انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس

موقف، حکمت عملی اور عملی اقدامات

اب تک اس پورے سلسلہ مضامین میں انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

اب اس باب میں اسلام کے حوالے سے اس پورے معاشرتی ڈسکورس پر اسلامی موقف، حکمت عملی اور عملی اقدامات پر تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔

اس پورے نفسی معاشرتی ڈسکورس میں بہت سے ایسے پہلو اور سوالات ہیں جن پر وقتًا فوقتًا ہمارے موقف کی وضاحت مانگی جاتی ہے۔ اینگلو امریکن مسلم دانش ور طبقے کی جانب سے ایک واضح موقف سامنے آچکا ہے اس کی تفصیل یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔[1]

لیکن اس موقف میں کچھ خلا ہنوز باقی ہیں، ذیل میں ہم ان کی نشان دہی کریں گے۔ ذیل میں ہم کچھ اہم سوالات اور ان پر اپنا موقف پیش کریں گے:

سوال: کیا اس پورے انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس میں ہم +LGBTQIA اصطلاح سے اتفاق کرتے ہیں؟

ہمارا موقف: بظاہر یہ بہت سادہ اور ابتدائی نوعیت کا سوال نظر آتا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت جوہری نوعیت کا سوال ہے کیوں کہ ہمیں اس پوری اصطلاح سے ہی اختلاف ہے۔ وہ اس لیے کہ اس اصطلاح میں مختلف کیفیتوں، سماجی نفسیاتی الجھنوں، کچھ خاص کیفیات اور کچھ جینیاتی بیماریوں سب کو ایک اصطلاح کے اندر جمع کر دیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کیوں کہ اس طرح سے ان تمام جنسی رویوں کو علیحدہ علیحدہ سمجھنا اور خالص سائنسی نقطہ نظر سے ان پر کلام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلًا صنفی اضطراب پر اب تک نفسیاتی سائنس اس نکتے پر متفق نہیں ہو پائی ہے کہ آیا یہ خالصتًا نفسیاتی خلل ہے یا محض ایک کیفیت کا نام ہے۔ اسی طرح خالصتًا غیر جنسیت (Asexuality)کے بارے میں بھی یہی بات درست ہے۔ ہم جنس پرست کشش (Same Sex Attraction)کے سلسلے میں ۱۹۷۳ کے بعد یہ مان لیا گیا کہ یہ ایک عمومی جنسی رویہ ہے لیکن یہ بات مجرد سائنسی تحقیقات سے اب تک بڑے پیمانے پر ثابت نہیں کی جا سکی ہے اور اس میں اختلاف کی مکمل گنجائش موجود ہے۔[2]واضح ر ہے کہ یہاں ہم جنس پرست کشش کی موجودگی پر اختلاف نہیں ہے بلکہ اس کے عمومی جنسی رویہ ہونے پر اختلاف ہے۔ مزید یہ کہ اس اصطلاح میں موجود مخنث (Intersex)اصلًا ایک جنسی نشو و نما میں ہونے والے خلل کا نام ہے، جو کروموزوم اور ہارمون کے خلل سے وجود میں آتا ہے۔ چنانچہ اس پوری اصطلاح میں ہر جزو کا اپنا ایک سیاق و سباق ہے، لیکن عوام میں اس پورے ڈسکورس نے بڑی چالاکی کے ساتھ ان کیفیات، نفسانی الجھنوں اور جینیاتی بیماریوں کی آڑ میں بعض ایسے سائنسی حقائق کو نظر انداز کیا ہے جو اس ڈسکورس کے سلسلے میں ہمارے نقطہ نظر کو صحیح طور پر منضبط نہیں ہونے دیتے ہیں۔ مثلًا ہم جنس پرست کشش نہ مکمل طور پر فطری ہے نہ ہی مکمل طور پر ماحول سے فیصل ہوتی ہے۔ (ہم جنس پرست کشش میں مرد ہم جنس پرست کشش اور عورت ہم جنس پرست کشش دونوں شامل ہیں) دو جنسیے (Bisexual) اصلًا ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں ایک فرد مرد اور عورت دونوں سے جنسی کشش محسوس کرسکتا ہے۔

ٹرانس جینڈر اصل میں صنفی شناخت کے خلل (Gender Identity Disorder)کے شکار افراد ہیں اور یہ دراصل نفسانی نظام کے خلل کا نام ہے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو مذکورہ بالا گفتگو یہ بات اجاگر کرتی ہے کہ اصلًا جب +LGBTQIA ایک چھتری (umbrella)اصطلاح کی حیثیت میں متعارف ہوتی ہے تو اس میں موجود ایک دوسرے سے بالکل مختلف چیزیں خلط مبحث کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے سب سے بنیادی بات یہی ہے کہ ان تمام کیفیات، بیماریوں اور مختلف نفسانی الجھنوں کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے اور الگ الگ درجہ بندی کر کے ان کے سلسلے میں اپنے موقف کی وضاحت کی جائے۔

ظاہر سی بات ہے کہ جو جینیاتی بیماری ہے اس کے سلسلے میں اپروچ الگ ہوگی، جو نفسانی الجھنیں ہیں ان کے بارے میں اپروچ الگ ہوگی اور جو کیفیت صرف اور صرف ذہنی نفسیاتی حالت سے عبارت ہے، وہ بالکل الگ اپروچ کا تقاضا کرے گی۔

یہاں اس بات کو یاد دلانا ضروری ہے کہ یہ سب عمومی جنسی دوئی کے باہر کے رویے ہیں اور اپنی کیفیت، بیماری اور نفسانی الجھن کی وجہ سے یہ لوگ کچھ خاص قسم کے سماجی رویوں کے شکار ہوتے ہیں۔ انھیں عام طور پر سماج میں ویسا قبول عام نہیں ہوتا ہے جیسا کہ ایک عام جنسی دوئی (Sexual binary)کے دائرے میں موجود فرد کو ہوتا ہے۔ اپنے مختلف ہونے کی وجہ سے انھیں بعض اوقات بہت سی مشکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا ہے کہ تمام مختلف فیہ چیزوں کو کسی ایک اصطلاح سے موسوم کر دیا جائے۔ ایسا کرنے سے ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ان تمام الگ الگ چیزوں کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھ پاتے ہیں تو پھر منطقی اور صحیح سائنسی بنیادوں پر ان کے سلسلے میں کوئی معتدل نقطہ نظر قائم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

سوال: ہم جنس پرست کشش یا انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس کیا محض ایک پروپیگنڈا ہے یا انسانوں کی ایک بڑی آبادی اس سے متاثر ہے؟

ہمارا موقف: یہ بات تو تسلیم کرنی چاہیے کہ معمول سے ہٹ کر جنسی رویے ایک زمینی حقیقت ہیں۔ انسانی آبادی میں ایک تعداد یقینًا ان سے متاثر ہے لیکن جب اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ یوروپ اور اینگلو امریکن لینڈ سے الگ ہٹ کر خالص اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ تعداد کتنی ہے تو حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس ضمن میں کوئی خاص مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ مثلًا ہم جنس پرست کشش کے پھیلاؤ کے سلسلے میں اور پوری دنیا کے یو این کے ذریعے تسلیم کردہ 195 ممالک میں سے محض چند ملکوں کا ڈیٹا آیا ہے۔[3] اس ڈیٹا کی عدم موجودگی میں محض توسیعی ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے یہ قیاس کرنا کہ یہ ایک عام رویہ ہے اور معمول سے ہٹ کر جنسی رویے انسانوں کی بڑی تعداد میں عام ہیں، ایک غیر سائنسی بات ہوگی۔ اسی طرح یہ ماننا بھی غیر سائنسی رویہ ہوگا کہ یہ کامل طور پر پروپیگنڈا ہے، جو مکمل طور پر بازار کی قوتوں کے ذریعے قائم کیا گیا ہے اور یہ محض مغرب کی اباحیت زدہ تہذیب کا ایک مظہر ہے۔ کیوں کہ اس طرح کے رویے عوام میں بہر صورت موجود ہیں۔

سوال: کیا ہم جنس پرست کشش ایک بیماری ہے یا کچھ اور ؟

ہمارا موقف: ہم جنس پرست کشش کو دو اور دو چار کی طرح یا بیماری اور صحت کی دوئی میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ اب سے چند دہائیوں قبل اسے بیماری سمجھا جاتا تھا پھر کچھ تحقیقات کی بنیاد پر اسے بیماری کے دائرے سے باہر نکالا گیا۔ چند تحقیقات کی بنیاد پر جنسی دوئی کا ہی انکار کیا گیا۔ بہت زیادہ مختلف فیہ تحقیقات کی بنیاد پر یہ فیصلہ لیا گیا کہ جنسیت دو خانوں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔

ان سب باتوں کے پیش نظر، یہ بات قوت سے کہنی چاہیے کہ ہم جنس پرست کشش کو محض بیماری اور صحت کی دوئی میں دیکھنا درست نہیں ہے۔ ہم اسے ایک خاص ذہنی حالت کا نام دے سکتے ہیں اور جب تک کہ ایک بہت اہم اور بنیادی سوال فیصل نہیں ہوجاتا کہ کیا جنسیت محض دو خانوں میں بٹی ہوئی ہے یا جنسی سیالیت لیے ہوتی ہے، تب تک یہ فیصلہ کرنا کہ یہ بیماری ہے یا بیماری نہیں ہے، علمی اعتبار سے سطحی فیصلہ ہوگا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ہم جنس پرست کشش دراصل ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔

سوال: کیا ہم جنس پرست کشش قابل علاج ہے یا ناقابل علاج ہے؟

ہمارا موقف: 1973 کے بعد ہم جنس پرستی کے حوالے سے یا اس کیفیت کو عمومی جنسی رویے کی طرف لوٹانے کے حوالے سے تحقیقات مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں۔ جدید دور میں پروپیگنڈا کے اثرات اس قدر گہرے ہو گئے ہیں کہ عوام میں اس طرح کی کیفیات کے سلسلے میں گفتگو مشکل ہوگئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قابل علاج یا ناقابل علاج کے اس پورے پیراڈائم سے آگے بڑھ کر اسے کیفیت کی اصلاح کا نام دینا چاہیے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض لفظوں کا کھیل ہے اور اس ڈسکورس کا اصل الزام یہ ہے کہ جنسی دوئی کے ماننے والے اس دوئی کے باہر کے تمام رویوں کو مبغوض قرار دیتے ہیں اور اس کا علاج اور نئی اصطلاح (اصلاح) کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بیماری کے علاج اور کیفیت کی اصلاح میں بہت فرق ہے۔ بیماری کا علاج ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا ہے، لیکن کیفیت کی اصلاح بہر صورت ممکن ہے۔ اس لیے جو کچھ تحقیقات اس سے پہلے ہوئی ہیں ان کی بنیاد پر یہ بڑا فیصلہ صادر کر دینا کہ یہ ایک ناقابل اصلاح قسم کی ایک ایسی فطری کیفیت ہے جس پر اب کلام کی گنجائش نہیں ہے اور یہ کہ اس کا علاج کرنا یا اسے بیماری ماننا ان لوگوں کے جنسی حقوق سے کھلواڑ کرنا ہے، درست رویہ نہیں ہے۔

اس طرح کے موقف کی وجہ سے اس میدان میں نئی نئی تھیوریز اور نفسانی اصلاح کے نئے نئے طریقوں کے باوجود کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے، اس لیے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو لوگ کسی خارجی دباؤ کے بغیر اپنے آپ کو اس کیفیت پر مطمئن نہیں پاتے ہیں ان کے لیے کونسلنگ یا مذہبی بنیادوں پر ہونے والی سائیکوتھیراپی کی پوری گجائش ہو تاکہ ایسے افراد کامل اطمینان کے ساتھ اپنی کیفیت کی اصلاح کا ہر ممکن طریقہ اختیار کرسکیں۔

سوال: کیا ہم جنس پرست افراد کے جنسی حقوق نہیں ہیں؟ انھیں کیوں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے؟

ہمارا موقف: ہم جنس پرست افراد کے جنسی حقوق اور سماجی حقوق کی بحث میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ حقوق کی حدیں، اصول اور بنیادیں کون طے کرے گا۔ غیر مذہبی انسانی تصور کے تئیں یہ حدیں، اصول اور بنیادیں اصلًا ایک غیر مذہبی فریم ورک (secular humanistic framework)میں فیصل ہوتے ہیں۔

اسلام ایک الہی دین کی حیثیت سے انسانی تہذیب کے تمام امور کے لیے مخصوص اصول فراہم کرتا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے چا ہے وہ اسلام کے ماننے والے ہوں یا نہ ہوں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم فرد اور معاشرے کے حوالے سے فرد کے سماجی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اسلام فرد کے جنسی حقوق کو اللہ کی مرضی کے تابع قرار دیتا ہے۔ اس لیے ایک اسلامی مملکت میں جہاں اسلامی قانون جاری ہیں وہاں پر کھلے عام فحاشی اور جنسیت کے ان مظاہر پر جو جنسی دوئی کے باہر قائم کیے جاتے ہیں اور اسلامی اصولوں سے ٹکراتے ہیں، یقینًا پابندی لگائی جائے گی، البتہ فرد کے انفرادی اور سماجی حقوق ویسے ہی باقی رکھے جائیں گے۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر ر ہے کہ اسلام اصولی طور پر یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ افراد کی پرائیویٹ زندگی میں دخل اندازی ہو یا اس طرح کے میکانزم بنائے جائیں جن کے ذریعے افراد کی پرائیویٹ زندگی کو سکینر (scanner) کے تحت لایا جاسکے، وہیں وہ اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا بھی نہیں کرتا اور کسی طرح کی کھلی یا ڈھکی فحاشی کی اجازت بھی نہیں دیتا ہے۔ چناں چہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہم جنس پرست کشش میں اسلام تمام ہم جنس پرستوں کے یا انحرافی جنسی رویوں کے ماننے والوں کے یا اس کیفیت سے گزرنے والوں کے سماجی حقوق کا احترام اسی انداز میں کرے گا جیسے کسی اور فرد یا فرد کے گروہ کا کرنا ہوتا ہے لیکن ایسے افراد اور ان گروہ کے جنسی انحراف اور ان کے علانیہ جنسی مظاہر کا خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔

سوال: ہم جنس پرست کشش نظام خاندان کے لیے خطرہ ہے یا نہیں؟

ہمارا موقف: اس سوال کو دو پہلو سے دیکھنا چاہیے۔ اگر بات تعداد کی ہے تو یقینًا جتنی قلیل تعداد میں ہم جنس پرست افراد یا جوڑے اس وقت اینگلو امریکن فریم کے اندر اور باہر موجود ہیں ان سے نظام خاندان کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے دوسرے پہلو سے اگر بات کی جائے اور وہ پہلو نظام خاندان یا جنسی نارمیلٹی کے حوالے سے ہے تو اس طرح کے رویے سماج کی اجتماعی اخلاقیات کے لیے ہرگز مناسب نہیں ہیں۔ بطور خاص اسلام کی اجتماعی اخلاقیات کے پیراڈائم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام جنسی دوئی کے باہر کی تمام تر جنسی کشش اور اس کے اظہار کو فحاشی سے تعبیر کرتا ہے۔

سوال: کیا جنسیت محض دوئی میں قید ہے یا سیالیت لیے ہوئے ہے؟

ہمارا موقف: اس بات کو اعلی تحقیقی معیار کے تحت ابھی تک ثابت نہیں کیا جا سکا ہے کہ جنسیت سیالیت لیے ہوتی ہے۔[4]جنسیت کا عمومی مظہر اصلًا جنسی دوئی یعنی نر اور مادہ کے فریم ہی میں قید ہے۔ اسلام کے نزدیک جنسیت دراصل جنسی دوئی سے ہی عبارت ہے۔ اس سے باہر کے جتنے مظاہر ہیں وہ یا تو استثنائی کیفیت ہیں یا بیماری ہیں۔

سوال: ہم جنس پرست شادیوں کے سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے؟

ہمارا موقف: اسلام اصولی بنیادوں پر صرف دو مقابل جنسوں (مردو عورت) کے درمیان عہد و پیمان کے ذریعے خاندان کی اکائی کے وجود میں لانے کا قائل ہے اور یہ خاندان کی اکائی دراصل انسانیت کی بقا اور باہم سکون و مودت کی فراہمی کے لیے ہے اور یہ اس لیے بھی ہے کہ انسان جنس کی فطری خواہش کو اسلامی اصولوں کے تحت بنائے گئے فریم ورک کا استعمال کرتے ہوئے پورا کرے۔ اس لیے اصولی اعتبار سے صرف ایک مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعے سے ہی شادی کا ادارہ وجود میں آ سکتا ہے۔

سوال: ہم جنس پرست افراد عمر بھر جنسی تلذذ سے کیوں محروم رہیں؟

ہمارا موقف: یہ بات یقینًا درست ہے اور جو افراد ہم جنس پرست کشش سے گزر ر ہے ہیں ان پر بہت اعلی سطح کی تحقیقات کے ذریعے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ جنسِ مخالف سے جنسی تلذذ حاصل نہیں کر سکتے ہیں تو ایسے افراد کا تاعمر جنسی تلذذ سے محروم رہنا کیا ان کے حقوق کا سلب ہونا ہے۔ اس سوال کا جواب آسان ہے اور اصولی طور پر بہت واضح ہے۔ اسلام کے نزدیک بنیادی طور پر اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دینا ہی مطلوب ہے۔ اپنی خواہشات اور آرزوؤں کو، اپنی امنگوں اور تلذذ کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دینا ہی اللہ کی اطاعت کرنا ہے۔

اسلام کا اصولی مطالعہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ اسلام میں جنسی تلذذ کا حصول اس کے خاص فریم ورک کے تحت ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے باہر جو کچھ بھی ہے وہ ناجائز ہے۔ چناں چہ جس طرح ایک غیر ہم جنس پرست شادی کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے جنسی تلذذ سے محروم رہ سکتا ہے اور اس کے لیے روزہ رکھنے کا حکم ہے، بالکل اسی پر ہم جنس پرست کشش رکھنے والے افراد کو بھی قیاس کرنا چاہیے۔ ان افراد کو بھی اپنی اس کیفیت کو من جانب اللہ ایک آزمائش سمجھتے ہوئے تقوی کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تقوی کی تلقین بہت آسان ہے لیکن عمر بھر کسی جنسی کشش سے لڑنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن جیسا کہ اللہ کی کتاب میں بار بار یہ اصولی وضاحت آئی ہے کہ اصلًا انسان کا وجود اس دنیا میں امتحان گاہ میں امتحان دینے والے طالب علم کا سا ہے۔ چناں چہ مختلف افراد بلکہ دنیا کے ہر انسان کا کسی نہ کسی حیثیت میں، کسی نہ کسی پہلو اور کسی نہ کسی حوالے سے امتحان جاری ہے، ہر شخص کے اپنے مسائل ہیں، ہر شخص کے اپنے امتحانی پرچے ہیں، ہر شخص کے سوالات مختلف ہیں، ہر شخص کا امتحان الگ الگ پہلوؤں سے ہو رہا ہے، اسلام کی یہ بڑی عظیم خوبی ہے کہ اس نے ہر شخص کو انفرادی سوال نامہ دے دیا ہے، تاکہ وہ اپنے سوال نامے پر جس درجہ ہوسکے جواب تحریر کرے اور اطمینان قلب کی کیفیت کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرے اور اس کیفیت کو پہنچے جس کے لیے نفس مطمئنہ کا لفظ قرآن استعمال کرتا ہے۔

چناں چہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اللہ کی جانب سے ایسے افراد کے لیے علاج یا اس کیفیت سے باہر نکلنے کا طریقہ وجود میں نہیں آجاتا تب تک ایسے افراد کو تقوی کی روش اختیار کرنی ہی ہوگی۔

اوپر دیے گئے سوالات اور ان کے حوالے سے ہم نے اپنے نزدیک اسلامی موقف کو واضح کیا ہے۔ یہ سوالات اور ان کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے، اصل بات وہی باقی ر ہے گی کہ اس پورے نفسی معاشرتی ڈسکورس پر جب بھی کوئی اسلامی موقف اختیار کیا جائے گا وہ درج ذیل تین پہلوؤں کو محیط ہوگا۔

قرانی نصوص کی وہ تعبیر جو قرآن کے وسیع تر معنی و تفسیر سے میل کھاتی ہو۔

اللہ کے رسول کی سیرت میں موجود عملی صورت حال اور اگر وہ عملی صورت حال پیش نہ آئی ہو تو نصوص کی روشنی میں اللہ کے رسول کی سیرت سے استنباط اور استخراج ہو۔

سیرت صحابہ اور قرن اول میں موجود حالات کے مطابق کیے گئے اجتہادی فیصلوں کا موجودہ حالات، قرآنی نصوص اور اللہ کے رسول کی سیرت سے ملنے والے رہ نمائی کی روشنی میں تجزیہ، استنباط اور تخریج کی جائے گی۔

ان سوالات اور ان پر اسلام کے موقف کے بعد اس نفسی معاشرتی ڈسکورس کے ساتھ بطور خاص اہل اسلام کا کیا تعامل ہو اور ان کی طرف سے کیا عملی اقدامات اختیار کیے جائیں اس پر گفتگو کی جائے گی۔

یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ حالات میں غالباً سب سے اہم رول مذہبی طبقے یا علما کا ہے بطور خاص جب ہم جنس پرست کشش افراد علمائے کرام کے پاس اپنے مسائل کو لے کر جاتے ہیں اور ان سے رہ نمائی چاہتے ہیں تو ایسے میں ان کا رویہ کیسا ہو؟ اس پر بہت سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

مذہبی طبقے بطور خاص علمائے کرام کو ہم جنس پرست کشش اور جنسی دوئی کے باہر کے تمام رویوں کے سلسلے میں صحیح معلومات میسر ہوں۔

اس ضمن میں کئی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس کے نصاب میں جدید تہذیبی و معاشرتی مسائل اور اسلام کے حوالے سے ایک نصابی خاکہ بنایا جا سکتا ہے جس میں ایک بڑے تہذیبی اور معاشرتی مسئلے کی حیثیت سے انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کو بھی داخل کیا جا سکتا ہے اور ان رویوں کے تحت آنے والے بہت سے مسائل کو ایک جگہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ مثلًا ہم جنس پرست افراد کا مسجد میں داخلہ۔ اس ضمن میں اس طرح کے عمومی اصول بنائے جاسکتے ہیں کہ وہ افراد جو علی الاعلان اپنے آپ کو ہم جنس پرست نہیں بتاتے، اس کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ اسے گناہ مانتے ہیں اور اس کی کیفیت کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں، حسن ظن سے کام لیتے ہوئے ایسے افراد کو مطعون کرنے کے بجائے انھیں عام افراد کی حیثیت میں مسجد میں داخل ہونے دیا جائے۔

اسی طرح فقہ کے وہ تمام فتاوی جو مخنث مشکل مخنث عام یا موجود اصطلاح میں انٹرسیکس افراد جو کسی ایک جنس کی طرف کر دیے گئے ہوں، ان کے مسجد میں داخلے کو ایک نارمل حیثیت میں دیکھا جائے اور علمائے کرام اس بات کو عوام میں فروغ دیں کہ ایسے تمام افراد اللہ کی جانب سے ایک خاص قسم کی آزمائش میں مبتلا ہیں، اسلام بنیادی طور پر انھیں مبغوض نہیں قرار دیتا ہے، ماسوا اس کے کہ وہ انحراف اور ناجائز جنسی تلذذ کا راستہ اختیار نہ کریں۔

اس بات کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مسلم عوامی شعور کو اس ضمن میں بالغ نظر بنایا جائے، علمائے کرام یہ بات حکمت کے ساتھ احسن انداز میں لوگوں تک پہنچاسکتے ہیں کہ انحرافی جنسی رویوں میں گرفتار افراد کو مطعون کرنے اور ان کے ساتھ اجتماعی سطح پر کسی امتیازی سلوک کو روا رکھنے کے بجائے یہ کوشش کی جائے کہ اسلامی سوسائٹی میں توبہ اور تقوی کا اجتماعی معیار اتنا بلند ہو کہ اس طرح کے رویوں کو پنپنے کے لیے سازگار ماحول میسر نہ آئے اور ان میں گرفتار افراد کو توبہ اور پرہیزگاری کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت ہوسکے۔ علمائے کرام ایسے تمام افراد کی کونسلنگ کے لیے ماہرین کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں اور اللہ کے ساتھ ایسے افراد کا تعلق جوڑنے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔

واضح رہنا چاہیے کہ ایسی تحقیقات دھیرے دھیرے سامنے آنے لگی ہیں کہ نفسانی امراض میں بعض ایسے امراض جو پہلے لاعلاج سمجھے جاتے تھے بعض ایسے ٹراما جن کو برداشت کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ موجود نہیں تھا اور وہ انسانی ذہنی صحت کو بری طریقے سے نقصان پہنچاتے تھے ایسے تمام امراض میں ما فوق طبیعت ہستی (خدا) کے ساتھ وابستگی بہت اچھے نتائج لا رہی ہے۔[5]اس لیے علمائے کرام کسی نفسیاتی ماہر کے ساتھ مل کر اگر ایسے تمام افراد کی اس انداز میں کونسلنگ کریں اور انھیں خدا کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں اور بندگی کے تصور کو بہت گہرائی کے ساتھ ان کے دل میں راسخ کرنے کی کوشش کریں تو بہت اہم نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

دوسرا سب سے اہم کام پروفیشنل کونسلنگ سینٹر کا قیام ہے ہماری ہر مسجد یا شہر کی کم سے کم ایک بڑی مسجد میں ایسے کونسلنگ سینٹر ضرور ہوں جن میں اس طرح کے رویوں سے نبرد آزما افراد جاسکیں اور وہاں ایک پاکیزہ اسلامی ماحول میں اپنی کونسلنگ کے لیے کچھ مدد حاصل کر سکیں۔ واضح ہونا چاہیے کہ اس ضمن میں کونسلنگ اور علاج دونوں بہت سے ملکوں میں غیر قانونی ہیں۔ اس لیے اس کام کو بہت زیادہ احتیاط اور تمام قانونی پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے انجام دینا چاہیے۔

تیسرا سب سے اہم کام مسلم تعلیم یافتہ طبقے میں انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کی صحیح معلومات اور شعور فراہم کرنا ہے۔ اس وقت مسلم تعلیم یافتہ طبقہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

وہ لوگ جو اس انحرافی نفسی معاشرتی ڈسکورس کے مکمل طور پر حامی ہیں۔ یہ عام طور پر نام کے مسلمان ہیں اور مختلف سیاسی، سماجی اور شہرت والی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔

وہ لوگ جو مظاہرِ اسلام سے کچھ نہ کچھ وابستگی رکھتے ہیں، نماز روزے کے پابند ہیں اور اس حد تک ہی اسلام کو محدود سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے افراد کے سلسلے میں یہ مانتے ہیں کہ جو کچھ میڈیا یا کچھ ابتدائی سائنس کا علم ان کے پاس ہے اس کے تحت یہ افراد صحیح ہیں اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔

ایک تیسرا طبقہ ہے جو یہ مانتا ہے کہ یہ سب انتہائی اباحیت زدہ اور فحاشی پسند لوگ ہیں اور یہ جان بوجھ کر جنسی تلذذ کے لیے اس طریقے کو اپناتے ہیں اور انھیں کڑی سے کڑی سزا دینی چاہیے اور اسلام میں ان کا مقام جہنم ہے۔اب ان کے لیے توبہ کی کوئی گنجائش نہیں بچی ہے۔

ان تینوں طبقات کے اندر مختلف حکمت عملی کے ذریعے انحرافی جنسی رویوں کے سلسلے میں صحیح شعور کی بیداری، صحیح اسلامی موقف کی آبیاری اور صحیح اسلامی موقف کو اختیار کرنے کا ملکہ پیدا کرنا چاہیے۔

ایک پہلو جسے ترجیحی بنیادوں پر ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے وہ عوام میں اس ڈسکورس کی اخلاقی قباحت کے علی الرغم مقبولیت کے حوالے سے ہے۔ بطور خاص ہندوستانی عوام میں ہم جنس پرست کشش کو لے کر کے لبرل اقدار کے تحت غیر معمولی قبولیت دیکھی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں ناپختہ سائنسی و نیم سائنسی ویڈیوز نے اس طرح کے انحرافی جنسی رویوں کے تئیں عوام کے دل میں ایک قسم کی خاص اخلاقی بے حسی کو جنم دیا ہے۔ عمومی طور پر مذہبی سمجھے جانے والے ہندوستانی عوام بھی اب ہم جنس پرست کشش کو اور اس طرح کے دوسرے انحرافی رویوں کی قباحت کو کم گرداننے لگے ہیں۔ تاہم عوام میں بھی کئی طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ان تمام رجحانوں میں کچھ رجحان انتہا پسندانہ ہیں جو انھیں مارنے، اذیت دینے حتی کہ انھیں ہلاک کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو اس سلسلے میں مکمل طور پر بے حس ہیں اور انھیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور تیسرے وہ ہیں جو اس ضمن میں نسبتًا معتدل واقع ہوئے ہیں۔ اس طرح کے تمام عوام میں دو حوالوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم جنس پرست کشش رکھنے والے افراد کے سلسلے میں محتاط انداز میں عوام کو اس بات کی طرف آمادہ کرنا کہ وہ انسانی بنیادوں پر ایسے افراد کے تئیں ہم دردی کا رویہ اپنائیں اور انھیں مطعون کرنے کے بجائے ان کے اندر بہتر تبدیلی لانے کی سعی کریں۔

انسانی حقوق اور سماجی حقوق کے سلسلے میں ان افراد کے خلاف ہو رہی زیادتیوں کی مخالفت کریں، ان افراد کے انسانی اور سماجی حقوق کے سلسلے میں مثبت رویہ اختیار کریں۔لیکن ساتھ ہی ان کے جنسی انحراف سے براءت کا اظہار کریں اور اس سلسلے میں اجتماعی اخلاقیات کے تحت فیصلہ کریں۔

واضح ر ہے کہ اس حوالے سے بھی اسلام عوامی انصاف اور گلی کے انصاف (Street Justice) کا قائل نہیں ہے بلکہ اسلامی عدالتیں اور علما و ماہرین اس بات کو طے کریں گے کہ یہ جنسی کشش جو کسی خاص فرد میں ہے، اس میں ماحول کا، اس کے جینیات کا، خود اس کے اپنے ذہنی شاکلے کا کتنا رول ہے اور وہ عملًا اس جنسی کشش پر کس قدر عمل پیرا ہے اور اس کے بعد وہ اس کے لیے جو بھی مناسب سزا ہے وہ تجویز کریں گے۔ عوامی انصاف اور گلی کا انصاف اسلام کے اصول عدل کی صریح خلاف ورزی ہے۔

سماجی اصلاح کے حوالے سے درج ذیل چار پہلوؤں سے کام کرنے کی ضرورت ہے، تحریک اسلامی کو خاص طور سے ان پہلوؤں پر توجہ دینا چاہیے:

  • قانون
  • تعلیم
  • تحقیق
  • میڈیکل پریکٹس میں تبدیلی

اوپر دیے گئے چار پہلو ایسے ہیں جو تفصیل کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن یہاں ہم محض نکات پر اکتفا کریں گے۔

قانون

حالیہ دنوں ہندوستانی عدلیہ کا رجحان عام طور پر اس عالمی رجحان (صحیح لفظوں میں اس اینگلو امریکن رجحان) سے ہم آہنگ نظر آتا ہے جو ہم جنس پرست کشش کو ایک نارمل جنسی رویے کا ہی تسلسل سمجھتا ہے۔ اسی لیے ہم جنس پرست کشش کو خارجِ جرم (decriminalize) کر دیا گیا ہے اور لبرل اقدار اور ہندوستانی اخلاقیات کے ملغوبے کی بنیاد پر فیصلے سنائے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے کوشش کی جانی چاہیے کہ اس رخ پر مزید قانون سازی نہ ہو اور ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی جواز حاصل نہ ہو۔ دوسری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو سروگیسی کے ذریعے حصولِ اولاد کو قانونی جواز حاصل نہ ہونے پائے۔

تیسری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم جنس پرست کشش کو جنسی دوئی کے باہر ایک مختلف جنسی حیثیت یا کیفیت کی شکل میں تسلیم کیا جائے اس بات کے لیے قانون سازی ہو۔

اس کے علاوہ بھی قانون کے حوالے سے بہت سے پہلو قابل توجہ ہوسکتے ہیں۔

تعلیم

آج جو اینگلو امریکن پیراڈائم میں غیر معمولی اباحیت زدہ اور فحاشی پر مبنی نصاب تعلیم وجود میں آ رہا ہے وہ 15-20 برسوں میں ہندوستان میں وجود میں نہ آئے، اس کے لیے ابھی سے کوشش کی جانی چاہیے۔ اس وقت امریکہ اور انگلینڈ اور نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں چار یا پانچ سال کے بچوں کو کئی قسم کی جنسیت کے بارے میں معلومات دی جا رہی ہیں، جس سے ان کا معصوم ذہن پراگندہ ہو رہا ہے کیوں کہ دو واضح جنسوں کی موجودگی اور اس میں تفریق کو تو یہ ذہن فطری انداز میں قبول کر لیتا ہے لیکن اس چھوٹے سے ذہن پر 16 یا 17 جنسی رخ اور جنسی شناخت کا بوجھ ڈالنا کتنا مفید، کتنا اہم اور کتنا معقول ہے؟ اس پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ کیفیت ہندوستان میں نہ پیدا ہو اس کے لیے ابھی سے کوشش کی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں ابھی سے ان تمام اداروں، تنظیموں اور تحریکوں کا وفاق بنایا جائے اور پریشر گروپ تخلیق کیے جائیں جو مستقبل میں نصاب تعلیم میں LGBTQ+ کے داخلے کی مزاحمت کر سکیں۔

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آج یہ بات بہت کھلے انداز میں نہیں کہی جا رہی ہے لیکن عقبی دروازے سے جنسی تعلیم کے نام پر اور جنسی تعلیم کو مکمل کرنے کے نام پر ہم جنس پرست کشش اور LGBTQ+ کے پورے انحرافی جنسی رویوں کا ڈسکورس نصاب تعلیم میں داخل کیے جانے کے رجحانات موجود ہیں۔

چناں چہ کوشش کی جانی چاہیے کہ LGBTQ+ کا ڈسکورس ہمارے نصاب تعلیم میں کسی حیثیت میں بھی داخل نہ ہو پائے۔

تحقیق

جدید دور میں عالمی سطح پر کوئی بھی بات اعداد و شمار اور تحقیق کے اعلی ترین معیار پر قائم کیے گئے مفروضات اور پھر ان مفروضات کو سپورٹ کرنے والے ڈیٹا کے بغیر نہیں مانی جاتی۔ چناں چہ 1973 میں جب جنسی تھیوری کی تکمیل کی جا رہی تھی اس وقت بھی تحقیقی مقالات کا حوالہ دے کر کے درج زیل مقدمات کو فیصل کیا گیا تھا۔

جنسیت صرف جنسی دوئی میں قید نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سارے شیڈ ہیں اور دراصل جنسیت ایک تسلسل میں موجود ہوتی ہے جس کے ایک سرے پر ہم جنس پرستی اور دوسرے سرے پر غیر ہم جنس پرستی ہوتی ہے۔

ہم جنس پرستی ایک نارمل رویہ ہے ایک نارمل جنسی رویہ ہے اور یہ بڑی تعداد میں عوام میں پایا جاتا ہے۔

ہم جنس پرستی کے مظاہر جانوروں کی دنیا میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔

ہم جنس پرستی تاریخ کے تمام ادوار میں موجود رہی ہے۔

اوپر دیے گئے اور اس طرح کے بہت سارے مقدمات (premises)کے لیے اعداد و شمار کے ذریعے تحقیق کر کے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ تمام مفروضات صحیح ہیں۔ اب اگر ان تمام مفروضات کو نئے سرے سے غلط ثابت کرنا ہے یا انھیں دوسرے انداز میں موڑ دینا ہے تو اعلی پائے کی تحقیقات کرنی ہوں گی۔ اس ضمن میں پانچ اہم پہلوؤں پر تحقیق ضروری ہے۔

جنسی سیالیت کے حوالے سے اس بات کو ثابت کرنا ہوگا کہ اصلًا جنسیت دو خانوں ہی میں تقسیم ہے اور جنسی دوئی کے باہر کے تمام جنسی رویے ایک مختلف کیفیت یا حالت تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ نارمل نہیں ہو سکتے۔

ہم جنس پرست کشش کے معاشرتی اخلاقی اور اجتماعی اخلاقی مفاسد کے اظہار کے حوالے سے ضروری ہوگا کہ ہم جنس پرست کشش کے اخلاقی مفاسد کا نیا پیراڈائم ڈیولپ کیا جائے۔

جنسی یا صنفی شناخت اور عبوری سرجری کے حوالے سے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ عبوری سرجری سے گزرنے والے افراد کس کس اعتبار سے تا عمر مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں اور یہ تھراپی جو انھیں کسی خاص صنفی رول کے لیے تیار کرتی ہے وہ اصلًا کوئی فائدہ نہیں دے پاتی۔

سب سے اہم پہلو ہم جنس پرست کشش کی اصلاح کے حوالے سے ہو سکتا ہے۔ یہ بات دل چسپ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر ہم جنس پرست کشش کو ختم کرنے یا اس کا ازالے کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی تھراپی کو جرم قرار دیا جاتا ہے اس لیے وہ افراد جو اس سے نبرد آزما ہیں اور دل سے اس بات کو چاہتے ہیں کہ وہ ہم جنس پرست کشش کا شکار نہ ہوں اور ایک جنسی دوئی کے اعتبار سے نارمل زندگی گزاریں، ان کے لیے کسی قسم کی کونسلنگ یا تھراپی کا کوئی موقع نہیں ہے۔ کیوں کہ جدید جنسی ڈسکورس اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ اس طرح کی اصلاح ممکن یا مطلوب ہے۔ لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ ہم جنس پرست کشش بطور خاص اور براہ راست تو نہیں لیکن بہت سارے ایسے نفسانی امراض جو پیچیدگی کے اعتبار سے ہم جنس پرست کشش جتنے ہی پیچیدہ ہیں، ان سے متاثر افراد کو خاص قسم کی مذہبی تھراپی سے گزارا گیا تو بہت مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس حوالے سے اس ضمن میں اعلی پائے کی تحقیق کرنا ضروری ہے اور اس اعلی پائے کی تحقیق کے نتائج کو مستند سائنسی جریدوں، کانفرنسوں، ورک شاپ اور اعلی سطح کی اکیڈمی لینگویج میں پیش کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی اس پیراڈائم میں تبدیلی ممکن ہے۔

ہم جنس پرست افراد کے اہل خانہ اور ان سے متعلق لوگوں کی ذہنی اور نفسانی تکلیفوں اور شاکلے کو اچھی طرح سمجھنے کا کام بھی بہت اہم ہے۔ یعنی اس بات پر تو سینکڑوں تحقیقات موجود ہیں کہ اپنی ہم جنس پرست کشش کی وجہ سے سماج میں اس طرح کے افراد کتنے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، لیکن اس بات پر بہت کم تحقیقات بلکہ نہیں کے برابر تحقیقات موجود ہیں کہ ان افراد کے متعلق اہل خانہ پر کیا گزرتی ہے۔ اس ضمن میں تحقیق بہت سارے چونکا دینے والے نتائج پیش کر سکتی ہے۔

میڈیکل پریکٹس

ایک عملی قدم جو نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہوگا وہ میڈیکل پریکٹس میں ہم جنس پرست کشش یا تمام تر انحرافی جنسی رویوں کے اصلاحی پیراڈائم کو ترقی دینے حوالے سے ہے۔

اس وقت جنسی ڈسکورس پر تحقیق ایک خاص قسم کے ما بعد جدید بلبلے (post modern bubble)میں قید ہو کر رہ گئی ہے۔ ما بعد جدیدیت کا یہ بلبلہ کسی بھی حتمیت، آخری نتیجہ اور کسی بھی قسم کی دوئی کا منکر ہے۔ چناں چہ میڈیکل پریکٹس میں انحرافی جنسی رویوں کی اصلاح کے سلسلے میں نئی جہات کی تلاش کی ضرورت ہے۔ بطور خاص 1973 کے بعد سے ہر وہ پہلو جو جنسیت کے حوالے سے ممنوع قرار پایا ان تمام پر ازسر نو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان نئی جہات کے بعض پہلو یہ ہو سکتے ہیں۔

ہم جنس پرست کشش والے افراد کو مبنی بر مذہب سائیکوتھراپی سے گزار کر جنسی دوئی والے نارمل جنسی رویے کی طرف مائل کرنے میں یا اس طرح کی کونسلنگ کے لیے نئی شکلوں کی ایجاد اور اختراع۔

دو جنسیے افراد کی بڑی تعداد کو جنسی دوئی والے عام جنسی رویے کی طرف لانے کے مضبوط سائکو تھراپی والے طریقے۔

صنفی اضطراب اور شناخت کے مسائل سے گزر ر ہے افراد کو پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس کی طرف مطمئن کرنے والے نئے طریقوں، نئی سی بی ٹی اور نئے کلینیکل انٹروینشن کی ایجاد و ترقی۔

عبوری سرجری کروا کر نئی جنسی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنے والے افراد کی زندگی کی تفصیلی اسٹڈی اور ان میں موجود خلا اور بے چینی کا مطالعہ۔

انٹروینشن اور سائیکو تھراپی کے خدا پر مبنی تصور کے سلسلے میں نئے نئے زاویوں سے تحقیق

کلینیکل سائیکالوجی میں LGBTQ+ کے حوالے سے نئی معلومات کی پیداوار۔

خلاصہ یہ ہے کہ جنسی انحرافی رویوں کا مسئلہ عالمی سطح پر خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اسلامی اقدار کے حامل مسلم ملکوں اور سماجوں نیز مشرقی روایات کے حامل مشرقی ملکوں میں، جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے، اس طوفانِ بلا خیز کا حکمت اور سنجیدگی سے سامنا کرنا ہوگا۔

اس سلسلے میں مداہنت کا رویہ انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ دوسری طرف خالص جذباتی انداز اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اور زیادہ سنگین بنا دے گا۔ ضرورت ہے کہ علمی و تحقیقی سطح پر سنجیدہ کوششیں ہوں، سماجی سطح پر بہتر ماحول سازی کی کوششیں کی جائیں، افراد کی سطح پر ہم دردی کے ساتھ انھیں اس انحراف سے باہر نکالنے کی تدبیریں اختیار کی جائیں، خدا ترسی اور پاکیزگی کو فروغ دیا جائے ۔

حوالہ جات

[1] https://yaqeeninstitute.org/read/paper/islam-and-the-lgbt-question-reframing-the-narrative

[2] Kinney RL 3rd. Homosexuality and scientific evidence: On suspect anecdotes, antiquated data, and broad generalizations. Linacre Q. 2015 Nov;82(4):364-90. doi: 10.1179/2050854915Y.0000000002. PMID: 26997677; PMCID: PMC4771012.

[3] https://www.ipsos.com/sites/default/files/ct/news/documents/2021-06/LGBT%20Pride%202021%20Global%20Survey%20Report_3.pdf

[4] Ventriglio A, Bhugra D. Sexuality in the 21st Century: Sexual Fluidity. East Asian Arch Psychiatry. 2019 Mar;29(1):30-34. PMID: 31237255, https://www.humansexuality.org/longing-for-affection/,

[5] Eytan S, Ronel N. From Looking for Reason to Finding Meaning: A Spiritual Journey of Recovery From Sexual Trauma. J Interpers Violence. 2023 Jun;38(11-12): 7404-7425. doi: 10.1177/08862605221145723. Epub 2023 Jan 29. PMID: 36710496.

 

مشمولہ: شمارہ جولائی 2024

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau