ہجرتِ مدینہ : منظر اور پس منظر

جب سے حق وباطل کی کش مکش کادورشروع ہواہے، تب سے ہمیںتاریخ میں بے شمار ہجرتوںکاذکرملتاہے۔ حضر ت نوحؑ  کااپنے مقامِ دعوت سے ہجرت کرکے دوسرے علاقے میںجانا۔ حضرت ابراہیم ؑ  کاعراق سے ہجرت کرکے شام، مصر اورفلسطین سے ہوتے ہوئے حجازمیں آنا اورحضرت اسماعیل ؑ  کے ذریعے اسے اپنی دعوت کامرکزبنانا۔ حضرت لوطؑ  کی ہجرت علاقہ سیدوم کی طرف، حضرت موسی ؑ  کی پہلی ہجرت مدین کی طرف اورپھر دوسری ہجرت ارضِ فلسطین کی طرف۔ یہ تمام ہجرتیں اپنے دورکے حالات ومصائب کے ردّ عمل میںہی وجود میں آئیں اوراپنے دورکے لیے بہت سے نصائح بھی چھوڑ گئیں۔ لیکن جس ہجرت کا بطورِ خاص یہاںذکرکرنا مقصود ہے وہ امّت محمدی ﷺ کے بانی سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت ہے۔ بدقسمتی سے جس کی اہمیت سے اکثرلوگ ناواقف ہے۔ جب کہ ڈاکٹرسیداسعد گیلانیؒ کے قول کے مطابق ’’ہجرت مدینہ کی اہمیت اسلامی تاریخ میں اسی طرح مسلّم ہے، جس طرح کہ فتح مکہ۔ کیونکہ مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ منتقلی دراصل اس اسلامی ریاست کا سنگ بنیاد تھا جس نے بعدمیں مکہ کوفتح کرنے کا کارنامۂ عظیم انجام دیا‘‘۔ لہٰذا ہرفردواحد پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اس سفرِ عظیم سے آگاہی رکھے، جس کے لیے صحابہ کرام ؓ  نے بے شمار مصائب برداشت قربانیاں کیے اور جس کے پیش نظر حضورﷺ  نے انھیں یہ بشارت مرحمت فرمائی کہ خدااور رسول ﷺ  کی خوشنودی کے لیے ہجرت کرنے والے قیامت کے دن سورج کی مانند چمکنے والے نور کے ساتھ اُٹھیں گے۔ یہ بھی فرمایا کہ فقرائ مہاجرین دوسرے اہل ایمان کے مقابلے میں چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہونگے۔ ﴿یہ روایت عبداللہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے۔ ﴾ اسی لیے امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایاتھا کہ مہاجرین میں نفاق ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ جوخدا کے راستے میں نکلتاہے اس کاساراکھوٹ نکل جاتاہے، تبھی ہمیں مکّی سورتوں میں نفاق کاذکر نہیں ملتاکیونکہ مہاجر منافق نہیں ہوسکتا۔ ہجرت مدینہ پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک بات اورجان لینی ضروری ہے کہ یہ ہجرت اسلامی تاریخ کی واحد ہجرت نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے مسلمان دوبارحبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔

ہجرتِ حبشہ :

۵ نبوی مطابق ۴۰عام الفیل میں حضور اکرمﷺ  نے حالات کی تنگی کے پیش نظر اصحاب کااجتماع بلاکر ان کوحبش جانے کاحکم دیا۔ حضور ﷺ  کے اس حکم کے نتیجے میں مسلمانوں کی پہلی ہجرت حبش کی طرف ہوئی جس میںگیارہ ﴿۱۱﴾ مردوں اور چار﴿۴﴾ خواتین نے حصہ لیا۔ قریش نے ان کاتعاقب کیا، لیکن مہاجرین کی کشتی قریش کے تعاقب کرنے والوں سے پہلے روانہ ہوگئی اوراس طرح وہ قریش کے ہاتھوں گرفتارہونے سے بچ گئے۔ یہ دیکھ کر قریش کے اندر اورزیادہ غضب بھڑک اُٹھا اور انھوں نے ظلم وجبر کا شکنجہ مسلمانوں پر اورزیادہ کس دیا۔ جس کے ردّ عمل میں دوسری مرتبہ حبش کی طرف ہجرت ہوئی، جس میں قریش کی مزاحمت کے باوجود ۸۰ سے زائد مرداور ۱۸یا۱۹خواتین نے شرکت کی۔ پھراسی طرح کچھ لوگ یمن سے اسلام قبول کرکے بذریعہ کشتی مکہ جانے کے لیے رو انہ ہوئے، لیکن شدید ہواؤں نے ان کی کشتی کو بھی حبش پہنچادیا۔ یہ کشتی تقریباً ۵۲یا ۵۳ افراد پرمشتمل تھی۔ یہ لوگ بھی جاکر حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ  سے مل گئے، جومہاجرین حبشہ کے سردارتھے، مل گئے۔ مکہ سے ہجرت کرنے والوںمیں حضرت عثمان غنیؓ  اور حضرت رقیہ بنت رسول ﷺ  بھی شامل تھے، جن سے مخاطب ہوکر حضور اکرم ﷺ  نے فرمایا تھاکہ تم حضرت ابراہیم ؑ  کے بعد راہِ خدامیں پہلاجوڑا ہو جوگھر بار سے ہجرت کی نیت سے نکلے ہو۔

اس پہلی ہجرت کااثرقریش پربھی کافی حدتک ہوا۔ بہت سے گھروںمیں یہ امرقابل بحث بناہواتھا کہ مکے کے باشندے اپناسب کچھ چھوڑ چھاڑکر حبش کی طرف جانے پر کیوں کر مجبورہوئے۔ ان میںسرکردہ حضرت عمر فاروقؓ  تھے۔ ان کی ایک قریبی رشتہ دار حضرت لیلیٰ بنت ابی خشیمہ بیان کرتی ہے کہ میں ہجرت کے لیے اپناسامان باندھ رہی تھی اورمیرے شوہر عامر بن ربیعہ ؓ  کسی کام سے باہرگئے ہوئے تھے، اتنے میں عمر آئے جو ابھی شرک پرقائم تھے اورہم ان کے ہاتھوں سے کافی تکلیفیں اُٹھاچکے تھے، مگراس وقت وہ کھڑے ہوکر چپ چاپ میری مشغولیت دیکھتے رہے۔ پھر کہنے لگے :’’عبداللہ کی ماں، کیا بس اب روانگی ہے؟‘‘۔ میںنے اثبات میں جواب دیا اورکہاکہ تم لوگوںنے ہم پر بہت ظلم کیا۔ اب ہم خداکی زمین میں کسی بھی طرف نکل جائیں گے۔ اس پر عمر نے کہا:’’اللہ تمھارے ساتھ ہو‘‘۔ حضرت لیلیٰ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ان کے چہرے پر ایسی رقّت دیکھی جواس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اتنے میں میرے شوہر عامر ؓ  آئے، میں نے کہا :’’کاش تم اُس وقت عمر کودیکھتے۔ ہمارے حال پراس کی رقّت اوررنج کودیکھتے۔ ابھی ابھی وہ یہاں سے ہوکر گیے ہیں‘‘۔ عامرنے کہا کیا تمھیں اس کے مسلمان ہونے کی امید ہوگئی ہے۔ میں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ عامرنے کہا جس شخص کو تم نے دیکھاہے وہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوگا جب تک خطاب﴿حضرت عمرؓ  کے والد﴾ کاگدھامسلمان نہ ہوجائے۔ صرف عمرؓ  ہی نہیں بلکہ دعوت اسلامی کا سب سے بڑا کانٹا ابولہب بھی ہجرت حبشہ کے موقعے پر کچھ حد تک سوکھ گیا۔ جب ہجرت حبشہ سے ابوسلمہؓ  واپس آئے توانھوں نے اپنے ماموں ابوطالب کی پناہ لی۔ کیونکہ وہ ان کی بہن کے بیٹے تھے۔ اس پر ابوسلمہ ؓ کے خاندان والوں نے ابوطالب سے کہا کہ آپ نے اپنے بھتیجے ﴿محمد ﷺ ﴾ کوتوپناہ دے رکھی ہے مگرہمارے آدمی سے آپ کاکیاواسطہ کہ آپ اسے بھی پناہ دے رہے ہیں۔ انھوںنے جواب دیا: ’’محمدﷺ  میرے بھتیجے ہیں تو ابوسلمہ ؓ  میرابھانجا ہے، اگرمیں اپنے بھتیجے کوپناہ دے سکتاہوں توبھانجے کوکیوں نہیں؟‘‘۔ اس پر ابوسلمہ ؓ  کے قبیلے بنومخزوم کے لوگ ابوطالب سے جھگڑنے لگے۔ یکایک ابولہب نے اُٹھ کر کہا :’’اے اہل قریش ! تم نے شیخ ﴿ابوطالب﴾ سے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ تم ہوکہ ان پر برابر دباؤ ڈالے جارہے ہو کہ وہ جس کوپناہ دیں تم اسے اُس کی پناہ سے نکالو۔ خدا کی قسم یاتوتم سیدھی طرح ان کوتنگ کرنے سے بازآجاؤ، نہیں توپھرمیں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں گا ‘‘۔ بنی مخزوم ابولہب کی یہ بات سن کر گھبراگئے اورکہنے لگے :’’نہیں ابوعتبہ ہم تم کو ناراض نہیں کرناچاہتے ‘‘۔

یہ ہجرت حبشہ سے متعلق چند واقعات تھے جن سے اس بات کا پتا چلتاہے کہ مسلمانوںکی مظلومیت نے کفار کے دلوں میں بھی وقتی طور پر غمگساری کے جذبات پیداکردیے تھے۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں، یعنی حضورﷺ  کی ہجرت مدینہ کی طرف، لیکن اس سے پہلے مختصراً مدینہ کے تاریخی وجغرافیائی پہلوؤں کو جان لینا مفید ہوگا۔

یثرب ﴿مدینہ ﴾

یثرب ایک نہایت قدیم بستی ہے، اس کاسراغ قبل اسلام کی تاریخ سے ملتاہے۔ یہ شہر سمندر کی سطح سے ۶۱۹ میٹر بلندہے۔ اس کاطول البلد ۵۵ ۳۹اورعرض البلد ۱۵ئ۲۴ شمالی خط استواپر واقع ہے۔ گرمی کے موسم میں یہاں کافی گرمی پڑتی ہے اوردرجۂ حرارت ۳۸ سنٹی گریڈ تک چلاجاتاہے۔ اورسردیوں میں درجۂ حرارت صفرسنٹی گریڈ تک جاپہنچتاہے۔ شدید سردیوںمیں کبھی کبھار پانی یخ بن جاتاہے۔ آغازمیں یہاں عمالیق آبادتھے، جومصرسے آئے تھے۔ عمالیق ۳۲۰۰ق.م میں مصر کے حکمران تھے اور ۱۶۰۰ق.م میں مصر سے ہزیمت کھاکر نکلے تھے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس شہر کی آبادی کازمانہ ۱۶۰۰ق.م -۳۲۰۰ق.م کے درمیان ہے۔ گویا اس طرح یہ شہر کم از کم چار ہزار سال کے لگ بھگ قدیم ہے۔ عمالیق کے بعد یہاں فلسطین سے نکالے ہوئے یہود آکر آبادہوئے۔ یہ شہر دوپہاڑوں کوہِ احد اور کوہِ سلع اوردولاوے کی چٹانوں کے درمیان وسیع آبادی کی صورت میں میدانی علاقہ ہے جوتقریباً دس میل لمبا اور آٹمیل چوڑاہے۔ قباء کی طرف سے راستہ مکہ معظمہ کی طر ف جاتا ہے جو ریتیلے ٹیلوں کا علاقہ ہے اورباقی سارا علاقہ پہاڑی سطح مرتفع اورکنکریلا ہے۔ ہجرت کے وقت مدینہ کی آبادی ۵یا۶ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ مکان کچے یاپتھروں کے بنے ہوئے تھے، ان میں بیشتر ایک منزل کے تھے۔ بعض مکانات دفاعی نقطہ نظر سے دو دواورتین تین منزل کے پتھروں کے بھی بنائے جاتے تھے ،جوجنگ و جدل کے موقعے پر کام آتے تھے اور کوئی شخص ان کوآگ نہیں لگاسکتاتھا۔ ایسے مکانات بڑی سی سنگی حویلی یا آطام کہلاتے تھے، جس قبیلے کے پاس ایسے مکانات زیادہ تعداد میں ہوتے وہ دفاعی لحاظ سے زیادہ مضبوط سمجھاجاتاتھا۔

مدینہ کی آبادی کچھ ہزارنفوس سے زیادہ نہ تھی، اوردوعناصرکی مرکّب تھی۔ ان میں پہلاعنصر یہود کا تھا، ہجرت کے وقت ان کے چھوٹے بڑے قبائل مدینہ میں آباد تھے جن میں بنی نضیر اوربنوقریظہ سب سے ممتاز شمارہوتے تھے۔ کیونکہ ان میں مذہبی رہنما﴿ پادری﴾ بڑی تعد اد میں تھے۔ تیسرا قابل ذکر قبیلہ بنوقینقاع تھا۔ ان تینوں قبیلوںمیںباہمی اَن بن رہتی تھی اورایک دوسرے کے خلاف مشرک عربوں کے حلیف بن کر جنگی کارروائیوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ یہ قبیلے ابتداسے یثرب کے رہنے والے نہیں تھے ۔بلکہ جب رومیوں نے یہودیوں کاقتل عا م کیا اورانھیں فلسطین سے باہردھکیلا توان میں بعض قبائل بھاگ کرحجاز کے بعض مقامات پرپناہ گزیں ہوگئے۔ چونکہ مدینہ فلسطین سے نسبتاً متصل تھا، اس لیے یہاں کی سرسبزی، شادابی اورچشمے دیکھ کر یہ قبائل اسی جگہ آباد ہوگئے اوررفتہ رفتہ اپناسودخوری کاکاروبار اورتجارت کوفروغ دے کر اس علاقے پراپنا تسلّط جمالیا۔ ان کی معاشی حالت دوسرے عربوں سے بہتر تھی۔ چونکہ وہ فلسطین اور شام کے مہاجرتھے، اس لیے انھیں وہ بہت سے صنعتی فنون آتے تھے جوعربوں کومعلوم نہیں تھے۔ مرغبانی، ماہی گیری اورشراب سازی ان کے یہاں کثرت سے ہوتی تھی۔ زیورات اوربرتن بنانے کاکام بھی یہی لوگ کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سودخوری کا تھا، جس کے پھندے میں انھوںنے عرب قبائل کے بیشترسرداروں کوپھانس رکھاتھا۔ سوددرسود بھی انھی کی ایجاد تھا۔ جس کی مددسے انھوں نے عربوں کی معیشت کوکھوکھلا کردیاتھا۔ یہ کبھی کسی معاہدے کے پابندنہ رہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حضورﷺ  نے ہجرت کے بعد ان سے معاہد ہ فرمایا تواس معاہدے کی انھوں نے ایک دن بھی پابندی نہیں کی۔ اُلٹاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوزک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی، عورتوں کوچھیڑنے اورکمزور مسلمانوں کوزدکوب کرنے تک نوبت پہنچادی۔پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اُن کو معاہدہ یادکراکے سمجھانے کی کوشش کی توان میں سے ایک قبیلہ بنوقینقاع نے انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا :’’اے محمدﷺ  !آپ نے ہمیں بھی شاید قریش کی طرح سمجھاہے، وہ تو لڑنا نہیں جانتے تھے۔ ہم سے سابقہ پیش آیا تو پتا چل جائے گا کہ مردکیسے ہوتے ہیں‘‘۔ اس کے بعدحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار ان کامحاصرہ کیا اور آخرکار انھیں مدینہ چھوڑ کر شام اورخیبرکی طرف نکلنا پڑا۔

دوسراعنصر اوس وخزرج کاتھا جوبعدمیں انصارمدینہ کے نام سے مشہورہوئے۔ ان کااصل علاقہ یمن تھا۔ ابتدائی طور پران کے آباء واجدادایک ہی تھے۔ ان دونوں کو قبیلہ بنوقحطان کی دوشاخیں کہاجاتا ہے۔ بعض سیرت نگار انھیں قبیلہ قحطان کے بجائے آل اسماعیل کہتے ہیں اور حضرت مسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے دلیل لیتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنواسلم ﴿انصار﴾ کے پاس سے گزرے جوتیراندازی میں مصروف تھے اورفرمایا:’’ یاآل اسماعیل تیر پھینکو کیونکہ تمھارا دادابھی تیر اندازتھا‘‘۔ بہرحال اس میں توکوئی شبہ نہیں ہے کہ اوس وخزرج ایک ہی قبیلے کی شاخیں تھے اور اوپرجاکران کا نسب نامہ حارثہ بن ثعلبہ پرمل جاتاتھا، جواوس وخزرج کاجداعلیٰ تھا۔ جس زمانے میں سیل عَرِم نامی مشہور سیلاب نے تباہی مچائی تھی اوربچے کھچے لوگ اِدھر اُدھر منتشرہوئے تھے، اُس زمانے میں قحطان کے قبیلے میںسے اوس اورخزرج نام کے دوبھائی یثرب آپہنچے اوریہاں آباد ہوگئے۔ انھی نوواردوں کے ذریعے سے نئے عنصرکا اضافہ ہوااور بعدمیںنسل بڑھتی گئی۔ تعداد کے لحاظ سے اوس کم اورخزرج زیادہ تھے اس لیے کہ او س کا صرف ایک بیٹاتھاجس کانام مالک تھا اورپھر اسی نسبت سے اس کاآگے کاخاندان تھا۔ جب کہ خزرج کے پانچ بیٹے تھے اورپھران کی آگے شاخیں تھیں۔ انھوںنے بھی یہود کے ساتھ دوستانہ معاہدہ استوارکرلیاتھا۔ لیکن یہود نے جوںہی انصارکی روزافزوں ترقی کواپنے لیے خطرہ بنتا محسوس کیا، ان سے اپناحلیفانہ تعلق توڑدیا۔

یہود کے اندرایک عیاش رئیس فطیون   نامی اُٹھا۔ جس نے جبروقوت سے اپنا یہ حکم نافذ کردیا کہ اس کے حدود میںجو لڑکی بھی بہائی جائے گی، وہ پہلے اس کے شبستانِ عیش سے گزرکر ازدواجی زندگی کے دائرے میں داخل ہوگی۔ یہودکے بگاڑ کااس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ انھوں نے فطیون  کے اس حکم کے آگے سرتسلیم خم کردیاتھا۔ آخرایک دن اس شیطانی حکم نے انصارکی غیرت کو بھی للکارا۔ مالک بن عجلان کی بہن کی شادی ہورہی تھی کہ عین شادی کے دن وہ بھائی کے سامنے پورے اندازِ بے حجابی کے ساتھ گزری۔ مالک نے ملامت کی تواس نے کہا کہ کل جوکچھ پیش آنے والاہے وہ اِ س سے زیادہ شدیدہے۔ چنانچہ مالک نے فطیون  کوقتل کردیااورشام کی طرف بھاگ گیا۔ وہاں غسّانی حکمران ابوجبلہ کاسکہّ چل رہاتھا۔ اسے یہ حالات جب معلوم ہوئے تواُس نے حملہ کرکے بڑے بڑے یہودیوںکوقتل کیا۔ اوراوس وخزرج کوخلعت وانعام سے نوازا۔ ان واقعات نے یہود کازورتوڑدیا اورانصارکی ہمت بڑھادی۔ اس سے پتا چلتاہے کہ یہود کے مقابلے میںانصارکامعاملہ برابرکی چوٹ کا تھا۔ لہٰذاجتنی بار بھی یہود اورانصارکے درمیان جنگیں ہوئیں، ان میں کبھی یہود توکبھی انصار بھاری رہتے تھے۔ لیکن اصول ومقصد کے نہ ہونے کی وجہ سے اوس وخزرج کا اتحادمضبود بنیادنہیں رکھتاتھا، اِس کافائدہ اُٹھا کر یہود ان کے درمیان جنگیں کرانے میں کامیاب ہوتے تھے۔ نتیجۃً اوس وخزرج کے درمیان پہلی جنگ ہوئی جوجنگ سمیرکے نام سے موسوم کی جاتی ہے اورآخری جنگ بعاث کے نام سے موسوم کی جاتی ہے، جس میں بنی قریظہ اوربنونضیر اوس کے ساتھ تھے اوربنوقینقاع خزرج کے حلیف تھے اور خودبھی ایک دوسرے کے ساتھ نبردآزما ہوئے تھے۔ تعدادکم ہونے کے باوجود اوس نے خزرج کواس جنگ میںشکست دی۔ یہ جنگ ہجرت سے محض پانچ سال پہلے لڑی گئی تھی جس پرتبصرہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں:’’ جنگ بعاث کو خدانے اپنے رسول ﷺ  کے لیے کرایاتھا، چنانچہ آں حضرت ﷺ  جب مدینہ تشریف لائے توانصار کے معززین اورروسائ قتل ہوچکے تھے اور انصار بہت خستہ حال ہوچکے تھے۔ گویا یہ جنگ انصارکو رسول اکرمﷺ  پرایمان لانے کے لیے برپا ہوئی تھی‘‘۔

دوسری طرف یہود کے تفوق کی ایک وجہ ان کی مذہبی سیادت بھی تھی۔ ان کے پاس تورات تھی اوروہ ایک مستقل مذہبی نظام کے علمبردار تھے، ان کے پاس فقہی احکام تھے، مذہبی قانون تھا اورعبادات کی انجام دہی کاایک طریقہ تھا۔ انصار اس پہلوسے تہی دامن تھے۔ وہ اس دائرے میں ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور تھے۔ انھی کے بیت المقد س ﴿ یہودیوں کے مذہبی تعلیم کے مراکز﴾ سے وہ استفادہ کرتے تھے۔ حدیہ کہ اگرکسی انصاری کی اولاد زندہ نہ رہتی تھی تووہ نذریہی مانتاتھا کہ اگربچہ زندہ رہاتواسے یہودی بنایاجائے گا۔ انصارمیں اس پہلوسے احساس کمتری موجود تھا اور ان کی غیرت وحمیت اس پرکرب محسوس کرتی تھی۔ مزید برآں یہود انصار کویہ کہہ کر بھی دھمکاتے تھے کہ عنقریب ہم میں ایک نبی آنے والاہے۔ ایک باروہ آجائے توہم اس کی حمیّت میں تمھیں عادِاِرم کی طرح قتل کرڈالیں گے۔ اس پیش گوئی نے انصار کوبھی اس پیغمبرموعودکا منتظر بنادیاتھا اور ان کے اندر ایک شعوری رجحان یہ کام کررہاتھا کہ اگروہ نبی آجائے تو وہ آگے بڑھ کر اس کا دامن تھام لیں۔ چنانچہ یہی ہواکہ پیش گوئی سنانے والے خود تومحروم رہے اورجن کو وہ دھمکیاں دیاکرتے تھے، وہ نبی آخرالزماں رسول ﷺ  کے حلقہ ٔ رفاقت میںآگئے۔ یہود جن کو پٹوانا چاہتے تھے، ان کے ہاتھوں سے خودپٹ گئے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انصارسے رابطہ:

تمام سیرت نگاروں کااس بات پراتفاق ہے کہ مدینہ کے جس شخص سے سب سے پہلے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کی، اس کانام سوید بن صامت تھا۔ ان کاتعلق قبیلہ اوس سے تھا اورپورانام سوید بن صامت بن عطیہ بن حوط بن حبیب بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس تھا۔ یہ اپنی قوم کے معززترین لوگوںمیں شمارہوتے تھے۔ وہ اپنی تعلیم اورصلاحیتوں کی وجہ سے الکامل کے لقب سے مشہور تھے۔ یہاںتک کہ کئی مشہور عرب شاعروں نے ان کے اوصاف حسنہ کواپنے اشعار میں پیش کیا تھا۔ حافظ ابن کثیرؒ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیںکہ سوید بن صامت کی والدہ ماجدہ عبدالملطب کی والدہ سلمیٰ بنت عمرو کی ہمشیر تھیں۔ اس رشتے سے سوید بن صامت رسول ﷺ  کے داداجناب عبدالمطلب کے خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرمحموداحمدغازیؒ نے بھی اپنی کتاب ’’ محاضرات سیرت ﷺ  ‘‘ میں انھیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق والے شخص کے بطور پیش کیاہے۔ بہرحال حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیںاسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی کچھ آیات بھی تلاوت کرکے سنائیں۔ انھوں نے اس کی بڑی تعریف کی اوراسے عمدہ کلام گردانا۔ مگرکسی بھی سیرت نگار نے اس موقعے پر ان کے مسلمان ہونے کاذکر نہیں کیاہے۔ اس کے بعد وہ واپس مدینہ لوٹ گیے اور نامعلوم وجوہ کی بناء پر خزرج کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ اب اس بات پرسیرت نگار وں کے درمیان بحث چلی آرہی ہے کہ آیا وہ مرنے سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے یا نہیں۔ البتہ حافظ ابن کثیرؒفرماتے ہیںکہ جب اس کے مرنے کے بعد اس کی قوم کے لوگوں سے دریافت کیا گیاتو انھوں نے بتایاکہ وہ قتل ہونے سے پہلے مسلمان ہوگیاتھا، تاہم دوبارہ مکہ لوٹ کر نہیں جاسکاتھا۔ ﴿دیکھئے تاریخ ابن کثیرؒ :جلد۱ ص ۱۵۹﴾۔ جبکہ امام ابن قیم ؒ نے ان کے مسلمان ہونے یانہ ہونے پر کوئی کلام نہیں کیا ہے۔

انھیںایام میں انس بن رافع اپنی قوم بنوعبدلاشہل کے چند لوگوں کے ہمراہ مکہ آئے، تاکہ قریش مکہ سے قوم خزرج کے مقابلہ میں معاہدہ کیا جاسکے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بھی دعوت دین لے کرحاضر ہوگئے۔ فرمایا : میرے پاس جوچیزہے وہ اس سے بہترہے جس کے لیے تم یہاں آئے ہو۔ اس کے بعد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیںقرآن کی کچھ آیات تلاوت کرکے سنائیں۔ اس وفد میںایک نوجوان ایا س بن معاذ بھی شامل تھا جس نے جب آیات قرآنی کی سماعت کی تواپنی قوم سے کہا کہ یہ واقعی اس چیز سے بہترہے جس کے لیے تم یہاں آئے تھے۔ ایاس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر انس بن رافع نے ایک مٹھی خاک اُٹھاکر اس کے منہ پر پھینکی اورکہاکہ ہم اس کے لیے نہیں آئے ہیں بلکہ اس سے بہتربات کے لیے آئے ہیں۔ یہ سن کر ایاس خاموش ہوگئے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس تشریف لے گئے۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو اس کے بعدجنگ بعاث شروع ہوئی جس میں ایاس بھی قتل ہوگئے۔ ان کے مسلمان ہونے نہ ہونے پربھی سیرت نگاروں کے درمیان اختلاف موجودہے۔ البتہ حافظ ابن کثیر ؒ محمد بن لبیہ کایہ قول نقل کرتے ہیں کہ جب انھوں نے ایاس بن معاز کے بارے میں اس کی قوم سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ قتل ہونے سے قبل اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتہلیل کیاکرتاتھا اور انھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مرنے سے پہلے مسلمان ہوگیا تھا ﴿دیکھئے :تاریخ ابن کثیر:جلد۱ ص۱۶۰﴾ مزیدبرآںاکبرشاہ نجیب آبادی ؒ اپنی تاریخ میں ابن ہشام کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایاس بن معاز مرنے سے پہلے اسلام قبول کرچکاتھا اوریہ کہ اس نے اپنے ایمان کااظہار بھی فرمایا۔

﴿دیکھیے تاریخ اسلام از اکبرشاہ نجیب آبادی۔ جلد ۱ ص :۱۳۶﴾

اہل مدینہ کے ساتھ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاپہلاباقاعدہ رابطہ اس وقت ہواجب آئندہ سال سنہ گیارہ نبوت میں مدینہ منورہ سے آنے والے چھ حجاج کرام کے ساتھ حضوراکرم ﷺ  کی ملاقات ہوئی۔ ان کاتعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ ایک رات حضور ﷺ  نے مکے سے چند میل کے فاصلے پر مقام عقبیٰ پر چند لوگوںکو باتیںکرتے سنا۔ آپ ﷺ  نے قریب جاکر ان کاحال دریافت کیا اورکہیں بیٹھ کر گفتگو کرنے کوکہا۔ اس پریہ لوگ راضی ہوگئے۔ حضور ﷺ  نے انھیں دین حق کی تعلیم دی اورقرآن کی تلاوت بھی فرمائی۔ یہ چھ لوگ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ یہ چھ لوگ ابوامامہ اسعد بن زرارہؓ ، عوف بن حارثؓ، رافع بن مالک ؓ ، قطبہ بن عامر ؓ ، عتبہ بن عامرؓ  اورسعد بن ربیع ؓ  تھے۔ تمام سیرت نگاروں کااس بات پر اتفاق ہے کہ یثرب سے تعلق رکھنے والے یہ سب سے پہلے لوگ تھے جواسلا م کے حلقہ میں آئے۔ان سب کاتعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ البتہ قبیلہ اوس سے سب سے پہلے اسلام لانے والے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک پہلے اسلام لانے والے ابولہتیم بن تیہانؓ  تھے اوربعض کے نزدیک رافع بن مالک ؓ  اورمعاذ بن عفرہ ؓ  ۔حضور ﷺ  نے انھیں واپس جاکر اشاعت اسلام کے لیے کام کرنے کی ہدایت فرمائی۔ بعض سیرت نگاروں نے اس کوپہلی بیعت عقبہ قرار دیاہے، بعض دوسرے حضرات نے اسے بیعت قرارنہیں دیاکیونکہ اس موقعے پر کسی باقاعدہ بیعت کا ذکرنہیں ملتا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹرمحموداحمد غازیؒ بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی سیرت نگار نے ان حضرات کی بیعت کاکوئی واقعہ بیان نہیں کیا ہے، صرف قبول اسلام کاواقعہ بیان کیاہے ۔﴿دیکھیے محاضرات سیرت ﷺ  از ڈاکٹر محموداحمد غازی ؒ ص: ۳۳۱﴾

اگلے سال سنہ ۱۲نبوی میںمکہ کے حالات بدستورویسے ہی تھے جیسے کہ پہلے قریش کی مخالفت بدستور جاری تھی۔ لیکن اس بارحضورصلی اللہ علیہ وسلم کوان لوگوں سے امیدیں وابستہ تھیں جو پچھلے سال اشاعت اسلام کاوعدہ کرچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے بارے میں بڑااشتیاق تھاکہ انھوں نے مدینہ میں اسلام کے تئیں کیاکام کیا۔ ۱۲نبوی کے آخری مہینہ ذی الحجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام منیٰ کے پاس جاکریثرب کے قافلہ کی تلاش کرنے لگے۔ اتفاقاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظران لوگوں پرپڑی۔ انھوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا اوربڑے شوق سے بڑھ کرملے۔ یہ کل بارہ ﴿۱۲﴾لوگ تھے، ان میں پانچ ﴿۵﴾ توپچھلے سال کے تھے اور سات﴿۷﴾ نئے تھے، جن میں دواوس سے تعلق رکھتے تھے۔ نئے سات لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا اورپھرمل کر سب نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔ رخصت ہوتے وقت اس مسلم جماعت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ ایک مبلغ بھیج دیاجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیرؓ  کوان کے ساتھ روانہ کیا۔ مصعب بن عمیر ؓ  نے مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ ؓ  کے مکان پر قیام کیا اوراسی مکان کوتبلیغی مرکزبناکر تبلیغ اسلام کے کام میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ ان کی محنت کا ثمرہ یہ نکلا کہ بنی عبدلاشہل کے تمام مردوںاورعورتوں نے ﴿سوائے عمربن ثابت کے﴾ اسلام قبول کرلیا۔ عمربن ثابت عین غزوہ احد کے دن اسلام لایا اوراسی وقت جہاد میں شریک ہوااورایک بھی سجدہ کیے بغیر شہیدہوگیا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمل قلیل تھا اوراجرکثیر‘‘۔ اگلے سال سنہ ۱۳نبوی کاماہ ذی الحجہ آیا تو مدینہ سے مصعب بن عمیرؓ  ۷۲مردوں اور ۲عورتوں کے مسلم قافلے کولے کرمکہ کی طرف رو انہ ہوئے۔ یہ اس لیے آئے تھے کہ ایک توخود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہواور دوسرا انھیں مدینہ آنے کی درخواست پیش کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواس قافلے کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی۔ رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھرسے نکلے، راستے میں حضرت عباس ؓ  بھی مل گیے جوابھی مسلمان تونہیں ہوئے تھے، لیکن ہمیشہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی ہمراہ لے لیا، دونوںرات کی تاریکی میں وادی عقبہ میں پہنچے۔ جہاںیہ قافلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منتظرتھا۔ اس موقعے پر حضرت عباسؓ  نے ایک اہم اورضروری تقریر بھی کی جس سے انصار کویہ سمجھانا مقصودتھاکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کواپنے ہاں بلاناکوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بہت سے مصائب وآلام کا سامنا کرناپڑے گا۔ لیکن انصار نے بڑی پامردی اوربہادری کامظاہرہ کرکے جواب دیا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کواپنادوست سمجھیں گے وہی ہمارے بھی دوست ہونگے اورجن کودشمن سمجھیں گے وہ ہمارے بھی دشمن ہوں گے۔ لیکن ابوالہتیم بن تیہانؓ  نے ایک خدشے کااظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تووعدہ کریں کہ ہمیں چھوڑکرواپس نہیںآئیں گے۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اب میراجینا اورمرناتمہارے ہی ساتھ ہوگا۔ اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ ؓ  نے عرض کیا: ’’یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم کواس کامعاوضہ کیا ملے گا؟‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی ‘‘۔ عبداللہ ؓ  نے کہا :’’توبس سوداہوچکا، اب نہ آپ اپنے قول سے پھریں نہ ہم پھریں گے‘‘۔ اس کے بعد سب نے بیعت کی۔ اورسب سے پہلے بیعت کرنے والے براءبن معرورؓ  تھے۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہورہیں۔ اسکے بعد حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان بزرگوں میں بارہ لوگوں کونقیب مقررفرمایا، جن میں نو﴿۹﴾آدمی قبیلہ خزرج کے تھے اور تین ﴿۳﴾آدمی قبیلہ اوس کے۔ ان بارہ نقیبوں سے مخاطب ہوکر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح عیسی ؑ  کے حواری ذمہ دارتھے، اسی طرح میں تم کوتمہاری قوم کاذمہ دار بناتاہوںاورمیں تم سب کا ذمہ دارہوں۔ یہ بارہ نقیب مندرجہ ذیل تھے :

۱۔ سعد بن زرارہؓ        ۲۔ اسید بن حضیرؓ        ۳۔ ابوالہتیم بن تیہان ؓ                 ۴۔ براہ بن معرورؓ

۵۔ عبداللہ بن رواحہ ؓ  ۶۔ عبادہ بن صامتؓ    ۷۔ سعد بن الربیعؓ      ۸۔ سعد بن عبادہ ؓ

۹۔ رافع بن مالک ؓ        ۱۰۔ عبداللہ بن عمروؓ ۱۱۔ سعد بن خشیمہؓ       ۱۲۔ منذر بن عمروؓ

﴿تاریخ اسلام از اکبرشاہ نجیب آبادی ؒ :جلد ۱ ص۱۴۵﴾

اس کے بعد انصار وہاں سے ایک ایک دو دوکرکے نکلے۔ صبح جب قریش کو اس مجلس کے بارے میں معلوم ہواتواسی وقت مدینہ کے قافلے پرگئے اور ان سے دریافت کیاکہ کیاتم لوگ رات کوحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے گیے تھے۔ لیکن اس قافلے میں اکثرلوگ جوکہ غیرمسلم تھے اس بات سے بے خبرتھے کہ رات کو ہم میں سے کچھ لوگ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے انکارکیا۔ قریش وہاں سے لوٹ آئے۔ لیکن بعد میں پھر انھیں کسی معتبر ذریعہ سے اس بیعت کے بارے میں معلوم ہواتووہ دوبارہ ان کے پا س گیے، لیکن تب تک مدینہ کا قافلہ نکل چکاتھا۔ لیکن سعدبن عبادہؓ اورمنذربن عمروؓ  کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ منذرؓ  توقریش کودیکھ کر چل دئے لیکن سعد بن عبادہ ؓ  ان کے ہاتھوں گرفتارہوگئے۔ قریش نے ان کاکافی زدوکوب کیا۔ مگر بعدمیں ان کی پہچان کے دوافراد جبیربن معطم اورحارث بن امیہ نے انھیں چھڑایااوروہ چھوٹتے ہی مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ﴿جاری﴾

مشمولہ: شمارہ مارچ 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau