مولاناسیدابولاعلیٰ مودودی ؒ کی بہت سی حیثیتیںہیں۔ مفسرقرآن،سیرت نگار، دینی اسکالر،اسلامی تہذیب وتمدن اورنظامِ سیاست و معیشت کے شارح، برعظیم کی ایک بڑی دینی وسیاسی تحریک کے موسس وقائد، ایک نام ورصحافی اوراعلیٰ پائے کے انشاپرداز۔۔۔فکری اعتبارسے وہ بیسویںصدی کے بڑے متکلمِ اسلام تھے۔
انیسویںصدی عیسوی میں مسلم اقوام اورممالک پرمغرب کی یلغاراپنی نوعیت کے اعتبار سے صرف فوجی، سیاسی اوراقتصادی ہی نہیں ، ثقافتی اورمعاشرتی یلغار بھی تھی۔ مغربی غلبے کے دیرپااثرات مسلم ممالک سے غاصب فوجوں کی واپسی کے بعدبھی برقرار ہیں۔ مادی واخلاقی نتائج کے اعتبارسے مغرب کی اتنی ہمہ گیر یلغار کے خلاف جدوجہد کرناہی ، انیسویںصدی کی اسلامی فکر اورتحریکوں کااصل مقصد رہاہے۔ عرب دنیا کے مختلف خطوںجیسے شمالی افریقہ میںمحمد بن علی سنوسی ، سوڈان میں محمد احمد مہدی، اورمتعدد ممالک میں سرگرم عمل جمال الدین افغانی کی صورت میں عظیم رہ نماؤں نے اس سلسلے میں شاندار کرداراداکیا۔ خالص فکرودانش کی سطح پرفلسفی شاعر علامہ محمداقبالؒ نے اہم کرداراداکیا۔ ان کے اثرات صر ف اپنے وطن برعظیم ہندوپاک ہی تک محدود نہیں تھے ،بلکہ انہوںنے درجہ بدرجہ کئی اور خطوں کے مسلمانوں بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کومتاثرکیا۔
اسلامی احیائی تحریکوں اورمفکروں نے سب سے پہلے مسلمانوں کومغربی یلغارکے خلاف متحرک کر نے کی کوشش کی۔ اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں پر زوردیاکہ وہ مغربی طاقتوں اورتہذیب کے ان نمایا ں عناصر سے استفادہ کریں جنھیں اسلامی ذرائع سے حاصل کرکے نشوونمادی جاسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی اشرافیہ اورعوام پر مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات نہ صرف ظاہری اوربالائی سطح پر نمایاں تھے، بلکہ دلو ں اور دماغوں میں بھی راسخ ہورہے تھے۔اس صورت حال کو دیکھ کر احیائے اسلامی کی جدوجہد میں مصر و ف بہت سے مسلمان مفکروں نے بحیثیت مجموعی بے شمار محاذوں پرمغربی تہذیب کے خلاف آواز اٹھائی اور اسے مسترد کیا،سوائے اس کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے۔ مولاناسیدابولاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تحریروں میںمغربی تہذیب کودنیامیںاُبھرتی ہوئی ’جدید جاہلیت‘ کے روپ میں پیش کیا۔ انہوں نے اس مسئلے پرنہایت واضح ،ٹھوس اورمعروضی انداز میں بحث کی،جواپنے استدلال ، نفس مضمون اورابلاغی سطح پر بہت موثر ہے۔ وہ مغربی تہذیب کے بارے میں اپنے تاریخی ،نفسیاتی اورمعاشرتی مشاہدات بیان کرتے وقت، اپنے تعلیم یافتہ قارئین اورمخاطبین کی ذہنی وعلمی دیانت کا پوری طرح احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے متعلق سیدمودودیؒ کایہ تجزیہ بہت منفرد اورنمایاں ہے کہ جدید جاہلیت کے نشووارتقا میں مغربی تہذیب ایک موثرعامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کایہ تجزیہ نام نہاد جدید پسندوں اورقدامت پسندوں ،دونوں سے مختلف ہے۔
مغربی تہذیب کاپوری طرح تنقیدی جائزہ لیناضروری ہے اوراس کے ساتھ اس کاتجزیہ بھی ۔ مغربی سماجی زندگی کویقینا مسترد کردیناچاہے لیکن ’خُد ما صَفا وَدَع ماکدر‘ کے اصول کے تحت مسلمانوں کو اس کی سائنس ،ٹیکنالوجی اورتنظیم وانتظام کے بہتر تکنیکی طریقوں کو ضرور اپنا لینا چا ہیے ۔ درحقیقت یہ بنی نو ع انسان کااجتماعی ورثہ ہے جس کی تعمیر میںمسلمانوں سمیت سب قوموں نے حصہ لیاہے۔ اوراس اقدام کامقصدیہ ہوناچاہیے کہ عصر حاضرکے تبدیل شدہ حالات میںپوری نوع انسانی کی زندگی کواسلامی تصورات کے مطابق ڈھالا جاسکے اوراسے ایک زندہ حقیقت بنادیاجائے۔
سیدمودودی ؒ نے اپنے قارئین کوجرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کے فلسفۂ تاریخ ،برطانوی سائنس داںچارلس ڈارون کے نظریۂ انسانی ارتقا اورجرمن نژاد اشتراکی مفکر کارل مارکس کی تاریخ مادیت سے متعارف کرایا۔یہی وہ مغربی مفکرین تھے جن کے افکار وتصورات نے اخلاقی اقدار، معاشرے اور سیا ست پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے اورجس کے نتیجے میںافادیت پسندی، لذت پرستی اور انتہا پسندانہ قوم پر ستی اورسیکولرز م کوغلبہ حاصل ہوا۔اس طریقے سے مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب کو محض غیروں یا غیر مسلموں اوراسلام کے دشمنوں کے ذہن کی پیداوار کے طور پرپیش نہیں کیا ، بلکہ اسے اس نقطۂ نظر سے نقدوجرح کانشانہ بنایا ہے کہ یہ پوری انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ انھوںنے ثابت کیاکہ یہ تہذیب محکو م مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ،حکمراںاہلِ مغرب کے لیے بھی ضرررساں ہے۔ اس کے منفی اثرات انسانی زندگی کے اخلاقی ،تہذیبی ،اقتصادی ،قانونی اورسیاسی ،ہرشعبے پرمرتب ہورہے ہیں ۔ انھوں نے مسلمانوں کے تہذیبی زوال اوراس کے اسباب کاگہرا مطالعہ کرنے اوراسی طرح مغربی تہذیب اوراس کے مثبت پہلوؤں کامطالعہ کرنے کی دعوت دی۔
سیدمودودیؒ نے ایک طر ف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تصور کوواضح کیا اور بتایاکہ اسی تصور کے تحت انسان زمین پراس کانائب ہے،تاکہ وہ زمین پراللہ تعالیٰ کاقانون جاری کرکے اسلام کانظام عدل قائم کرے۔دوسری طر ف انہوں نے یہ نشان دہی بھی کی کہ اللہ کی حاکمیت اوراس کی ہدایت کو فراموش کرنے کے باعث ،جو انسانی معاشر ہ وجودمیںآرہاہے،و ہ سخت انتشار کاشکار ہے اورمغربی تہذیب اپنی زبردست مادی خوش حالی کے باوجود نفسیاتی،اخلاقی اورمعاشرتی ہیجان اورفساد کامظہر بن رہی ہے۔ یوں انہوں نے سادہ، عام فہم اورواضح اسلوب میں مر ض اوراس کے علاج کے نشا ن دہی کی۔ مولانانے اسلام کوایک منجمد ،قدیم نسلی فریب کے بجائے ایک انقلابی نظریۂ حیات اور ایک تحریک کی صورت میں پیش کیاہے۔اس کےلیے انھوں نے سب سے بڑااستدلال اندرونی شہادت کے طورپر خوداسلام کے نظامِ فکر کے اندرسے فراہم کیاہے۔
اس دعوت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اسلام کے چہرے کوبالکل نکھارکر پیش کیا ، اسلام کے گوشے گوشے پرروشنی ڈالی اور اسے موجودہ حالات پر منطبق کرکے دکھایا۔ مذہب کے خلاف موجودہ سائنسی دورکے تمام ممکن اعتراضات کامدلّل جواب دیا اوراسلامی نظا م کاایک مکمل فکری اورعملی محل تیارکردیاہے۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مولانامودودیؒ نے یہ بات حتمی طور پرثابت کردی ہے کہ اسلام کوئی پوجاپا ٹ کامذہب نہیںہے کہ سیاست اس سے آزا د ہوبلکہ زندگی کاکوئی شعبہ بھی ایسا نہیںہے جواسلام کی گرفت سے آزادہو ۔ اسلام مکمل نظامِ زندگی ہے اورسیاست زندگی کاایک شعبہ ؎
جُدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دعوت کوئی اندھی بہری قوت نہیںہے جوزور، فتوے یاکسی عقید ے کے بل پربڑھتی چلی گئی ہو،بلکہ یہ سب سے پہلے مخاطب کے فہم کومطمئن کرتی ہے، اس کے ضمیر کو بیدارکرتی ہے اوراس کے جذبات کواپیل کرتی ہے۔
پانچویںاوربہت ہی اہم خصوصیت یہ ہے مولانااسلام کو صرف ’مسلمانوں ‘ سے وابستہ نہیںسمجھتے ۔ ان کاعقیدہ ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اوربارش کاپانی تمام انسانوں کے لئے ہے ۔اسی طرح اسلام کی دعوت اورمحمدعربی ﷺ کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے ۔مولانانے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے آخری سانس تک جدوجہدکی ۔اس راہ میںپھانسی کے پھندے تک پہنچ گئے ۔ لیکن پائے استقامت میںلرزش پیدانہ ہوئی ؎
وہ شدت قید تنہائی کی، وہ گرمی، وہ تاریکی
مگر اس پربھی تیراغنچہ ٔ خاطر نہ مُرجھایا
(ماہرالقادریؔ)
نقدِ مغرب اوراحیاء اسلام کے انہی کارناموں کی بدولت عالمِ اسلام کی متعلق عظیم شخصیتوں نے مولانا کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ۵؍ جنوری ۱۹۴۱ء کو مولانا عبدالماجددریابادیؒ کے زیرصدارت انجمن طلبۂ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ایک جلسہ منعقدہوا ۔اس میں انہوں نے فرمایا :
’’ صاحب ترجمان القرآن (مولاناسیدابولاعلیٰ مودودیؒ) کاتعارف ناظرین سے کرانا تحصیلِ حاصل ہے۔ ان کی دقّت نظری،نکتہ سنجی بہترین خدمت دین کا ذکرباربارآچکاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دور ِ حاضر کے فتنوں کے سدِّ با ب میںابوالاعلیٰ صاحب کاسینہ خاص طورپرکھول دیاہے اورتجدّد زدہ گروہ کے حق میںان کے قلم کی ایک ایک سطرآ بِ حیات ہے ۔طبقۂ علماء میںمولانا کی ذات اس حیثیت سے بہت بلندوممتازہے ،وہ صحیح معنوں میں مفکّرِ ملّت ہیں‘‘ ۔
اس جلسہ میںمولانا سلیمان ندویؒ ،مولانا مودودیؒ کا تعار ف کراتے ہوئے شدّتِ جذبات سے آبدیدہ ہوگئے۔آنسوؤ ں کاایک ریلاتھا جوتھمنے کانام نہیں لے رہاتھا۔ انہوں نے فرمایا :
’’میں اس وقت ایک نوجوان، لیکن ایک بحر ذخّار کاتعارف آپ حضرات کے سامنے کرانے کھڑا ہواہوں۔ مولانامودودیؒ صاحب سے علمی دنیا پور ے طور پرواقف ہوچکی ہے اوریہ حقیقت ہے کہ آپ اس دور کے متکلمِ اسلام اور بلندپایہ عالمِ دین ہیں۔ یورپ سے الحاد و دہریت کاسیلاب جوہندوستان میںآیاتھا قدرت نے اس کے سامنے بندباندھنے کاانتظام بھی ایسے ہی مقدس اورپاک طینت ہاتھوں سے کرایا جوخود یورپ کے قدیم وجدید خیالات سے نہایت اعلیٰ طورپرکماحقّہ واقفیت رکھتاہے۔ پھراس کے ساتھ ہی قرآن وحدیث کاگہرا اور واضح علم رکھتاہے کہ موجود ہ دور کے تمام مسائل پراس کی روشنی میں تسلی بخش گفتگوکرسکتاہے۔ یہی وجہ ہے بڑے بڑے ملحدوں اوردہریوں نے اس شخص کے دلائل کے سامنے ڈگیں ڈال دی ہیں اوریہ بات واضح طورپر کہی جاسکتی ہے مودودی صاحب سے ہندوستان (غیرمنقسم) اور عالمِ اسلام کے مسلمانوں کوبہت ہی توقعات وابستہ ہیں‘‘
مولاناسیدمودودیؒ نے عالم اسلام اوردنیائے انسانیت کے سلسلہ میںان توقعات کوکس حدتک پورا کیا ، اس کااندازہ پوری دنیاخصوصاً عالمِ اسلا م میںہونے والے تغیّرات کے جائزہ سے لگا یا جا سکتا ہے ،جواسلام کے حق میں آج برصغیر اورمشر ق وسطیٰ میںروٗنما ہورہے ہیں۔ آج اگر مولانا سیدسلیمان ندویؒاورمولانا عبدالماجد دریابادیؒ حیات ہوتے تو یہ دیکھ کرانہیں حیرت ہوتی کہ ان کو اس نوجوان سے جوامیدیں اورآرزوئیں وابستہ تھیںاس کی تکمیل کے لیے وہ زندگی کے آخری لمحات تک مصروفِ عمل رہا، یہاں تک کہ اس کی وفات کے بعد زمانے کواس کے جنازے میں شرکت کرکے اوراس کی لحد پرحاضری دے کراس بات کی گواہی دینی پڑی کہ اس نے شہادت حق کا فریضہ جس طرح انجام دیا،موجودہ دورمیں زمانہ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ؎
وہاںخود دعوتِ حق لے کے کر تیرے خوشہ چیں پہنچے
جہاں کچھ روشنی دیکھی، جہاں سوزِ جگر پایا
تیرے دل کا سفینہ کیا سکوں ناآشنا نکلا
کبھی طوفان سے اُلجھا، کبھی ساحل سے ٹکرایا
(ماہرالقادریؔ)
دراصل سیدمودودیؒ ایک طویل المیعاد بنیادی تبدیلی میں یقین رکھتے تھے اور اس لائحہ عمل کے ذریعے احیائے اسلام ،اسلامی قوانین کے نفاذ اورنظام زندگی کوتبدیل کرنے کی جدوجہد کے قائل تھے۔ یہی وہ واحدراستہ ہے جس پرچل کرمعاشرے اورریاست دونوں میںحقیقی انقلا ب لایا جاسکتاہے۔اسی کے ذریعے انھیں اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایات کے سامنے جھک جانے والے افراد ِ معاشرہ میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔
۱۹۴۷ء میںہندوستان تقسیم ہوا۔ مولانامودودیؒ نے اپنی ساری جدوجہد پاکستان کوایک خالص اسلامی مملکت بنانے پر مرکوز کردی، کیوں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر ہی آزاد ہواتھا۔ قبل از تقسیم ’پاکستان کامطلب کیا لا الٰہ الا اللہ‘ کی صدائیں چارسُو گونجتی رہتی تھی ،لیکن حرماں نصیبی یہ کہ مسلم لیگ کے سارے وعدے سراب نکلے۔۱۹۴۸ء اورمارچ کے درمیانی عرصے میںمولانامودودیؒ نے ریڈیو پر پانچ تقریریں نشرکیں، جن میں اسلا م کی روحانی ، اخلاقی ،معاشرتی ،سیاسی اوراقتصادی تعلیمات کی نمایا ں ترین خصوصیات بیان کیں۔ انہوں نے اپنی لازوال قوت وتوانائی اس مقصد کی راہ میں لگادی۔ ملک بھر کادورہ کیا ، جگہ جگہ تقریریں کیں اورپاکستان کوایک مکمل اسلامی ریاست بنانے کے حق میں مسلمان عوام کی تائید وحمایت کومنظّم کیا۔ مولانا نے ملک کے لیے خالص اسلامی دستور بنانے کا مطالبہ کیالیکن انہیں ۴؍اکتوبر ۱۹۴۸ءکوگرفتار کرلیاگیا۔ اس موقع پر مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے اپنے ایک بیان میں کہا : ’’میں حکومت مغربی پنجاب سے مخلصانہ مگرپرزور استدعا کرتاہوں کہ وہ مولانامودودیؒ کے معاملے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اوراسلام کی اُس تلوار کونیام میں بند نہ رکھے جسے پاکستان کی حفاظت واستحکام اورفتنہ ٔ اشتراکیت ولامذہبیت کی اماتت وابطال کے لیے اس وقت کھلا رہنے کی ضرورت ہے ‘‘۔چنانچہ مولانامودودی ۲۸؍مئی ۱۹۵۰ء تک مطالبہ ٔ دستور اسلامی کے نفاذ کے جرم میں اس ’خداداد مملکت ‘ کی جیلوں میں محبوس رہے۔ تاہم ان کی جدوجہد کام یاب رہی۔۷؍مارچ ۱۹۴۹ء کو قومی دستوریہ نے قرار دا د مقاصد منظور کی، جس میں وہ تمام مطالبات شامل تھے جو مولاناؒ نے ملک کواسلامی دستور کی بنیاد یں فراہم کرنے کے لیے کیے تھے۔
۱۹۵۱ء میں ایک اہم سنگ میل نصب کیاگیا۔ تقریباً چود ہ صدیوں کے بعد پاکستان کے تمام بڑے مکاتبِ فکر(دیوبندی، بریلوی ، اہل حدیث اورشیعہ ) کے ۳۱نمائندہ علماء مولانا مودودیؒ کی دعوت پر کراچی میں ۲۱تا ۲۴؍جنوری کوجمع ہوئے اور انہوں نے اتفاق رائے سے اسلامی مملکت کے ۲۲؍بنیادی اصول مرتب کرکے مطالبہ کیا کہ انہیں پاکستان کے دستور میںلازماً شامل کیاجائے۔ ۱۹۵۲ء ۔ ۱۹۵۳ء کے دوران پنجاب کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو جدا گانہ اقلیت قرار دیاجائے ۔ اس مطالبے کو ناکام کرنے کے لیے نظریات اور تمناؤں کی اس سرزمین میں مارشل لا نافذ کردیاگیا۔ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ نے ایک پمفلٹ ’قادیانی مسلہ ‘ لکھا۔ اس میںانہوں نے مسلمانوں کے اس مطالبے کی حمایت اورحکومت کی پالیسی کی مذمت کی ۔ یہ پمفلٹ لکھنے کے جرم میں ۲۸؍مارچ ۱۹۵۳ء کومولانا مودودیؒ گرفتار کرلیے گئے اورفوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنادی ۔ اس موقع پر مولانا مودودیؒ نے فرمایا:
’’اگرمیرے خداکی یہی مرضی ہے تومیں راضی وخوشی اس سے جاملوں گا ، لیکن اگر اس کی مرضی نہیں ہے اورمیری موت کا وقت نہیں آیاہے تویہ لوگ چاہے خود الٹے لٹک جائیں ،میرا کچھ بگاڑنہیں سکتے ‘‘ ۔
ماہر القادری نے اس موقع پر کہا تھا؎
یقینا اس تری جرأت کو دنیا یاد رکھے گی
سزائے موت سن کر بھی نہ پیشانی پہ بل آیا
بالآخر مارچ۱۹۵۶ءمیں اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے پہلے دستور کااعلان کردیاگیا ۔ اس دستور میں جماعت اسلامی کے زیادہ تر مطالبات شامل کرلیے گئے تھے ،تاہم یہ المناک واقعہ ہے کہ عین اس وقت جب دستور کوعملی جامہ پہنانے اوراسلامی ریاست کی بنیاد بنانے کے اقدامات کیے جارہے تھے، صدرسکندرمرزا اورجنرل محمدایوب خان نے ملی بھگت کرکے ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کومارشل لا نافذکردیا ۔ چنانچہ دستور منسوخ کردیا گیااور جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کوتوڑدیا گیا۔ اسی مہینے ایوب خان نے سکندر مرزا سے اختیارات چھین کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی۔
مولانا مودودی ؒ ان حالات سے ذرابھی شکستہ دل نہ ہوئے اور پوری جرأت کے ساتھ ہرطرح کے خطرات مول لے کر اسلام کی راہ میں جدوجہد کرتے رہے۔ مارشل لا کے باوجود انہوں نے اپنی ان تمام تقریروں اورتحریروں پر نظرثانی کی جو ۱۹۳۹ء اور ۱۹۵۷ء کے درمیانی عرصے میں کی یالکھی تھیں اور انہیں’اسلامی ریاست ‘اورانگریزی میں Islamic Law and Constitution کے نام سے شائع کیا۔ اس کتاب میں بڑے موثرانداز میں یہ ذہن نشین کرانے کی کوشس کی گئی ہے کہ شرعی قوانین نہ صرف آج کے دور کی ناگزیر ضرورت ہیں، بلکہ وہ ایک جدید حکومت کے لیے موزوں بھی ہیں اور اس کے تقاضوں کوپورا کرتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے دلائل اس قدر قوی ہیں کہ بعض بلند مرتبت مسیحی بھی ان سے متاثرہوئے ،چنانچہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس اے ۔ آر۔کار نیلیس نے اسلامی قوانین کواپنانے کی کھلے عا م تائید کی اورانہیں ملک کے لیے واحد موزوں نظام قراردیا۔
پاکستان کی فلاح وبہبود کے ساتھ مولانا مودویؒ عالم اسلام کی ترقی اورامن وسلامتی کے بھی خواہاں تھے۔ اس کے لیے ناگزیر تھاکہ امتِ مسلمہ متحدہوکر اسلام کی علمبردار بن جائے ۔ چنانچہ ۱۹۶۶ء میں رابطۂ عالم اسلامی کا سالانہ اجلاس مکہ مکرمہ میں ہوا۔ اس موقع پر مولانا مودودیؒ نے تنظیم کے ایک بانی رکن کی حیثیت سے مسلمان ملکوں پرزور دیا کہ وہ فوجی اعتبار سے خود مکتفی ہوں اورامریکہ ،سویت یونین یا کسی اوراجنبی طاقت پرانحصار نہ کریں۔ مزید برآں انہوں نے عالم اسلام کوقوم پرستی کوترک کرنے اورمتحد ہوکرایک بلاک بنانے کی دعوت دی تاکہ وہ ہرجگہ اپنا اوراسلام کادفاع کرسکے۔ انہوںنے اس کانفرنس میںاعلان کیا کہ اسلام ہی ایک ایسا نظریہ ہے جو مختلف نسلوں اورقوموں کومتحد کر کے ایک گھرانے میںتبدیل کرسکتا ہے،ایک عالمی ریاست کی بنیادبن سکتاہے اوردنیا کوعدل وانصاف اورامن سے ہم کنا ر کرسکتا ہے۔ مولانامودودیؒ نے برسراقتدار طبقے کی غلط کاریوں پرہمیشہ نہایت بے خوفی سے تنقید کی ہے اپنے ذاتی تحفظ اورعاقبت کی کبھی پروا نہیںکی۔ ان کااپنا وجود اوران کی برپاکی ہوئی تحریک اسلامی دنیا میں لادینیت ،مادہ پرستی اورالحاد کے شدید حملوں کے مقابلے میںایک زبردست ڈھال فراہم کرتی ہے۔
دسمبر ۱۹۶۸ء کو مولانا مودودیؒ طبی معائنہ کرانے کے بعدپاکستان تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ان کا زیادہ تروقت پانچ سیاسی جماعتوں پرمشتمل تحریک جمہوریت پاکستان کے دوسر ے ارکان کے ساتھ ملک کوآمریت سے نجات دلانے اورجمہوریت بحال کرنے کی جدوجہد میںگزرا ۔ اس جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ فروری ۱۹۶۹ء کے اواخر میں صدرایوب خان گول میزکانفرنس منعقد کرنے اور ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے رہ نماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انہوںنے ہنگامی حالات (Emergency) جو دسمبر ۱۹۶۵ء میںپاکستان پر بھارت کے حملے کے بعد نافذ کیے تھے ، ختم کردئیےاور ڈیفینس رولز کا بھی خاتمہ کردیا گیا۔ ان اقدامات سے ملک بھر میںانبساط و مسرت کی لہر دوڑگئی۔
پاکستان میں اسلام اورکمیونزم کے درمیان کش مکش جاری تھی۔ محافظ پاکستان مولانا مودودیؒ اس چیلنج کا سا منا کر نے کامصمّم ارادہ کرچکے تھے ، چنانچہ انہوںنے اس حقیقت کوواشگاف اندازمیں واضح کردیا کہ ا سلام اور سوشلزم دومتضاد نظریے ہیں۔ اس موضوع پران کی اہم ترین تحریر وہ ہے جس میں انہوں نے ہفت روزہ ’چٹان ‘ لاہور کے مدیر شورش کاشمیری کےاکتیس ( ۳۱ )سوالات کےجوابات دیے ہیں اورجو چٹان کے ۱۴؍اپریل ۱۹۶۹ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ یہ تحریر اتنی زبردست تھی کہ ’چٹان‘ کا پرچہ چھپنے کے بعد تین گھنٹے کے اندر ختم ہوگیا۔ مولانا مودودی نے ثابت کیا کہ اسلام انسانی زندگی کےتمام پہلوؤں عقائد، نظریہ ،مذہب ، اخلاقیات ،کردار ، طرزعمل ،تعلیم ،تربیت ، معاشرتی نظام ، ثقافت ،اقتصادی نظام ، سیاسی قالب ، قانون اورعدلیہ ،جنگ اورامن ،داخلی اوربین الاقوامی تعلقات کو محیط ہے۔ہدایتِ الٰہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی قرآن وسنت میںمحفوظ ہے ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2015