ترقی یا تنزل اضافی کیفیات ہیں ، خصوصاً کسی قوم، ملت یا امت کے حوالے سے۔ جب ہم کسی گروہ انسانی کے ترقی یافتہ یا انحطاط پزیر ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو ہم در اصل اس گروہ کا موازنہ اُس کے ماضی سے یا اس کے اپنے دور کے دیگر انسانی گروہوں سے کررہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ملت اسلامیہ کا جائزہ لیتے وقت ہمارے سامنے موازنہ کے لیے درج ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں:
﴿۱﴾ آج کی ملت اسلامیہ ہند بمقابلہ ملت اسلامیہ کا اولین دور
﴿۲﴾ آج کی ملت اسلامیہ ہند کی حالت بمقابلہ ہندوستان میں ملت کے ماضی کاکوئی دور
﴿۳﴾ ملت اسلامیہ ہند بمقابلہ ملک کی دیگر اقوام
﴿۴﴾ ملت اسلامیہ ہند بمقابلہ مغربی تہذیب کی علم بردار اقوام
﴿۵﴾ ملت اسلامیہ کی کیفیت ایک خاص عہد کے تسلسل کے طور پر
جہاں تک ملت اسلامیہ کے اولین دور کا تعلق ہے وہ ہمیشہ کے لیے ملت کے سامنے مشعل راہ ہے۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور خلفائے راشدین تک محیط یہ دور ایک تاریخی حقیقت ہے، اس لیے اسے خیالی(Utopian) نہیں کہاجاسکتا۔ اس دور میں ملت جس مقام بلند پر فائز ہوئی اس کو دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔ تاہم یہ دور اولین ہمیشہ ملت کا سمت سفر متعین کرنے والا معیار مطلوب رہے گا۔
ہم اپنے تجزیے کو مذکورہ بالا آخری صورت حال پر مرکوز رکھیں گے۔ متعین طور پر ٹیپو سلطان کی انگریزوں کے مقابلہ میں شکست سے بر صغیر ہند و پاک کی انگریزوں سے آزادی تک زمانہ پیش نظر ہے۔اس کا موازنہ حالیہ زمانہ کے حالات سے کیا جائے گا اور اس تجزیہ کی روشنی میں مستقبل کے امکانات اور لائحہ عمل کے نکات کی نشاندہی کی جائے گی۔ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل سے 1947ء تک کو ’’ ماضی‘‘ کے خانہ میں رکھا گیاہے اور 1947 ء کے بعد سے آج تک کو ’’ حال‘‘ مان لیا ہے اور ماضی بمقابلہ حال کے تناظر میں ’’ مستقبل ‘‘ کی صورت گری کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
ماضی:
ٹیپو سلطان 4/مئی 1799 ء کو سری رنگا پٹنم میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ سلطان کی اس شکست کے ساتھ ہی ملک عزیز پر عملاً انگریزوں کی بلا شرکت غیرے حکمرانی کا دور شروع ہوگیا۔ تاریخی طور پر یہ بات درست ہے کہ ہندوستان پر باضابطہ انگریزی حکومت 1857 ء کی ناکام بغاوت کے بعد شروع ہوئی، کیوں کہ اس وقت تک ملک کی زمام کار ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں میں رہی تھی۔ 1858 ء میں یہ کمپنی بند ہوگئی اور یہ ملک تاج شاہی کا قلمرو بن گیا۔ لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت اور انگریزی تاج شاہی کے بیچ یہ تمیز بے معنی ہے۔ انگریزوں کی حکومت اور ہندوستانیوں کی غلامی کا دور ٹیپو سلطان کے بعد شروع ہوچکا تھا، بظاہر حکمراں نظر آنے والے دلی کے بادشاہ، دیگر نوابین یا راجے ، سب انگریزوں کے باج گزار اور محکوم بن چکے تھے۔ مسلمان حقیقی سیاسی اقتدار سے محروم ہوچکے تھے۔
سیاسی اقتدار سے مسلمانوں کی محرومی علمائے حق کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے فتویٰ دیا کہ یہ براعظم اب دارالاسلام نہیں رہا ﴿اس کے باوجود کہ اسلام کے شعائر میں صریح مداخلت نہیں کی گئی تھی اور سابقہ بادشاہوں کے افراد ِ خاندان اقتدار کی کرسیوں پر بحال رکھے گئے تھے ﴾لیکن حقیقی طاقت انگریزوں کے ہاتھوں میں جاچکی تھی۔ شاہ عبد العزیز نے اپنے ایک شاگرد سید احمد بریلوی کو جہاد اور اصلاح کے کام کے لیے تیار کیا اور اس کے لیے ان کی مناسب تربیت کا نظم کیا۔ مزید شاہ صاحب نے اپنے بھتیجے شاہ اسماعیل اور داماد مولانا عبدالحئ کو سید احمد کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی تلقین کی۔ اس واقعہ نے خانوادہ ولی اللہ اور ان کے شاگردوں اور عوام کو سید احمد بریلوی کی طرف متوجہ کردیا۔ موصوف نے دہلی کے اطراف، بلند شہر اور دیگر شہروں کے سفر کیے اور بیعت اصلاح و جہاد کا سلسلہ شروع کردیا۔ موصوف چار سو افراد کے ساتھ حج پر گئے، ان لوگوں نے دریاکے راستہ سے کلکتہ کا سفر کیا اور وہاں پانی کے جہاز سے سمندر عبور کیا۔ ڈیڑھ سال کے بعد واپسی بھی اسی راستہ سے ہوئی اور دونوں مواقع پر درمیان کی آبادیوں میں بیعت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح ایک عام تحریک برپا کردی۔ اس تحریک نے سکھوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا اور اس فیصلہ پر عمل درآمد ہوا۔ یہ بات خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ سکھوں کے سردار رنجیت سنگھ کا دور اقتدار اسی سال شروع ہوا جس سال ٹیپو کی وفات ہوئی تھی اور یہ اقتدار تقریباً نصف صدی تک جاری رہا تھا۔
سکھوں کے ساتھ جنگ ناکام رہی اور 1831 ء میں سید احمد اور شاہ اسماعیل بالاکوٹ میں شہید ہوگئے لیکن اس تحریک نے مسلمانوں میں احیائے اسلام کی روح پھونک دی۔ یہ تحریک کسی فرد یا خاندان کی بادشاہت یا کسی معزول بادشا ہ کی بحالی کے لیے نہیں تھی بلکہ خالص اسلام کے احیاء کے لیے تھی۔ البتہ اس تحریک کی ناکامی میں دیگر اسباب کے علاوہ مسلکی شدت پسندی کا عنصر کار فرما تھا۔ شاہ اسماعیل کی تحریروں اور ان کے متبعین کے فروعی مسائل پر غیر حکیمانہ اصرار نے اس خطۂ زمین میں مقلد و غیر مقلد اور حنفی و اہل حدیث جیسی فرقہ بندی کو ہوا دی۔ مولانا فضل حق خیرآبادی شاہ اسماعیل کے خلاف صف آرا ہوگئے۔گرچہ اس تحریک نے انگریزوں کے بجائے سکھوں کے خلاف جہاد کیا تھا، لیکن 1857ء کی جنگ آزادی میں تحریک کے باقیات نے انگریزوں کے خلاف پنجہ آزمائی کی۔ نتیجتاً فتح کے بعد انگریزی اقتدار نے ان لوگوں سے سخت انتقام لیا۔
اسی زمانہ میں مشرقی بنگال میں حاجی شریعت اللہ نے ایک اصلاحی تحریک شروع کی جو فرائضی تحریک کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس تحریک نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا، اس تحریک کے اثرات بہت تیزی سے پھیلے۔ حاجی شریعت اللہ کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محسن الدین احمد اس تحریک کے رہنما ہوگئے، وہ دادو میاں کے نام سے مشہور ہوئے، 1862 ء میں دادو میاں کا انتقال ہوا اور فرائضی تحریک تاریخ کا جزو بن گئی۔ یہ تحریک سید احمد شہید کی تحریک کے اندازپر اٹھی اور پھیلی البتہ ان دونوں متوازی تحریکوں کے درمیان کسی رابطہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ سید احمد بریلوی کے رابطہ میں ایک تحریک مغربی بنگال میں بھی برپا ہوئی تھی۔ سید احمد سفر حج میں بھی اس علاقہ سے ہوکرگئے تھے اورواپس بھی اسی راستہ سے آئے تھے۔ ان دونوں مواقع پر دعوت واصلاح کا کام کیا تھا۔ اس علاقہ میں انھیں ایک لائق شاگرد میسر آگئے تھے، ان کا نام نثار علی تھا اور وہ تیتومیر کے نام سے مشہور تھے۔ اس تحریک کے زیر اثر مسلمان کسانوں نے ہندو جاگیرداروں اور سرکاری عملے کے خلاف اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے علم بغاوت بلند کیا۔ ان افراد کی بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا۔ اس تحریک نے ایک بڑے علاقہ میں احیائے دین کی روح پھونک دی جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہیں جاسکا ہے۔
1857 ء کی بغاوت کی ناکامی نے مسلمانوں کی کمر توڑ دی، بڑی تعداد میں علمائ اور مجاہدین پھانسی پر چڑھائے گئے یا ’’ کالا پانی‘‘ کی سزا اُن کو دی گئی ۔ان نامساعد حالات میں بھی مسلمانوں میں اصلاح حال کے لیے دو متوازی بلکہ ایک دوسرے سے یک گونہ متضاد اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ 21 مئی 1866 ء کو مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، دوسری طرف 1875 ء میں سید احمد خان نے مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند قائم کیا جو بعد میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (Mohammadan Anglo Oriental College) کے نام سے جانا گیا اور 1920 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے موسوم ہوا۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے پیچھے ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کا جذبہ کارفرما تھا، جب کہ سید احمد خان کا رجحان انگریزوں سے تعاون کرکے مسلمانوں کے لیے بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ دارالعلوم کے فارغین نے ملک کے کونے کونے میں دینی تعلیم کے مدارس کا جال بچھا دیا ، دوسری طر ف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیر اثر ملک میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی۔
دارالعلوم دیوبند تحریک کے نتیجے میں مولانا محمود حسن کی ریشمی رومال تحریک اٹھی بعد میں مولانا حسین احمد مدنی کی قیادت میں دیوبند کے حلقے نے مشترکہ قومیت کے نعرہ کے تحت کانگریس کے ساتھ جدوجہد آزادی میں شمولیت اختیار کی۔
1920 ء سے تقریباً پانچ برسوں تک خلافت ِ تحریک کا غلغلہ بلند رہا۔ اس تحریک نے پورے ملک کے مسلمانوں میں جوش و خروش پیدا کردیا جو ہوش و حواس سے یکسرعاری تھا۔ البتہ اس تحریک سے تحریک پاکر مالا بار کے مسلمانوں میں بغاوت پیدا ہوئی جو موپلہ بغاوت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ خلافت تحریک کا گاندھی جی نے ساتھ دیا اور اسے اپنے عوامی نفوذ کا ذریعہ بنایا۔
جذباتی نعروں سے مسلمانوں کو متاثر، منظم اور متحرک کرنے والی تحریکات میں علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ 1930 ء سے 1947 ء کے درمیان اس تحریک نے ملک کے طول و عرض میں بے مقصد ہنگامہ آرائی کا ماحول پیدا کیا، تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں مختلف مواقع پر بے سمت اور منفی رجحانات کو ہوا دینے کا کام بھی خاکسار تحریک کے باقیات نے کیا۔تحریک اسلامی کے تذکروں میں مولانا الیاس کی تبلیغی تحریک جماعت کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کو گھر واپسی اور شدھی کرن کے نام پر ترک اسلام پر مجبور کرنے کے لیے آریہ سماج کی کوششیں جاری تھیں۔ اِن کوششوں کو بے اثر کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل اس تحریک نے میوات کے علاقہ میں عوام الناس کی دین سے وابستگی کو بچانے کے لیے بڑا کا کام کیا۔
مسلم لیگ 1906 ء میں تشکیل دی گئی 1913 ء میں ایڈوکیٹ محمد علی جناح نے اس میں شمولیت اختیار کی اور اس کی زمام کار سنبھالی۔ ملت اسلامیہ ہند کی اِس نمائندہ تنظیم کی قیادت ایک ماہر وکیل کے سپرد ہوگئی۔ ملت کا مقدمہ لڑا گیا اور جیت لیا گیا۔ لیکن دیکھنا چاہئے کہ موکل کا کیا حشر ہوا۔ بر صغیر کے تینوں ٹکڑوں ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس ملت کی جان و مال اور عزت و آبرو کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے ہم اس کا مشاہدہ بچشم ِسر کررہے ہیں۔
چند استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی پوری قیادت نواب زادوں اور رئیس زادوں پر مشتمل تھی۔ انگریز نوازی اس طبقہ کی فطرت ثانیہ تھی۔ انگریز نوازی چوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خمیر میں موجود تھی اس لیے یہ ادارہ اِس طبقے کو راس آیا۔ مسلمانوں کا درمیانی طبقہ اس انگریز زدہ قیادت کے پیچھے چل پڑا اور اس نے علماء کی قیادت کو مسترد کردیا۔
البتہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو انگریز زدہ مسلم لیگی قیادت کے سحر سے آزاد رہا، شاید اکبر الٰہ آبادی کا ’’ جمّن میاں‘‘ اسی طبقہ کا نمائندہ ہو
جُمّن میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
’’مومن کانفرنس‘‘ کے تحت مسلمان بنکروں کی جمعیت کانگریس کے ساتھ رہی۔ پیشہ کی بنیاد پر جمعیت سازی اور پوری جمعیت کے ایک سیاسی کردار کی یہ نمایاں مثال ہے۔
جمعیۃ علماء کی مشترکہ قومیت اور مسلم لیگ کی مسلم قوم پرستی دونوںکی مخالفت کرتے ہوئے خالص دینی بنیادوں پر دین اسلام کی اقامت کے لیے سید ابو الاعلی مودودی نے آواز لگائی اور اپنے موقف کے حق میں مضبوط دلائل پیش کیے۔ سید مودودی کی یہ آواز اس زمانہ کے تیز و تند ماحول میں نقّار خانہ میں طوطی کی آواز کے مترادف تھی۔ اس وقت تو دوسرے تصورات کا طوطی بول رہا تھا۔ بہرحال سید مودودی نے اپنے نقشہ کار کے مطابق جماعت اسلامی نام کی جمعیۃ تشکیل دی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں لگ گئے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا
﴿نام نہاد﴾ اونچی ذات کے ہندوؤں (Caste Hindus) کا ایک منظم گروہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کے خاتمہ کے ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل ہوگیا تھا اس گروہ کے مفاد میں یہ بات تھی کہ ہندو سماج ورن آشرم کی بنیاد پر موجودہ صورت میں برقرار ہے۔ ان کے پاس اپنے اس فاسد مقصد کو پورا کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عام نفرت کا ماحول پیدا کردیا جائے۔ اس گروہ کی کوششوں سے ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ چلتا رہا اور مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو داؤ پر لگے رہے۔ ملک کی آزادی و تقسیم کا وقت قریب ہوتا گیا اور منافرت کا یہ ننگا ناچ بڑھتا چلا گیا۔
حال:
ملک کی آزادی و تقسیم خون خرابہ کے ماحول میں ہوئی تھی۔ اس کا سب سے برا اثر مسلمانان ہند پر پڑا۔ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ اور سربرآوردہ طبقہ کا معتدبہ حصہ پاکستان منتقل ہوگیا۔ دوسری طرف ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے بڑی بڑی آبادیاں گاؤوں سے اپنے املاک چھوڑ کر یاانہیں اونے پونے بیچ کر شہروں میں منتقل ہوگئیں یا پاکستان چلی گئیں۔ مغربی پاکستان میں صوبہ سندھ کے علاوہ کسی اور علاقہ میں وہ نہیں بس سکے یا انھیں قدم جمانے نہیں دیا گیا۔ زیادہ تر لوگ مشرقی پاکستان گئے اور یہ سلسلہ اس علاقہ کے بنگلہ دیش بن جانے تک جاری رہا۔ ہندوستان سے جانے والے ان لوگوں میں زیادہ تعداد بہار سے تعلق رکھتی تھی اس لیے پاکستان میں وہ بہاری کہے جاتے رہے، ان کی یہی پہچان بنگلہ دیش میں بھی ہے،آج بھی وہ ان دونوں ملکوں میں مہاجر کہے جاتے ہیں۔
بر صغیر کے تینوں علاقوں میں زمین مسلمانوں کے لیے تنگ ہوگئی ہے۔ پاکستان ﴿سابقہ مغربی پاکستان﴾ عملاًایک ناکام ریاست (Failed State) بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش ﴿سابقہ مشرقی پاکستان﴾ خانگی ہنگامہ (Civil war) کے دہانہ پر کھڑا ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی جو صورت حال ہے اس کے لیے سچر کمیٹی کا حوالہ کافی ہے۔
جنوبی ہندکے وہ علاقے جو فرقہ وارانہ فسادات اور تقسیم ملک کی آگ سے دور رہے وہاں مسلمانوں کی حالت نسبتاً بہتر رہی، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک کی تاریک گلیوں سے نکل کر دیارِ عرب میں معاشی جدوجہد کے مواقع انھیں زیادہ ملے۔
اوپر ہم نے شاہ اسماعیل اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے حوالہ سے جس مسلکی گروہ بندی کا ذکر کیا ہے وہ مزید پھیل کر دیوبندی بمقابلہ بریلوی مسلک اور اہل سنت بمقابلہ وہابی گروہ کی شکل اختیار کر گئی۔ افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ یہ اختلافات بر صغیر کی سرحدوں سے نکل کر مغربی ممالک تک بھی پھیل گئے۔
ملک کے غیر مسلم سماج کو ورن آشرم کی تفریق کی بنیاد پر قائم رکھنے میں ریزرویشن کی پالیسی نے اہم رول ادا کیا۔ ’’پڑوسیوں‘‘ کی اس آگ سے مسلمان بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔
ہمسائیگی کے جوش میں شعلے لپٹ نہ جائیں
مت تاپئے یہ آگ پڑوسی کے گھر کی ہے
مومن کانفرنس کے حوالہ سے جو بات اوپر درج کی گئی ہے، اس طرز پر پیشہ کی بنیاد پر جمعیتوں کی تشکیل ہونے لگی اپنے گروہی مفادات کے لیے کام کرنے اور اس غرض کے لیے سیاسی رول متعین کرنے کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ قریشی، عراقی، منصوری ، پسماندہ طبقات اور اس طرح کے دیگر ناموں سے چھوٹی چھوٹی جمعیتوں کا قیام ہونے لگا۔ آج یہ سرگرمی ہندوستانی مسلمانوں کے سماج میں موجود ہے اور اس بات کا احساس موہومہ ہوگیا ہے کہ یہ حرکتیں دین کی بنیاد پر امت کی وحدت کے منافی ہیں۔ افسوس ناک بات ہے کہ ریزرویشن کے مبینہ فوائد کے پیش نظر ملک گیر دینی و ملی جماعتیں اس صورت حال کوعملاً قبول کر چکی ہیں۔ یہ ایک وبائی مرض ہے جس کے علاج کے امکانات کم ہیں۔ مرض بڑھتا گیا بغیر دوا کے !!
سیاست کے میدان میں مسلمانوں کی بے سمتی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک عرصہ تک مسلمان کانگریس پارٹی کا ووٹ بینک بنے رہے۔ کانگریس کہیں کمزور ہوئی یا اس سے کبھی ناراض ہوئے تودوسری سیاسی پارٹیوں کو تلاش کرنے لگے۔ اب اپنی سیاسی پارٹی بنا کر ملک کے سیاسی ماحول کو مزید مکدر کرنے کا رجحان مسلمانوں میں پیدا ہوا ہے۔ درا صل اس پوری بے سمتی کی وجہ سیاست کو محض الیکشنی سیاست تک محدود سمجھنے کا رجحان ہے۔ قوت کے دیگر مراکز پر اثر انداز ہونے اور ملک کو در پیش مجموعی مسائل پر آواز اٹھانے اور ان سوالات پرکام کرنے کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے۔
مستقبل:
ان تمام خرابیوں کے باوجود جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے چند مظاہر امید افزا بھی ہیں۔ مسلمانوں میں ملی تشخص کا احساس بڑھا ہے اور اپنے دین پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ کیوں کہ:
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
انیسویں صدی کی ابتدائ میں یہ ملت اپنا سیاسی اقتدار کھوکر زوال پزیر ہوچکی تھی۔ 1857 ء کی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اِس کے باوجود ملت نے ہار نہیں مانی اور اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے اور تشخص محفوظ رکھنے کی سعی کرتی رہی ہے۔ ملک کی آزادی وتقسیم کے زمانے کے سخت حالات کے باوجود ملت اسلامیہ ہند مایوس نہیں ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے فنا ہونے کے بعد خصوصاً ملت اسلامیہ ہند کے اندر ایک نیا حوصلہ پیدا ہوا۔ اِسی ملک کے اندر رہ کر اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی فکر پختہ ہوگئی۔ تعلیم و معیشت کے میدانوں میں یکسوئی پیدا ہوئی اور دیگر اقوام تک اپنے دین کی دعوت و پیغام پہنچانے کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔ دعوت کے اس کام میں دھیرے دھیرے ملت کے مختلف افراد اور اداروں سے وابستہ لوگ کام کرنے لگے۔ دعوت کا کام جیسا کچھ بھی ہورہا ہے اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ نئی نسل میں اپنے دین پر اعتماد بڑھا ہے۔ داڑھیاں زیادہ رکھی جارہی ہیں، برقعے زیادہ پہنے جارہے ہیں اور نمازیں بھی زیادہ پڑھی جارہی ہیں۔ مستقبل میں اس پہلو سے بہتری کے امکانات ہیں۔ ایک طرف ہندو تو قوتوں میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف انصاف پسند غیر مسلموں کی ایک ٹیم مسلمانوں کے حقوق کی پامالی روکنے کے لیے اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج بلند کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ گجرات کے فسادات کے بعد یہ گروہ زیادہ سرگرمی کے ساتھ میدان میں آگیا ہے۔
تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے اور اس کے مزید بہتر ہونے کے امکانات ہیں۔ ایک وقت صورت حال یہ تھی کئی اہم میدانوں میں ان کا وجود خال خال تھا۔ اب دھیرے دھیرے صحافت، تجارت، صنعت و حرفت ،انفارمیشن ٹکنالوجی ، ذرائع ابلاغ، نشر واشاعت ، صحت ﴿ہیلتھ سیکٹر﴾ اور دیگر میدانوں میں مسلمانوں کے وجود کا پتہ چلنے لگا ہے۔ اپنی آبادی کے لحاظ سے ان کی ان میدانوں میں موجودگی اب بھی بہت کم ہے لیکن مسلمان نوجوانوں میں تعلیم کے تئیں جو سنجیدگی پیدا ہوئی ہے اس سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
ماضی ،حال اور مستقبل کے سلسلہ میں درج بالا گزارشات کے ساتھ ہم اس مقام پر ہیں کہ ملت اسلامیہ ہند کے عروج و زوال سے متعلق بنیادی سوالات پر توجہ کرسکیں۔
عروج یا زوال سے مراد:
عروج یا زوال ہمہ جہتی تصور ہے۔ عموماً جب ہم مسلمانوں کے ماضی سے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو ذہن سیاسی قوت کے لحاظ سے عروج یا زوال کی طرف جاتا ہے، کیوں کہ دیگر پہلوؤں مثلاً علم، معیشت و اخلاق کے لحاظ سے وہ قومیں اچھی رہی ہیں جو دیگر اقوام سے زیادہ سیاسی قوت کی حامل ہوں۔ جب کوئی گروہ ترقی کرتا ہے تو ہر پہلو سے بہتر ہونے لگتا ہے اور جب دو ر زوال آتا ہے تو تمام پہلوؤں سے گراوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم علم، اخلاق، معاشرت ، معیشت اور زندگی کے دیگر میدانوں میں آگے بڑھے گی تو سیاسی قوت کی فراہمی کے میدان میں اسی تناسب سے اس کے قدم آگے بڑھیں گے۔
مسلمانوں کی ہندوستان میں پچھلی دو سو سالہ تاریخ ان کے زوال کی تاریخ ہے۔ البتہ امت نے اپنا مقام کھودینے کا احساس گُم نہیں کیا ہے اور اسے ہمیشہ کھوئے ہوئے مقام کے حصول کی آرزو نے مضطرب رکھا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانان ہند کی حالت درج فہرست ذاتوں سے بھی خراب ہو لیکن یہ فرق بہت اہم ہے کہ اس امت نے اپنی پستی کو بجنسہ قبول نہیں کیا ہے۔ امت کا احساس زیاں باقی ہے۔ یہی اس کی زندگی کی علامت ہے اور یہی اس کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ ملت اسلامیہ ہند کا عروج اپنے درست مقام کے ادراک میں مضمر ہے۔ یہ ایک داعی امت ہے جس کا مقصد وجود دیگر اقوام کی طرح اپنا پیٹ بھرنا نہیں ہے بلکہ اسے پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہونا ہے۔ یہ ذمہ داری تحریک اسلامی ہند کی ہے کہ وہ اس ملک کی قومی کشمکش سے بچ کر امت کو اس کے مقام بلند کی یاد دلاتی رہے۔ زوال پزیری کی موجودہ کیفیت کے عروج پزیری میں تبدیل ہوجانے کا یہی راز ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2013