مقاصد۱ ؎ شریعت ۲ ؎،دراصل احکام شریعت کے باہم مربوط فہم کا اورجدید حالات و نئے مسائل میں احکام شریعت کی مثبت دریافت کا دوسرا نام ہے۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کو بہت سے پیچیدہ حالات ومسائل سے گزرنا پڑ رہا ہے (مثلا:معاشی معاملات،ملکی سیاست،اور بین الاقوامی تعلقات جیسے امور میں جو جدید مسائل درپیش ہیں)ان میں رہنمائی کے لئے مقاصد شریعت کی ایک وسیع تر فہرست کی ضرورت ہے۔
علامہ شاطبی نے ’’فی بیان قصد الشارع فی وضع الشریعۃ‘‘ میں مقاصد شریعت کی تین اقسام کا ذکر کیا ہے:
مقاصد شریعت
(۱)ــ’’ان تکون ضروریۃ‘‘:امر ضروری سے مراد وہ امر جس پر انسانوں کی زندگی کا انحصار ہو اور وہ ان کے مصالح کی استقامت کے لئے ناگزیر ہو۔ان معنوں میں امور ضروری پانچ قرار پاتے ہیں : ۱۔الدین ،۲ ۔ النفس،۳۔العقل،۴۔النسل،۵۔اور المال۔۳ ؎
ان امور خمسہ میں مقاصد شرعیہ کے انحصار کی دلیل ’’الاستقراء‘‘ہے ۔۴؎
(۲)’’ان تکون حاجیۃ‘‘:امر حاجی سے مراد وہ امر ہےجس سے انسانوں کو آسانی وآرائش حاصل ہو۔ تکلیفوں کو وہ برداشت کرسکیں اوربہتر زندگی بسر کریں۔یہ امور فرد وجماعت کے لئے ضروری ہیں۔یہ حاجتیں پوری نہ ہوں تو اجتماعی زندگی میں خلل واقع ہوتا ہے۔۵ ؎
ان امور میں عبادات، عادات، معاملات اور جنایات شامل ہیں ۔۶؎
(۳)’’ان تکون تحسینیۃ‘‘:امر تحسینی سے مراد وہ امر ہے جو جوانمردی،آداب واخلاق اور بہتر طور وطریق سے متعلق ہے۔
ان امور کا تعلق مکارم اخلاق سے ہے اور اجتماعی زندگی کا حسن انہیں امور پر قائم ہے۔یہ تحسینی امور انسانی تہذیب کی علامت ہیں۔۷ ؎
مقاصد شریعت کے فہم کا مقصودیہ ہے کہ ادلہٗ شرعی اور نصوص کی بنیاد پر احکام کا استنباط کیا جائے تاکہ مصالح حاصل ہوں اور عدل بین الناس کے تقاضے پورے ہوں۔ انسانوں کی ضروریات کی کفالت ہو اور ان کی احتیاجات دور ہوں۔
شارع نے جو بھی حکم شرعی دیا ہے وہ انسانی مصالح کے لئے دیا ہے ۔حکم کی تفہیم کے لئے حِس اور مشاہدے سےمدد لینی چاہیے۔ ان کے توسط سے ضروریات ،حاجات اور تحسینیات کی برہان حاصل ہوئی ہے۔شارع نے ضروری امور کی حفاظت کے لئے احکام نافذ کئے ہیں مصالح کا حصول نہ ہو تو فرد اورنتیجتاً معاشرے کی زندگی مختل ہوجائے۔۸ ؎
جناب نجات اللہ صدیقی لکھتےہیں:’’ اہل علم کے درمیان مقاصد شریعت کی فہرست میں توسیع کا رجحان پہلے سے موجود تھا وہ اب قوی تر ہوگیا ہے۔روایتی فہرست میں: دین، جان، عقل، نسل ،اور مال شامل ہیں۔ اب اُن کے ساتھ انسانی شرف وعزت ،آزادی ، انفرادی و اجتماعی حقوق کے تحفظ ، امن و امان اور نظم ونسق ، ازالہ غربت اور کفالت عامہ، دولت کی تقسیم میں ناہمواری کے ازالے اور بین الاقوامی سطح پرقیام عدل جیسے مقاصد کا اضافہ مناسب ہوگا۔مقاصد شریعت کے اس بیان سے اسلامی تحریکوں و انجمنوں کو اپنی ترجیحات مقرر کرنے میں مدد ملے گی ۔اور مسلمان افراد، گروہوں اور حکومتوں کو اپنے طرز عمل اور پالیسیوں کی از سر نو تحدید وتعیین میں آسانی ہوگی‘‘۔
موضوع کی اہمیت
مزید فرماتے ہیں: مقاصد شریعت،مصالح مرسلہ ،اسرار شریعت ،معانی و حکم جیسے الفاظ سے تعبیر کیا جانے والا یہ تصورمسلمان اہلِ علم میں ابتداء ہی سے موجود رہا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے جو احکام نازل فرمائے ان سے انسانوں ہی کی بہبودی اور کامیابی مقصود و مطلوب ہے۔ انسانو ں کے اخروی اور دنیوی مفادات سامنے رکھ کر انہیں احکام دئے گئے ہیں بعض کے بارے میں قرآن و سنت میں صراحتا بتلا دیا گیا ہے کہ اس سے انسانی زندگی میں کیا فائدے مرتب ہوں گے ۔بعض امور میں غور کرنے سےاحکام کے فوائد سمجھے جاسکتے ہیں ۔مصالح ومقاصد کی تفہیم کی اہمیت اس بنا پرہے‘‘۔
۱۔ مقاصد شریعت کاعلم ،احکام شریعت کے باہم ربط اور اہداف کو سمجھنا ،ممکن بنا دیتا ہے۔
۲۔’’مقاصد شریعت ،ان جدید مسائل میں حکم شریعت معلوم کرنے میں معاون ومددگار ہوتے ہیں جن کے بارے میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو ‘‘۔۹؎
قواعد
شریعت اسلامیہ کے تشریعی امور کی بنیاد چند اصول وقواعد پرمنحصر ہے:
(الف)’’المشقۃ تجلب التیسیر‘‘:یعنی مشقت کے ازالے کےلیے آسانی پیدا کی گئی ہے۔یہ سات صورتوں میں نمایاں ہے:
۱۔سفر میں قصر۔
۲۔ مرض ہونے کی حالت میں تیمم کی اجازت۔
۳۔مجبوری واضطرار میں بعض حرام اشیاء کا حلال ہوجانا۔
۴۔نسیان:بھول کر گناہ کا ارتکاب ہوتو خدا معاف کردیتا ہے۔
۵۔الجہل:لاعلمی کی بنیاد پر معصیت ۔(اس میں بھی روحِ شرع یسر کا تقاضا کرتی ہے)۔
۶۔عموم بلویٰ:ایک عام ناپسندیدہ صورت جو اتنی عام ہو اس سے احتراز ممکن نہ ہو سکے۔
۷النقص:بچے یا مجنوں سے تکلیف شرعی کا رفع ہوجانا۔
(ب)’’فی ما ہو حق اللہ وما ہو حق المکلف‘‘:حق اللہ مصلحت عامہ کی بناء پر قائم ہوتا ہے۔وہ صرف مکلف کی مصلحت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔مثلاً حدود شرعی کاقیام ۔۱۰؎
(ج)’’فیما یسع الاجتہاد فیہ‘‘: مختلف فیہ مسائل میں اجتہاد کی گنجائش ہوگی۔
اجتہاد کی تعریف:نص صریح نہ ہو تو دلائل شرعیہ کے ذریعہ استنبا ت واستخراج احکام کے لئے امکانی کوششیں صرف کرنا ۔اجتہاد کے لئے شرائط ہیں ۔ مجتہد میںضروری اوصاف ہونے چاہئیں؛چنانچہ اصولوں کی کتابوں میں اہلیت اجتہاد پر لکھا گیا ہے ۔مثلا لغۃ عربی کا عالم ہونا،قرآن مجید کا عمیق علم،سنت کا علم، وجوہ قیاس کا علم،علل وحکم شرعیہ کا علم،وغیرہ۔۱۱ ؎
(د)’’لا نسخ لحکم شرعی فی القرآن والسنۃ بعد وفات النبیﷺ‘‘۔ حضور ﷺ کی حیات میں جو نسخ کے مواقع آئے ان کی علت وحکمت کا علم مجتہد کے لئے ضروری ہے یعنی نسخ صریح کیا ہے ، نسخ ضمنی۔نسخ کلی نسخ جزئی اور یا نسخ بدل کیا ہے۔۱۲ ؎
(ہ)’’فی لاتعارض والترجیح ‘‘:دو نصوص میں بظاہر تعارض ہو تو ترجیح کا معیار کیاہوگا۔ علم الاصول میں اس سلسلے میں بصیرت افرزا بحثیں آئی ہیں۔۱۳۔
عصری رجحان
جناب نجات اللہ صدیقی لکھتےہیں:’’ بیسویں صدی کی درمیانی دہائیوں میں بوجوہ مسلمانوں کے درمیان غور وفکر کا عمل تیز ہوگیا ۔اور ایسا ہونے میں بہت سے عوامل کو دخل تھا۔بہت سے اسلامی ممالک جو مغربی سامراج کے زیر حکمراں تھے رفتہ رفتہ آزاد ہوگئے۔یہ سلسلہ ۱۹۴۵ء میں انڈونیشیا سے شروع ہوا اور ۱۹۶۳ء میں الجزائر کی آزادی پر مکمل ہوا ۔اس سے قبل عالم اسلامی میں تجدید واحیاء اسلام کے لئے کام کرنے والی متعدد تحریکیں بر پا ہوئیں ۔انقلاب روس کے بعد سرمایہ داری اور اشتراکیت کی کشمکش نے اہل اسلام کوبیدار کیا،کہ وہ اپنے ثقافتی ورثہ کا جائزہ لیں ۔نو آزاد مسلم ممالک کے سامنے جدید دستورکی تدوین اور سامراجی دور کے جملہ قوانین پر نظر ثانی کا مرحلہ در پیش تھا۔ اقلیتی مسلم معاشروں سمیت ہر جگہ نئے سوالات جنم لے رہے تھے جن کا تعلق معاملات،علاج ومعالجہ،دوردراز علاقوں میں سفر وغیرہ سے ہوتاتھا۔ مفتیان کرام کو ان کے جواب نہ ملتے،تو کتابوں سے ہٹ کر سوچنا پڑتا‘‘۔۱۴ ؎
مزید فرماتے ہیں: ’’ غرض یہ کہ روزمرہ زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل ہوں یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ابھرنے والے جدید مسائل، فقہی مشکلات ہوں یا دعوتی امنگیں،ہر طرف سے جدید غور وفکر کا مطالبہ کیاگیا۔ چنانچہ ہر سطح پر غور وفکر اوربحث و مباحثہ کا آغاز ہوا۔ مجالس مذاکرہ،اورمراکز بحث و تحقیق کے قیام کا ایک سلسلہ چل پڑا‘‘ ۔۱۵ ؎
جناب نجات اللہ صدیقی لکھتےہیں:’’ تجدید واحیاء دین کی اسلامی تحریکوں نے بھی نئے حالات میں جدید سوچ کی ضرورت محسوس کی۔ان حالات میں اختلافات کا پایا جانا فطری بات تھی۔چنانچہ سیاست میں حصہ لینے ،مسلم اکثریتی ممالک میں موقع ملنے پر حکومت میں شریک ہونے، حکمرانوں کی ستم رانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بوقت ضرورت قوت کا استعمال کرنے جیسے امور پر اسلامی تحریکی صفوں میں گرما گرم بحثیں جاری ہیں(جن کا اظہار اوقات کتابوں اور مقالات کے ذریعے بھی ہوتا رہا ہے)۔ تقریبا تمام تحریروں اور تقریروں میں مقاصد شریعت اور روحِ دین کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔‘‘۱۶ ؎
مقاصد شریعہ کی اصطلاح
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی کے بقول:’’مقاصد شریعت کی اصطلاح سب سے پہلے امام الحرمین الجوینی(م۴۷۸ھ/۱۰۸۵ء)نے استعمال کی۔اصول فقہ پر ان کی کتاب’’البرہا ن فی اصول الفقہ‘‘ میں مقصد ،مقاصداور قصدجیسے الفاظ کثرت سے استعمال کئے گئے ہیں۔۱۷؎ مگر جدیداجتہاد کے آلہ کے طور پر مقاصد شریعت کا مؤثر استعمال ان کی دوسری کتاب الغیاثی (غیاث الامم فی التیاث الظلم، قطر: ۱۴۰۱ھ)میں کیا گیا ہے۔ ۱۸ ؎ اس کے بعد امام الجوینی کے شاگرد ابو حامد الغزالی (م۵۰۵ھ /۱۱۱۱ء ) نے مقاصدشریعت کے علم کو باضابطہ شکل دی۔وہ لکھتے ہیں:
مصلحت سے ہماری مراد مقصود شریعت کی محافظت ہے،اور شریعت کا مقصد خلق خدا کے سلسلہ میں پانچ چیزوں سے عبارت ہے: ۱۔دین،۲۔جان،۳۔عقل،۴۔نسل،۵۔مال کی حفاظت کی جائے۔ہر وہ چیز جو ان پانچ چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوگی مصلحت کہلائے گی۔اور ہر وہ چیز جو ان کے لئے خطرہ ہوگی ،مفسد شمار ہوگی جسے دور کرنا مصلحت قرار پائے گا۔۱۹ ؎
ان کی تحریروں پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ امام غزالی نے مصالح اور مقاصد کے تصور کو یکجا کیا مقاصد شریعت کے علم کا آغاز کیااوراس علم کا اصول فقہ کا اہم ستون ہونا واضح کیا۔
امام غزالی کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مصالح یا مقاصد کی ایک فہرست مرتب کردی جو آج تک ہماری رہنمائی کر رہی ہے۔امام غزالی نے یہ بھی بتایا کہ مصلحت پہچانی کیسے جاتی ہے؟’’ہم نے مصلحت کا مدار مقاصد شریعت کے تحفظ پر رکھا ہے اور مقاصدشریعت کو کتاب وسنت اور اجماع امت کے ذریعہ جانا جاتا ہے۔چنانچہ کوئی ایسی مصلحت، معتبر نہیں جس کا تعلق کسی ایسے معروف مقصد کی حفاظت سے نہ ہوجسے کتاب و سنت اور اجماع امت سے سمجھا گیا ہوگویا وہ ایسی نامانوس مصلحت ہو جو شریعت سے مناسبت نہ رکھتی ہو ۔ ایسی مصلحت باطل ہے اسے رد کیا جائے گا جو اس کی پیروی کرے گا وہ بدعت کا مرتکب قرار پائے گا۔۲۰ ؎
جس امر کو امام غزالی نے ’’مصلحت مرسلہ ‘‘ کا نام دیا ہے اور جسے وہ مقاصد شرعیہ کے ہم معنی قرار دیتے ہیں اس کا تصور اور اس کا انطباق ’’امام مالک ؒ‘‘(م۱۷۹ھ/۷۹۶ء)کے یہاں موجود ہے۔ ان سے پہلے امام ابو حنیفہؒ (۱۵۰ھ/۷۶۷ء)استحسان کا تصور سامنے لاچکے تھے ۔ اسلامی قانون سازی (پیش آمدہ مسائل میں حکم شرعی کی دریافت )میں یہ تصورات وہی کردار ادا کرتے ہیں جو مقاصد شریعت سے متوقع ہے۔یعنی صریح نص کی غیر موجودگی میں حکم تک رسائی ،یا موجود حکم کےبجائے دوسرا حکم اختیار کرنا۔۲۱ ؎
بظاہر امام شافعی ؒ کا مسلک اس سے مختلف ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کے یہاں بھی قیاس کی بنیاد اکثر ان حکمتوں اور مقاصد پر ہوتی ہے جو اس حکم کا سبب بنتے ہیں جس پر قیاس کیا جا رہا ہے۔
مقاصد شریعہ کی جانب حالیہ توجہ
جناب نجات اللہ صدیقی لکھتےہیں:’’ ہر دور و زمانہ کے علمائے کرام نے احکام شریعت کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ لیکن(بدلے ہوئے حالات میں اجتہاد میں معاون تصور کے طور پر ) پچھلے سو برسوں میں مقاصد شرعیہ کی جانب توجہ زیادہ رہی۔ تونس میں ۱۹۶۶ء میں محمد بن العاشور (۱۸۷۹-۱۹۷۳ء)نے اس اہم موضوع پر ایک کتاب ’’مقاصد الشریعۃ الاسلامیہ‘‘کے نام سے شائع کی۔ اس میں قرآن کریم کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہوئے بحث کی جن میں فساد فی الارض کی مذمت کی گئی ہے ۲۲ ؎،اور زمین کو فساد سے پاک صاف رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۲۱ ؎ ، اسماعیل الحسینی نے’’نظریۃ المقاصد عند الامام محمد بن العاشور‘‘ نامی کتاب واشنگٹن سے ۱۹۹۵ء میں شائع کی۔۲۳ ؎
مراکش کے علّال الفاسی (۱۹۰۸-۱۹۷۴ء)نے بھی اس موضوع پر ’’مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ومکارمہا‘‘نامی کتاب شائع کی ،جس میں انہوں نے عدل وانصاف ،فکری آزادی اورنفسیاتی اطمینان وسکون کو مقاصد شریعت میں شمار کیا‘‘۔۲۴؎
ہندوستان کی صورتحال
مقاصد شریعت ،مصالح امت،روح اسلام جیسے تصورات کا تعلق صرف معروف ’’فقہی مسائل‘‘سے نہیں ،بلکہ مسلمانوں کے فکر وعمل کے ہر پہلو سے ہے۔(یہ بات اصولی طور پر قرآن وسنت کی روشنی سے ثابت ہے)۔ مسلمانان عالم کے گذشتہ صدی کے عمل اور تعامل نے اسے عملی سطح پر بھی ثابت کیا ہے۔ ہندوستان میں اسلام کا عائلی قانون(مسلم پرسنل لا)اس وقت نازک اور فیصلہ کن مرحلہ سے گذر رہا ہے۔انگریزوں کی غلامی کے دور میں ہمارے بزرگوں نے تحفظ شریعت کے میدان میں جو کچھ حاصل کیا تھا، ملک کی آزادی کے بعد مسلمانان ہند کے لئے اس کو باقی رکھنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔
۱۹۳۷ء کا اطلاق شریعت ایکٹ موجودہ ہندوستان میں تحفظ شریعت کی اساس ہے ، لیکن اب عدالتوں کے مختلف فیصلوں اور حکومتوں کے وضع کردہ قوانین اور احکام کی زد میں آکر یہ ایکٹ حرف بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ طلاق کے بارے میں مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلے ، اسلام کے قانون کومجروح کر رہے ہیں ،اور مسلمانوں کے عائلی قوانین کو کتاب وسنت کی صراط مستقیم سے ہٹا نے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہندوستانی مسلمان اپنے طور پر اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہونے کی جو کوششیں ،نظام قضاء ،شرعی پنچایت، اور دار الافتاء وغیرہ کے ذریعہ کر رہے ہیں ان پر پابندی عائد کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک کیس، دارالقضاء، دارالافتاء پر پابندی عائد کرانے اور انہیں غیر قانونی قرار دینے کے لئے دائر ہے۔
شبنم نامی ایک خاتون نے مسلمانوں پر تبنیت(لے پالک) کا قانون نافذ کرانے کے لئے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے ۔کیرالا کی ایک نام نہاد مسلم تنظیم نے کیرالا ہائی کورٹ میں اسلام کے قانون میراث کو چیلنج کیا ہے۔
شاہ بانو کیس کے فیصلہ سے جو طوفان اٹھا وہ تھمنے کا نام نہیں لیتا،بلکہ اس کی طغیانی پڑھتی جا رہی ہے ۔
ان حالات کے تناظر میں زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ عامۃ المسلمین ہی نہیں خواص امت بھی پیچیدہ حالات ومسائل سے باخبر نہیں ہیں۔ بسااوقات مسلکی اختلافات کی بناء پر مختلف بیانات سامنے آتے ہیں جن سے امت مسلمہ کو شرمندگی اور سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ عصر حاضر میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مقاصد شریعت کے تصور کا فہم عام کیاجائے ۔ اُس کے طریقہ کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے اور آداب و ضوابط از سر نوتشکیل دئے جائیں۔
حوالہ جات
۱۔جمع مقصد،و ہو:الوجہہ،او المکان المقصود۔وفی الاصطلاح،انہا المعانی والحکم الملحوظۃ للشارع فی جمیع الاحوال التشریع او معظمہا،بحیث لا تختص ملاحظتہا بالکون فی نوع خاص من احکام الشریعۃ‘‘المعجم الوسیط،ص۷۶۵،بیروت:مجمع اللغۃ العربیہ،الطبعۃ الخامسۃ،۲۰۱۱ء؛الطاہر بن عاشور:مقاصد الشریعۃ الاسلامیہ،ص۵۱،تونس:نشر الشرکۃ التونسیہ للتوزیع،۱۹۷۸ء۔
۲۔شریعۃ: ویقال ایضا’’شرع‘‘(مصدر فی الاصل):’’ہی لغۃ الطریق الی مورد الماء، والطریق والواضح الذی یجب سلوکہ ،والطریق الذی یجب علی المؤمنین ان یتبعوہ؛والدیانۃ الاسلامیۃ‘‘دائرۃ المعارف الاسلامیۃ(عربی)۱۳/۲۴۲،لجنۃ الترجمہ،۱۹۳۳ء۔
واصطلاحا :’’القانون المعترف بہ فی الاسلام،وہو جملۃ احکام اللہ( ونستعمل کلمۃ ’’شریعۃ‘‘ایضا فی الدلالۃ علی الحکم الواحد،والجمع شرایع=احکام،وہو یستعمل فی معنی الشریعۃ) وترادف کلمۃ’’شریعۃ‘‘کلمۃ’’شرعۃ‘‘التی کانت تستعمل ایضا بمعنی العادۃ واصبحت فی بعد کلمۃ مہجورۃ‘‘دائرۃ المعارف الاسلامیۃ(عربی)۱۳/۲۴۲لجنۃ الترجمہ،۱۹۳۳ء۔
۳۔ شاطبی:الموافقات فی اصول الفقہ،۲/۷(تحقیق:عبد اللہ الدراز،بیروت:دار الکتب العلمیہ،بدون سن؛الشوکانی:ارشاد الفحول الی تحقیق علم الاصول،ص۲۶۶(تحقیق:ابو مصعب محمد العبدی)بیروت:دار الکتب العلمیہ،۱۹۹۲ء۔
۴۔’’الاستقراء -ادلۃ الشریعۃ-الکلیۃ والجزئیۃ- ثبت قطعا من الشارع قاصد الی حفظ المصالح الضروریات والحاجیۃ والتحسینیۃ‘‘فوزی بالثابت:فقہ مقاصد الشریعۃفی التنزیل الاحکام او فقہ الاجتہاد التنزیل،ص۲۴۶،بیروت:مؤسسۃ الرسالۃ،المطبعۃ الاولی ،۲۰۱۱ء؛ الجرجانی : کتاب التعریفات ، ص۳۸(تحقیق:ابراہیم الابیاری)بیروت:دار الکتب العربی الطبعۃ الخامسۃ،۱۹۹۸ء
۵۔الغزالی:المستصفی فی اصول الفقہ،۱/۲۹،قاہرہ:مطبعۃ الامیریہ،بولاق،۱۳۲۳ھ
۶۔الغزالی:المستصفی فی اصول الفقہ،۱/۲۸۷،قاہرہ:مطبعۃ الامیریہ، بولاق، ۱۳۲۳ھ؛شاطبی: الموافقات،۲/۸؛الشوکانی:ارشاد الفحول،۳۷
۷۔فوزی بالثابت:فقہ مقاصد الشریعۃ فی تنزیل الاحکام او فقہ الاجتہاد التنزیل، مقدمہ۸ ،بیروت : مؤسسۃ الرسالہ،المطبعۃ الاولیٰ،۲۰۱۱ء
۸۔للتفصیل:احمد العلیان:تاریخ التشریع والفقہ الاسلامی،الریاض:دار اشبیلیا،الطبعۃ الاولیٰ، ۱۴۲۲ھ
۹۔فوزی بالثابت:فقہ مقاصد الشریعۃ فی تنزیل الاحکام او فقہ الاجتہاد التنزیل، مقدمہ۸، بیروت: مؤسسۃ الرسالہ،المطبعۃ الاولیٰ،۲۰۱۱ء
۱۰۔دائرۃ المعارف الاسلامیہ(اردو)ج۱۴/۲۰،علم(علوم الفقہ)،لاہور:پنجاب یونیورسٹی،طبع الاول،۱۹۸۰ء
۱۱۔فوزی بالثابت:فقہ مقاصد الشریعۃ فی تنزیل الاحکام او فقہ الاجتہاد التنزیل،ص۹۵، بیروت: مؤسسۃ الرسالہ،المطبعۃ الاولیٰ،۲۰۱۱ء
۱۲۔دائرۃ المعارف الاسلامیہ(اردو)ج۱۴/۲۱-۲۲علم(علوم الفقہ)،لاہور:پنجاب یونیورسٹی، طبع الاول،۱۹۸۰ء
۱۳۔للتفصیل کے اصول فقہ کی کتب کا مطالعہ مفید ہوگا، مثلا:
۱۔الآمدی:الاحکام فی اصول الاحکام،بیروت:دالر الکتب العلمیہ،۱۹۸۰ء
۲۔ابن تیمیہ:مجموع الفتاویٰ۔ج-ت:عبد الرحمن بن محمد العالمی،القاہرہ:ادارۃ المساحۃ العسکریہ،۱۴۰۴ء
۳۔الشاشی:اصول الشاسی،بیروت: دارالکتب العربی،۱۹۹۶ء
۴۔الشافعی:الرسالہ(تحقیق:خالد السبع العلمی وآخر)بیروت:دارالکتب العربی،۱۹۹۹ء
۵۔القرطبی:الجامع لاحکام القرآن،القاہرہ:دارالحدیث،۱۹۹۴ء
۶۔ابن قیم:اعلام الموقعین عن رب العالمین(تحقیق:محمد المعتصم باللہ البغدادی) بیروت:دارلکتب العربی،الطبعۃ الثانیہ،۱۹۹۸ء
۱۴۔للتفصیل:صدیقی،نجات اللہ:مقاصد شریعت،ص۶۹،نئی دہلی:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،۲۰۰۹ء
۱۵۔للتفصیل:صدیقی،نجات اللہ:مقاصد شریعت،ص۷۰،نئی دہلی:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،۲۰۰۹ء
۱۶۔نفس مصدر ۱۷۔الجوینی:البرہان فی اصول الفقہ
۱۸۔للتفصیل:صدیقی،نجات اللہ:مقاصد شریعت،۲۱،نئی دہلی:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،۲۰۰۹ء
۱۹۔الغزالی:المستصفی فی اصول الفقہ،۱/۲۸۷،قاہرہ:مطبعۃ الامیریہ،بولاق،۱۳۲۳ھ
۲۰۔نفس مصدر:۱/۳۱۰
۲۱۔امام مالک ؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ کے فقہی کارناموں میں مصالح مرسلہ اور استحسان کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ابو زہرہ کی کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔مثلا ،امام مالک ،قاہرہ:دارالفکر العربی،۱۹۵۲ء؛امام ابو حنیفہ،قاہرہ:دارالفکر العربی،۱۹۷۷ء
۲۲۔قرآن کریم کی مختلف آیات کو ملاحظہ کیجئے،مثلا:
سورہ بقرہ،آیات:۱۱،۲۷،۶۰،۲۰۵،۲۵۱،وغیرہ
سورہ المؤمنون،آیت:۷۱
سورہ الاسراء،آیت:۴
سورہ الاعراف،آیات:۵۶،۷۶،۸۵،۱۲۷،وغیرہ
سورہ محمد،آیت:۲۲
سورہ یوسف،آیت:۷۳
سورہ الرعد،آیت:۲۵
سورہ الشعراء، آیات:۲۶۲،۱۸۳
سورہ النمل، آیت:۴۸
سورہ المائدہ، آیت:۳۲،۳۳،۶۴،
سورہ الانفال، آیت:۷۳
سورہ ہود،آیات:۸۵،۱۱۶
سورہ القصص،آیات:۷۷،۸۳
سورہ الغافر، آیت:۲۶
سورہ الکہف،آیت:۹۴
سورہ العنکبوت،آیت:۳۶
سورہ ص ٓ، آیت:۳۸
۲۳۔دیکھئے:مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ،تونس:۱۳۶۶ھ۔
۲۴۔دیکھئے:نظریۃ المقاصد عند الامام محمد بن العاشور،واشنگٹن:المعہد العالمی للفکر الاسلامی،۱۹۹۵ء
۲۵۔دیکھئے:مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ومکارمہا،مراکش:دارالبیضاء،۱۹۸۳ء
مشمولہ: شمارہ مارچ 2018