ماہ نامہ زندگی نو مئی ۲۰۱۴ء میں ’رسائل ومسائل‘ کے کالم میں سود کے موضوع پر شائع شدہ میرے ایک جواب پر محترم ڈاکٹر خالد حامدی فلاحی صاحب نے بطور نقد و استدراک اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ ان کی یہ تحریر زندگی نو ستمبر ۲۰۱۴ء میں شائع ہوئی ہے۔ میں شکرگزار ہوں کہ انھوںنے میرے جواب سے اختلاف کرتے ہوئے پورے زورِ استدلال کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں سود کی حرمت پر روشنی ڈالی ہے اور اس سے بچنے کی تدابیر بیان کی ہیں۔ انھوںنے بجا طور پر فرمایا ہے کہ سود کو قرآن و حدیث میںحرام قرار دیاگیاہے اور اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال ٹھہرانے کا علماء وفقہاء کو حق نہیں پہنچتا۔ انھو ں نے مشورہ دیاہے کہ دینی معاملات میں علماء کے حوالے سے مجرد کوئی بات نہیں پیش کی جانی چاہئے جب تک کہ اس کو قرآن وحدیث کے تناظر میں نہ بیان کیاگیا ہو۔ (ص۹۲)
یقیناً سود حرام ہے۔ اس کو کسی عالم نے حلال نہیں کیا ہے اور وہ کربھی نہیں سکتا ۔ لیکن موجودہ دور میں بینکنگ سسٹم پوری دنیا میں عام ہوگیا ہے اور اس میں سود پوری طرح سرایت ہے۔ کوئی شخص سرکاری ملازم ہو، یا کسی پرائیویٹ کمپنی میں کا م کر رہا ہو ، یا ذاتی تجارت میں مشغول ہو، وہ لامحالہ بینک کے واسطے سے لین دین کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح انشورنس کی بہت سی صورتیں رواج پاگئی ہیں، جو تمام تر سود پر مبنی ہیں اور ملازمت کی لازمی شرط کے طور پر اسے اختیار کرناپڑتا ہے۔ ان حالات میں علماء نے غور کیا تو سود کو حرام قرار دینے کے باوجود انھوںنے اضطراری طور پربعض چیزوں کی اجازت دی۔
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) ہندوستان کے معتبر علماء وفقہاء کاایک ادارہ ہے۔ مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے تین سو سے زائد علماء اس سے وابستہ ہیں۔ ہرسال اکیڈمی کی جانب سے چند جدید مو ضوعات کا اعلان کیاجاتا ہے۔ ان پر یہ علماء مفصل تحقیقی مقالات تیار کرتے ہیں، جن میں قرآن وحدیث اور قیاس واجتہاد کے ذریعے شرعی احکام مستنبط کیے جاتے ہیں۔ کسی ایک جگہ یہ تمام علماءاکٹھا ہوتے ہیں، جہاں تمام مقالات کے خلاصے پیش کیے جاتے ہیں، ان پر بحث ومباحثہ ہوتا ہے اور آخر میں بطور خلاصہ بالاتفاق چند تجاویز منظور کی جاتی ہیں۔ الگ سے وہ تمام مقالات بھی کتابی صورت میں شائع کردیے جاتے ہیں۔ اکیڈمی کا دوسرا فقہی سیمینار دہلی میں ۸۔۱۱؍دسمبر ۱۹۸۹ء کو منعقد ہوا تھا۔ اس میں سود، سودی قرضے، بینک انٹرسٹ اور دیگر متعلقہ مسائل زیر بحث آئے تھے۔ اس موقع پر یہ قراردادیں منظور کی گئی تھیں:
(1) ربا (سود) قطعی حرام ہے۔ اور جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔
(2) سود ادا کرنے کی حرمت بذاتِ خود نہیں ہے ، بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یہ سود خوری کا ذریعہ ہے۔ اس لیے بعض خاص حالات میں عذر کی بنا پر سود ادا کرکے قرض لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
اسی سیمینار میں بینک انٹرسٹ کےبارے میں یہ قراردادیں بھی منظور کی گئی تھیں:
’’بینک انٹرسٹ کے سود ہونے پر شرکائے سیمینار کا اتفاق ہے۔ انٹرسٹ کی رقم بینک سے نکال لی جائے یا چھوڑ دی جائے ؟ نکال لی جائے تو کس مصرف میں خرچ کی جائے؟ اس سلسلے میں طے پایا کہ:
سے ملنے والی سودکی رقم کو بینکوں میں نہ چھوڑا جائے، بلکہ اسے نکال کر مندرجہ ذیل مصارف میں خرچ کیاجانا چاہئے۔
بینک کے سود کی رقم کو بلانیت ثواب فقراء و مساکین پر خرچ کردیا جائے۔ اس پر تمام ارکان کا اتفاق ہے۔
سود کی رقم کو مساجد اور اس سے متعلقات پر خرچ نہیں کیاجاسکتا۔
شرکاء سیمینار کی یہ رائے ہے کہ اس رقم کو صدقاتِ واجبہ کے مصارف کے علاوہ رفاہِ عام کے کاموں پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔ بعض حضرات کی رائے میں اس کے مصر ف کو فقراء و مساکین تک محدود رکھنا چاہئے‘‘۔
(نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) طبع دہلی، ۲۰۱۱ء،صفحہ ۱۴۵، ۱۵۴)
زندگی نو مئی ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے میرےجواب میں علماء کے ان ہی فیصلوں کی طرف اشارہ تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر جگہ تمام دلائل نقل نہیں کیے جاسکتے۔ خواہش مند حضرات مذکورہ سیمینار میں پیش کیے جانے والے مقالات کے مجموعے کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
سود کی حرمت کے بارے میں ڈاکٹر خالد حامدی صاحب نے جو مفصل بحث کی ہے اس کالازمی تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ کوئی مسلمان بینکوں سے، جو سودی نظام کے فروغ کا ذریعہ ہیں، کسی طرح کا تعلق نہ رکھے۔لیکن خود انھوں نے بعض ناگزیر حالات میں کرنٹ اکائونٹ کھلوانے کی اجازت دی ہے۔ حالاں کہ کرنٹ اکائونٹ میں اگرچہ سود نہیں ملتا، لیکن بینک میں اکائونٹ کھلواکر آدمی سودی نظام کے فروغ و استحکام کا ذریعہ ضرور بنتا ہے۔آخر میں انھوں نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ’’اگر کسی وجہ سے سود کی رقم کو چھوڑا نہ جاسکتا ہو تو بہ درجۂ مجبوری اسے کسی غیرمسلم کو پوری بات بتاکر دے دینا چاہئے‘‘۔ اپنی اس رائے کا استنباط انھوں نے ایک حدیث سے کیا ہے، لیکن حدیث کے متن سے ان کااستنباط غلط قرار پاتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’ہم جس ملک اور ماحول میں رہ رہے ہیں، یہاں قانون وعمل دونوں اعتبار سے اسلامی قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر کسی وجہ سے سود کی واپسی کسی بھی طرح ممکن نہ ہو تو بہ درجۂ مجبوری اس سودی رقم کو کسی مستحق و غریب غیرمسلم کو اسے پوری بات بتاکر دے دینا چاہئے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ کہیں سے آیا ہوا ایک مردانہ ریشمی جوڑا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا۔ چوں کہ ریشم عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھاکہ یا رسول اللہ ﷺ! حرا م ہونے کی بنا پر جب آپؐ نے اسے نہیں پہنا تو پھر اسے مجھے کیوں دیا ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے جواب میں فرمایا: ’’ یہ میں نے تمھارے لیے نہیں بھیجا ہے‘‘۔ چنانچہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو مکہ میں رہائش پذیر اپنے غیرمسلم بھائی کو بھجوا دیا‘‘۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم) اس حدیث سے استنباط کرکے اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے‘‘۔ (ص ۹۷)
ڈاکٹر صاحب نے مکمل حوالہ دیا ہے نہ پوری حدیث درج کی ہے۔ پوری حدیث یوں ہے: ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے مسجد نبویؐ کے دروازے پر ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے خدمتِ نبوی میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اسے آپ خرید لیجیے تو بہتر ہوگا، تاکہ اسے جمعہ کے دن پہنا کریں اور جب کوئی وفد آپ سے ملاقات کے لیے آیا کرے تب زیب تن فرمایا کریں۔ آپؐ نے فرمایا: اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کئی جوڑے آگئے تو آپؐ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر بن الخطابؓ کے پاس بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ اسے لے کر آپؐ کی خدمت میں آئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسولؐ! اسے آپؐ نے میرے پاس بھیجا ہے، جبکہ آپ اس کے بارے میں فلاں بات کہہ چکے ہیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے اسے تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ تم اسے پہنو‘‘ ۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسے مکہ میں اپنے ایک مشرک بھائی کے پاس بھیج دیا‘‘۔ (صحیح بخاری: ۸۸۶، صحیح مسلم: ۲۰۶۸)
یہ حدیث بخاری اور مسلم میں متعدد سندوں سے مروی ہے۔ امام بخاریؒ کا اندازِ تالیف یہ ہے کہ ایک حدیث اگر الفاظ کے فرق کے ساتھ متعدد سندوں سے مروی ہو تو وہ اسے اپنی کتاب کے مختلف مقامات پر روایت کرتے ہیں اور امام مسلم ؒ کا اندازِ تالیف یہ ہے کہ وہ تمام سندوں کو ایک ہی جگہ جمع کردیتے ہیں۔ چنانچہ یہ حدیث صحیح بخاری میں نو(۹) مقامات پر الگ الگ سندوں سے مروی ہے ۔ (۸۸۶۔۹۴۸۔۲۱۰۴۔۲۶۱۲۔۲۶۱۹۔۳۰۵۴۔ ۵۸۴۱۔۵۹۸۱۔ ۶۰۸۱) امام مسلمؒ نے اسے پانچ سندوں سے کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ سنن ابی دائود میں دو سندوں سے (۱۰۷۸۔ ۴۰۴۲) اور سنن نسائی میں چار سندوں سے (۱۳۸۲۔ ۱۵۶۰۔ ۵۲۹۵۔ ۵۲۹۹) مروی ہے۔ بعض سندوں سے اضافی معلومات حاصل ہوتی ہیں، جن سے متنِ حدیث کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس حدیث کی بعض سندوں میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے تین ریشمی جوڑے آئے تھے۔ آپﷺ نے ایک جوڑا حضرت اسامہ بن زیدؓ کو، دوسرا حضرت علی بن ابی طالبؓ کو اور تیسرا حضرت عمر بن الخطابؓ کے پاس بھجوایا تھا۔ (صحیح مسلم: ۲۰۶۸،سنن نسائی: ۵۲۹۹) حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ تو ان جوڑوں کو پہن کر رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آگئے۔ انھیں دیکھ کر آپؐ کے چہرۂ انور پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہوئے۔ حضرت علی ؓ تو فوراً تاڑ گئے اورفوراً گھر واپس جاکر اسے اتار دیا اور اس کے ٹکڑے کرکے گھر کی عورتوں کے درمیان تقسیم کردیا۔(صحیح بخاری: ۲۶۱۴، ۵۳۶۶، ۵۸۴۰، صحیح مسلم: ۲۰۷۱، سنن ابی دائود: ۴۰۴۵، سنن نسائی: ۵۲۹۸) حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوال کربیٹھے: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ؐ ہی نے تواسے میرے پاس بھیجا ہے ، پھر اس طرح میری طرف کیوں دیکھ رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی: ’’میں نے اسے تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ تم اسے پہنو، بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ اس کے ٹکڑے کرکے گھر کی عورتوں کے درمیان تقسیم کردو، تاکہ وہ اسے دوپٹہ بنالیں‘‘۔ (صحیح مسلم: ۲۰۶۸)
حضرت عمرفاروق ؓ پہلے خود رسول اللہ ﷺ کو ریشمی جوڑا زیب تن کرنے کا مشورہ دے چکے تھے، جسے آپ ﷺ نے رد کردیا تھا، چنانچہ جب آپ ﷺنے ان کے پاس بھی ایک جوڑا بھجوایا تو وہ اسے لیے ہوئے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ جب آپ ﷺ نے اپنے لیے اس طرح کے جوڑے کو ناپسند فرمایا ہے تو پھر میرے پاس کیوں بھجوایا ؟ جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اسے میں نے تمھارے پاس اس لیے نہیں بھجوایا ہے کہ تم خود اسے پہنو‘‘۔ اس کے ساتھ آپؐ نے مزید جو کچھ فرمایا تھا وہ مختلف سندوں میں مختلف الفاظ میں منقول ہے:
(۱) اِنَّمَا بَعَثْتُ اِلَیْک لِتَسْتَمْتِعْ بَہَا (میں نے اسے تمھارے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ) راوی کہتے ہیں کہ آپؐ کی مراد یہ تھی کہ تم اسے بیچ کر اس کی رقم سے فائدہ اٹھاؤ‘‘۔ (صحیح بخاری: ۲۱۰۴، صحیح مسلم: ۲۰۶۸)
(۲)تَبِیْعُہَا اَوْ تُصِیْبُ بَہَا حَاجَتَکَ (تم اسے بیچ دو اور اس کے ذریعے اپنی ضرورت پوری کرو)(صحیح بخاری: ۹۴۸، ۳۰۵۴، صحیح مسلم: ۲۰۶۸، سنن نسائی: ۱۵۶۰)
(۳)تَبِیْعُہَا اَوْتَکْسُوْہَاتم اسے بیچ دو یا کسی دوسرے کو پہننے کے لیے دے دو‘‘۔(صحیح بخاری: ۲۶۱۹، ۵۸۴۱، ۵۹۸۱، سنن نسائی: ۵۲۹۵)
(۴)اِنَّمَا بَعَثْتُ اِلَیْک لِتُصِیبَ بِہَا مَالاً (میں نے اسے تمھارے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ اسے بیچ کر کچھ رقم حاصل کرلو (صحیح بخاری: ۶۰۸۱، صحیح مسلم: ۲۰۶۸)
(۵) بَعَثْتُ بِہَا اِلَیْک لِتُصِیبَ بِہَا(میں نے اسے تمھارے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ) (صحیح مسلم: ۲۰۶۸)
(۶)اِنَّمَابَعَثْتُ بِہَا اِلَیْک لِتَنْتَفِعَ بِہَا(میں نے اسے تمھارے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ) (صحیح مسلم: ۲۰۶۸)
(۷) بِعْہَا وَاقُضِ بِہَا حَاجَتَکَ اَوْ شَقِّقْہَا خُمْرًا بَیْنَ نِسَائِکَ (تم اسے بیچ دو اور اس کے ذریعے اپنی ضرورت پوری کرو، یا اس کے ٹکڑے کرکے اپنی عورتوں کے درمیان تقسیم کردو کہ وہ اس سے دوپٹے بنالیں)
اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں بھیجی تھی جو مطلق حرام ہو اور اس کا کسی مسلمان کے لیے استعمال جائز نہ ہو، بلکہ اسے کسی غیرمسلم کوہی دیا جاسکتا ہو۔ حضرت عمرفاروق ؓ اس ریشمی جوڑے کو اپنے گھر کی عورتوں کے درمیان تقسیم کرسکتے تھے، جیسا کہ حضرت اسامہؓ اور حضرت علیؓ نے کیا، یا وہ اسے فروخت کرسکتے تھے اور اس کی رقم سے خود فائدہ اٹھاسکتے تھے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عندیہ ظاہر کیا تھا، یا وہ اسے کسی دوسرے کو پہننے کے لیے دے سکتے تھے، چنانچہ انھوں نے اسے اپنے غیرمسلم بھائی کے پاس مکہ بھیج دیا۔
شریعت میں ایسی متعدد صورتیں ہیں، جب ایک چیز ایک مسلمان کے لیے حرام، لیکن دوسرے کے لیے جائز ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر صراحت ہے کہ بعض حرام چیزیں حالتِ اضطرار میں جائز ہوجاتی ہیں۔ (البقرۃ: ۱۷۳، المائدۃ: ۳، الانعام: ۱۱۹، ۱۴۵، النحل: ۱۱۵) اس لیے اگر علماء نے سود کی رقم کو حرام مانتے ہوئے حالتِ اضطرار میں مبتلا بعض مسلمانوں کو اسے دے دینے کی بات کہی ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ انھیں اللہ کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کرنے کا مجرم قرار دیا جائے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014