آریہ سماج ہندؤں کی اصلاحی تحریک تھی جس کی بنیاد سوامی دیانند سرسوتی نے ۱۸۷۵ء میں ممبئی میں ڈالی تھی ۔آریہ سماج نے ہی بعد میں سنگھٹن اور شدھی تحریک کو جنم دیا۔ سنگھٹن تحریک کا بنیادی مقصد ہند ئوں کو ایسی تعلیم و تربیت سے روشناس کرانا کہ وہ اپنی حفاظت ،تعلیم و تربیت، نظم و نسق کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اس طرح کی تربیت دینا کہ مخالفین کا اچھی طرح سے مقابلہ کر سکیں۔ شدھی تحریک کا مقصدچھوت چھات کی رسم کو ختم کرنا، غیر ہندوؤں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ویدک دھرم قبول کرنے کی دعوت دینا اور ہندوؤں میں خودی اور خود اعتمادی کی روح پھونکنا اس تحریک کی بنیادی غرض وغایت تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوؤں کا اسلام اور عیسائیت کی طرف مائل ہونا اور پھر قبول کرنا ایک عام رجحان بن گیا تھا، اس رجحان کو ختم کرنے کے لئے شدھی تحریک نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پھر سوامی شردھانند نے ۱۹۲۳ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا ( Indian Hindu Purification Council )کی بنیاد ڈالی ۔اس کا بنیادی ایجنڈا ان لوگوں کا جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا اپنے آبائی مذہب یعنی ہندوازم کی طرف واپس لانا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے موروثی مذہب سے بھٹکے ہوئے ہندو ہیں۔ لہٰذا ان کو کسی بھی قیمت پر اپنے موروثی مذہب کو قبول کروانا ہے۔ ۱۸۲۸ ء میں مذکورہ تحریک کے بانی شردھا نند نے کھلے طور پراسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر ہتک آمیز اوربے جا اعتراضات والزامات چسپا کئے۔ ہندوئوں کے ذرائع ابلاغ نے بھی اسلام کے خلاف ایک زبردست مہم چھیڑ دی تھی اور مسلمانوں کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا اور اس کے علاوہ اسلام کے عالم گیر پیغام اور احکامات کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا اوراسلام کو امن وامان کے لئے خطرہ ٹھہرایا گیا ۔انھوں نے قرآن مجید کو دہشت گردی کا جڑ اور فساد کاذریعہ بتایا اور رسول اللہﷺ کی پاک اور منزہ زندگی پر بھی ناروا اور نازیبا جملے کسے۔ غرض جتنے منھ اتنی باتیں کے مصداق جس کے ذہن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جو بھی خیال آتا تھا بول دیتا تھا۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو ہندوئوں میں سب سے بڑے دانشور اورصاحب الرائے تصور کئے جاتے تھے ۔ جنھوں نے کہا کہ اسلام خون ریزی اور قتل غارت گری پر مبنی مذہب ہے۔ شدھیوں نے اچھا خاصا لٹریچر رسول پاک ﷺ کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کے لیے شائع کیا۔ ان کے ایک دانشور پنڈت کالی چرن نے ایک کتاب ویکہیترا جیون ( Strange life) لکھی جس میں اس نے رسول اللہﷺ کی ازدواجی زندگی پر نازیبا الفاظ کسے اور اسلام کو تلوار سے پھیلا ہوا مذہب قرار دیا (The Review of Religions 2oo6) ۔
ان بے بنیاد الزامات کے جواب میں مسلم دانشوروں، علماء اور مسلمانوں کا وہ تعلیم یافتہ طبقہ جو مغربی فکر وفلسفے میں رنگے ہوئے تھے با لکل خاموش تماشائیوں کی طرح ان بے بنیاد الزامات و اعتراضات کو دیکھتے رہے اور اگر کوئی جواب دیتا بھی تھا تو وہ صرف معزرت خوہانہ جواب ہوتا تھا ۔اس صورتحال سے مسلمانان ہند ہر طرف خوف ودہشت اور سرا سیمگی کی حالت میں مبتلا ہوئے گویا یہ مسلمانوں پر ایک سانحہ کی طرح تھا۔ یہ زمانہ خاص طور سے ۱۹۲۲ سے لے کر۱۹۲۵ تک کا تھا۔ ان ہی حالات کے دوران عبدالرشید نامی ایک غیرتمند مسلمان نے سوامی شردھانند کو قتل کیا اور اس پر ایک بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہوا جو بہت طول پکڑتا گیا۔ اس دوران عبدالرشید کو جیل بھیج دیا گیا پھر پھانسی دے دی گئی ۔دہلی میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے عبدالرشید کی لاش کوحاصل کر کے نماز جنازہ کا فریضہ انجام دیا ان کو شہید کی حیثیت سے دفن کیا گیا اس سے بعض عناصر مسلمانوں کے خلاٖف اور زیادہ تشدد پر اتر آئے۔ اسلام کے خلاف لگائے گئے بے بنیاد اور بے جا الزامات نے مسلمانوں میں پر تنا ئو ماحول پیدا کردیا۔ مزید ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ ایک طرف سے وہ مسلمان جو مغربی افکار ونظریات سے رنگے ہوئے تھے بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری طرف مسلم دانشوران اور مسلم قائیدین اس وقت ہر لحاظ سے بے بس دکھائی دیتے تھے۔ مسلمانوں کا ایک اور نمایاں طبقہ علماء کا تھاان کا رد عمل اس سنگین و نازک اور پر تناؤ ماحول اور حالات میں مذکورہ بالا دونوں طبقوں سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کا رول نہ ہونے کے برابر تھا تو بے جا نہ ہوگا ۔ اسلام کو جس انداز سے وہ پیش کر رہے تھے وہ ان کی کم علمی اور تنگ نظری کا جیتا جاگتا ثبوت تھا ۔
ان ہی دنوں (۱۹۲۶) میں ملت اسلامیہ کے ایک بے لوث اور بہی خواہ مولانا محمد علی جوہرؒ جو ایک منجھے ہوئے صحافی مفکر، اور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ہمدرد اور کامریڈ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ ہر جمعہ کے دن جامع مسجد دہلی میں عوام سے خطاب کیا کرتے تھے ان کے ذہن میں وہ تمام واقعات گونج رہے تھے جو ان دنوں پیش آرہے تھے اور وہ ناسازگار حالات سے پوری طرح باخبر تھے انھوں نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ: ’’کاش کوئی اللہ کا بندہ (نوجوان) اٹھ کھڑا ہوجائے اور اسلام کا صحیح پیغام اور موقف پیش کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پھلائی جارہی ہیں وہ دور ہوسکیں اور جہاد کی حقیقت لوگوں کے سامنے آسکے‘‘۔ اس درد بھری پکار کو ایک ۲۳ سال کا نوجوان جن کو دنیا سید مودودی کے نام سے جانتی ہے کو سن رہے تھے جو اس اجتماع میں موجود تھے انھوں نے مولانا محمد علی جوہر ؒکی آواز پر لبیک کہا اور’ ا لجہاد فی الاسلام‘ جیسی معرکۃ الآراء کتاب (Remarkable Book)تالیف کی ۔ اس وقت مولانا جمعیۃ العلماء ہند کے اخبار’’الجمعیۃ‘‘ میں مدیر اعلیٰ تھے۔ یہ انقلابی کتا ب ثابت ہوئی اور سید مودودی کو تحریک اسلامی منصئہ شہود میں لانے کے لئے ایک اہم وجہ بنی۔ انھوں نے اس کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کہ ’’اس کتاب نے سب سے زیادہ فائدہ خود مجھے پہنچایا ہے کہ مجھ میں نہ صرف نظام شریعت کا فہم اور اس کی حقانیت کا غیر متزلزل یقین ابھر کر سامنے آیا بلکہ اسلام کے احیا کا ولولہ بھی مجھ میں پیدا ہوگیا اور اس کے لیے کام کرنے کا طریقہ بھی مجھ میں آیا‘‘ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کو اس ضخیم کتاب کو تالیف کرنے میں چھ مہینے صرف ہوئے۔ انھوں نے کتاب کے متعلق خود فرمایاہے کہ یہ کتاب لکھتے ہوئے مجھے جو ریسرچ کرنا پڑی، اس دوران ماضی و حال کے مفسرین، محدثین، فقہاء اور اسلامی مفکرین کی کتابوں کی ایک بڑی تعداد مجھے کھنگا لنا پڑی اس مطالعہ اور جدوجہد کے نتیجے میں میرے ذہن میں اسلام کے متعلق واضح تصور مل گیا۔(تذکرہ سیدابوالاعلیٰ مودودی جلد ۲ص۶۵۴) سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کو منصئہ شہود پر لانے کے لئے قرآن، حدیث، سیرت، تاریخ ،فقہ کے علاوہ تورات انجیل اور زبور نیز ویدوں، گیتا اور اور ہندوؤں کی دیگر مذہبی کتابوں کے اصل مصادر کا بھی براہ راست گہری نظر سے مطالعہ کیا۔علاوہ ازیں انھوں نے بین الاقوامی قوانین ، مغربی نظریات جدید تصورات جنگ کے اصل اور بنیادی مراجع سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ اس اہم ذخیرے میں سید مودودی نے جہاد کی اہمیت ومعنویت، حقیقت اور آداب وشرائط پر بھی روشنی ڈالی۔
سید مودودی ؒنے اس کتاب میں واضح کیا کہ دنیا میں حقیقی امن وصلح کا قانون اگر کسی مذہب کے پاس ہے تو وہ صرف اسلام ہے ۔ باقی تمام مذاہب کے پاس نہ صرف جنگ کے لئے بلکہ دوسرے اہم معاملات کے لئے بھی تخریب کاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔انھوں نے جہاد اور قتال کی وضاحت کی کہ اسلام جہاد و قتال کس غرض اور مقصد کے لئے کرتا ہے۔ چناچہ لکھتے ہیں: اسلام نے بدی کے استیصال اور بدکاری کے دفع و انسداد کے لئے یہ کارگر تدبیر اختیار کی کہ منظم جدوجہد سے اگر ضرورت پڑے اور اگر ممکن ہو تو جنگ(قتال) کے ذریعے سے تمام ظالم وجابر حکومتوں کو ختم کر دیا جائے اور ان کی جگہ وہ عادلانہ ومنصفانہ نظام حکومت قائم کیا جائے جس کی بنیاد خدا کے خوف پر اور خدا کے مقرر ضابطوں پر رکھی گئی ہو جو شخصی یا قومی یا طبقاتی اغراض کے بجائے خالص ا نسانیت کی خدمت کرے۔(الجہاد فی الاسلام،ص ۱۱۷)۔۔ سید مودودی کی یہ قیمتی تحقیق جمعیۃ علماء ہند کے سہ روزہ ترجمانـ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں ۲۲ شماروںمیں مسلسل اسلام کا قانون جنگ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کی پہلی قسط ۲۸ رجب ھ بمطابق۲ فروری ۲۷ ۱۹ ء میں شائع ہوئی ۔ یہ سلسلئہ مضامین سہ روزہ الجمعیۃ میں تین مہینے سے زائد عر صے تک چھپتے رہے، اس کی آخری قسط ۲ مئی ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی ۔ موضوع اور تحریر کی اہمیت کے پیش نظر ناظم جمعیۃ علمائے ہند مولانا احمد سعید ؒنے پہلے شمارے کے آخری مکمل صفحے پر ایک اشتہار کے ذریعے ایک نوٹ لکھا اور قارئین کو توجہ دلائی کہ ــ ’’ مخالفین اسلام کے غلط پروپیگنڈے کی قلعی کھولنے اور اوراسلام کی حقیقی اور سچی تصویر کو واضح کرنے کے لئے الجمعیۃ میں ایک پرُ از معلومات سلسلۂ مضامین شروع کیا جارہا ہے جو مخالفین کے لئے مشعل ہدایت اور مسلمانوں کے لئے بصیرت کا ذریعہ ہوگا‘‘۔ مولانا احمد سعید نے اشتہار میں مزید لکھا کہ ’’ اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح و جنگ کے احکام کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق پڑھیں اور سمجھیں اور ہندوستان کے تمام قومی و مذہبی معاملات میں سچی رہنمائی سے مستفید ہوں تو فورا ۱۲ فروری ۱۹۲۷ء سے الجمعیۃ کو التزام سے پڑھیں اور اپنے اصحاب اور اقربا کو پڑھائیں اور سنائیں اور حق کی آواز کو دوسروں تک پہچانا ہر مسلمان کا انسانی، اخلاقی اور دینی فرض ہے‘‘( وثائق مودودی ،ص ۹۰) ۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ سید مودودی ؒاس وقت سہ روزہ اخبار الجمعیۃ کے مدیر مسئول و محرر خاص بھی تھے۔ یہ سلسلہ وار مضامین اہل دانش ، علماء ، سیاستدانوں اور طلباء تک پہنچتے رہے اور ہر طرف سے داد وتحسین اور حوصلہ افزائی کے الفاط موصول ہوتے رہے۔ علامہ اقبالؒ نے بھی ان سلسلہ وار مضامین کو بہت سراہا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کو یہ تمام مضامین بہت پسند آئے اور انھوں نے ان مضامین کو ۱۹۳۰ء میں کتاب کی صورت میں’ الجہاد فی الاسلام ‘کے عنوان کے تحت شائع کی ۔ انھوں نے معارف جنوری ۱۹۳۰ء کے شمارے میں کتاب کا مختصر تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ: ’’اس کتاب میں اسلامی جہاد کے اصو ل و آداب، معترضین کے جوابات، مخالفین کے شکوک و شبہات کی تردید، یہودیوں ،عیسائیوں، ہندؤوں اور بود ھوں کے اصولو ں سے ان کا تقابل اور یورپ کے موجودہ قوانین جنگ پر تبصرہ نیز جہاد کے اسلامی قوانین سے ان کا موازنہ کیا گیا ہے۔ عربی اور انگریزی کی بہترین و مستنند کتابوں کے حوالے سے یہ بات لکھی گئی ہے ۔خیال رہے کہ اس ضروری مسئلے پر اس سے زیادہ مسلسل اور مبسوط کتاب اب تک نہیں لکھی گئی‘‘۔ (تذکرہ، جلد، ص ۱۶۵)
مولانا مودودی کو اس کتاب سے زبردست حوصلہ افزائی ملی او ر ستاروں سے جہاں اور بھی ہے کے مصداق آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کتاب کے فوراً بعد ان کی فکری جولان گاہ آسمان کو چھونے لگی۔ یہی وہ دور ہے جہاں سے سید مودودی ؒنے سوچنے ،سمجھنے اور پرکھنے کا زاویہ متعین کیا ۔یہیں سے آپ کی صحافتی زندگی بے لوث و بے باک خادم اور مفکرانہ و مجاہدانہ زندگی میں تبدیل ہوگئی ۔ یہیں سے مشرق و مغرب میں بھی انھوں نے کمندیں ڈالنے شروع کیے ۔ اسی دور میں باطل افکار ونظریات پر نہ صرف تنقیدی جائزہ لینا بلکہ بہترین اسلوب اور خوب صورت طرز استدلال سے مغربی فکر و تہذیب کا محاکمہ کرنے کا آغاز کیا اور تحریک اسلامی کو وجود میں لانے کے لئے بھی اسی دور میں منصوبہ بندی کرنے لگے۔اسلام کو عالمگیر پیغام کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا محاذ سنبھال لیا۔ سید مودودی نے ہر باطل فکر اور نظریہ کو بالخصوص جو مغرب ویورپ سے وارد ہوا تھا،محاکمہ کرنے کے بعد رد کیا ۔ مولانا سے پہلے امام ابن تیمیہؒ نے ’’الرد علی المنطقین ‘‘ جیسے نادر کتاب کو لکھ کر یونان کے فکر وعمل اور فلسفہ وتصوف کے تار مضبوط طرز استدلال سے بکھیر دیے تھے اور اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح حجۃ الاسلام امام غزالی ؒنے بھی’’ تھافۃالفلاسفہ‘‘ کے ذریعے سے یونان کے فکر وفلسفہ پر شدید چوٹیں لگائیں اور اس کی فکری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے فکر و فلسفہ کو مداوا کے طور پر پیش کیا تھا۔ بیسویں صدی کے تیسری دہائی سے یہ کام سید قطبؒ، علامہ اقبالؒ اور سید مودودی ؒنے انجام دیا ۔لیکن عصر حاضر میں مضبوط استدلال کے ساتھ اس طرح کا کام نہیں ہورہا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، سید مودودی ؒاور سید قطبؒ آج کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان کی جگہیں اور کرسیاں عالم اسلام کے ہر کونے میں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ ہر جگہ کلمہ گو ہاتھ پہ ہاتھ دہر ے منتظر فردا کی طرح خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آج عالم اسلام میں الحاد اور مغربی فکر وتہذیب کا غلبہ عروج پر ہے۔ اور اسی فکر و تہذیب کی چھا پ ہرطرف چھائی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں اہل باطل کی فکری اور علمی کارستانیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔اسلام اور اس کے علمی ورثے پر آئے دن منطقی مغالطے اور بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ مولانا مودودی ؒنے جو فکری اور علمی کام انجا م دیا تھا وہ آخری کام نہیں تھا۔ انھوں نے نہ صرف باطل افکار و نظریات کی پول کھول دی بلکہ اسلام کی حقانیت بھی واضح کر دی اور ساتھ ساتھ اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔آج اکیسویں صدی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اس لحاظ سے سید مودودی ؒکی فکر، علمی ورثہ، طرز استدلال اورمنھج کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2015