جدید تصوراتِ جنس – تعارف و تجزیہ

(1)

انسانی تاریخ میں جنسیت، جنسی دائرے، جنسی تغیرات یا جدید اصطلاح میں کامل جنسیت (pan sexuality)پر اتنی کھلی، مدلل اور واضح نکات و مقاصد کے ساتھ بحث نہیں ہوئی تھی جتنی کہ آج ہورہی ہے۔ اور یہ بحث محض برائے بحث نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں جنسیت اور روایتی جنسی بیانیہ بالعموم حکومتی اور پالیسی سطحوں پر اپنی کشش کھوچکا ہے جس کا اظہار وہ سارے قوانین اور پالیسیاں ہیں جو اس سے متعلق بنائی گئی ہیں۔ خواص کی سطح پر روایتی جنسیت اور اس سے جڑے تمام تصورات عمل کی سطح پر شکست کھا چکے ہیں۔ عدالت میں بیٹھے جج صاحبان سے لے کر دنیا کے سب سے اچھے ریسرچ سینٹر اور یونیورسٹیوں میں سیکسوئل بائنری (جنسی دوئی یا یہ کہ جنسی تقسیم نر اور مادہ تک محدود ہے، اس کے علاوہ جنسیت میں کچھ اور شامل نہیں ہے) اور اس سے جڑے تصورات جنس کو قابل اعتنا ہی نہیں سمجھتے ہیں، اسے کسی خاطر میں نہیں لاتے اور اسے قابل تحقیق تک نہیں سمجھتے۔ نیز اس پر بات کرنے کو علمی بونا پن (intellectual dwarfism) سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بالمقابل جدید جنسی بیانیے +LGBTQ اور اس سے جڑے تمام تغیراتِ جنس کو قبول عام حاصل ہے۔

خواص سے ہٹ کر، عوامی سطح پر صورت حال الگ ہے۔ یورپی ممالک میں بڑی تعداد نے جنسیت کے جدید تصور کو بڑی حد تک قبول کیا ہے۔ کرسچین امریکہ، یعنی امریکہ کی وہ تمام ریاستیں جہاں عیسائی تصور حیات کو غلبہ و اثر حاصل ہے وہاں کے عوام میں اب بھی روایتی جنسی دوئی یعنی (مادہ و نر) اور ان کے اختلاط سے خاندانی وجود کے بیانیے کو تقویت حاصل ہے۔ عوام میں اب بھی اسے صحیح مانا جاتا ہے اور جدید جنسی بیانیے کو وہاں عوامی سطح پر زیادہ قبول عام حاصل نہیں ہے۔ مثلاً فلوریڈا، مونٹانا، نارتھ کیرولائنا، تینیسی، ساؤتھ ڈکوٹا۔ اس کے بالمقابل اوہائیو، الاسکا، مشی گن وغیرہ میں صورت حال جدید جنسی بیانیے کے حق میں ہے جہاں جنسی دائرے کے تمام افراد کے لیے بہتر قانونی اور عوامی حمایت حاصل ہے۔[1]

خالص علمی و تحقیقی دنیا میں بھی روایتی جنسی دوئی سے آگے بڑھ کر پین سیکسوئلٹی اور +LGBTQ پر غیر معمولی کام ہوا ہے اور اس کے ہر پہلو پر ہزاروں کی تعداد میں مقالے موجود ہیں، کانفرنسیں ہوتی ہیں، سیکسولوجی پر سیکڑوں مجلات ہیں اور ان سے متعلق بہت سے تصورات پر تحقیقی مقالے شائع ہورہے ہیں۔

ذیل کا جدول +LGBTQ کے مختلف پہلوؤں پر ہورہی تحقیقات اور ان کی تعداد کو دکھاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ اعداد امریکہ کی مشہور نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے ہیں جن میں صرف ثقہ جریدوں میں شائع ہونے والے مقالات ہی رکھے جاتے ہیں۔ [2]

اصطلاح/پہلو پر تحقیق کی ابتدامقالات کی تعدادجنسیت

+LGBTQ اصطلاح، پہلو
(تحقیق کے حوالے سے)

نمبر شمار
192747384ہم جنسیت (homosexuality)1.
193312155جنسیت2.
185353762Gay مردانی ہم جنسیت3.
194627594Lesbian نسوانی ہم جنسیت4.
1990/20001682+LGBTQ5.
2002460+LGBTQ اور صحت6.
2003360+LGBTQ اور دماغی صحت7.
2003149+LGBTQ اور تشدد8.

 

اوپر کے جدول سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جدید جنسی بیانیے پر غیر معمولی علمی کاوشیں ہوئی ہیں۔ اس میدان سے متعلق سیکڑوں محققین ہیں نیز محض سیکسولوجی پر تقریباً 62 تحقیقی مجلات موجود ہیں۔ یہ تعداد تو وہ ہے جو سائنسی مطبوعات کے ثقہ اصولوں پر پوری اترتی ہے، اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔

بات محض علمی کاوشوں ہی تک محدود نہیں۔ +LGBTQ کے حقوق کے لیے سیکڑوں بین الاقوامی تنظیمیں ہیں، لابیاں ہیں، حکومتی ادارے اور پالیسی ساز ادارے ہیں، بڑے تھنک ٹینک ہیں جو اس بیانیے سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ امریکی ریاست انڈیانا کے میئر پیٹر پال مونٹگمری بٹیکیگ سب سے پہلے اقبالی بائی سیکسوئل شخص ہیں۔

ہندوستان میں A Suitable Boy نامی ناول کے مشہور و معروف مصنف وکرم سیٹھ علی الاعلان ہم جنس پرست ہیں۔ ایڈز کے سلسلے میں عوام میں شعور کی بیداری کے لیے کام کرنے والے منویندر سنگھ گوہل، ہمسفر ٹرسٹ کے بانی اشوک رکاوی (ہمسفر ٹرسٹ ہم جنس پرستوں اور +LGBTQ کے سلسلے میں کام کرنے والا سب سے پہلا ہندوستانی ادارہ مانا جاتا ہے)، ملیالی اداکارہ انجلی امیر (ان کا تعلق ایک مسلم گھرانے سے ہے) یہ سب افراد اپنے آپ کو جنسی دوئی یعنی مرد و زن کی صنف میں نہیں رکھتے۔ یہ فہرست طویل ہے، ہم نے محض چند ناموں پر اکتفا کیا ہے۔

اس کے علاوہ +LGBTQ اور اس کے متعلقہ تصورات کے سلسلے میں +LGBTQ کے حقوق کے حوالےسے کام کرنے والی تنظیموں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ یورپ کی مشہور تنظیم الگا (International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Intersex – ILGA) کی شاخیں پوری دنیا کے 160 ممالک میں موجود ہیں۔ 1700 کے قریب رکن تنظیمیں ہیں۔ الگا اور اس سے متعلقہ تمام تنظیموں کا کام اقوام متحدہ میں +LGBTQ اور ان کے حقوق کے قوانین کے لیے کام کرنا ہے۔[3]

اس کے علاوہ امریکہ و بھارت میں بھی سیکڑوں چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں جو اس میدان میں کام کر رہی ہیں۔

اس سے یہ بات کھل کر آجاتی ہے کہ جدید جنسی بیانیہ محض کچھ علمی محققین کی دیوانگی، مغرب کی اباحیت زدہ تہذیب کا اہم مظہر، یا حد درجہ نفسانیت یا شہوت پرستی پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ان سب کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ اسے سنجیدگی سے سمجھنے اور اس پر صحیح رائے قائم کرنے اور اس کے تئیں صحیح رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے میں پہلا قدم اس جدید جنسی بیانیے کو اس کے صحیح مقام سے سمجھنا ہے۔

جدید جنسی بیانیہ اور اس کی اصطلاحات

یہ جاننے سے قبل کہ جدید جنسی بیانیہ کیا ہے، اس سے متعلق اصطلاحات و تصورات کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ LGBTQ+ اب ایک معروف اصطلاح ہے اور اس کے استعمال میں ایک اخلاقی بے حسی (moral immunity) مشرق و مغرب دونوں سماجوں میں در آئی ہے۔ یعنی عوام میں جو کراہیت اور ابا اس لفظ کے استعمال کے حوالے سے آج سے تین دہائیوں قبل تھی وہ اب باقی نہیں رہی۔

جدید جنسی بیانیے میں درج ذیل اصطلاحات قابل ذکر ہیں:

جنسی رخ بندی (sexual orientation): کسی شخص کا جذباتی یا/اور جسمانی طور پر اپنی یا دوسری صنف کے افراد کے تئیں ملتفت ہونا یا کشش رکھنا۔

جنسی شناخت (sexual indentity): یہ وہ لیبل ہے جو کوئی بھی فرد اختیار کرسکتا ہے تاکہ دوسروں کو بتاسکے کہ جنسی طور پر وہ کون ہے۔ افراد عام طور وہی جنسی شناخت اپناتے ہیں جس کی طرف ان کی جنسی رخ بندی ہوتی ہے، لیکن ایسا ہر بار نہیں ہوتا، بلکہ دنیا میں بڑی تعداد میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا جنسی رخ اور جنسی شناخت مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً بہت سے مرد اپنی صنف کے افراد میں کشش رکھتے ہیں اور بہت سی عورتیں اپنی صنف کے افراد میں۔ اور دونوں صورتوں میں مخالف صنف میں انھیں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔

صنفی شناخت (gender identity): صنفی شناخت دراصل وہ احساس ہے جو فرد کو اپنے مرد ، عورت ، یا دونوں میں سے کوئی صنف نہیں کے، حوالے سے ہوتاہے۔ اور یہ احساس ان کی طبعی جنسیت سے پرے ہوتا ہے۔ یعنی کوئی شخص جسمانی طور سے تو مرد ہوسکتا ہے، لیکن خود کو عورت محسوس کرسکتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔

صنفی اظہار (gender expression): آسان لفظوں میں کسی خاص ثقافتی ماحول میں اپنی صنف کے اظہار کے لیے اختیار کیے جانے والے تمام طور طریقوں کا نام صنفی اظہار ہے۔

نسوانی ہم جنسیے (lesbian): وہ عورتیں جو عورتوں کی طرف جنسی میلان رکھتی ہیں۔

مردانہ ہم جنسیے (gay): وہ مرد جو مردوں کی طرف جنسی میلان رکھتے ہیں۔

دو جنسیے (bisexual): وہ فرد جس کا مرد و عورت دونوں کی طرف جنسی میلان ہو۔

ہمہ جنسیے (transgender): وہ فرد جس میں مردانہ و زنانہ دونوں طرح کی خصوصیات پائی جائیں۔[4]

مذکورہ بالا اصطلاحات محض اصطلاحات نہیں بلکہ ان میں سے ہر اصطلاح مخصوص تصورات کا پس منظر رکھتی ہے۔ ان کا ارتقا ایک خاص مذہبی، تمدنی اور تاریخی سیاق میں ہوا ہے۔ ان کا ایک خاص پس منظر ہے اور خالص مادہ پرستانہ تہذیب سے عبارت ہے۔ اس تہذیب میں حاکمیت عوام کی یا فرد کی عقل کو حاصل ہے۔

ان اصطلاحات اور ان سے متعلق تصورات اور پس منظر سے جنسیت، جنسی دائروں اور جنسی متغیرات و انحرافات کا ایک پورا ڈسکورس کھڑا ہوتا ہے جس کے بنیادی نکات حسب ذیل ہیں :

جنسیت محض دوئی (بائنری) یعنی مادہ و نر یا مرد و زن کے اختلاط یا ان دو صنفوں تک ہی محدود نہیں بلکہ جنسی لذت اور جنسیت کے بہت سے شیڈ ہیں، بہت سے پہلو ہیں۔

روایتی جنسی دوئی (بائنری) محض ایک ثقافتی مظہر یا ایک سماجی تشکیل ہے اور ایک خاص مذہبی معاشرے کی دین ہے۔ یورپ کی نشاة ثانیہ اور عقل و استدلال کی مذہبی عقائد پر ’’غیر معمولی‘‘ فتح کے بعد اس روایتی جنسی دوئی سے چمٹ کر رہنا ٹھیک نہیں ہے۔

فرد اپنی جنسی شناخت، جنسی رخ بندی، جنسی میلان سب کچھ طے کرنے کے لیے آزاد ہے۔ وہ اپنی جنسی لذت کس طریقے اور کس کے ساتھ حاصل کرنا چاہتا ہے یہ فرد کا اپنا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کے لیے اسے کسی کی ہدایت یا رہ نمائی کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ کسی حکومت یا معاشرے کے کسی ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس سلسلے میں اس کی ذاتی ترجیحات میں رکاوٹ ڈالے۔

جدید جنسی بیانیہ ایسی تقسیم کو (جس میں جنسی دوئی اور صنفی دوئی شامل ہے) غیر ضروری قدیم، غاصب اور غیر ارتقا پذیر مانتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ جنس تلذذ کی آزادی درج ذیل خصوصیات کی حامل ہونی چاہیے:

الف۔ غیر محدود: یعنی اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ کون، کس کے ساتھ، کہاں، کیسے کی بیڑیاں جنسی تلذذ کے حصول میں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ اس کے حدود کا تعین کوئی مذہبی کتاب، کوئی ثقافتی منظرنامہ، کوئی تعزیری حکم، کوئی نظام قانون نہیں کرسکتا۔

ب۔ غیر مشروط: یعنی جنسی تلذذ کی آزادی کسی شرط کی پابند نہ ہو۔ ان شرطوں کا تعین زیادہ سے زیادہ، اس عمل میں شریک افراد ہی کرسکتے ہیں، معاشرہ، مذہب یا ریاست نہیں۔

ج – غیر جانب دار: جنسی تلذذ کے سارے پہلو ہر قسم کی جانب داری سے مبرا ہوں گے۔ یہ جانب داری سوسائٹی، مذہب اور اس کے قانونی پہلوؤں سے مخل نہیں ہوسکتی۔

جدید جنسی بیانیے کے مطابق +LGBTQ اور جنسیت کی تمام قسمیں درج ذیل تین پہلو اپنے اندر رکھتی ہیں :

الف – طبعی ہونا: یعنی سارے جنسی تغیرات (انحرافات) فطری/طبعی ہیں، یعنی یہ انسان کے بس میں نہیں ہیں۔ انسانی جنسی رخ بندی کروموسوم کی سطح پر یعنی سالماتی حیاتیاتی زبان میں جینز کی سطح پر طے ہوجاتی ہے (یہ ایک بہت بڑا سائنسی جھوٹ ہے، اس پر تفصیل اگلے مضمون میں آئے گی)، اس لیے جنسی دوئی سے باہر جتنے بھی جنسی رویے ہیں چاہے ان کا نام کچھ بھی ہو، طبعی ہیں۔ اس میں فرد کے ارادہ و اختیار کا کوئی دخل نہیں، ماحول کا کوئی دخل نہیں، جن ثقافتی حالات میں رہ کر وہ فرد اس صنفی شناخت تک پہنچا ہے اس کا کوئی دخل نہیں، جن حالات میں اس کی پرورش ہوئی، جس خاندان کی نگہ داشت اسے میسر ہوئی اس کا کوئی رول نہیں، بلکہ یہ خالصتاً طبعی ہے۔

ب۔ تاریخی تسلسل: یعنی سارے جنسی تغیرات بشمول ہم جنسیت، نسوانی ہم جنسیت، صنفی شناخت اور صنفی تصور تواتر کے ساتھ معلوم انسانی تاریخ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اتنی واضح اصطلاحات و تصورات کے ساتھ موجود نہ ہوں لیکن ان سے ملتے جلتے تصورات و اصطلاحات کے حوالے بہرحال تاریخ میں موجود ہیں۔ اس لیے ان سے نفرت کرنا، یا ابا کرنا، یا قابل نفریں سمجھنا غیر معقول ہے۔

ج- حیوانی دنیا میں موجودگی: جنسی تغیرات میں سب سے اہم تغیر یعنی مردانی ہم جنسیت کو حیوانی دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جنسیت کے ارتقا میں ایک خاصے (trait) کے طور پر رہا ہو۔ اور چوں کہ یہ ایک ارتقائی خاصّہ رہا ہے اس لیے یہ کوئی ’’ابنارمل‘‘ بات نہیں ہے۔

د- ارتقائی حیاتیات: یہ مانا جارہا ہے کہ ارتقائی حیاتیات جدید جنسی بیانیے کو تقویت پہنچاتی ہے، یہ بھی ایک بڑا سائنسی جھوٹ ہے (اس پر تفصیل آگے آرہی ہے)۔

متغیر جنسیت کے تصور کے حامی افراد مانتے ہیں کہ مذہب کے ذریعے دی گئی صنفی تقسیم اور اس پر اصرار کے نتیجے میں یہ دوئی سماج کے اخلاقی لینڈ اسکیپ میں اتنی راسخ ہوچکی ہے کہ اس دوئی کے باہر سماج کو کچھ اور قابل قبول نہیں ہے۔ بلکہ اس کے باہر سب کچھ قابل جرم اور قابل تعزیر ہے اور اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس دوئی کے باہر کے ہر رویے کو اپنانے والے کی پکڑ کی جائے، اسے سزا دی جائے، اسے مبغوض سمجھا جائے اور اس پر ظلم و ستم روا رکھا جائے۔

اس لیے +LGBTQ میلان رکھنے والے بیشتر افراد سخت مذہب بے زار اور مذہب مخالف ہوتے ہیں اور مذہب کو اپنے سماج کے لیے بڑا چیلنج اور خطرہ بتاتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ مذہب کے اس روایتی جنسی بیانیے کی بنا پر پوری انسانی تاریخ میں +LGBTQ پر ظلم و ستم کو روا رکھا گیا ہے۔

جنسی دوئی پر غیر ضروری اصرار اس دائرے کے باہر افراد پر غیر معمولی نفسیاتی، معاشرتی اور شناختی دباؤ ڈالتا ہے، جس سے ان افراد کو ایک نارمل زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔

روایتی صنفی یا جنسی دوئی پر حد درجہ اصرار اور اسے ہی درست ماننے کا رجحان اس کے باہر کے افراد کے انفرادی حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ یہ انھیں اپنی مرضی سے اپنی جنسیت چننے کا اختیار نہیں دیتا اور اس طرح بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہوتا ہے۔

پوری دنیا میں جب انسانی حقوق پر اتفاق پایا جاتا ہے تو پھر جنسی تغیرات والی اقلیتوں پر اس کا اطلاق کیوں نہیں کیا جاتا، کیوں ان اقلیتوں کے حقوق چھینے جاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھا جاتا ہے؟ اور کیوں ان کے تئیں غیریت برتی (othering) جاتی ہے؟ (انفرادی حقوق اور جنسی حقوق پر تفصیل آگے آئے گی)۔

جدید بیانیہ یہ کہتا ہے کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ +LGBTQ اور اس سے متعلق جنسی تغیرات محض جنسیت یا جنسی تلذذ تک محدود ہیں۔ نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ فرد کے اختیار و آزادی اور ایک ایسی زندگی جینے کے حق سے متعلق ہیں جس میں بھید بھاؤ اور امتیاز نہ برتا جائے (non-discriminating)۔ اس لیے اسے صرف تلذذ کی عینک سے دیکھنا ٹھیک نہیں ہے۔

اوپر دی گئی تفصیل کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ روایتی جنسی دوئی و صنفی دوئی اور جدید جنسی بیانیے میں نکات اختلاف (departure points)کیا ہیں۔ ذیل کے جدول میں اسے دکھایا گیا ہے:

جدید جنسیت، جنسی متغیرات بیانیہروایتی جنسیت/جنسی دوئی/صنفی دوئی بیانیہنمبر شمار
جنس دو نہیں ہیں، بلکہ جنسیت اور جنسی رویوں کو خانوں میں بانٹا ہی نہیں جاسکتا ہے، بلکہ جنسیت ایک مکمل خط ہے جس کے دو سروں پر مذکر اور مونث ہیں اور درمیان میں انگنت جنسی /صنفی رویے ہوسکتے ہیں۔جنس صرف دو ہیں، مذکر و مؤنث۔ اور جنسیت کے صرف دو ابعاد ہیں۔ ان دونوں ہی میں باہمی جنسی تلذذ کی اجازت ہے۔1
سارے جنسی و صنفی میلانات طبعی و فطری ہیں۔ انھیں بیماری نہیں کہا جاسکتا، بلکہ انھیں بیماری کہنا بہت بڑی زیادتی ہے۔مختلف جنسی رجحان جیسے مردوں کا مردوں کے تئیں میلان اور اس قبیل کے تمام میلانات غیر فطری اور غیر طبعی ہیں۔ وہ ایک طرح کا مرض ہیں، اور ان کا علاج کروائے جانے کی ضرورت ہے۔2
حیاتیاتی جنس اور صنفی شناخت دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ ماحول، خاندان وغیرہ سے متاثر نہیں ہوتی ہیں بلکہ کروموسوم کی سطح پر طے ہوتی ہیں۔حیاتیاتی جنس ہی دراصل صنفی شناخت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سب کچھ اضافی ہے اور ماحول کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔3
جنسی تلذذ فرد کا ذاتی حق ہے اور اس میں قانون اور سماج کی مداخلت انفرادی حقوق میں مداخلت ہے۔جنسی دوئی کے باہر جنسی تلذذ کا حصول غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر سماجی ہے۔4
جنسیت اور اس سے متعلق تمام پہلوؤں کو منضبط کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جنسیت اور اس سے متعلق تمام پہلوؤں کو قانونی اور سماجی (اور بعض حلقوں میں مذہبی) اصولوں کے تحت منضبط کرنا چاہیے۔5
عملی اور زمینی سطح پر ایسے کوئی نتائج دیکھنے کو نہیں ملے ہیں۔LGBTQ+ تولیدی ٹکنالوجیوں کا استعمال کرکے اپنے خاندان بناسکتے ہیں۔+LGBTQ اور اس قبیل کے تصورات کے عملی نتائج بہت بھیانک ہیں، اس سے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جائے گا۔6
جنسی بیماریوں کے لیے دیے گئے حفظان صحت کے اصولوں کا استعمال کرکے ان سے بچا جاسکتا ہے۔+LGBTQ کے ذریعے جنسی بیماریوں کا پھیلاؤ بہت تیزی سے ہوتا ہے/ہوا ہے۔7

 

اوپر دیے گئے جدول سے یہ بات صاف ہوگئی کہ روایتی جنسی بیانیے اور جدید جنسی بیانیےمیں کسی ایک نقطے پر بھی مماثلت نہیں پائی جاتی، بلکہ دونوں میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ لیکن کیا +LGBTQاور اس سے جڑے دوسرے جنسی متغیرات عین منطقی، سائنسی اور قابل توجیہ ہیں۔ کیا صحیح اور غلط سے پرے رہ کر بھی ان پر ایک منطقی (rational) نظر ڈالی جاسکتی ہے؟کیا طبعی علوم اور نفسیات کے تناظر میں +LGBTQ اور دیگر جنسی متغیرات اور مماثل جنسی کشش (same sex attraction)اور اس سے جڑے تصورات کو حق بجانب ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ ان کی بنیاد میں کون سے فلسفہ ہائے حیات کا نمایاں رول ہے؟ کیا شخصی جنسی آزادی کے دائرے سماجی اخلاقیات پر غالب ہونے چاہئیں ؟ اسی طرح، جنسی انحرافات اور نظام خاندان پر بہت سارے بیانیے سامنے آرہے ہیں۔ بعض حلقوں میں نظام خاندان کے تصور کو بحیثیت سماجی اکائی دیکھنے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ LGBTQ+ کے خاندانی امکانات پر بھی بعض تحقیقات سامنے آرہی ہیں، جن سے اس تصور پر از سر نو نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور پہلو جو سب سے زیادہ اور غیر معمولی علمی کاوش چاہتا ہے وہ صنفی دوئی، صنفی متغیرات اور جنسی دوئی اور جنسی متغیرات کے تصورات اور منظرناموں کے ساتھ مذاہب عالم کا تعامل ہے، بطور خاص ساختی مذاہب جیسے اسلام، یہودیت اور عیسائیت۔ اس میں سے بھی بطور خاص اسلام کے حوالے سے یہ تعامل اسلام کے حقیقت پسند اور ہر دم تازہ معاشرتی اصولوں کی حقانیت کو ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

جینڈر رول اور دیگر صنفی رخ لیے ہوئے بیانیوں میں اسلام کی پوزیشن کیا ہے اسے واضح اور غیر معذرت خواہانہ (unapologetic) انداز میں رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہومو فوبیا وغیرہ پر تو اسلام کی اصولی پوزیشن بہت واضح ہے لیکن دوسرے جنسی متغیرات اور ان کے مذہبی سماجوں کے ساتھ تعامل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آویزش (friction) میں اسلام کا موقف کیا ہے، اس پر اصولی اور علمی کام باقی ہے۔ آگے کے صفحات میں اسی کی سعی کی جائے گی۔ (جاری)

اگلی قسط

حواشی و حوالہ جات:

[1] https://www.rollingstone.com

[2] https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/?term=lgbtq

[3] https://ilga.org/member-organisations

[4] Fenway Guide to Lesbian, Gay, Bisexual, And Transgender Health, 2015 Makadon, H. J., Potter, K. H., Mayer, K. H., ‘ Gold hammer, N. 2015 2nd Edition: American college of physician Philadelphia Sheridan Books USA

مشمولہ: شمارہ جولائی 2022

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223