام ایلہ تھا اور یہ بحر قلزم کے کنارے پر واقع تھی۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’یہ وہی بستی ہے جسے ایلہ کہا جاتا ہے اور جو مدین اور طور کے درمیان واقع ہے‘‘۔یہی قول عکرمہ، مجاہد، قتادۃ اور سدی کا بھی ہے۔نیز عبد اللہ بن کثیر القاری کہتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ یہ بستی ایلہ کی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ بستی مدین میں تھی اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کے مطابق ہے جبکہ ابن زید کہتے ہیں کہ یہ وہ بستی ہے جسے معتا کہا جاتا ہے جو مدین اور عینونا کے درمیان واقع ہے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص: ۳۴۲)
مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
’’عکرمہ، مجاہد، قتادۃ، سدی، کبیر اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ منقول ہے کہ اس بستی کا نام ایلہ تھا اور یہ بحرِ قلزم کے ساحل پر واقع تھی۔ عرب جغرافیہ داں کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص طور سینا سے گزر کر مصر کو روانہ ہوتا تو طورِ سینا کی جانب ساحل بحر پر یہ بستی ملتی تھی، یا یوں کہہ لیجیے کہ مصر کا باشندہ اگر مکہ کاسفر کرے تو راہ میں یہ شہر پڑتا تھا۔ یہی قول راجح ہے‘‘۔ (قصص القرآن ج۳، ص: ۵۸)
اصحاب سبت کا واقعہ کس دور سے تعلق رکھتا ہے؟ اس سلسلہ میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ داود علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔( تفسیر القرطبی ج۷، ص: ۲۶۹) علامہ صابونی نے بھی اسی قول کولیا ہے (صفوۃ التفاسیر جلد۱، ص: ۴۴۳) لیکن مولانا حفظ الرحمن سیوہاری نے اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے ایک نئی تحقیق پیش کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت داود علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا ہے، لیکن ابن جریر، ابن کثیر، ابو حیان اور امام رازی (رحمہم اللہ) جیسے جلیل القدر مفسرین کے طرزِ بیان اور خود قرآنِ عزیز کے اسلوب سے یہ قول صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے کہ قرآنِ عزیز نے اس واقعہ کو سورۃ الاعراف میں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔اور وہاں یہ بتایا ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو اہل بستی تین جماعتوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور ان میں سے ایک جماعت سرکش او رحیلہ جو نافرمانوں کو راہ ہدایت پر قائم رکھنے کی سعی کررہی تھی پس اگر یہ واقعہ حضرت داود علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا تو یہ بات بعید از قیاس او ربعید از اسلوب قرآن تھی کہ وہ ایسے موقع پر جبکہ انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت پر مسخ کا عذاب مسلط ہونے کا ذکر کررہا ہو، اس زمانہ کے پیغمبر کا اس سلسلہ میں قطعاً کوئی ذکر نہ کرے اور یہ نہ بتائے کہ نافرمان قوم کے اور ان کے درمیان کیا معاملہ پیش آیا۔ نیز سلف صالحین سے بھی کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہو کہ یہ واقعہ حضرت داود علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا اور نہ تاریخ ہی اس کے لیے کوئی مواد بہم پہنچاتی ہے‘‘۔
آگے مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’الحاصل قرآن کے اسلوب بیان اور جلیل القدر مفسرین کے شرح وتفصیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصحابِ سبت کا یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت داود علیہ السلام کے درمیانی زمانہ میں کسی ایسے وقت پیش آیا جبکہ ایلہ میںکوئی نبی موجود نہیںتھے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ وہاں کے علماء حق ہی کے سپرد تھا، اس لیے قرآن عزیز نے صرف ان ہی کا تذکرہ کیا اور کسی نبی یا پیغمبر کا ذکر نہیں کیا‘‘۔ (قصص القرآن، ج۳، ص: ۵۹۔۶۰)
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اس سلسلہ میں یہ تحقیق پیش فرمائی ہے:
’’سبت‘‘ ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں۔یہ دن بنی اسرائیل کے لیے مقدس قرار دیا گیا تھا او ر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اور اولادِ اسرائیل کے درمیان پشت د رپشت تک دائمی عہد کا نشان قرار دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیوی کام نہ کیا جائے۔ گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے، جانوروں اور لونڈی غلاموں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور یہ کہ جو شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن بنی اسرائیل نے آگے چل کر اس قانون کی علانیہ خلاف ورزی شروع کردی۔ ہرمیاہ نبی کے زمانہ میں (جو ۶۲۸ اور ۵۸۶قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں) خاص یروشلم کے پھاٹکوں سے لوگ سبت کے دن مال اسباب لے لے کر گزرتے تھے۔ اس پر نبی موصوف نے خدا کی طرف سے یہودیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یروشلم نذر آتش کردیا جائے گا۔ (ہرمیاہ ۱۷:۲۱۔۲۷) اس کی شکایت حزقی ایل نبی بھی کرتے ہیں جن کا دور ۵۹۵ اور ۵۳۶ قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے۔ چنانچہ ان کی کتاب میں سبت کی بے حرمتی کو یہودیوں کے قومی جرائم میں سے ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ (حزقی ایل ۲: ۱۲۔۲۴) ان حوالوں سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں جس واقعہ کا ذکر کررہا ہے وہ بھی غالباً اسی دور کا واقعہ ہوگا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص:۹۰)
اصحاب سبت کاواقعہ سورۃ الاعراف میں قدرے تفصیل سے بیان ہوا ہے۔اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اصحاب سبت کا واقعہ پیش آیا تو ان کی بستی تین گروہوںمیں تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک گروہ راست انداز میں احکام الٰہی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ دوسرا گروہ خلاف ورزی کا مرتکب تو نہیں ہوا مگر اس نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کرلی کہ احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرنے والا گروہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ اب اس کاباز آنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اس نے نافرمان گروہ کا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا۔ مگر ان میں ایک تیسرا گروہ بھی تھاجو غیرت ایمانی کی وجہ سے حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی او ربغاوت کو برداشت نہ کرسکا تھااس لیے وہ خلاف ورزی کرنے والے گروہ کو روکنے او ر باز رکھنے کی کوشش میں لگا رہا او راس کو وعظ و نصیحت کرتا رہا تھا۔ لیکن بالآخر احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرنے والا گروہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوگیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان تین گروہوں میں کیا صرف اسی ایک گروہ کو عذاب دیا گیا جو براہ راست نافرمانی میں مبتلا تھا یا پھر اس گروہ کے ساتھ وہ گروہ بھی اس عذاب میں شامل تھا۔ جنھوں نے احکام الٰہی کی خلاف ورزی تو نہیں کی تھی مگر اس نے وعظ و نصیحت کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے سکوت کا راستہ اختیار کیاتھا؟
اس سلسلہ میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے:
’’اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے ۔ایک وہ جو دھڑے سے احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے او رناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو برداشت نہ کرسکتی تھی او روہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کرکے خدا کے سامنے اپنی برأت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورتِ حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ ان تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا۔ کیونکہ اس نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی۔ اور وہی تھا جس نے اپنی برأت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میںہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص: ۹۱)
لیکن بعض مفسرین کے نزدیک جن لوگوں نے سبت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور ان کو برائی سے روکنے کے بجائے ان سے صرف اظہار ناپسندیدگی تک اپنا رد عمل رکھا۔ وہ اللہ سے ڈرنے والے لوگ تھے وہ اگرچہ ان کو منع نہیںکرتے تھے۔ مگر خود احکام الٰہی کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیںتھے۔ اس صورت میں ان کا انجام نافرمانوں کا جیسا کس طرح ہوسکتا ہے؟
چنانچہ اس بارے میں سید قطب شہیدؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس بستی کے باشندے تین امتوں (گروہوں) میں بٹ گئے ۔ پہلا گروہ نافرمانوں او رحیلہ سازوں کاتھا، دوسرا گروہ ان لوگوں کا جنھوں نے اس نافرمانی اور حیلہ سازی کا مقابلہ کرنے کے لیے مثبت طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس پر اپنی ناگواری کا اظہار کیا اور نصیحت ورہنمائی کے ذریعہ اصلاح کی کوشش کی۔ تیسرا گروہ ان کا، جنھوں نے برائی و گناہ کرنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا، ان کا رویہ منفی اظہارِ ناپسندیدگی تک محدود رہا، برائی کو روکنے کے لیے انھوں نے کوئی مثبت اقدام نہ کیا۔ اس طرح فکر و عمل کے یہ تین مختلف زاویے تھے جنھوں نے تین گروہوں کو تین امتوں کی شکل میں تبدیل کردیا۔
مگر جب نصیحت وموعظت سود مند ثابت نہ ہوئی اور بھٹکے ہوئے لوگ اپنی گمراہی میں آگے بڑھتے چلے گئے، تو ان پر اللہ کا فیصلہ نافذ ہوا اور اس کی تنبیہیں، حقیقت واقعہ کی شکل میں ڈھل گئیں۔ چنانچہ جو لوگ برائی سے روکتے تھے وہ عذاب سے محفوظ رہے، نافرمان گروہ پر سخت عذاب نازل ہوا۔ رہا تیسرے گروہ یا تیسری امت- تو اس کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ شاید اس لیے کہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ اگرچہ اسے عذاب میں نہیں پکڑا گیا۔ کیونکہ اس نے مثبت اظہارِ نکیر نہ کر کے صرف اظہار ناگواری پر اکتفا کیا۔ اس وجہ سے وہ ناقابل التفات ٹھہرا، ہاں مگر مستحق عذا ب نہ ہوا‘‘۔ (فی ظلال القرآن، ج۵،ص:۴۳۔۳۴۲،مترجم مولانا مسیح الزماں فلاحی ندوی)
(جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2013