قصص قرآن میں خواتین کرداروں کی تفصیل ہمارے سامنے موجود ہے اس سلسلے میں تفسیری و فقہی، تاریخی مباحث قابل ذکر ہیں۔ قرآن میں قصص جامع انداز میں بیان ہوئے ہیں ان میں مزید تفصیلات کا اضافہ بعد میں احادیث اور اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
مومنین جب ان قصص کو سنتے سناتے ہیں،تو ایمان تازه هوتا هے۔ بیان کردہ واقعات کو چاہے صدیاں گزر جائیں وہ انسانی زندگی کے لئے اخلاقی اور ناصحانہ اہمیت کے حامل ہیں – قصص قرآن میں بیان شدہ خواتین کا کردار مسلمانوں کے لئےنمونه ہے۔
مسلمانوں نے ان قصص کے ذریعہ تاریخ كے فهم کو ایک مربوط تصور میں ڈھالا۔ یہ قصص پڑھنے اور سننے والوں کے تصور کائنات كی تشكیل كرتے ہیں- جب سماج کے مادی حالات اور تصورات میں تبدیلی رونما ہوتی ہےتو قصص قرآن كے معیار پر اس كو جانچا جا سكتا هے۔
قرآن اللہ کا کلام ہے جو کسی بھی طرح کی تحریف سے پاک ہے۔ یہ کلام خاتم الانبیاء رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا آپ نے پہلے کے تمام انبیاء کی رسالت کی تصدیق کی- قرآن تمام انسانیت کے لیے رہنمائی کا منبع ہے- اس کتاب پاک میں اللہ کا پیغام هے جو مومنین کے ایمان کو پختہ کرتا ہے- اللہ کی آیات نہ صرف صحف میں بلکہ پوری کائنات اور تاریخ میں بکھری ہوئ ہیں – قرآن ماضی کے قصص سناکر انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔
بهت سے قصص سے قرآن کے سامعین واقف تھے قرآن انہیں مختصراً بیان کرتا ہے۔ تفسیر، تاریخ اور قصص الانبیاء کے ماهرین نے مزید تفصیلات احادیث اور اسرائیلی روایت سے اخذ كیں۔بعض مفسرین قرآن اس معاملہ میں محتاط رہے اور اسرائیلی روایت کا محتاط استعمال کیا ۔
اسلامی تاریخ نویسی میں انبیاء کے ادوار تاریخی سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ قرآن میں بیان شدہ قصص تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان قصص میں جن خواتین کا ذکر آیا ہے ان کو اہمیت حاصل ہے۔
حوا علیھا السلام
حوا کا ذکر قرآن میں آدم علیہ سلام کی زوجہ کے طور پر آیا ہے۔پہلے انسانی جوڑے کا قصہ قرآن سے ہم تک پہنچا ہے،ـپھر اس کو مفسرین، تاریخ نگاروں اور قصہ نگاروں نے بیان کیا ہے اور اس سے انسانی وجود کے معانی سمجھے۔ یہ قصہ سورۃ البقرۃ، النساء، الاعراف، الحجراور طه میں بیان ہوا ہے۔ عہد وسطی میں مفسرین نے قصہ کے اهم پہلوؤں کو خاص طور سے بحث کا موضوع بنایا ایسے سوالات کو بھی اہمیت دی گئی کہ كس مقام پراس جوڑے کی رہائش تھی، حوا کی پیدائش کیسے ہوئی، وہ کون سا درخت تھا جس کے قریب نہ جانے کی ہدایت باری تعالی نے دی تھی ۔ عصر حاضر کے مفسرین کی توجہ اس قصہ کے اخلاقی پہلوؤں پر رہی ہے۔
قرآن میں حوا کو آدم کی زوجہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ ان کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔ ان کے بنانے کا عمل کہیں بیان نہیں کیا گیا ۔ ابلیس نے کس طرح وسوسہ میں ڈالا اسکی تفصیلات بھی قرآن میں نہیںهیں۔ پیدائشی گناہ کا تصور جو بائبل میں ہے اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
سورۃ البقرۃ میں آیا ہے:-اور ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو فراغت سے دونوں کھاؤ ۔
ابن کثیر نے حدیث بیان کی ہے:
’’عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ سب سے اوپر والا حصہ ہوتا ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اسے توڑ دو گے اور اگر اس کے حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی ‘‘۔
بیسویں صدی کے مفسرسید قطب آدم اور حوا کے قصہ کو بیان کرتے وقت ان بنیادی اصولوں پر غور کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے اخلاقی ،عملی اور عقلی پہلوؤں سے متعلق ہیں ۔
رفعت حسن لکھتی ہیں:
اللہ نے عورت و مرد کی مشترکہ خصوصیات بیان کی ہیں۔ انسان کی تخلیق کا جو قصہ قرآن میں بیان ہوا ہے اس میں ’’نفسٍ واحدةٍ‘‘وہ علامت ہے جو مرد اور عورت کے مشترکہ انسانی وجود کی نشاندہی کرتی ہے نہ کہ ان کہ بیچ کے فرق کی۔ پاکستانی-امریکی مصنفہ اسماء برلاس لکھتی ہیں : ’’ قرآن نے عورت کے وجود کو استخراجی اور ثانوی قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسکے سر پر گناہ فطری کا الزام دیا۔
بلقیس
بلقیس کا قصہ سورۃ النمل میں بیان ہوا ہے [ 27:23-44 قرآن ]۔ بلقیس سلیمان علیہ السلام کے عہد میں جنوبی عرب میں ایک مملکت کی حکمراں تھی۔ اس کی مملکت میں لوگ سورج کی پوجا کیا کرتے تھے۔ جب بلقیس کے یہاں سلیمان علیہ السلام کی طرف سے اسلام کا پیغام پہنچا تو بلقیس نے اپنے درباریوں کو بلا کر ان سے مشورہ کیا اور پھر سلیمان علیہ السلام کے پیغام کے جواب میں تحائف روانہ کئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نے ان تحائف کو قبول نہ کیا تو وہ خود ان سے ملاقات کرنے نکل پڑی۔ اس سے پہلے کہ بلقیس سلیمان علیہ السلام کے یہاں پہنچتی، ان کا تخت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچ گیا۔ بلقیس پھر سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئیں ور ایمان لے آئیں۔
مفسرین بلقیس کا قصہ الگ الگ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ جس مفسر کو جو پہلو اہم لگتا ہے، انکی تفسیر میں اسی پر زیادہ زور پایا جاتا ہے۔ ابتدائی دور کے مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کے کارناموں اور ان کی صلاحیتوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ سلیمان علیہ السلام کی کرامات جیسے کہ جنات پر ان کا قابو ہونا، حیوانات کی بولی سمجھنا وغیرہ بھی مفسرین کے یہاں پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔
تفسیر جلالین میں سلیمان علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے ایک حکمراں کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔ مفسر لکھتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کو جس طرح ایک چھوٹے ہدہد کی بھی خبر تھی، اسی طرح ایک حکمراں کو اپنی رعیت کی خبر ہونا چاہئے ، – مفسر سلیمان علیہ السلام کے پیغام پر بلقیس کے ردعمل کی داد دیتے ہوئے کہتےهیں کہ اہم امور میں مشورہ کرنا سنت ہے۔
مولانا مودودی جب اس قصہ کی شرح کرتے ہیں تو ان کا زور اس بات پر ہے کہ اللہ کے رسول کے بارے میں اٹھنے والے اشکالات کے جواب دئے جائیں – خاص طور سےجنات کے وجود یا حیوانات کی بولی سمجھنے کی صلاحیت کے بارے میں۔
عصر جدید میں جب خواتین اس قصہ کی تفسیر کرتی ہیں تو ایک خاتون کے قابل حکمراں ہونے کو نظر انداز نہیں کرتیں بلکہ اس پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ ودود لکھتی ہیں:
عورتیں بڑی قابل حکمراں ہو سکتی ہیں۔ بلقیس کی جگہ اگر کوئی مرد حکمران ہوتا تو وہ اپنی انا کی وجہ سے اتنے اچھے فیصلے نہ کر سکتا اور جنگوں میں ہونے والی تباہی کے باوجود اسلام کا پیغام نہ قبول کرتا بلکہ اعلان جنگ کر دیتا۔ اسکے برعکس بلقیس میں قیادت کی خو بی تھی اور حق کو تسلیم کرنے کی بھی۔ اسکا سیاست کا انداز عام مردانہ سیاست کی انا پسندی،جبر اور تشدد سے بہتر ہے۔
مندرجہ بالا تفاسیر میں یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ مومن زندگی سے جڑے سوالات کے جوابات کلام اللہ میں تلاش کرتے ہیں- ان سوالات کے نتیجے میں قرآن کے نت نئے پہلو اجاگر ہوتے ہیں- قرآن کے معانی اتنے وسیع ہیں کہ صدیوںاس كے راز كھلتے رهیں گے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2019