اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان جدید اتحاد

Book’’اے ہندوؤ! ہندوستان کو اپنے آباء و اجداد کی زمین اور اپنے پیغمبروں کی سرزمین کے طور پر دیکھو، اور ان کی جو ثقافت اور خون کا انمول ورثہ تمھیں ملا ہے، اس کی قدر کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو کوئی چیز تمھاری توسیع پسندی کی خواہش کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے گی۔ صرف ہندوتوا کی جغرافیائی حدود ہی ہماری زمین کی حدود ہیں! ‘‘ (ویر ساورکر) [1]

’’جرمنی نے ہمیں یہ بتلادیا ہے کہ آپس میں انتہائی عمیق اختلافات کی حامل ثقافتوں اور نسلوں کا متحد ہوجانا ہندوستان میں کیوں کر تقریباً ناممکن ہے۔ یہ ایک اچھا سبق ہے جسے سیکھا اور جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ‘‘ (گوالکر) [2]

’’ہم اپنے عقیدے کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک قوم مانتے ہیں۔‘‘ (تھیوڈر ہرزل)[3]

Hostile Homelands ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے تعلقات کی ایک جامع تحقیق ہے جو آزاد عیسی نے مرتب کی ہے۔ مصنف نے آئیڈیالوجی، دفاعی قوت، ٹیکنالوجی کے علاوہ آبادکاروں کی لابینگ کی قوتوں کی پیچیدہ تحریکات کا مطالعہ کیا جو ان دونوں ممالک کے درمیان نئے اتحاد کو تشکیل دینے کا باعث بنتی ہیں۔

ہندوستان نے جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوی ہے، اگرچہ بیشتر مواقع پر فلسطین کی کھل کر حمایت کی ہے۔ لیکن مذکورہ کتاب تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالتی ہے کہ صیہونیت اور ہندو توا کے نسل پرستانہ نظریات کے درمیان گہرے روابط اور ہندو قوم پرستی کی جدید شکل جس نے ہندوستان میں حالیہ دنوں میں زور پکڑا ہے، ان دونوں عوامل کی وجہ سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی واقع ہونے کا امکان ہے۔ آخر ہندوستان جو ماضی میں صیہونیت کو نسل پرستی کی ایک شکل کے طور پر دیکھتا تھا، اسرائیلی ہتھیاروں کا اولین خریدار کیوں کر بن گیا؟ سنہ 2014 میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اسرائیلی ہتھیاروں کی برآمدات کا 42 فیصد حصہ ہندوستان جارہا ہے۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ہندوستان جو کہ اولین غیر عرب ملک تھا جس نے فلسطینی پی ایل او کو تسلیم کیا اور نو آبادکاری اور نسل پرستی کی مخالفت کی، اب نسل پرستی کی حمایت کرنے لگے؟!

ہندوستانی اسرائیلی تعلقات درحقیقت ایک اخلاقی سیاسی انحطاط پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ سماجی کارکن اچن ونائک نے بیان کیا ہے۔ مصری ریسرچ اسکالر مصطفی سالوس کے مطابق ہندوستان نہ صرف اسرائیل کو واشنگٹن کے لیے گیٹ وے کے طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک مؤثر اور طاقتور ٹیکنالوجی کے حامل ملک کے طور پر دیکھتا ہے۔ مصطفی سالوس اس بات کا حوالہ دیتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں جس طرح ہندوستان میں معیشت کی نجکاری نے نیو لبرل ازم کے دروازے کھولے جس کے نتیجے میں اس کا امریکہ کے ساتھ تعلق قائم ہوا۔ نیو لبرل ازم کا براہ راست نتیجہ زراعت، ٹیکنالوجی اور سیکوریٹی کے تمام شعبہ جات میں دستیاب مواقع کے طور پر پیش کیا گیا جس میں اسرائیل نے بتدریج سرمایہ کاری کی، اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سالانہ پانچ بلین ڈالر مالیت کے تجارتی معاہدے ہوئے۔

تفصیلی طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے نیز محفوظ سرکاری ریکارڈ، قدیم بیانات اور تقاریر کی بنیاد پر Hostile Homelands کے مصنف نے بدلتی پالیسیوں اور ابھرتے نظریات کے تئیں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ساتھ ہندوستان کی مبینہ وابستگی کا از سرنو جائزہ لیا ہے کہ ہندوستان اور اسرائیلی تعلقات نے فلسطینی کاز کو کیوں کر فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

اس وقت جب کہ ہندوستان اور اسرائیل اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے اور انھیں ایک نئی بلندی پر لے جانے کی تیاری میں ہیں، ہندوستانی مسلمانوں اور فلسطینیوں کے درمیان تعلق مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب حقیقتًا بروقت ہے اور قاری کو نہ صرف اس طرح کے اتحاد کی نوعیت پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر یکجہتی اور مبنی برانصاف وابستگی کے نتائج اور اس کی حدود تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

ماضی اور حال

مصنف نے ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے، نیز اس کے ابتدائی آثار ہندوستانی آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہی تلاش کرنے میں کام یابی حاصل کی ہے۔

موشر شریٹ جو یوکرائن نژاد یہودی اور اسرائیل کا دوسرا وزیر اعظم تھا، مہاتما گاندھی کو ’’سب سے عظیم ہندو‘‘ اور جواہر لال نہرو کو غیر منقسم ہندوستان کا سب سے بڑا رہ نما تسلیم کرتا تھا جو کہ کرہ ارض پر مسلمانوں کی سب سے بڑا آبادی کا وطن ہے۔ یہودی ایجنسی نے امانویل اولسواگنر (Immanuel Olsvanger۔  1888 – 1961) کو ہندوستان روانہ کیا تاکہ گاندھی اور نہرو کو صیہونی تحریک کی حمایت پر آمادہ کرسکے مگر وہ اس میں ناکام رہا۔ مارٹن بوبر (Martin Buber)، یہودا ایل میگنس (Judah L. Magnes)، البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein) اور دیگر کئی اشخاص نے اپنے مرضی سے اس امر کے تئیں خطوط لکھے لیکن انھیں بھی ناکامی ہاتھ آئی۔

موجودہ عوامی موقف کے باوجود، ہندوستان میں ہمیشہ سے ایک دانش ور طبقہ ایسا رہا جو صیہونی منصوبے کے ساتھ انسیت محسوس کرتا تھا۔ اسرائیل کے سوشلسٹ مزاعم کے ساتھ ساتھ سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اس کی ظاہری ’’غیر جانب داری‘‘ نے بعض ہندوستانی سیاسی اشرافیہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں کام یابی حاصل کی۔

سنہ 1958 میں جے پرکاش نارائن جو کہ ایک سرگرم سماجی کارکن تھے اور بعد میں سیاسی لیڈر بن گئے، اسرائیل کے نو روزہ دورے پر گئے، اس دوران انھوں نے بین گوریون سے ملاقات کی اور اسرائیل کے فرقہ وارانہ اداروں کا مطالعہ کیا۔ جے پرکاش نارائن نے 300 سے زائد سوشلسٹ اور سماجی رہ نماؤں اور کارکنوں کو چھ ماہ تک اسرائیلی کبٹز (kibbutz) تحریک کا مطالعہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔

نظریاتی اختلافات اور فلسطینی کاز کے تئیں ہندوستانی حمایت کے باوجود سرد جنگ کے خاتمے اور گلوبلائزیشن کے آغاز نے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کی راہ ہم وار کی۔ 1992 میں اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا ہندوستانی فیصلہ اس ضمن میں ایک اہم قدم تھا جس نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کا عندیہ دیا۔ اس فیصلے کا سبب مبینہ طور پر ٹیکنالوجی اور دفاعی تکنیک میں اسرائیل کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کی ہندوستان کی خواہش تھی۔ 1992 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے ہندوستان کے فیصلے نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم سنگ میل قائم کیا۔ اس سے قبل تک ہندوستان نے اسرائیل سے رسم و راہ نہ بڑھانے کی پالیسی برقرار رکھی تھی اور فلسطینی کاز کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات قائم کرنے سے گریز کیا تھا۔ تاہم، سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ پالیسیوں میں تبدیلی آگئی، ہندوستان نے اسرائیل کو دفاع، زراعت اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں ایک قابل ترین پارٹنر کے طور پر دیکھا۔ ان شعبوں میں اسرائیل کی مہارت نے فلسطین کے تئیں حمایت کے باوجود ہندوستان کے لیے اپنے آپ کو ایک پرکشش پارٹنر کے طور پر پیش کیا۔ مندرجہ ذیل مثالوں سے ہمیں اسرائیل کی غیر متزلزل خارجہ پالیسی اور لابینگ کی صلاحیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

عسکری صنعتی سیکٹر

نہرو کے دور میں سنہ 1962 کو چین اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس وقت تک ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات نہیں تھے۔ ان دنوں اسرائیل کی فوجی صلاحیت کا چرچا زوروں پر تھا۔ 1962 کے موسم خزاں میں چین اور بھارت کے درمیان ہمالیہ میں جھڑپ ہوئی۔ اس دوران نہرو نے متعدد عالمی رہ نماؤں کو بشمول اسرائیلی وزیر اعظم یکے بعد دیگرے خطوط لکھے اور فوجی امداد کی درخواست کی۔ نہرو نے 27 اکتوبر 1962 کو بمبئی میں قنصل خانہ کے ذریعے اسرائیل کو ایک خط بھیجا تھا۔ پانچ دن بعد، ڈیوڈ بن گوریون نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مدد کی پیش کش کی جس کے جواب میں نہرو نے 18 نومبر 1962 کو شکریہ کا خط ارسال کیا۔ تاہم نہرو چاہتے تھے کہ یہ سب خفیہ طور پر ہو اور ہتھیاروں کو ایسے جہازوں میں لایا جائے جن پر اسرائیلی پرچم نہ ہو مگر بن گوریون نے اس سے انکار کر دیا جس پر نہرو کے پاس اسرائیلی پیش کش جوں کی توں قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تل ابیب سے ملنے والی فوجی امداد نے ہندوستان کو اسرائیل کے ساتھ پچھلے دروازے سے ڈپلومیسی جاری رکھنے پر آمادہ کیا، جس کا اختتام 1963 میں فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کی درخواست پر ہوا۔

1971 میں پاکستان کے ساتھ جنگ کے بعد اسرائیل ان اولین ممالک میں سے تھا جنھوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔ نئی دہلی کے رویے میں بھی اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان 1967 کی جنگ کے بعد بدلاؤ آنے لگا۔ چھ روزہ جنگ میں عرب فوجوں کی تباہی نے دہلی کو بھی یک گونہ خوف میں مبتلا کیا۔ عوامی طور پر، ہندوستان نے اسرائیل کو جارح ہونے کے تئیں فلسطینی علاقوں کے ساتھ ساتھ مصری جزیرہ نما سینا اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضے کرنے پر مذمت کی۔ تاہم خفیہ طور پر ہندوستان نے اپنے افسران کو ہدایت کی کہ مصر اور شام کی فوجوں کی غیر معمولی تباہی کا مطالعہ کریں۔

1968 میں اندرا گاندھی نے سی آئی اے کے سانچے میں ایک خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ (Research and Analysis Wing (RAW)) قائم کی جو کہ راست وزیر اعظم کے دفتر کو اطلاع دینے کی پابند تھی۔ چین اور شمالی کوریا کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے تعلقات کے تناظر میں ہندوستانی را اور اسرائیلی موساد کے درمیان خفیہ طور پر تعلقات قائم کیے گئے۔ اگرچہ اس وقت تک ہندوستان اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات نہیں تھے تاہم را اور موساد نے اسرائیلی ہندوستانی دفاعی تعلقات کی راہ ہم وار کرنا شروع کی۔ 1970 کی دہائی میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی پیدا ہونے کے بعد ہندوستانی افسران نے اسرائیل کا سفر کیا اور ہتھیاروں کے قلیل مدتی سودے طے کیے، مگر یہ تمام سودے فریق ثالث کی معرفت سے طے کیے گئے تھے۔

یہی وہ جغرافیائی سیاسی تناظر تھا جس نے اسرائیل اور ہندوستانی سیاسی میدان میں ہندوتوا آئیڈیالوجی کے حامل لوگوں کی حمایت کی راہ ہم وار کی، چاہے وہ کانگریس کے ہوں یا بی جے پی یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے۔ پاکستان کے ساتھ جنگ نے ہندوستانی مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اٹل بہاری واجپائی جیسے رہ نماؤں نے اندرا گاندھی کے دنوں میں بین الاقوامی مسائل چھیڑ کر اپنا سیاسی کیریئر تابناک بنایا۔ اسرائیل کا معاملہ موجودہ حالات میں جغرافیائی سیاست اور بین الاقوامی لابینگ کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل نے کبھی بھی صرف زرعی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر تکیہ نہیں کیا، بلکہ خوب سمجھ بوجھ کر عالمی ہتھیاروں کی بالادستی کے ایجنڈے کے تحت اپنے ہتھیاروں کی فروخت کو ترجیح دی۔

بروز بدھ، 29 جنوری 1992 اسرائیل کو پہلی بار بحیثیت ملک تسلیم کرنے کے بعد، کانگریس کی قیادت میں ہندوستانی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اب اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرے گی۔ اسرائیل کی طرف ہندوستان کی پیش قدمی جزوی طور پر بیسویں صدی کے آخر میں سرمایہ داری کی انتہا کا اشارہ تھی جس کی جڑیں مذہبی بنیاد پرستی اور جارحانہ عسکریت پسندی سے ملتی ہیں، جو سرد جنگ کے خاتمے کا لازمی ردعمل تھی۔

سنہ 2003 کو 11 ستمبر کی دوسری برسی سے ٹھیک دو دن پہلے ایریل شیرون نے ہندوستان کا دورہ کیا، یہ کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا پہلا ہندوستانی دورہ تھا جس میں تین کابینہ وزرا اور سیکورٹی، ٹیکنالوجی اور زرعی فرموں کے 35 ایگزیکٹوز شامل تھے، ایریل شیرون نے واجپائی کی کابینہ کے اہم ارکان کے ساتھ ساتھ انڈین نیشنل کانگریس کی رہ نما سونیا گاندھی سے بھی ملاقات کی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ترجمان رنجیت ابھگیان نے اس موقع پر کہا تھا:

’’ہم جمہوریہ ہندوستان کے لوگ، نہ تو اپنے ملک کے بارے میں بی جے پی کے مسخ شدہ فرقہ وارانہ وژن کو قبول کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ایریل شیرون کے ساتھ اتحاد کو، جو آج موجود سب سے زیادہ نسل پرست، نوآبادیاتی حکومت کا رہ نما ہے۔‘‘

ایریل شیرون کے اس اہم دورے میں دونوں حکومتوں نے ’’ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان دوستی اور تعاون کے بارے میں دہلی کے حوصلہ افزا بیان‘‘ کے ساتھ ساتھ ماحولیات، تعلیم، ثقافت، اور ویزا کی شرائط کو ختم کرنے جیسے معاملات پر تعاون کے چھ معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ ہندوستان کی کابینہ سلامتی کمیٹی نے بحریہ کے لیے 97 ملین ڈالر کے اسرائیلی برقی جنگی نظام کو خریدنے کی منظوری دی تھی۔

26 نومبر 2008 کے بمبئی بم دھماکوں کے واقعات پیش آئے، جن میں نو اسرائیلیوں سمیت 195 افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کو ہندوستان کے 9/11 کے طور پر دیکھا گیا۔ اس میں اسرائیلی شہریوں کے قتل کا صاف مطلب یہ تھا کہ نہ صرف اسرائیل ہمیشہ کے لیے اس منظرنامے سے منسلک ہوگیا بلکہ اسرائیلی انسداد دہشت گردی اور ہتھیاروں کی صنعت نے ہندوستان میں کاروباری مواقع کو فروغ دیا جو پہلے سے اپنی فوجی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کوشاں تھا۔

اس طرح ہندوستانی حکومت نے اسرائیلی انٹلی جینس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیا اور کڑی نگرانی میں بھاری سرمایہ کاری شروع کردی۔ اگلے ہی سال مہاراشٹر حکومت نے ’’شہری انسداد دہشت گردی اور ہوم لینڈ سیکورٹی‘‘ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کئی وفود اسرائیل بھیجے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے وقتاً فوقتاً شہر میں کمانڈو یونٹوں کو تربیت دینا شروع کیا جب کہ 2008 سے پہلے اس قسم کی کسی مشق کی نظیر موجود نہ تھی۔

حکومت مہاراشٹر کے اسرائیل کی طرف متوجہ ہونے کی ایک وجہ اسرائیل کے اسٹریٹجک اقدامات تھے، جس کی بدولت 26/11 کے بعد ہندوستان میں اسرائیل کی ہوم لینڈ سیکورٹی انڈسٹری کی رسائی کو بڑھاوا دینےکے لیے سرمایہ کاری کی گئی۔ 26/11 کے حملوں کے بعد چوں کہ ہندوستانی حکومت کے حفاظتی اقدامات پر عوامی سطح پر انگلیاں اٹھائی گئیں اور ہندوستانی دفاعی اقدامات کو فرسودہ اور دہشت گردانہ حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی قرار دیا جانے لگا تھا، اسرائیلی اہلکاروں نے ہندوستانی حکومت کو تکنیکی مدد کی پیش کش کی اور اسرائیلی سرمایہ داروں نے برملا اس دہشت گردانہ حملے کو تجارتی موقع کے طور پر استعمال کرنے کے اپنے عزائم کا اعلان کیا۔

بمبئی کے پولیس کمشنر ڈی سیوانندن اپنی ٹیم کے ہم راہ جب تربیتی مشق مکمل کرکے اسرائیل سے واپس آئے تو انھوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے یروشلم کے لیے اسرائیل کے سیکورٹی منصوبوں کا مطالعہ کیا، مزید کہا کہ وہ بھارت میں بعض اسرائیلی سیکیوریٹی تدبیروں کے نفاذ کی پرزور سفارش کرتے ہیں۔ ’’ہزاروں برسوں سے ہم [ہندوستانی] عاجزانہ طور پر دہشت گردانہ حملوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم کبھی کسی سے لڑنا نہیں چاہتے اور ہمارے پاس قتل و قتال کی جبلت ندارد ہے‘‘ ڈی سیوانندن نے کہا۔

2001 میں ہندوستانی حکام نے پارلیمنٹ پر حملوں کے بعد اسرائیلی کمپنی  ’’Nice Systems‘‘ کے ساتھ پہلے ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ نائس سسٹمز پہلے ہی ایفل ٹاور اور امریکہ کے مجسمہ آزادی کے علاوہ کئی اعلیٰ مقامات پر اپنے سیکوریٹی انتظامات کے تئیں شہرت رکھتی ہے۔

2012 میں ہندوستان کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)نے اسرائیل سائنس فاؤنڈیشن (ISF)کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کیے تاکہ گوناگوں شعبہ جات میں باہمی تعاون پر مبنی تحقیق کو فروغ دیا جا سکے۔

1990 کی دہائی کے وسط میں نئی دہلی نے اسرائیلی کاروباری اداروں سے ہندوستانی مصنوعات خریدنے کی اپیل کی۔ ہندوستانی برآمدات جو کپاس، دستکاری، اور دیگر اشیا پر مشتمل تھیں۔ دوسری طرف اسرائیل سے درآمدات کھاد، موتی، نیم قیمتی پتھر، وغیرہ سے عبارت تھیں، اگلی صدی کے آغاز تک دو طرفہ تجارت ڈیڑھ بلین ڈالر کے لگ بھگ ہوچکی تی۔ 2014 تک ہندوستانی اسرائیلی تجارت 4.52 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی، جس کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی فروخت پر مشتمل تھا۔

1997-2000 کے درمیان، اسرائیل کی 15% برآمدات نے ہندوستان میں اپنا راستہ بنالیا۔ اگلے پانچ برسوں میں، ہتھیاروں کی ترسیل 27 فیصد تک بڑھ گئی۔ 2006 میں اسرائیل کے اسلحے کی برآمدات کی مالیت 4.2 بلین ڈالر تھی جس میں سے ہندوستان نے اپنے طور پر 1.5 بلین ڈالر کی درآمدات کیں۔ 2003 اور 2013 کے درمیان ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں کا واحد سب سے بڑا خریدار بن گیا، جو کہ یہودی ریاست سے برآمد ہونے والے تمام ہتھیاروں میں سے ایک تہائی سے زیادہ ہے۔ پھر 2014 میں مودی اور بی جے پی نے ہندوستانی قومی انتخابات میں بھاری فرق سے کام یابی حاصل کی جس کی نظیر 1980 کی دہائی کے اوائل میں اندرا گاندھی کے وقت میں بھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ مودی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی صفوں میں ایک کل وقتی کارکن کے طور پر ابھرے اور پھر گجرات کے وزیر اعلیٰ بنتے ہوئے طوفان کی طرح دہلی میں داخل ہوئے۔ نریندر مودی نے واقعتًا ہندوستانی سیاست کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا۔

2014 میں اسرائیل اور غزہ جنگ پر ہندوستانی ردعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے، وال اسٹریٹ جرنل (WSJ) کے ایک کالم نگار سدانند دھومے نے لکھا ایسا لگتا ہے کہ دہلی کا ردعمل عوامی سطح کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے جسے بہت سے حکام پہلے ہی نجی طور پر تسلیم کرتے آرہے ہیں۔ فلسطینی کاز کے ساتھ اضطراری یکجہتی کے بجائے ہندوستان کے لیے اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک شراکت داری زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اسی تناظر میں بی جے پی کے حامی دہلی میں اسرائیل کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے اور ٹویٹر پر ‘IndiaWithIsrael ٹرینڈ کیا، دھومے کے مطابق بہت سے ہندوستانی فطری طور پر اسرائیل کے ساتھ مفادات کے قدرتی سنگم کو سمجھتے ہیں۔ اس موقع پر دہلی نے ایک قدم آگے بڑھ کر صیہونیت اور اسرائیل کے تئیں اپنی عوامی پذیرائی کو بڑھایا اور اپنی خارجہ پالیسی کو فلسطینی کاز کے لیے ایک متضاد اور اظہارِ ’’ہمدردی‘‘ تک محدود کر دیا۔

2014 میں، پنجاب پولیس نے ’’سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی آپریشنز‘‘ کی تربیت کے لیے اسرائیل کا سفر کیا۔ ایک سال بعد، انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) نے ایک سالانہ پروگرام شروع کیا جس میں حالیہ گریجویٹس کے لیے اسرائیل نیشنل پولیس اکیڈمی کے ساتھ ’’انسداد بغاوت کے بہترین طریقوں، کم شدت والی جنگ کا انتظام اور پولیسنگ اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ٹیکنالوجی کے استعمال‘‘ کا مطالعہ کرنے میں ایک ہفتہ گزارنا طے کیا گیا۔

پھر 2015 میں اسرائیلی فضائیہ کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیلی بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کا استقبال کیا اور اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کو اسرائیل میں ایئر فورس کے چیف کمانڈرز کنونشن میں روانہ کیا۔ دو برس بعد 2017 کے اواخر میں ہندوستانی پولیس اور اسپیشل گارڈ کمانڈوز جو انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، ان دونوں نے ایلیٹ اسرائیلی اسپیشل فورسز کے ساتھ تربیتی پروگراموں کا اعلان کیا۔ ’’دونوں ممالک کے کمانڈوز کے کردار ایک جیسے ہیں۔ ہم وہ کرتے ہیں جو دوسرے نہیں کر سکتے‘‘ ونگ کمانڈر کے بھرت نے یروشلم پوسٹ کو بتایا کہ ’’ہم یقینا امن پسند لوگ ہیں، لیکن ہمیں کسی بھی چیز کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘

2018 میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے ہندوستان کا دورہ کیا اور ہندوستانی حکومت کی طرف سے منظور شدہ رائسینا ڈائیلاگ کے تیسرے ایڈیشن میں شرکت کی، جسے نئی دہلی میں قائم سینٹر رائٹ تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (ORF) کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن اپنے آپ میں خود ایک چالاک تنظیم ہے جو راک فیلر فاؤنڈیشن سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کو ریلائنس کی جانب سے بڑے پیمانے پر مالیاتی سہارا دیا گیا، جو کہ بھارت کے سب سے امیر ترین گروپوں میں سے ایک ہے۔ ORF ہندوستانی خارجہ پالیسی پر غیر معمولی اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ وہ امریکہ میں ہیریٹیج فاؤنڈیشن جیسی دائیں بازو کی تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کرتی ہے جو ان کے نیوکون ایجنڈے کی علامت ہے۔

ماہ جون 2017 میں ریلائنس نے ’’انوویشن ٹیکنالوجی انکیوبیٹر‘‘ (innovation technology incubator) میں 20% سرمایہ کاری کی جس کی جزوی طور پر ملکیت (60%) یروشلم میں واقع ایک کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارمOurCrowd،  اور 20% ملکیت Motorola Solutions کی ہے۔ ریلائنس کے ترجمان نے اس ضمن میں کہا کہ انھیں اسرائیلی اسٹارٹ اپس پر اعتماد ہے جو اگلی نسل کی ڈیجیٹل خدمات کی فراہمی کے ذریعے منفرد قیمتی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ہندوستانی تاجروں کو چاہیے کہ اسرائیلی اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کریں۔ Motorola Solutions Israel جو کہ Motorola Solutions کا ذیلی ادارہ ہے، 2005 سے وائڈ ایریا سرویلنس سسٹم (WASS) فراہم کر رہا ہے، جسے MotoEagle کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ سسٹم اسرائیلی فوج کو فراہم کیے جانے والے دیگر مواصلاتی آلات کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ 126 ریلائنس ڈیفنس اینڈ انجینئرنگ لمیٹڈ نے 2018 کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ ہندوستانی فوج کے لیے ایک اسرائیلی کمپنی کے ساتھ مل کر کلاشنکوف تیار کرے گی۔

2021 میں میڈیا تنظیموں کے ایک عالمی ادارے نے انکشاف کیا کہ 40 سے زیادہ ممالک کی حکومتوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور یہاں تک کہ دنیا بھر کے عالمی رہ نماؤں کی جاسوسی کرنے کے لیے اسرائیلی انٹیلی جنس فرم NSO کے ذریعے فروخت کیے گئے ہیکنگ سافٹ ویئر کا استعمال کیا۔ ’’گاسس پروجیکٹ‘‘ نے انکشاف کیا کہ پیگاسس نامی سافٹ ویئر کے ذریعے 45 سے زیادہ ممالک میں تقریباً 50,000 فون نمبرات کو ممکنہ طور پر دنیا بھر کی عالمی سطح کی شخصیات کی جاسوسی کے لیے استعمال گیا ہے۔

ہندو قوم پرستی اور صیہونیت

جیسے ہی اولین جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا دنیا کا سیاسی جغرافیہ تشکیل نو کے عمل سے گزرنے لگا جس کا عالمی سطح پر قوم پرست تحریکوں پر گہرا اثر پڑا۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا۔ گاندھی کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس نے پہلی جنگ عظیم کے واقعات، اعلان بالفور، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور 1922 میں فلسطین کے تئیں برطانوی مینڈیٹ کے قیام کو ہندوستان پر برطانوی تسلط کو مسترد کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا۔ اس نے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ قریبی تعلقات اور سامراج مخالف ایجنڈے کے دعوے کو بھی فروغ دیا۔

ہندوستان برطانوی سلطنت کے تاج پر گویا جوہر کی حیثیت رکھتا تھا، صیہونیوں نے ہندوستان سے ابھرنے والے فن اور ادب دونوں پر توجہ دی، اور ساتھ ہی ساتھ ان عوامی تحریکوں پر بھی توجہ دی جن سے برطانوی سلطنت کو خطرہ لاحق تھا۔ انھوں نے یوروپی فاشسٹ تحریک کی تعریف کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کیا جس نے یورپی یہودیوں کے ساتھ ساتھ صیہونی منصوبے کو بھی نشانہ بنایا جو یہودیوں کے لیے ایک خصوصی وطن بنا کر یہودی مملکت کی نشاة ثانیہ کا خواب دیکھ رہا تھا۔

ہندو قوم پرستوں کے تئیں یورپ میں فاشزم اور صیہونیت دونوں کی حمایت نے انھیں یورپ میں دائیں بازو کے حمایتیوں میں شامل کرلیا اور عالمی نسلی اشرافیہ سے وابستہ ہونے کے لیے خود کو دوبارہ کھڑا کرنے میں مدد کی۔ ہربلاس سردا کی کتاب، (Hindu Superiority:  An Attempt to Determine the Position of the Hindu Race in the Scale of Nations)، میں مشہور ہندوستانی جج لکھتے ہیں کہ ہندو ماضی کی تعریف کرنے کی ان کی کوشش کا مقصد کسی مذہب یا قومیت کو نیست و نابود کرنا نہیں تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانوں، ترکوں اور دیگر لوگوں کی برائیاں ان کے اپنے مذہب کی بنا پر نہیں بلکہ تہذیب میں ان کی جہالت اور پسماندگی کی وجہ سے پائی جاتی تھیں۔ یہ یقینًا ایک نسلی، تہذیبی، ثقافتی برتری اور مسلمانوں کو ایک پسماندہ اور مسائل کی شکار اقلیت کے طور پر پیش کرنے کی ایک انتہا پسندانہ یورپی روایت کو اپنانے کی دعوت ہے جس نے ہندو قوم پرستوں کو یورپی نسلی فاشزم کی طرف راغب کیا۔

ہندوستانی ڈائسپورا اور اسرائیلی لابی

اس وقت امریکہ میں تقریباً 4.2 ملین ہندوستانی نژاد لوگ آباد ہیں، جن میں سے تقریباً  2.6 ملین امریکی شہریت کے حامل ہیں، ان میں سے اکثر لوگ بنیادی طور پر نیویارک اور نیو جرسی میں آباد ہیں، وہ ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ امریکہ میں دیگر چھوٹی برادریاں بھی آباد ہیں جیسے آرمینیائی اور یونانی برادریاں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی کے آخر میں ہندوستانی امریکیوں نے یہودی امریکیوں کو دیکھا اور پایا کہ یہ ایک چھوٹی، متمول اور سیاسی اثر و رسوخ کی حامل کمیونٹی ہے۔ جس طرح AIPAC ،ADL،  اور AJC جیسی اسرائیل نواز تنظیوں نے امریکہ میں اسرائیل کے لیے زمین ہم وار کرنے کا کام کیا تھا، اسی طرح  1990کی دہائی میں ہندوستان کو ہندوتوا کا گڑھ بنانے کے لیے ہندو قوم پرست تنظیموں کا ایک طویل سلسلہ تیار کیا گیا۔

یہ منصوبہ بھی آر ایس ایس کے سپرد کیا گیا۔ آر ایس ایس کی پہلی بین الاقوامی شاخیں کینیا اور میانمار میں 1947 کے اوائل میں قائم کی گئیں۔ ہندو سویم سیوک سنگھ (HSS)کو آرایس ایس کی بیرونی شاخ سمجھا جاتا ہے، اسے 1966 میں انگلینڈ میں قائم کیا گیا تھا۔ دوران امریکہ میں اسے 1989 میں ایک غیر منافع بخش تنظیم (NGO) کے طور پر قائم کیا گیا۔ اسی طرح، وشو ہندو پریشد آف امریکہ (VHPA) 1970 میں نیویارک شہر میں قائم کی گئی تھی۔

خلاصہ کتاب

یہ کتاب ان پیچیدگیوں کو سمجھنے کا ایک بہت اہم ذریعہ ہے جن کے ساتھ اسرائیل ڈیل کرتا ہے۔ اس کتاب نے علمی اعداد و شمار اور حوالہ جات کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی راہوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ہندوستانی سیاسی نظام میں ہندو قوم پرستوں کی نظریاتی اپروچ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے سے ہندوستان کو اسلاموفوبیا کے عالمی جال میں پھنسادیا ہے۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کو تختہ مشق بناکر وقتاً فوقتاً دنیا کے بعض خود مختار اور حساس ممالک میں اپنے ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے لیے کئی راستے تلاش کیے ہیں۔ ان میں بوسنیا، روانڈا اور میانمار بھی شامل ہیں۔ اس لیے اسرائیلی ہتھیاروں کی صنعت محض ٹیکنالوجی کا تعارف نہیں ہے بلکہ یہ اسرائیلی حکم رانی اور بالادستی کی طرف پیش قدمی ہے۔ اسرائیلی ہتھیار دنیا بھر میں آمرانہ حکومتوں کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ کتاب چشم کشا ثابت ہو سکتی ہے۔ محض احمقانہ بیان بازیوں اور سیاسی نوک جھونک کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی بصیرت میں گہرائی پیدا کریں اور باریک بینی سے حالات پر نظر رکھیں۔ انفراسٹرکچر پر گہری نظر، صحافیوں کو نشانہ بنانے اور گھروں کی مسماری یہ سب دراصل اسرائیلی تکنیکیں اور حربے ہیں۔ بلڈوزر بھی دراصل ایک درآمد شدہ ترکیب ہی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ کانگریس کی نام نہاد سیکولر دور حکومت میں بھی اسرائیل سے وقتی مفادات کے تحت ڈھکے چھپے کچھ تعلقات رہے، تاہم بی جے پی کے دور اقتدار میں حکومت ہند نے جس طرح بے باکی سے آگے بڑھ کر اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے ہیں اور اسرائیل کے تئیں جو موقف اپنایا ہے یہ ہندوستان کے تاریخی موقف کے ہوتے ایک بالکل اجنبی موقف ہے اور نہ صرف یہ کہ ہندوستانی قدروں کے خلاف بھی ہے بلکہ ہندوستانی عوام کے اکثریتی رجحان کے مغائر بھی ہے جو حقیقتًا ان کے ضمیر کی آواز ہے۔

یہ حقیقت کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے جب کہ ہندوستان ایک دستوری حیثیت کا حامل معزز ملک ہے اور ان دو متضاد فطرتوں کے حامل ملکوں کا اس قدر ایک دوسرے کے قریب آنا یقینا منفی نتائج کا حامل ہوگا۔ چناں چہ قوی امکان ہے اور اس امر کا مشاہدہ بھی کیا جارہا ہے کہ اسرائیل کے حکومتی ادارے ہندوستان کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں پر اثر انداز ہوتے ہوئے اپنے نسل پرستانہ خیالات و افکار کو یہاں منتقل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس نسلی عصبیت کےاثرات ہندوستان میں بھی محسوس کیے جانے لگے ہیں جو ہندوستان کی سالمیت کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ نسلی عصبیت کا مرض جمہوری اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر کے انھیں ظلم کا آلہ کار بنادیتا ہے۔ اسی لیے ہندو نیشنلسٹ ڈائسپورا کی لابی مغربی دنیا میں دلت اور آدیواسی طبقہ کے مسائل کو اجاگر کرنے سے کتراتی اور روکتی نظر آتی ہے۔

ہندوستان نے طویل جدوجہد اور قربانیوں کی بھاری قیمت ادا کرکے جس سامراجی ملک سے آزادی حاصل کی، اسی سامراجی ملک یعنی برطانیا نے فلسطین کی سرزمین پر ایک غاصب وجود یعنی اسرائیل کو جنم دیا۔ ہندوستان کو آزادی کی قدر کا امین ہونا چاہیے۔ اسرائیل سے اس کی دوستی خود اپنی تاریخَ آزادی کے ساتھ خیانت ہے۔

اگر مفادات کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو بھی ہندوستان کے اسلامی اور عرب دنیا سے خوشگوار تعلقات ملک کے مفادات کی زیادہ بہتر طریقے سے حفاظت کرسکتے ہیں۔ ایسے میں مسئلہ فلسطین کے تئیں جو دیرینہ ہندوستانی موقف رہا ہے وہ یقینًا گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ سراسر نفع کا ضامن اور ہندوستان کی عظمت کی علامت ہے۔

متعدد حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح اسرائیلی صیہونیت نہ صرف یہودیوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے خطرناک مضمرات کی حامل ہے، اسی طرح ہندوستان میں پنپنے والی ہنتو انتہا پسندی نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی امن وامان کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اسرائیلی فاشزم اور ہندتو فاشزم کے درمیان گہرے رشتے دنیائے انسانیت کے لیے اچھی خبر نہیں ہیں۔

[1] V.D. Savarkar (1923)’’Essentials of Hindutva,’’ Savakar, http://savarkar.org/en/index.html (last accessed October 2021).

[2] (M.S. Golwalkar (1939) We or our nationhood defined, 2006 edition, Pharos Publishing, Delhi, pp. 87–8.)

[3] (Theodor Herzl (1960) The Complete Diaries of Theodor Herzl, Book One:  May–June 1895, Theodor Herzl Foundation, Inc., New York, p. 56.)

مشمولہ: شمارہ جون 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223